خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍فروری۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: بدری صحابہ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ان کے حوالے سے بعض باتوں کا ذکر رہ گیا تھا جو میں بیان کر رہا تھا۔ اس حوالے سے آج بھی بیان کروں گا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عامر بن ربیعہؓ کی ہجرت حبشہ کے حوالہ سے کیا روایت بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: عبداللہ بن عامر بن ربیعہؓ اپنی والدہ حضرت ام عبداللہ لیلیٰ بنت ابو حَثمہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم حبشہ کی طرف کوچ کرنے والے تھے اور عامر بن ربیعہ ہمارے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں گئے ہوئے تھے کہ حضرت عمرؓ جو کہ ابھی حالتِ شرک میں تھے وہاں آ نکلے اور میرے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہمیں ان سے سخت تکلیف اور سختیاں پہنچی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے مجھ سے کہا۔ اے ام عبداللہ! کیا روانگی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ اللہ کی قسم! ہم اللہ کی زمین میں جاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے۔ تم لوگوں نے ہمیں بہت دکھ دیا ہے اور ہم پر بہت سختیاں کی ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے ان سے کہا۔ اللہ تمہارا نگہبان ہو! وہ کہتی ہیں کہ میں نے اس دن حضرت عمرؓ کی آواز میں وہ رقّت دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ وہاں سے چلے گئے اور ان کو ہمارے کوچ کرنے نے غمگین کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اتنے میں حضرت عامرا ؓپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آ گئے تو میں نے ان سے کہا اے ابوعبداللہ! کیا آپ نے ابھی عمر اور ان کی رقّت اور دکھ کو دیکھا۔ حضرت عامرؓ نے جواب دیا کہ کیا تُو اس کے مسلمان ہونے کی خواہشمند ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا ہاں۔ اس پر حضرت عامرؓ نے کہا۔خطاب کا گدھا مسلمان ہو سکتا ہے مگر وہ شخص جس کو تُو نے ابھی دیکھا ہے یعنی حضرت عمرؓ وہ اسلام نہیں لاسکتا۔ حضرت لَیلیٰ کہتی ہیں کہ حضرت عامرؓ نے یہ بات اُس ناامیدی کی وجہ سے کہی تھی جو ان کو حضرت عمرؓ کے اسلام کی مخالفت اور سختی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔

سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عامر بن ربیعہؓ سےمروی کیا روایات بیان فرمائیں ؟

جواب: فرمایا: عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے استفسار فرمایا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ فلاں عورت کی قبر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے مجھے کیوں اطلاع نہیں دی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپؐ سو رہے تھے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپؐ کو جگائیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ مجھے اپنے جنازوں کے لیے بلایا کرو۔ پھر آپﷺ نے وہاں صفیں بنوائیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ نے بتایا کہ جب آنحضرتﷺ ہمیں کسی سریہ میں روانہ فرماتے تھے تو ہمارے پاس زادِ راہ صرف کھجور کا ایک تھیلا ہوتا تھا۔ امیرِ لشکر ہمارے درمیان ایک مٹھی بھر کھجور تقسیم کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ایک ایک کھجور کی نوبت آ جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہونے لگتی تھی تو سفر میں پھر ایک کھجور ایک آدمی کو ملا کرتی تھی۔ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا۔ ابا جان! ایک کھجور کیا کفایت کرتی ہو گی؟ اس سے پیٹ کیا بھرتا ہوگا؟انہوں نے کہا پیارے بیٹے! ایسا نہ کہو کیونکہ اس کی اہمیت ہمیں اس وقت معلوم ہوتی جب ہمارے پاس وہ بھی نہ ہوتی تھی…عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھاکہ آپؐ نے سفر میں اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر رات کو نفل پڑھے۔ آپﷺ اسی طرف منہ کیے ہوئے تھے جس طرف اونٹنی آپؐ کو لیے جا رہی تھی…حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے۔ پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ درود بھیجو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو کوئی بندہ مجھ پر سلامتی کی دعا کرتا ہے تو جب تک وہ اسی حالت میں ہوتا ہے فرشتے اس پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پس بندے کے اختیار میں ہے چاہے تو زیادہ مرتبہ سلامتی کی دعا کرے اور چاہے تو کم۔

