خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍نومبر2023ء

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں بےشمار جگہ اپنے آنے کی غرض اور اس زمانے میں کسی مصلح کے آنے کی ضرورت کا بیان فرمایا ہے

’’اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے دعویٰٔ نبوت پر سب سے پہلے زمانہ کی ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ پھریہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ خدا نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ دشمنوں نے جو اعتراض اٹھائے ہیں ان اعتراضات کا پورا پورا جواب دیا گیا یا نہیں۔ جب یہ تمام باتیں پوری ہو جائیں تو مان لیا جائے گا کہ وہ انسان سچا ہے ورنہ نہیں‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

’’بلاشبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑھوں کوپانی دیوے۔ اور اس طرح پر بدی اور گناہ سے چھڑا کر نیکی اور راستی کی طرف رجوع دیوے‘‘

مخالفین کی مخالفت کے باوجود افراد جماعت کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط فرمایا اور فرماتا چلا جا رہا ہے

پرانے احمدیوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ان کو بھی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہیے

چاہے وہ پرانے احمدی ہیں یانئے، اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہماراایمان مضبوط رہے اور ہمیں نشان بھی کوئی دکھا اور ہدایت دیتا رہ

برکینا فاسو کے شہیدوں نے اپنی جان دے کر وہاں کے احمدیوں کا ایمان کمزور نہیں کیا بلکہ ہر روز ان کے ایمان میں مضبوطی آ رہی ہے

اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ثابت فرماتا ہے بلکہ خلافت احمدیہ کے نظام کے ساتھ اپنی تائیدات کے نظارے بھی دکھاتا ہے اور خواب کے ذریعہ پہلے ہی انہیں مضبوط کر دیتا ہے

کہاں تو عیسائیت دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑنے کی باتیں کرتی تھی اور کہاں اب عیسائی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آ رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر بھی ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کی آنکھیں نہیں کھلتیں تو پھر ان کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے

سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ وہیں تک محدود رہے گی لیکن ان کے جو عقلمند ہیں وہ بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ صرف ان علاقوں میں محدود نہیں رہے گی بلکہ باہر بھی پھیلے گی اور ان کے ملکوں تک بھی پہنچ جائے گی

فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرّر تحریک

مکرم عبدالسلام عارف صاحب مربی سلسلہ،مکرم محمد قاسم خان صاحب آف کینیڈا،مکرم عبدالکریم قدسیؔ صاحب،مکرم میاں رفیق احمد گوندل صاحب اورمکرمہ نسیمہ لئیق صاحبہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍نومبر2023ء بمطابق 24؍نبوت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں بےشمار جگہ اپنے آنے کی غرض اور اس زمانے میں کسی مصلح کے آنے کی ضرورت کا بیان فرمایا ہے۔

اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ آپؑ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنا عین وقت کی ضرورت تھا اور اللہ تعالیٰ کی سنت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اتمام حجت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ … خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اِباحَت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ سو اَے حق کے طالبو سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لئے آسمانی مدد کی ضرورت تھی ۔کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ گذشتہ صدی میں جو تیرھویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا کیا ناقابلِ برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے۔ کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کو گھیرا ہوا ہے۔ کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے کس قدر عیسائیوں میں جا ملے کس قدر دہریہ اور طبعیہ ہو گئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے توحید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے ردّ کے لئے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں۔ سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اَب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا۔ اگر ضرور تھا تو تم دانستہ الٰہی نعمت کو ردّ مت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہوجاؤ جس کا آنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتدا سے نبی کریم نے خبر دی تھی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 251تا 253)

پھر آپؑ کسی آنے والے شخص کی سچائی کے پرکھنے کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’کسی شخص کے سچا ماننے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی کھلی کھلی خبر کسی آسمانی کتاب میں موجود بھی ہے۔ اگریہ شرط ضروری ہے تو کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہوگی۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے دعویٰٔ نبوت پر سب سے پہلے زمانہ کی ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ پھریہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ خدا نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ دشمنوں نے جو اعتراض اٹھائے ہیں ان اعتراضات کا پورا پورا جواب دیا گیا یا نہیں۔ جب یہ تمام باتیں پوری ہو جائیں تو مان لیا جائے گا کہ وہ انسان سچا ہے ورنہ نہیں۔

اب صاف ظاہر ہے کہ زمانہ اپنی زبان حال سے فریاد کررہا ہے کہ اِس وقت اسلامی تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے اور بیرونی حملوں سے اسلام کو بچانے کے لئے اور دنیا میں گم شدہ روحانیت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے

بلاشبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑھوں کوپانی دیوے۔ اور اس طرح پر بدی اور گناہ سے چھڑا کر نیکی اور راستی کی طرف رجوع دیوے۔

سو عین ضرورت کے وقت میں میرا آنا ایسا ظاہر ہے کہ میں خیال نہیں کرسکتا کہ بجز سخت متعصّب کے کوئی اس سے انکار کر سکے۔ اور دوسری شرط یعنی یہ دیکھنا کہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ یہ شرط بھی میرے آنے پر پوری ہوگئی ہےکیونکہ نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ جب چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہوگا تب وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا۔ سو قمری حساب کے رُو سے چھٹا ہزار جو حضرت آدمؑ کے ظہور کے وقت سے لیا جاتا ہے مدت ہوئی جو ختم ہو چکا ہے اور شمسی حساب کے رُو سے چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہے۔‘‘ وہ بھی ہو چکا ہے۔ ’’ماسوا اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر ایک مجدد آئے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اب اِس چودھویں صدی میں سے اکیس سال گزر ہی چکے ہیں۔‘‘ جب آپؑ نے فرمایا یہ اس وقت کی بات ہے۔ ’’اور بائیسواں گزر رہا ہے۔ اب کیا یہ اس بات کا نشان نہیں کہ وہ مجدد آگیا۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 194-195)

غیر لوگ مانیں یا نہ مانیں۔ ہمارے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ تو پکار پکار کر اب خود بھی کہہ رہے ہیں اور ہر جگہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں کسی مہدی اور مصلح کی ضرورت ہے جو اسلام کی کشتی کو سنبھالے لیکن جو آنے والا ہے وہ ان پیشگوئیوں کے مطابق آیا اور جو وقت کی ضرورت کے مطابق آیا اس کو ماننے کو تیار نہیں۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اپنی سچائی کی تائید میں بےشمار نشانات بھی پیش فرمائے ہیں۔ ان سب کا ،تمام کا ذکر کرنا تو یہاں ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ایک عظیم الشان نشان یہ ہے کہ آج سے تئیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلہ کو مٹا دیں اور ہر ایک مکر کام میں لائیں گے مگر مَیں اس سلسلہ کو بڑھاؤں گا اور کامل کرو ں گا اور وہ ایک فوج ہو جائے گی۔ اور قیامت تک ان کا غلبہ رہے گا اور میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک شہرت دوں گا اور جوق در جوق لوگ دُور سے آئیں گے اور ہر ایک طرف سے مالی مدد آئے گی۔ مکانوں کو وسیع کرو کہ یہ طیاری آسمان پر ہو رہی ہے۔ اب دیکھو‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو کس زمانہ کی یہ پیشگوئی ہے جو آج پوری ہوئی۔ یہ خدا کے نشان ہیں جو آنکھوں والے ان کو دیکھ رہے ہیں مگر جو اندھے ہیں ان کے نزدیک ابھی تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ 384-385)

