سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

’’اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں اپنے خدائے پاک کے یقینی
اورقطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں
‘‘

شرف مکالمہ ومخاطبہ

یہ زمین وآسمان، سورج،اورچشمہ ٔ خورشیدمیں لہریں مارتی ہوئی موجیں، یہ چانداور یہ چمکتے ہوئے ستارے،یہ کہکشائیں اور زمین پرآسمانوں سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ، پہاڑوں سے گرتے،اترتے جھرنے،بل کھاتی ہوئی ندیاں،چٹانوں سے سرپٹختے دریا، سمندر،گل وگلزار،یہاں تک کہ خوب رویوں کی ملاحت اور چشم مستِ ہرحسیں اور ہرگیسوئے خمدار کے ہاتھ ایک ہی طرف اٹھتے ہیں یہ سب ایک ہی ہستی کاتماشہ دکھا رہے ہیں اس مبدء الانوارہستی، اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِکا۔جوزمین وآسمان کانورہے۔ جو قرارہے ہربے چین دل کا۔اور مرہم ہے ہرزخم کا۔سہاراہے ہرکمزور کا اور امیدویقین ہے ہر ناامید کا۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کاپتا دیتاہے اور جب انسان اس کوبھولنے لگتاہے تو وہ اپنے رسول اور پیغمبربھیجتاہے جواس کاراستہ بتاتے ہیں جوان بیماروں کامسیحابن کرآتے ہیں۔ جب سے یہ کائنات بنی ہے اور انسانی معاشرہ وجودمیں آیاتب سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔اور اس سلسلہ کاسرخیل اور فخراور رسولوں کاتاج حضرت محمدمصطفیٰﷺسب سے آخرپرآئے جن کی زندگی کی ایک ایک سانس ہستی باری تعالیٰ کاثبوت تھی۔اور جن کاسب سے بڑا امتیازاور کمال یہ تھا کہ ان کی محبت اور اتباع میں فیضان کاایک ایساچشمہ جاری ہواکہ جو اب قیامت تک خشک نہیں ہوگا۔اور وہ خدا جوہرمذہب اور ہرمذہبی کتاب کے بقول اب خاموش ہوگیاتھا اب اس نبی خاتم الانبیاءؐ کے طفیل وہ بولتاہے جیسے پہلے بولتاتھا۔اور مکالمہ و مخاطبہ کاشرف ہراس کوملتاہے جونبی آخرالزمان کادم بھرتاہے۔اور اس دعوے کی سب سے بڑی دلیل اور نشان خداتعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودومہدی معہودکے وجود کو قراردیا۔ چنانچہ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت ﷺ سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے ہیں اور پیشگوئیوں کا تو شمار نہیں مگرہمیں ضرورت نہیں کہ ان گذشتہ معجزات کو پیش کریں۔ بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت ﷺ کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہوگئی اور معجزات نابود ہوگئے اور ان کی اُمّت خالی اور تہی دست ہے۔ صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت ﷺ کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ معجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کا ملینِ اُمّت جو شرفِ اتباع سے مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں۔ اِسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندۂ حضرتِ عزّت موجود ہے۔ اور اب تک میرے ہاتھ پر ہزارہا نشان تصدیقِ رسول اللہؐ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے پاک مکالمہ سے قریباً ہر روز مَیں مشرف ہوتا ہوں۔ اب ہوشیار ہو جاؤ اور سوچ کر دیکھ لو کہ جس حالت میں دنیا میں ہزارہا مذہب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں تو کیونکر ثابت ہو کہ وہ درحقیقت منجانب اللہ ہیں۔ آخر سچے مذہب کے لئے کوئی تو مابہ الامتیاز چاہئے اور صرف معقولیت کا دعویٰ کسی مذہب کے منجانب اللہ ہونے پر دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ معقول باتیں انسان بھی بیان کر سکتا ہے اور جو خدا محض انسانی دلائل سے پیدا ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہے بلکہ خدا وہ ہے جو اپنے تئیں قوی نشانوں کے ساتھ آپ ظاہر کرتا ہے۔ وہ مذہب جو محض خدا کی طرف سے ہے اس کے ثبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ منجانب اللہ ہونے کے نشان اور خدائی مُہر اپنے ساتھ رکھتا ہو۔تا معلوم ہو کہ وہ خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ہے۔ سو یہ مذہب اسلام ہے۔ وہ خدا جو پوشیدہ اور نہاں درنہاں ہے اسی مذہب کے ذریعہ سے اس کا پتہ لگتا ہے اور اسی مذہب کے حقیقی پیروؤں پر وہ ظاہر ہوتا ہے جو درحقیقت سچا مذہب ہے۔ سچے مذہب پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے کہ مَیں موجود ہوں۔ جن مذاہب کی محض قصّوں پر بناہے وہ بُت پرستی سے کم نہیں ان مذاہب میں کوئی سچائی کی رُوح نہیں ہے۔ اگر خدا اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے تھا اور اگر وہ اب بھی بولتا اور سنتا ہے جیسا کہ پہلے تھا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس زمانہ میں ایسا چپ ہو جائے کہ گویا موجود نہیں۔ اگر وہ اس زمانہ میں بولتا نہیں تو یقیناً وہ اب سنتا بھی نہیں گویا اب کچھ بھی نہیں۔ سو سچا وہی مذہب ہے کہ جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سُننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے۔ غرض سچّے مذہب میں خداتعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے۔ خدا شناسی ایک نہایت مشکل کام ہے دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتہ لگاویں کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے۔ اور ہونا چاہے اور ہے میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ پس اس وجود کا واقعی طور پر پتہ دینے والا صرف قرآن شریف ہے جو صرف خدا شناسی کی تاکید نہیں کرتا بلکہ آپ دکھلا دیتا ہے۔ اور کوئی کتاب آسمان کے نیچے ایسی نہیں ہے کہ اس پوشیدہ وجودکا پتہ دے۔

