خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ نومبر 2023ء

جو معاہدہ ہجرت کے بعد مسلمانوں اوریہود کے درمیان ہوا اس کی رُوسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہیں تھی بلکہ آپؐ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جومدینے میں قائم ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور اُمور سیاسی میں جو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں

اس وقت کے رائج قانون یا طریق کے مطابق کعب سے جو سلوک ہوا اس پر یہودیوں کا خاموش رہنا بتاتا ہے کہ انہوں نے اس سزا اور اس سلوک کو تسلیم کیا۔ پس تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پرالزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے

یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہوجاوے بجائے اس کے کہ بہت سے پُرامن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اورملک کا امن برباد ہو

عمر! کچھ فکر نہ کرو۔ خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کوعثمان و ابوبکرؓ کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح اپنی اولاد حضرت فاطمہؓ سے بہت محبت تھی اسی طرح حضرت فاطمہ ؓکی اولاد سے بھی آپؐ کو خاص محبت تھی۔ کئی دفعہ فرماتے تھے کہ خدایا! مجھے ان بچوں سے محبت ہے تُو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والوں سے محبت کر

فرات بن حیان کے قبولِ اسلام کی تفصیلات، کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ، اس میں حکمت اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات

اُمّ المومنین حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے نبی اکرمﷺ سے نکاح اور
حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے ہاں نواسۂ نبیﷺ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش کا تذکرہ

فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرّر تحریک

لگتا ہے کہ اب دنیا اپنی تباہی کو قریب تر لے کے آ رہی ہے اور اس تباہی کے بعد جو لوگ بچیں گے انہیں اللہ تعالیٰ عقل دے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا کریں اور اس کی طرف لَوٹ کر آئیں۔ بہرحال ہمیں اس حوالے سے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم فرمائے

یو این کے سیکرٹری جنرل بھی اچھا بولتے ہیں آجکل تو وہ زیادہ اچھا بول رہے ہیں لیکن ان کی آواز کی لگتا ہے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے بعد یا اگر یہ مزید پھیل گئی اور عالمی جنگ کی صورت اختیار کر لی تو یواین کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 17؍نومبر2023ء بمطابق 17؍نبوت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبہ کے آخر پر جو تاریخ بیان ہو رہی تھی یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان ہورہی تھی اس کے ضمن میں

فرات بن حیان کے قبول اسلام

کا بھی ذکر ہوا تھا۔ اس کے قبول اسلام کی

مزید تفصیل

یہ ہے کہ یہ گرفتار ہو کر قیدیوں میں تھا جیساکہ گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔ غزوۂ بدر کے روز بھی وہ زخمی ہوا تھا تاہم کسی طرح قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب پھر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار تھا۔ حضرت ابوبکرؓاسے دیکھتے ہی کہنے لگے: اب بھی تم اپنے طرز عمل کو نہیں بدلو گے؟ فرات بولا اگر اس دفعہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بچ کر نکل گیا تو پھر میں قابو نہ آؤں گا۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے پھر اسلام قبول کر لو۔ اگر تم نے بچ کے نکلنا ہی ہے تو ایک ہی طریقہ ہے کہ پھر اسلام قبول کر لو۔ بہرحال فرات بن حیان حضرت ابوبکرؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا۔ اپنے ایک انصاری دوست کے پاس سے گزرتے ہوئے کہنے لگا کہ مَیں تو مسلمان ہوں۔ انصاری صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا۔ إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالًا نَكِلُهُمْ إِلٰى إِيْمَانِهِمْ کہ بلا شبہ تم میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ہم ان کے ایمان کے حوالے کرتے ہیں۔ اگر یہ کہتا ہے کہ میں نے اسلام قبول کر لیاہے تو ٹھیک ہے۔ پھر اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پہ اسے رہا کر دیا۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد 6صفحہ 398،مکتبہ دارالمعارف لاہور)

(الاصابہ جلد 5 صفحہ 273 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)