آج بھی جماعت احمدیہ کی ترقی اور ہر سال لوگوں کا لاکھوں کی تعداد میں جماعت میں شامل ہونا، قربانیوں میں بڑھنا آپؑ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں آپؑ کا پیغام نہ پہنچا ہو، جہاں آپؑ کے پیغام کی وجہ سے سعید روحوں کو اسلام کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی ہو اور انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو بلکہ بعض جگہ ایسے واقعات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود لوگوں کی راہنمائی فرمائی ہے اور وہ جماعت میں شامل ہوئے۔

مخالفین کی مخالفت کے باوجود افراد جماعت کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط فرمایا اور فرماتا چلا جا رہا ہے۔

پس آج بھی جو ہم اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ایک احمدی کے لیے مضبوطی ایمان کا ذریعہ ہیں۔ بعض لوگوں کے واقعات میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔

بابائیو اسلام بیک (Boboev Islombek) صاحب روسی ہیں،

قرغیزستان

کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرا تعلق قرغیزستان میں کاشغر قِشلاقسے ہے اور کہتے ہیں میرے خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرتے ہوئے حقیقی اسلام یعنی جماعت میں شامل ہو رہا ہوں۔ احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اسلام کی خوبیوں کو بہت عمدہ طریق پر بیان کیا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ صرف امام مہدیؑ ہی اس طرح اسلام کی خوبیوں کو بیان کر سکتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے متقی بنا دے اور دس شرائط بیعت پر عمل کرنے والا بنا دے۔ یہ ایک دُور دراز کے علاقے میں بیٹھے ہوئے شخص کا بیان ہے۔ اب ایک جگہ نہیں ہر ملک میں یہ حال ہے۔

کانگو

کا ایک صوبہ منیما (Maniema) ہے۔وہاں ایک جگہ ہے رَوْدِیکا (Rodika)۔ وہاں ایک عیسائی دوست فیروز ماجک صاحب ہیں۔ ان تک جماعت کے پمفلٹ پہنچے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کی نعمت کا بیان تھا تو اس کو پڑھ کر ان کی کایا پلٹ گئی۔ کہنے لگے میں اسی اسلام کی تلاش میں تھا۔ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح ایک اَور دوست حسین صاحب نے بھی جماعت کے پمفلٹ پڑھ کر نہ صرف بیعت کر لی بلکہ انہوں نے آگے تبلیغ بھی شروع کر دی اور ان کی تبلیغ سے ہی اب تک جب یہ رپورٹ آئی تھی پانچ لوگ انہوں نے احمدیت میں داخل کر لیے۔ تو اس طرح

لوگ صرف خود ہی نہیں شامل ہو رہے بلکہ تبلیغ بھی کر رہے ہیں اور یہ پرانے احمدیوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ان کو بھی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

پھر

تنزانیہ

کا ایک ریجن ہے شیانگا۔ وہاں کی ایک جماعت ہے مونگا لانگا (Mwangalanga)۔ یہاں جماعت میں جب احمدیت کا آغاز ہوا تو شروع میں احمدی احباب درختوں کے سائے میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ اسی دوران وہاں پر ایک شخص محمد فونگونگا (Fungagunga) نے جماعت کی شدید مخالفت شروع کر دی اور چند احباب سےمل کر مشہور کر دیا کہ یہ احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں اور ہم مسلمان جلد ہی یہاں مسجد بنائیں گے۔ اس شخص نے ایک صاحبِ حیثیت خاتون کی ضمانت بھی لے لی کہ وہ مسجد کے لیے رقم دے گی۔ دوسری طرف جب ایک مخلص احمدی رمضان صاحب نے اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کی تو اس شخص نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ قطعہ زمین غیر از جماعت مسلمانوں کو مل جائے مگر وہ احمدی ثابت قدم رہے یہاں تک کہ جماعت کی مسجد بننا شروع ہوئی اور پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ اس اثنا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ اس مخالف شخص کے گھر تک پہنچی۔ اب یہ مخالفت کر رہا ہے اور اس کے گھر بھی احمدیت کا پیغام پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی اور بچوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی اور اب وہ اپنی مخالفت میں اکیلا رہ گیاہے۔ اب اگر اس شخص میں عقل ہو اور اس جیسے بہت سے ایسے لوگ ہیں تو ان کے لیے یہی نشان کافی ہے کہ باوجود مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے اس کے بیوی بچوں کے دل میں حقیقی اسلام کا جوش پیدا کیا اور اس کا کوئی زور نہیں چلا۔ یہ ایمان، یہ تبدیلی کوئی انسان پیدا کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہوتا ہے۔

پھر ایک اَور مثال ہے ایمان کی مضبوطی کی، اللہ تعالیٰ کی تائید کی۔

ارجنٹائن

اب ایک دُور سے امریکہ کے علاقے میں بالکل دوسرا علاقہ ہے۔ ایک افریقہ چل رہا ہے۔ کوئی روس چل رہا ہے ۔کبھی امریکہ ہے۔ وہاں کی ایک خاتون ہیں ماریلہ (Mariela) صاحبہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن وہ مسلمانوں کے عملی رویّے کی وجہ سے اسلام سے دُور جا رہی تھیں۔ احمدی نہیں ہوئی تھیں۔ اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب موصوفہ کا جماعت احمدیہ سے تعارف ہوا اور وہ مشن ہاؤس آکر ہماری عربی اور اسلام کلاسز میں شامل ہوتی رہیں اور کچھ ماہ بعد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئیں۔ کہنے لگیںکہ

مجھے بیعت کر کے اطمینان ہوا ہے کیونکہ میں نے جماعت کی تعلیمات اور عمل میں مطابقت پائی ہے اور حقیقی اخوّت کی فضا محسوس کی ہے۔