مذہب سے غرض کیا ہے !!بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفاتِ کاملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پاجاوے اورخدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالمِ آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہوگا۔ اور حقیقی خدا سے بےخبر رہنا اور اس سے دُور رہنا اور سچّی محبت اُس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنّم ہے جو عالم آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا اور اصل مقصود اس راہ میں یہ ہے کہ اس خدا کی ہستی پر پورا یقین حاصل ہو اور پھر پوری محبت ہو۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کونسا مذہب اور کونسی کتاب ہے جس کے ذریعہ سے یہ غرض حاصل ہو سکتی ہے۔ انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کرنے کی راہیں مسدود ہیں۔ اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اور آگے کچھ نہیں مگر تعجب کہ وہ خدا جو اب تک اس زمانہ میں بھی سُنتا ہے وہ اس زمانہ میں بولنے سے کیوں عاجزہوگیا ہے؟ کیا ہم اس اعتقاد پر تسلّی پکڑ سکتے ہیں کہ پہلے کسی زمانہ میں وہ بولتا بھی تھا اور سُنتا بھی تھامگر اب وہ صرف سُنتا ہے مگر بولتا نہیں۔ ایسا خدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڈھا ہو کر بعض قویٰ اس کے بیکار ہو جاتے ہیں۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے بعض قویٰ اس کے بھی بیکارہوگئے۔ اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب تک ٹکٹکی سے باندھ کر اس کو کوڑے نہ لگیں اوراُس کے منہ پر نہ تھوکا جائے اور چندروز اس کو حوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا۔ہم تو ایسے خدا سے سخت بیزار ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آگئی۔ ہم اس خدا کو سچا خدا جانتے ہیں جس نے ایک مکّہ کے غریب بیکس کواپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا یہاں تک کہ جب شاہِ ایران نے ہمارے نبی ﷺ کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہہ دے کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف ایک شخص خدائی کا دعویٰ کرتا ہے اور اخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دُعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور خدا اس کے مقابلہ پر باشادہوں کو ہلاک کرتا ہے۔ یہ مقولہ طالب حق کے لئے نہایت نافع ہے کہ’’یار غالب شوکہ تا غالب شوی‘‘۔ ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے۔ ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتاب ہے۔ اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خدا ہے۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں اپنے خدائے پاک کے یقینی اورقطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں اور وہ خدا جس کو یسوع مسیح کہتا ہے کہ تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اُس نے مجھے نہیں چھوڑا۔ اور مسیحؑ کی طرح میرے پر بھی بہت حملے ہوئے مگر ہر ایک حملہ میں دشمن ناکام رہے۔ اور مجھے پھانسی دینے کے لئے منصوبہ کیا گیا مگر مَیں مسیح کی طرح صلیب پر نہیں چڑھا بلکہ ہر ایک بلا کے وقت میرے خدا نے مجھے بچایا اور میرے لئے اس نے بڑےبڑے معجزات دکھلائے اور بڑے بڑے قوی ہاتھ دکھلائے اور ہزارہا نشانوں سے اس نے مجھ پر ثابت کر دیا کہ خدا وہی خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا اور جس نے آنحضرت ﷺ کو بھیجا۔ اور مَیں عیسیٰ مسیحؑ کو ہرگز ان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا۔ یعنی جیسے اس پر خدا کا کلام نازل ہوا ایسا ہی مجھ پر بھی ہوا اور جیسے اس کی نسبت معجزات منسوب کئے جاتے ہیں مَیں یقینی طور پر ان معجزات کا مصداق اپنے نفس کو دیکھتا ہوں۔ بلکہ ان سے زیادہ۔ اور یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سےدنیا بے خبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمدمصطفٰیﷺ۔ یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اورنادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسٰیؑ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کے علامات آنحضرت ﷺ کے وجود میں پاتا ہوں۔ وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس کے نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحی الٰہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے ہمارے پر محض اسی نبیؐ کی برکت سے کھولا گیا۔ اور وہ معجزات جو غیر قومیں صرف قصوں اور کہانیوں کے طور پر بیان کرتے ہیں ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لئے۔ اور ہم نے اس نبی ؐکا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں۔ مگر تعجّب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔ مجھے کہتے ہیں کہ مسیح موعودؑ ہونے کا کیوں دعویٰ کیا۔ مگر مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نبی کی کامل پیروی سے ایک شخص عیسٰیؑ سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ اندھے کہتے ہیں یہ کفر ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خود ایمان سے بے نصیب ہو پھر کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے۔ کفر خود تمہارے اندر ہے۔ اگر تم جانتے کہ اس آیت کے کیا معنے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْتو ایسا کفر مُنہ پر نہ لاتے۔ خدا تو تمہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسولؐ کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو۔ اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر جانتے ہو۔‘‘(چشمۂ مسیحی،روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۳۵۰تا۳۵۵)