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے واقعہ بئر معونہ کے حوالہ سے حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ کا کیا موقف بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا:اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے (حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ) لکھتے ہیں کہ’’ایک شخص اَبُوبَرَاء عَامِرِی جو وسط عرب کے قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس تھا،آنحضرتﷺ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ آپؐ نے بڑی نرمی سے اور شفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اوراس نے بھی بظاہر شوق اور توجہ کے ساتھ آپؐ کی تقریر کو سنا مگر مسلمان نہیں ہوا۔ البتہ اس نے آنحضرتﷺسے یہ عرض کیا کہ آپؐ میرے ساتھ اپنے چند اصحاب نجد کی طرف روانہ فرمائیں جو وہاں جا کر اہلِ نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپؐ کی دعوت کوردّ نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے تو اہلِ نجد پر اعتماد نہیں ہے۔ ابوبَراء نے کہا کہ آپؐ ہرگز فکر نہ کریں۔ میں ان کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہوں۔ چونکہ ابوبَراء ایک قبیلہ کا رئیس اورصاحبِ اثر آدمی تھا آپؐ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اورصحابہ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرما دی…آنحضرتﷺ نے صفر ۴؍ہجری میں مُنذِر بن عَمرو انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے اورتعداد میں ستر تھے اور قریباً سارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے جو دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے ان کی قیمت پر اپنا پیٹ پالتے اور رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزار دیتے تھے۔جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنویں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا تواُن میں سے ایک شخص حَرَام بن مِلْحَان جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرتﷺ کی طرف سے دعوتِ اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور ابوبَرَاء عامری کے بھتیجے عامر بن طُفیل کے پاس آگے گئے اورباقی صحابہ پیچھے رہے۔ جب حَرَام بن مِلْحَان آنحضرتﷺ کے ایلچی کے طور پر عامر بن طُفیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اوراسلام کی تبلیغ کرنے لگے توان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کر کے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کا وار کر کے وہیں ڈھیر کر دیا۔ اس وقت حَرَام بن مِلْحَان کی زبان پریہ الفاظ تھے۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ!فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ۔ یعنی ’’اللہ اکبر!کعبہ کے رب کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔‘‘عامر بن طُفَیل نے آنحضرتﷺ کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہو جائیں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابوبَرَاء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس پر عامر نے قبیلہ سُلَیم میں سے بنو رِعْل اور ذَکْوَان اور عُصَیہ وغیرہ کواپنے ساتھ لیا اوریہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اوربے بس جماعت پرحملہ آور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں ہے۔ ہم تورسول اللہﷺ کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اورہم تم سے لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ مگرانہوں نے ایک نہ سنی اورسب کوتلوار کے گھاٹ اتار دیا۔ ان صحابیوں میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پاؤں سے لنگڑا تھا اورپہاڑی کے اوپر چڑھ گیا ہوا تھا۔ اس صحابی کا نام کعب بن زید تھا اور بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوا اور کفار اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے مگر دراصل اس میں جان باقی تھی اور وہ بچ گیا۔ صحابہ کی اس جماعت میں سے دو شخص یعنی عمرو بن اُمَیہ ضَمْری اور مُنذِر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر ادھر ادھر گئے ہوئے تھے انہوں نے دُور سے اپنے ڈیرہ کی طرف نظر ڈالی توکیا دیکھتے ہیں کہ پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ وہ ان صحرائی اشاروں کو خوب سمجھتے تھے۔ فوراً تاڑ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ واپس آئے تو ظالم کفار کے کشت وخون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ دُور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً بھاگ نکلنا چاہئے اورمدینہ میں پہنچ کر آنحضرتﷺ کو اطلاع دینی چاہئے مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کر نہیں جاؤں گا جہاں ہمارا امیر مُنذِر بن عمرو شہید ہوا ہے۔ چنانچہ وہ آگے بڑھ کر لڑا اور شہید ہوا اوردوسرے کو جس کا نام عمرو بن اُمَیہ ضَمْری تھا کفار نے پکڑ کر قید کر لیا اور غالباً اسے بھی قتل کر دیتے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ قبیلہ مُضَر سے ہے تو عامر بن طفیل نے عرب کے دستور کے مطابق اس کے ماتھے کے چند بال کاٹ کر اسے رہا کر دیا اور کہا کہ میری ماں نے قبیلہ مُضَر کے ایک غلام کے آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی ہے میں تجھے اس کے بدلے میں چھوڑتا ہوں۔ گویا ان سترصحابہ میں صرف دو شخص بچے۔ ایک یہی عمروبن اُمَیہ ضَمْری اور دوسرے کعب بن زید جسے کفار نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا اپنا مال صدقہ کرنے کی بابت کیا روایت بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: عامر بن سعد اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر میری اس بیماری میں عیادت فرمائی جس میں مَیں موت کے کنارے پر پہنچ گیا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میری تکلیف جس حد تک پہنچ چکی ہے وہ آپؐ دیکھ رہے ہیں۔ میں مالدار ہوں اور میرا وارث سوائے میری اکلوتی بیٹی کے کوئی نہیں ہے۔کیا میں دو تہائی مال صدقہ کردوں؟ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: کیا میں اس کا نصف صدقہ کردوں؟ آپؐ نے فرمایا :نہیں۔ تیسرا حصہ کر دو اور تیسرا حصہ بھی بہت ہے۔ پھر فرمایا کہ تمہارا اپنے وارثوں کو اچھی حالت میں چھوڑنا انہیں محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جو بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ ایک لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو اس کا بھی اجر ہے۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے موجودہ حالات اور سختیوں کے حوالہ سے احباب جماعت کو کیا تحریک فرمائی؟

جواب: فرمایا:پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان پہ جو سخت حالات ہیں وہاں آسانیاں پیدا کرے اور انصاف کرنے والوں، قانون نافذ کرنے والوں اور خدا اور اس کے رسولؐ کے نام پر ظلم کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے یا ان پر پکڑ کے سامان کرے۔ دوسرے برکینا فاسو کے لیے بھی دعا کریں وہاں بھی ابھی سختیاں ہیں اور جو دہشت گرد ہیں، شدّت پسند ہیں ان کے وہی عمل ہیں کہ اللہ اور رسولؐ کے نام پر ظلم کر رہے ہیں۔ پھر الجزائر کے لوگوں کے لیے بھی، وہاں بھی بعض حکومتی کارندے یا عدالتیں جو ہیں احمدیوں سے غلط قسم کے ظلم روا رکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر بہت زیادہ زور دیں۔ اللہ تعالیٰ مخالفین کے شر سے ہر ایک کو بچائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button