اس میں ہر ایک کو خواہ نیا آنے والا ہو خدمت کا موقع دیا جاتا ہے اور کسی قسم کی discriminationنہیں ہے، فرق نہیں ہے۔ موصوفہ کی بیٹی جو کہ غیرمسلم ہے وہ سنّی اسلامک سنٹر میں پڑھ رہی تھی، یہ ان کا ہائی سکول تھا۔ عربوں نے وہاں پیسہ خرچ کیا ہوا ہے۔ جب سکول کی ایڈ منسٹریشن کو اس کی والدہ کے جماعت میں شامل ہونے کا پتہ چلا تو اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے۔ جب سکول والوں کو علم ہوا کہ ان کی بیٹی نے اپنے سکول کے پراجیکٹ کے تحت اپنی ذاتی خواہش سے جماعت کے مشن ہاؤس کے لیے خاص ڈیکوریشن کے piecesبھی تیار کیے ہیں تو اس پر سکول کی انتظامیہ سخت ناراض ہوئی اور اس بچی کو کہا کہ جماعت احمدیہ کی حمایت میں تمہارے لیے سکول میں مشکلات ہوں گی۔ تم اور تمہاری والدہ جماعت سے علیحدہ ہو جاؤ۔ جب اس کی والدہ کو علم ہوا تو اس نے فوراً بغیر کسی تردّد کے خود ہی اپنی بیٹی کا اس اسلامی سکول سے تبادلہ کروا لیا اور کہنے لگی کہ اب مجھے بھی اور میری بیٹی کو بھی تسکین ہے کہ ہمیں کوئی بھی ہمارے مذہب کی بنا پر تنگ نہیں کرے گا۔ میں نے جماعت کو حق خیال کرتے ہوئے قبول کیا ہے تو پھر میں غیروں کے سامنے بھی خوشی اور فخر سے اس کا اظہار کروں گی خواہ انہیں برا ہی لگے۔ یہ ایمان ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے۔

بخارا جو رشیا کا علاقہ ہے وہاں ایک مخلص احمدی سنت سلطانووچ صاحب ہیں۔

ازبکستان

سے ان کا تعلق ہے اور رشیا میں ملازمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں اکیلا ہی احمدی ہوں اور اپنی اہلیہ اور بچے کو اسلام احمدیت کی تعلیمات سے متعارف کراتا رہتا ہوں۔ شوق ہے کہ میرے بیوی بچے بھی احمدی ہو جائیں۔ بہت دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسلام احمدیت کے نور سے منور کرے۔ کہتے ہیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری خواب میں آئے اور میرے دل پر سر رکھ کر مسلسل سورۂ اخلاص کی تلاوت فرما رہے ہیں جس سے مجھے بہت ہی دلی سکون ملا۔ اسی طرح میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ موجود ہوں اور وہاں میں نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکو بھی دیکھا۔ مجھے اس خواب سے یہ اطمینان ملا کہ جنت سے مراد اسلام احمدیت ہے جس کی تعلیم جنت نما ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری اہلیہ اور بیٹے کو بھی اس جنت میں لے کر آئے گا۔ ابھی اس خواب کو چند دن ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے انیس سالہ بیٹے دیار بیگ سنت کا دل اسلام احمدیت کے لیے کھول دیا اور اس نے بیعت کر لی ہے۔ میرے لیے بڑا خوشی کا دن تھا۔ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح میری اہلیہ کے دل کو بھی کھولے اور اسلام احمدیت کی آغوش میں لے آئے۔ تو یہ جوش اور جذبہ ہے ان لوگوں کا۔

یوکے

کی ایک نومبائعہ ہیں۔ کہتی ہیں۔ میرا مسلمان بیک گراؤنڈ ہے۔ کٹر سنی فیملی سے تعلق تھا۔ کہتی ہیں ہمیں یہی بتایا گیا تھا کہ سنی اسلام ہی اصل اسلام ہے۔ ایک روز کہتی ہیں میں نے اپنی یونیورسٹی کے قریب جلنگھممیں مسجد ناصر میں اذان سنی تو میں نے گھر آ کر اپنے والد کو بہت خوش ہو کر بتایا کہ ہماری یونیورسٹی کے قریب ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ اس پر میرے والد صاحب نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ تو احمدیوں کی مسجد ہے۔ بہت سختی سے مجھے منع کیا کہ یہ مسجد قادیانیوں کی ہے اور وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ جھوٹ ہے یہ الزام۔ اور انہوں نے اپنا نبی بنایا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے تم اس مسجد سے دُور رہنا۔ کہتی ہیں میں نے شروع میں تو ان کی بات مان لی لیکن میرا دل نہیں مانا۔ مجھے لگا کہ مجھے احمدیوں کے متعلق مزید تحقیق کرنی چاہیے لیکن دوسری طرف گھر والوں کا خوف بھی تھا کہیں پکڑی نہ جاؤں اور پھر وہ ناراض نہ ہوں۔ یونیورسٹی میں چند احمدی طلبہ سے بھی ملاقات ہوئی جن سے اسلام احمدیت کے متعلق تفصیلی گفتگو ہوتی رہی۔ پہلے میں ان کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ سنی اسلام ہی اصل اسلام ہے لیکن اس قسم کی گفتگو سے میرا احمدیت کے متعلق ریسرچ کرنے کا شوق بڑھتا رہا۔ پھر مجھے جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ کا پتہ چلا، وہاں بھی مجھے کافی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں اور کافی مواد پڑھنے کو ملا۔ میرے اسلام کے متعلق بعض سوالات تھے جن کے مجھے کہیں سے تسلی بخش جوابات نہیں ملتے تھے لیکن جب میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا تو مجھے میرے مطلوبہ سوالات کے جواب ملنے شروع ہو گئے۔ اب احمدی نوجوانوں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ صحیح طرح علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو جوابات مل جائیں گے بجائے اس کے کہ غیروں سے متاثر ہوتے رہیں۔ بعض نوجوان متاثر ہو بھی جاتے ہیں۔ کہتی ہیں پھر میں نے دعائیں شروع کر دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی نشان دکھلائے۔ یہ بھی ہدایت کی طرف آنے کا اور صحیح راستہ تلاش کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

چاہے وہ پرانے احمدی ہیں یانئے، اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہماراایمان مضبوط رہے اور ہمیں نشان بھی کوئی دکھا اور ہدایت دیتا رہ۔

تو بہرحال کہتی ہیں اس عرصہ میں مَیں نے بہت سی خوابیں دیکھیں۔ ایک خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں دریا کے کنارے پہ ہوں اور دوسرے کنارے پہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کسی ہال میں تشریف لے جا رہے ہیں۔ میں دریا عبور کر کے دوسرے کنارے پر جانا چاہتی ہوں لیکن پانی کا بہاؤ تیز ہے۔ اس پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ خدا اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ اس کے ساتھ ہی وہ دریا ختم ہو جاتا ہے اور میں دوسری طرف پہنچ جاتی ہوں۔ اسی طرح ایک خواب میں انہوں نے مجھے بھی دیکھا اور اس حالت میں دیکھا جس سے وہ بہت متاثر ہوئیں۔ ایک اَور خواب میں یہ کہتی ہیں میں نے اپنی دادی کو دیکھا وہ مجھے کہہ رہی تھیں کہ جب اسلام آباد جاؤ تو مجھے بھی یاد رکھنا۔ کہتی ہیں یہ تمام خوابیں میرے لیے واضح نشان تھیں۔ چنانچہ میں نے بیعت کر لی۔ اب اس طرح انگلی پکڑ کر احمدیت کی طرف لے کر آنا اور دل میں ایمان کی مضبوطی پیدا کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشان نہیں تو اَور کیا ہے!