حضرت اقدس بانیٴ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام وہ خدانما وجودتھے کہ آپؑ کے دعویٰ سے پہلے کی زندگی بھی ایسی زندگی تھی کہ جو فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ(یونس:۱۷)کی مصداق تھی۔خدااوراس کے رسول ﷺ سے محبت توگویاآپ کوماں کے دودھ میں پلائی گئی تھی بلکہ یوں کہناچاہیے کہ دودھ کی جگہ یہ محبت ہی آپ کوپلائی گئی تھی۔حضرت اقدسؑ اسی محبت کاذکرکرتے ہوئے ایک جگہ تحریرفرماتے ہیں:’’وکل ذالک من حبی بالقرآن وحب سیدی وامامی سید المرسلین، اللّٰہم صل وسلم علیہ بعدد نجوم السماوات وذرات الارضین۔ ومن اجل ھذا الحب الذی کان فی فطرتی کان اللّٰہ معی من اول امری حین ولدت وحین کنت ضریعا عند ظئری وحین کنت أقرأ فی المتعلمین۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۵۴۷)

اورمحبت الٰہی کایہ مقام شرف مکالمہ ومخاطبہ یہ سب کچھ میری محبت قرآن اور سیدی وامامی سیدالمرسلین ﷺ سے محبت کی وجہ سے ہے۔اے اللہ توحضرت محمدﷺ پر آسمانوں کے ستاروں اور زمین کے ذروں کی تعدادکے برابررحمتیں اور درودنازل فرما۔ اوراسی محبت کی وجہ سے جوکہ میری فطرت ہی تھی اللہ تعالیٰ میرے ساتھ رہا،میرے ابتدا میں کہ جب میں پیداہوا اور جب میں دودھ پلانے والیوں کی گودمیں دودھ پیتاتھا اور تب بھی کہ جب میں ابتدائی تعلیم پانے کے لیے اپنے دوسرے متعلمین ہم جولیوں کے ساتھ تھا۔ (باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button