پھر دیکھیں افریقہ کا ایک ملک ہے اس کے گاؤں میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دینے کے بعد پھر کس طرح ایمان میں مضبوطی عطا فرمائی۔

برکینا فاسو

کے ڈوری ریجن کی جماعت ٹاکا (Taka) کے ایک احمدی خادم جابر صاحب کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ دہشت گردوں نے پکڑ لیا اور کہا جس طرح کل ہم نے مہدی آباد میں احمدیوں کو مارا ہے تمہیں بھی قتل کر دیں گے۔ پھر ان کا موبائل فون لے کے چیک کیا تو اس میں سے جماعتی مبلغین کی تقاریر ملیں۔ تقاریر سن کر کہنے لگے کہ ہم ان سب کی تلاش میں ہیں کیونکہ یہ ریڈیو پر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس طرح احمدی خادم سے اس کے والد صاحب کا پتہ پوچھا اور کہاکہ کل ہم تمہارے گاؤں آئیں گے۔ جابر صاحب کو جب یہ پتہ لگا تو وہ گھر آئے اور اپنے والد اور گھر والوں کو لے کر اسی رات محمد آباد جو ڈوری میں ہے اور جہاں جماعت کی آبادی ہے وہاں آ گئے اور اب گھر بار اور سامان وغیرہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ اگلے روز دہشتگرد ان کے گاؤں آئے اور ایک شخص سے زبردستی ان کے گھر کا پتہ معلوم کر کے وہاں پہنچے۔ پورے گھر کی تلاشی لی۔ سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا اور یہ ساتھ کہتے رہے کہ یہاں جو بھی احمدی ہے اسے قتل کر دیں گے۔ بہرحال وہ تو وہاں سے آ گئے تھے اور اس وقت جماعتی انتظام کے تحت وہاں محمد آباد میں مقیم ہیں۔

برکینا فاسو کے شہیدوں نے اپنی جان دے کر وہاں کے احمدیوں کا ایمان کمزور نہیں کیا بلکہ ہر روز ان کے ایمان میں مضبوطی آ رہی ہے۔

اب ان غریب لوگوں نے اپنا تھوڑا بہت جو بھی سامان تھا ،گھر میں گھر بار اور جو روزی کا سامان تھا جس پر ان کا انحصار تھا سب کچھ چھوڑ دیا لیکن اپنا ایمان نہیں چھوڑا۔ ان لوگوں کو احمدیت قبول کیے ابھی چند سال گزرے ہیں لیکن ایمان میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اَور ہستی نہیں جو اس طرح ان کے ایمانوں کو مضبوط کر رہی ہے۔

ایک طرف تو احمدیت کی مخالفت کے باوجود ایمان کی مضبوطی کے ہم نظارے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کثرت سے نظر آتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے لیے کھول رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا یہ وقت ہے تلاش کرو اللہ تعالیٰ بھی پھر اس میں مدد کرتا ہے۔

سینٹرل افریقہ میں ایک جگہ ہے

یلوکے (Yaloke)۔

وہاں معلم کہتے ہیں کہ ہم تبلیغ کے لیے گئے تو وہاں ڈیڑھ سو افراد مردوزن تبلیغ سننے کے لیے جمع ہو گئے۔ کہتے ہیں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے نشانات پر تقریر کی اور بعد میں سوال و جواب کیے گئے۔ وہاں کے سینٹرل امام سَامَسَہ عمر (Samasa Omer) صاحب نے بات کرنے کی اجازت چاہی اور اپنی بات کا آغاز اس آیت سے کیا کہ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (بنی اسرائیل:82)اور پھر کہا کہ آپ نے جو پیغام دیا ہے ہم نے نہ کبھی سنا اور نہ ہی ریسرچ کی۔ الحمد للہ کہ آج ہمارے گاؤں میں سچائی آ گئی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام جب آئے تو فوراً قبول کر لینا آج میں خود اور میرے چالیس ساتھی جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل ہوتے ہیں اور کہنے لگے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سچائی پر قائم رہنے کی توفیق دے۔ تو اس طرح لوگ شامل ہو رہے ہیں۔

پھر

اللہ تعالیٰ مخالفین کو بھی کس طرح جماعت کی طرف کھینچ کر لے آتا ہے،

اس کے بھی بےشمار واقعات ہیں۔

مالی

کی کولی کَوْرَوریجن ہے، وہاں کی ایک جگہ ہے نمنا۔ کہتے ہیں اس سال وہاں کولی کورو جماعت نے اپنا ریجنل جلسہ منعقد کیا تو اس سے پہلے ریڈیو پہ اعلان کیے گئے۔ اس گاؤں کے دُور ہونے کی وجہ سے کبھی ریڈیو ادھر سنائی دیتا ہے کبھی نہیں دیتا لیکن ان دنوں ریڈیو وہاں سنائی دیا اور ایک غیراحمدی دوست صدیق جَرَیٰ صاحب نے سن کے جلسہ میں شمولیت کا ارادہ کر لیا۔ ان کے ساتھ ان کے ایک دوست تھے جو ان کو احمدیت کی تعلیمات کو نہ سننے پر قائل کرتے رہتے تھے۔ کہتے رہتے تھے کہ احمدیت کو نہ سنا کرو یہ تو کافر لوگ ہیں لیکن بہرحال ان کے اصرار پر یہ دونوں دوست جلسہ پر آگئے اور اسّی کلو میٹر کا فاصلہ مصیبتوں سے طے کیا۔ سڑکیں تو وہاں ہیں نہیں۔ بہرحال پوچھتے پوچھاتے جلسہ سے دو دن پہلے جلسہ کی جگہ پر پہنچ گئے۔ مقامی صدر صاحب نے اور احباب جماعت نے ان کی مہمان نوازی کی۔ جلسہ سے قبل ہی ان کو احمدیت کے بارے میں تعارف ہو گیا۔ جلسہ کے دنوں میں انہوں نے تقاریر سنیں۔ باجماعت تہجد کی ادائیگی اور ممبران جماعت کا آپس میں پیار اور خلوص کا تعلق دیکھا تو بہت متاثر ہوئے۔ جلسہ کے آخری دن جب ان کو بطور مہمان اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے سارا واقعہ بیان کرتے ہوئے احمدیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے فوراً بعد ان کے ساتھی نے کچھ بیان کرنا چاہا تو اس نے کہا کہ حقیقت میں مَیں اپنے دوست کو بدظن کرنے آیا تھا لیکن اب میں خود احمدیت کا قائل ہو گیا ہوں اور اس نے بھی احمدیت قبول کر لی۔

کانگو برازاویل

یہ بھی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ ایک نوجوان سِیْرِیْل صاحب نے ایف اے کی، ہائر سیکنڈری سکول کی تعلیم مکمل کی اور ایک گاؤں کے کیتھولک مشنری سے عیسائیت کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی اور اس مشنری تعلیم کے بعد اس نے چرچ کے ذریعہ سے ہی یونیورسٹی جانا تھا۔ اس دوران اس کا رابطہ ہمارے مقامی مبلغ کے ساتھ ہو گیا۔ کہتے ہیں اس کو ہم نے تبلیغ شروع کی۔ اس نے دیکھا کہ جماعت احمدیہ کے دلائل کا اس کے پاس، نہ ہی اس کے ٹیچر مشنری کے پاس کوئی جواب ہے۔ اس طرح اس نے عیسائی مشنری بننے کی بجائے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی اور اب بطور داعی الی اللہ احمدیت کی تبلیغ کر رہا ہے۔

سینیگال

کا ریجن تامبا کونڈا ہے۔ وہاں کے ایک علاقے میں تبلیغ کا پروگرام بنایا گیا۔ کہتے ہیں وہاں چند سال قبل ایک شخص نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی تھی لیکن گاؤں کے لوگ مخالفت کر رہے تھے۔ اس سال گاؤں کے چیف اور امام سے بار بار ملاقات کر کے تبلیغی پروگرام بنایا گیا۔ گردونواح کے گاؤں کے چیف اور اماموں کے ساتھ عام لوگوں کو بھی دعوت دی گئی۔معلمین نے اسلام کی موجودہ حالت،مسیح موعود کی ضرورت، اورکیا اس زمانے میں ضرورت بھی ہے؟ مسیح موعود کی آمد اور اسلام کی ترقی میں جماعت احمدیہ کا کردار کے عناوین پر تقاریر کیں۔ بعد ازاں سوال و جواب ہوئے۔ قریبی گاؤں سے جو لوگ آئے تھے کہنے لگے کہ انہوں نے احمدیت کا نام ہمسایہ ملک گیمبیا میں سنا تھا مگر وہ عقائد وغیرہ کے متعلق نہیں جانتے تھے۔ آج اس جلسہ میں جماعت کے عقائد کے متعلق وضاحت سن کر بغیر کسی سوال کے انہوں نے احمدیت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد گاؤں کے امام نے کھڑے ہو کر احمدیت کی سچائی کا اعلان کیا۔ اس کے دیہات کے چیف نے اپنی فیملی کے ساتھ احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر کسی کو بھی تمام حاضرین میں سے کوئی شک ہے تو یہاں بیان کر دے وگرنہ بعد میں کوئی حیلہ بہانہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد تمام حاضرین نے اپنے خاندانوں سمیت احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ پکڑ پکڑ کر بھی لاتاہے۔

ازبکستان

جو رشین سٹیٹس میں سے ایک ملک ہے۔ وہاں مُسْلِمَووْ منصور صاحب نومبائع ہیں۔ کہتے ہیں پہلے میں امام ابوحنیفہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک دن میرا دوست عربی سیکھنے کی غرض سے مجھے ایک احمدی استاد کے پاس لے گیا۔ میں عربی سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے استاد سے اسلام کے متعلق بھی سوالات پوچھتا رہا۔ مجھے اتنے اچھے جوابات ملتے کہ میرا دل مطمئن ہو جاتا تھا۔

اگر صحیح جواب لینے ہیں، دل کو لگنے والے منطقی جواب بھی ہوں اور حقیقت بھی ہو تو وہ سوائے جماعت احمدیہ کے کہیں اَور مل نہیں سکتے کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ جوابات دیے ہیں، ان کی وضاحت فرمائی ہے۔

کہتے ہیں جب میں ان سے پوچھتا کہ ان جوابات کے اصل چشمے کہاں ہیں؟ اس چشمےکا تعلق کہاں سے ہے؟ اصل کہاں سے مل سکتے ہیں؟ تو ہمارے استاد نے ہمیں جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا۔ کہتے ہیں میرا دل تو پہلے ہی مطمئن ہو چکا تھا۔ چنانچہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس راہ میں ثابت قدم رکھے۔

اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ثابت فرماتا ہے بلکہ خلافت احمدیہ کے نظام کے ساتھ اپنی تائیدات کے نظارے بھی دکھاتا ہے اور خواب کے ذریعہ پہلے ہی انہیں مضبوط کر دیتا ہے۔

سینیگال

میں ریجن تامبا کونڈا ہے۔ وہاں کے معلم تبلیغی دورے پہ گئے۔ کہتے ہیں معلمین نے یہاںتبلیغ شروع کی، جماعت کا تعارف کرایا تو ایک دوست محمدجیالو نے کہا کیا آپ احمدیہ جماعت سے ہیں؟ معلم صاحب نے اثبات میں جواب دیا تو جیالو صاحب نے کہا کہ گذشتہ روز ہی اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس کے خواب میں آئے اور اس سے کہتے ہیں کہ

اسلام کے تمام فرقوں میں سے فرقہ احمدیہ ہی سچا اور صحیح اسلام کا ترجمان ہے

تم اس میں داخل ہو جاؤ۔ اب اگلے ہی دن آپ لوگ آ گئے ہیں تو بہرحال اس میں کچھ سچائی یقیناً ہوگی۔ معلم صاحب نے اس کو موبائل سے خلفاء کی تصویریں دکھائیں۔ میری تصویر بھی ان کو دکھائی اور میری تصویر دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ یہی شخص ہے جو مجھے خواب میں آیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ میں جماعت احمدیہ کا خلیفہ ہوں۔ یہ واقعہ سنا کر اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور وہیں اپنے خاندان سمیت انہوں نے بڑے جذباتی ہو کر احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا۔ اب وہ تبلیغ بھی کر رہے ہیں۔

پھر خواب کے ذریعہ ہی قبول احمدیت کا ایک اَور واقعہ ہے۔

کانگو کنشاسا

بالکل ایک اَور ملک اور کئی سینکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے۔ وہاں ایک جگہ کے صدر جماعت باسم منیر صاحب ہیں۔ عیسائیت سے احمدی ہوئے تھے ۔کہتے ہیں جب جماعت کے مبلغین یہاں تبلیغ کے لیے آئے تو میں اسلام کو دہشت گرد مذہب سمجھتا تھا۔ یہی پروپیگنڈا ہے ناں غیر مسلموں کا اسلام کے بارے میں۔ لیکن جس اسلام کی باتیں احمدی مبلغ کرتے تھے وہ میرے لیے عجیب تھا اور عیسائیت سے میں ویسے ہی اکتا چکا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میں بہت پریشان تھا۔ چنانچہ میں نے دعا کرنی شروع کر دی۔ اسی دوران ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ آ کر کہتے ہیں کہ ان کو چھوڑ دو اور اس طرف آ جاؤ۔ اس بات کی تعبیر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھائی کہ تم عیسائیت کو ترک کر کے احمدیت کی طرف آ جاؤ۔ چنانچہ میں نے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی۔

چاڈ

افریقہ کا ایک اَور ملک ہے اور یہاں کا ایک اَور واقعہ ہے۔ عبداللہ محمد موسیٰ جو عرب قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، کہتے ہیں ہمارے یہاں کے مبلغ انچارج نے لکھا کہ چند ماہ پہلے ہمارے لوکل معلم کی ان سے ملاقات ہوئی۔ معلم صاحب ہیومینٹی فرسٹ کے کام کے سلسلہ میں ان کے علاقے میں بھی گئے۔ جب معلم صاحب دوسری دفعہ ان کے علاقے میں گئے تو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی جو عربی ترجمہ میں تھی پڑھنے کے لیے دی۔ کچھ ہفتوں کے بعد عبداللہ صاحب دارالحکومت چاڈ میں آئے اور معلم سے رابطہ کیا اور وفاتِ مسیح کے متعلق سوالات کیے اور کہا کہ میں نے حیاتِ مسیح کے متعلق علماء سے بہت پوچھا ہے لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ رات کو قیام معلم صاحب کے پاس کیا۔ رات بھر جماعت احمدیہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق سوالات کرتے رہے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری راہنمائی فرمائے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سوئے اور اچانک بیدار ہو گئے اور معلم صاحب کو کہنے لگے جب میں سو رہا تھا تو خواب میں یہ آواز میں نے سنی۔ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ(الصف:7)معلم صاحب نے جب اس آیت کے متعلق بتایا کہ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ تو بانی جماعت احمدیہ کی صداقت کی دلیل ہے تو اس پر عبداللہ صاحب کہنے لگے خدا تعالیٰ نے میری راہنمائی کر دی ہے اور عربی پڑھے لکھے تھے۔ بہرحال انہوں نے بتایا کہ اس آیت کا ایک یہ بھی مطلب ہے تو وہ احمدی ہو گئے۔

مارشل آئی لینڈز

بالکل امریکہ کے علاقے کا ایک جزیرہ ہے۔ وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہَرْمَنْ لَاجَر (Hermon Lajar) صاحب ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔ قرآن کریم کی ایک آیت کا مارشلی زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت تھی تو اس کے لیے مبلغ صاحب نے ان سے رابطہ کیا۔ ترجمہ کے لیے جب وہ ان کے پاس گئے اور انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ قرآن کریم کی آیت ہے تو گھبرا گئے کہ اسلام ان کے لیے بالکل نیا تھا۔ کہنے لگے کہ کسی بھی مذہبی چیز کا ترجمہ کرنے سے خوف محسوس کرتا ہوں خاص طور پر اس لیے کہ بائبل اور قرآن کے درمیان سخت اختلاف ہے۔بہرحال انہوں نے ترجمہ کردیا۔ کہتے ہیں چند ماہ بعد میں نے ان سے مارشلی زبان سیکھنا شروع کر دی۔ وہ زبان سکھانے کے لیے مسجد آتے رہے۔ اس دوران کئی بار اسلام کے بارے میں بات ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متعارف کرواتا جس پر موصوف اسلام کی تعلیمات سے بہت اچھی طرح واقف ہو گئے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے مارشل آئی لینڈ کے مبلغ کو یہ پیغام بھیجا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’ہماری تعلیم‘‘ کا مارشلی زبان میں ترجمہ کرو۔ کیونکہ نئے احمدیوں کے لیے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تو کہتے ہیںمیں نے پھر لاجر صاحب سے اس بارے میں بات کی اور انہوں نے مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اب کہتے ہیں کہ ان کا اسلام کے بارے میں روّیہ بالکل بدل چکا تھا۔ اس بار انہوں نے اپنی نوکری کی پریشانی کے بارے میں ذکر کیا۔ پھر میں نے کہا کہ دعا کریں مگر عیسیٰ علیہ السلام کے نام کے ساتھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔ چنانچہ وہ دعا کرتے رہے اور چند ہفتے بعد منسٹری آف کلچر نے ان کو ایک نئی ڈیپارٹمنٹ کھول کے ان کے فیلڈ میں نوکری دے دی۔ جہاں انہوں نے اپلائی کیا تھا وہاں ان کو فوراً نوکری مل گئی۔ موصوف نے بتایا کہ اب جب میں دعا کرتا ہوں تو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لینے سے روکتا ہوں اور اس کے بجائے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کو ملازمت کی منظوری بھی آگئی۔ قبولیت دعا کا یہ نشان دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ پڑھ کر لاجر صاحب نے بیعت کرلی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’ہماری تعلیم‘‘ کا مارشلی میں ترجمہ بھی تکمیل تک پہنچ گیا۔

کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف پھیر رہا ہے۔ کہاں تو عیسائیت دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑنے کی باتیں کرتی تھی اور کہاں اب عیسائی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آ رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر بھی ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کی آنکھیں نہیں کھلتیںتو پھر ان کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جو کام کروا رہا ہے اس نے تو ان شاء اللہ تعالیٰ پھیلنا اور پھلنا اور پھولنا ہے۔ کوئی نہیں جو اس خدائی کام کو روک سکے لیکن

ہر احمدی کو اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو مان لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کا حقیقی نمونہ ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی عملی تصویر ہوں۔ اور جب یہ ہو گا تو تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
فلسطینیوں کے لیے بھی دعائیں کرتے رہیں

اللہ تعالیٰ انہیں اس ظلم سے نجات دے جو اُن پر ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اب چند دن کے لیے جنگ بندی ہے تاکہ ضروریاتِ زندگی کی مدد پہنچ سکے لیکن اس کے بعد پھر کیا ہو گا۔ مدد پہنچا کے پھر ان کو ماریں گے۔ اسرائیل کی حکومت کے ارادے تو خطرناک لگتے ہیں کیونکہ ان کی حکومت کے ایک خاص مشیر نے کل پرسوں ایک اعلان یہ کیا ہے کہ اگر اس جنگ بندی کے بعد پھر فوری جنگ نہ شروع کی گئی تو میں حکومت سے نکل جاؤں گا۔ تو اس قسم کی تو ان کی سوچیں ہیں۔

بڑی طاقتیں ہمدردی کی بظاہر باتیں تو کرتی ہیں لیکن انصاف کرنا نہیں چاہتیں اور اس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ ان کو یہ علم نہیں ۔سمجھتے ہیں کہ وہیں تک محدود رہے گی لیکن ان کے جو عقلمند ہیں وہ بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ

یہ جنگ صرف ان علاقوں میں محدود نہیں رہے گی بلکہ باہر بھی پھیلے گی اور ان کے ملکوں تک بھی پہنچ جائے گی۔

مسلمان حکومتیں اگر کچھ بولنا شروع ہوئی ہیں جس طرح

سنا ہے سعودی بادشاہ نے بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک آواز ہونی چاہیے
تو ایک آواز بنانا پڑے گی۔ اس کے لیےایک ٹھوس کوشش کرنی پڑے گی۔
اگر یہ احساس پیدا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس احساس کو عملی جامہ پہنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ بہرحال دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔

نماز کے بعد میں چند

جنازے غائب

پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر ہے

عبدالسلام عارف صاحب مربی سلسلہ

کا۔ چوّن سال کی عمر میں گذشتہ دنوں یہ وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑنانا مکرم حاجی حسن خان کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1937ءمیں خلافتِ ثانیہ کے دَور میں احمدیت قبول کی تھی۔ ان کی اہلیہ کی بھی وفات ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹوں سے نوازا اور دونوں حافظ قرآن ہیں۔ ایک مربی سلسلہ ہیں اور دوسرے بھی میرا خیال ہے واقفِ زندگی ہیں۔

ان کے بیٹے حافظ عبدالمنعم جو مربی سلسلہ ہیں کہتے ہیں بہت پیار کرنے والے تھے۔ پیار سے تربیت کی۔ نہ صرف اپنی اولاد سے پیار کیا بلکہ برادری سے بھی صلہ رحمی اور محبت کا بہت تعلق تھا۔ لوگوں سے بھی بہت پیار کا تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ان کی وفات پر آئے اور اپنے تعلقات کا ذکر کیا۔ کہتے ہیں ہمارے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت کی محبت اس قدر راسخ کی کہ اب ہمارے دلوں سے کبھی یہ نکل نہیں سکتی بلکہ ہمیں یہ بھی کہا کہ اپنی اولاد کو بھی تلقین کرتے چلے جانا۔ کہتے ہیں والدہ کی وفات ہوئی تو خود بھی بڑا صبرکیا اور ہمیں بھی صبر کی تلقین کی۔

ان کے ایک مربی دوست راجہ مبارک صاحب ہیں کہتے ہیں میں ان کا کلاس فیلو تھا اور اکثر وقت ان کے ساتھ جامعہ میں بھی اور فیلڈ میں بھی گزارا اور ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ عبادت میں بھی اعلیٰ مقام، بزرگی میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ نہایت مہذب زبان استعمال کرتے۔ دلیل سے بات کرتے، کبھی کسی سے نہ لڑتے۔ لوگ ان سے لڑ لیتے، زیادتی بھی کر لیتے لیکن وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے۔ کبھی ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش نہیں کی اور ہر کسی کا پورا پورا خیال رکھتے تھے اور یہی ایک حقیقی مربی کی خصوصیت ہے۔ اور کہتے ہیں جہاں جہاں بھی وہ رہے سینکڑوں افراد کے اندر خلافت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری۔ اتنی گہرائی میں جا کر انہوں نے تربیت کی ہے کہ ان کی وفات پر جہاں جہاں بھی وہ رہے لوگ آئے اور مربی صاحب کا ذکر کر کے دھاڑیں مار مار کر روتے تھے کہ ہماری جماعت یتیم ہو گئی۔ خود کئی کئی میل کا پیدل سفر کرتے تھے۔ پانچ دس کلو میٹر کا سفر پیدل کر لیتے تھے اور جب ان کو کہا جاتا تھا کہ جماعت سہولت دیتی ہے کرایہ رکشہ وغیرہ لے لیا کریں تو کہتے اگر میں جماعت کے پیسے بچاتا ہوں تو تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ اور پیدل دورے کیا کرتے تھے، میلوں میل دورے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ایسے باوفا اور محنتی مربی اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ دیتا رہے اور بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

دوسرا ذکر

محمد قاسم خان صاحب کا ہے

جو آجکل کینیڈا میں تھے۔ سابق نائب ناظر بیت المال خرچ تھے۔ ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ تراسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔نذر احمد خان صاحب کے بیٹے اور قاضی محمد نذیر لائلپوری صاحب کے داماد تھے۔ ان کے بیٹے محمد خالد خان کہتے ہیں ان کو خلافت کے چار دَور دیکھنے کی توفیق ملی۔ خلافتِ ثالثہ کے پورے دَور میں پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں خدمت کی توفیق ملی۔ مجاہد فورس میں بطور کپتان ملک اور جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ جنگ کے دنوں میں فرقان فورس بھی بنی تھی وہاں بھی یہ تھے۔ پنجوقتہ نماز، تلاوت قرآن کریم کا التزام بہت زیادہ تھا۔ اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ سادگی اور ایمانداری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ اولاد کو بھی خلافت سے تعلق رکھنے کی تاکید کرتے رہے۔ خلافت کے لیے ایک ننگی تلوار تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

گذشتہ دنوں

ہمارے جماعت کے مشہور شاعر عبدالکریم قدسی صاحب

کی وفات ہوئی ہے۔ ایک ذکر ان کا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم کے خاندان میں احمدیت ان کے والد میاں اللہ دتہ صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے 1934ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ پھر احمدی ہونے کے بعد ساری زندگی وقف کی طرح گزاری۔ ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے۔ بہت سے خاندان احمدی کیے اور ساری عمر وقف کی روح کے ساتھ جماعت کی خدمت کی۔

ان کی اہلیہ بشریٰ کریم صاحبہ ہیں جن کا نکاح حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پڑھایا تھا۔ اور ان کے چار بچے ہیں ایک بیٹے عبدالکبیر قمر صاحب مربی سلسلہ ہیں آجکل استاد جامعہ احمدیہ ربوہ ہیں۔ خود قدسی صاحب بھی جماعت کی خدمت کرتے رہے۔ تیس سال تک جماعت احمدیہ رچنا ٹاؤن ضلع لاہور کے سیکرٹری مال رہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف شعبوں میں کام کیا۔ ان کی شاعری تو اچھی تھی۔ کافی شعر کہتے تھے۔ مجموعہ بھی ہے۔ان کا مجموعہ کلام چھپ چکا ہے۔ ایک غیر معمولی کام جو ان کا ہے وہ قصیدہ یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ کا منظوم اردو ترجمہ اور پنجابی ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ درّثمین کے تین سو تیرہ اشعار کا پنجابی ترجمہ بھی انہوں نے کیا ہوا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ان کو جنون چڑھا کہ جماعت سے ذرا آزاد ہونا چاہیے تو خودہی لکھتے ہیں کہ 1968ءمیں اپنے گاؤں کرتو پنڈوری سے لاہور ملازمت کے لیے آیا اور یہاں آیا تو پھر سیکولر سوچوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنے لگا۔ نمازیں پڑھتے تھے۔ کبھی مسجد میں جاتے، کبھی نہیں کیونکہ مسجد دُور تھی۔ جمعہ کبھی کہیں پڑھ لیا، کبھی نہ پڑھا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک جمعہ پر ایک دوست کے گھر دعوت تھی۔ ساتھ والی مسجد غیر احمدیوں کی تھی۔ وہاں جمعہ پڑھنے چلے گئے۔ مولوی کا حال جو انہوں نے سنایا وہ آج بھی یہی ہے۔ تو مولوی صاحب نے آدھا خطبہ شیزان کے خلاف دیا۔ شیزان جو ہے احمدیوں کی ہے۔ مشروب ہے۔ احمدی کارخانوں میں بنتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں باقی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ وہ لوگ اس میں خاکِ ربوہ بھی ملاتے ہیں یعنی ربوہ کی جو مٹی ہے وہ شیزان میں ملاتے ہیں اس لیے یہ بالکل نہیں پینا چاہیے۔ کہتے ہیں میں نے اس کا خطبہ تو سن لیا لیکن نماز پڑھے بغیر میں بھاگ گیا۔ دوست کہنے لگا کیا ہوا؟ میں نے کہا تم نے مولوی کی بکواس نہیں سنی۔ کہنے لگا چھوڑو یہ باتیں تو کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد کہتے ہیں باہر نکلے تو ایک دکان پہ دیکھا کہ مولوی صاحب کھڑے شیزان پی رہے تھے۔ کہتے ہیں مجھ سے نہیں رہا گیا۔ میں نے مولوی صاحب سے پوچھا آپ تو ابھی شیزان کے خلاف بڑا کچھ بول کے آئے ہیں، اب خود پی رہے ہیں؟ کہتا ہے ڈاکٹر نے مجھے کہا ہے سکرین والا کوئی مشروب نہیں پینا۔ شیزان پینے کی ہدایت کی ہے۔ یہ خالص ہوتی ہے اس لیے میں دوائی سمجھ کے پیتا ہوں۔ تو میں نے کہا وہ ربوہ کی مٹی ملانے والی بات کیا ہوئی؟ تو قہقہے لگا کے مولوی صاحب کہتے کہ ایسے تڑکے نہ لگائیں تو ہماری دکانداری کیسے چلے؟ دکانداری کا الزام ہم پہ اور چلا اپنی دکانداری رہے ہیں۔ بہرحال ان کے بہت سارے ایسے واقعات ہیں۔ خلافت سے بے انتہا ان کا تعلق تھا۔ پھر اپنی اولاد اور اپنی نسل میں بھی اس تعلق کو منتقل کرنے کی انہوں نے کوشش کی اور جیساکہ میں نے کہا جماعت کے مشہور شاعر تھے اور اسی بات کو بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ جماعتی مشاعروں میں پڑھتے بھی تھے اور جماعت کے بارے میں ان کو بےشمار نظمیں لکھنے کا بھی موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر ہے

میاں رفیق احمد گوندل صاحب

یہ بھی گذشتہ دنوں اکاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت میاں خدا بخش صاحب گوندل آف کوٹ مومن کے ذریعہ ہوا۔ اپنے خاندان میں وہ اکیلے احمدی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب طاعون پھیلی ہے تو ان کو بھی طاعون کی گلٹیاں نکل آئیں۔ اب نشانات کا ذکر ہو رہا ہے تو یہاں ان کا یہ واقعہ بھی ایک نشان ہے۔ وہ اس کا علاج کروانے بھیرہ جایا کرتے تھے۔ بھیرے میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عبارت پڑھی کہ جو میری چاردیواری میں داخل ہو گا وہ بچایا جائے گا۔ وہ واپس گھر آئے اور بتایا کہ میں قادیان جا رہا ہوں۔ جب قادیان پہنچے تو وہاں مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما تھے اور کچھ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ کچھ بات کریں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی مصروفیت کی وجہ سے بول نہیں سکے۔ بہرحال جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فارغ ہوئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں آپؑ کی طاعون سے محفوظ رہنے والی بات کہ جو اس گھر کی چاردیواری میں داخل ہو گا وہ طاعون سے محفوظ رہے گا سن کر آپؑ سے ملنے آیا ہوں۔ بہرحال وہاں بات ہوئی تو انہوں نے بیعت کر لی اور بیعت کے بعد ان کی گلٹیاں بھی ٹھیک ہو گئیں۔ اس بات کو بھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان سمجھتے تھے اور بیان کیا کرتے تھے۔ خود میاں رفیق گوندل صاحب اور ان کے بیٹے کو ایک دفعہ طلبہ نے لاہور میں پکڑ لیا اور خوب مارا۔ جب لڑکے ان کے بیٹے کی پٹائی کر رہے تھے۔ یہ گھر سے باہر نکلے اور ان کو بچانے کی کوشش کی تو یہ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کا بازو بھی ٹوٹا تو بہرحال جماعت کی خاطر انہوں نے مار بھی کھائی۔ یہ ملک عمر علی صاحب کھوکھرکے داماد تھے اور ملک عمر علی صاحب کی پہلی اہلیہ حضرت میر اسحٰق صاحبؓ کی بیٹی تھیں تو ان کی اہلیہ حضرت میر اسحٰق صاحبؓ کی نواسی تھیں۔ ان کی اولاد میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا بیٹی امریکہ میں ہیں۔ ایک بیٹی ان کی رفعت سلطانہ ڈاکٹر مشہود احمد ہیں جو ربوہ فضل عمر ہسپتال میں کام کر رہے ہیں ان کی اہلیہ ہے۔

آپ کی اہلیہ نے لکھا کہ نمازوں اور تہجد کے پابند تھے۔ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

آخری ذکر

مکرمہ نسیمہ لئیق صاحبہ امریکہ

کا ہے۔ یہ مکرم سید لئیق احمد صاحب شہید ماڈل ٹاؤن لاہور کی اہلیہ تھیں۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ بھاگل پور ہندوستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد ابوالحسن صاحب احمدی نہیں تھے اور ان کی والدہ امة الوراع صاحبہ نے خود بیعت کی اوراحمدیت میں شامل ہوئیں۔ اس زمانے میں کم از کم یہ تھا کہ اگر عورتوں نے بیعت کی تو بعض خاوند ایسے شرفاء، شریف لوگ تھے جو عورتوں کو، اپنی بیویوں کو زور نہیں دیا کرتے تھے کہ کیوں احمدی ہوئی۔ بہرحال والدہ احمدی ہوئیں اور والدہ کے پختہ ایمان اور خلافت سے مضبوط تعلق کی وجہ سے بیٹیوں کی شادیاں بھی انہوں نے احمدی گھرانوں میں کیں۔ یہ سب بہنیں احمدی ہیں۔

ان کی بیٹی حمیرا صاحبہ امریکہ میں رہتی ہیں۔ کہتی ہیں جماعت اور خلافت کے ساتھ کامل طور پر وابستہ رہیں۔ اپنی زندگی دینی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی اور جماعت کے سچے جذبہ محبت اور انسانیت کی عکاسی کی۔ ان کا دل ہمدردی سے لبریز تھا، خاص طور پر نادار لوگوں کے لیے اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالنے کے لیے انتھک محنت کرنے والی تھیں۔

نزہت صاحبہ ان کی ایک بیٹی ہیں۔ یہ یہاں والسال یوکے میں رہتی ہیں۔ کہتی ہیں انتہائی مخلص، خلافت کی وفادار، نظام جماعت کی پابند تھیں۔ انتہائی نڈر خاتون جو حق بات کہنے والی اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹتی تھیں۔ بد رسومات اور بدعات کو سخت ناپسند کرتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی اس حوالے سے ہمیشہ تلقین کرتی تھیں کہ ایک احمدی مسلمان کو ہر طرح کی لغویات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان کے ایک بیٹے امریکہ میں ڈاکٹر ہیں وہ ہمارے دَوروں کے دوران ساتھ بھی رہتے ہیں۔ بڑے خدمت کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button