تفصیل میں ایک یہ بھی ہے کہ

حضرت زید بن حارثہؓ کا ایک سریہ

جمادی الآخر سنہ ۳ ہجری میں قردہ کے مقام کی طرف بھیجا گیا تھا۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں اسی واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ بنو سُلَیم اوربنو غطفان کے حملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اَورخطرہ کے سدّباب کے لیے وطن سے نکلنا پڑا۔ اب تک قریش اپنی شمالی تجارت کے لیے عموماً حجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن اب انہوں نے یہ راستہ ترک کر دیا کیونکہ اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے اورقریش کے لیے شرارت کا موقع کم تھا بلکہ ایسے حالات میں وہ اس ساحلی راستے کو خود اپنے لیے خطرے کا موجب سمجھتے تھے۔ صرف یہی وجہ نہیں تھی کہ مسلمانوں سے خطرہ تھا بلکہ وہ خود جو حرکتیں کرنا چاہتے تھے، اب ان کا خیال تھا کہ ان قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے وہ ہم نہیں کر سکیں گے اور مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ بہرحال اب انہوں نے اس راستے کو ترک کرکے نجدی راستہ اختیار کر لیا جو عراق کو جاتا تھا اور جس کے آس پاس قریش کے حلیف اور مسلمانوں کے جانی دشمن تھے۔ پہلے رستے وہ تھے جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوا تھا اور اس رستے پر جس کو قریش نے اختیار کیا وہاں ان کے اپنے معاہدے والے تھے اور وہ لوگ اور قبائل آباد تھے جو مسلمانوں کے بھی جانی دشمن تھے جو قبائل سلیم اور غطفان تھے۔ چنانچہ جمادی الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ کاایک تجارتی قافلہ نجدی راستہ سے گزرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگرقریش کے قافلوں کاساحلی راستے سے گزرنا مسلمانوں کے لیے موجب خطرہ تھا تو نجدی راستے سے ان کا گزرنا ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر اندیشہ ناک تھا کیونکہ برخلاف ساحلی راستے کے، اس راستے پرقریش کے حلیف آباد تھے جو قریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اورجن کے ساتھ مل کر قریش بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ میں خفیہ چھاپہ مار سکتے تھے یاکوئی شرارت کرسکتے تھے اورپھر قریش کوکمزور کرنے اورانہیں صلح جوئی کی طرف مائل کرنے کی غرض کے ماتحت بھی ضروری تھا کہ اس راستہ پربھی ان کے قافلوں کی روک تھام کی جاوے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کے ملتے ہی اپنے آزادکردہ غلام زید بن حارثہؓ کی سرداری میں اپنے صحابہؓ کاایک دستہ روانہ فرمادیا۔

قریش کے اس تجارتی قافلے میں ابو سفیان بن حرب اورصفوان بن امیہ جیسے رئوساء بھی موجود تھے۔زید نے نہایت چستی اورہوشیاری سے اپنے فرض کوادا کیا اورنجد کے مقام قردہ میں ان دشمنانِ اسلام کو جا پکڑا۔ اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر قریش کے لوگ قافلہ کے اموال اور جو بھی ان کا مال تھا اس کوچھوڑ کربھاگ گئے اور زید بن حارثہؓ اوران کے ساتھی ایک کثیر مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ میں کامیاب و کامران واپس آئے۔

بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قریش کے اس قافلہ کاراہبر ایک فرات نامی شخص تھاجومسلمانوں کے ہاتھ قید ہوا اور مسلمان ہونے پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاسوس تھا مگر بعد میں مسلمان ہوکرمدینہ میں ہجرت کرکے آگیا۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 465-466)

ایک واقعہ انہی دنوں میں کعب بن اشرف کے قتل کا ہے۔

کعب بن اشرف مدینے کے سرداروں میں سے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدہ میں شامل تھا لیکن معاہدہ کر کے بعد میں اس نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی اور اس کے قتل کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔

بخاری میں اس واقعہ کی تفصیلات یوں درج ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف سے کون نپٹے گا؟ اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کو سخت دکھ دیا ہے۔ محمد بن مسلمہؓ کھڑے ہو گئے کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے مار ڈالوں ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں! چنانچہ محمد بن مسلمہؓ کعب کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ اس شخص نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے ہمیں مشقّت میں ڈال دیا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کر کے کہا کہ آپؐ نے ان سے صدقہ مانگا ہے اور مشقت میں ڈال دیا ہے۔ میں تمہارے پاس آیا ہوں تم سے ادھار لوں۔ اس نے کہا بخدا! تم اس سے اکتا جاؤ گے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اکتا جاؤ گے اور پیچھے ہٹ جاؤ گے۔ بہرحال محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ چونکہ ہم نے اس کی پیروی اختیار کر لی ہے اس لیے ہم پسند نہیں کرتے کہ اسے چھوڑ دیں یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں ایک یا دو وسق ہمیں ادھار دو۔ کعب نے کہا اچھا! میرے پاس کچھ رہن رکھو۔ انہوں نے کہا تم کیا شے چاہتے ہو؟ کعب نے یہ کہا کہ اپنی عورتیں میرے پاس رہن رکھو۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس اپنی عورتیں کیسے رہن رکھیں جبکہ تم عربوں میں سب سے زیادہ خوبصورت ہو۔ اس نے کہا پھر اپنے بیٹے میرے پاس رہن رکھو۔ انہوں نے کہا ہم تمہارے پاس اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھیں۔ ان میں سے ہر ایک کو طعنہ دیا جائے گا، کہا جائے گا کہ وہ ایک یا دو وسق کے لیے رہن رکھے گئے تھے۔ یہ ہمارے لیے عار ہے لیکن ہم تمہارے پاس اپنی زرہیں رہن رکھتے ہیں۔ زرہوں سے مراد یہاں جنگی سامان بھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے کعب سے پھر اس کے پاس آنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ وہ اس کے پاس رات کو آئے اور ان کے ساتھ ابو نائلہ بھی تھے جو کعب کے رضاعی بھائی تھے۔ اس نے انہیں قلعہ میں بلایا اور وہ ان کے پاس قلعہ میں جب چلے گئے تو وہ اپنے بالاخانہ سے نیچے اترا۔ اس کی بیوی اس سے کہنے لگی کہ اس وقت تم کہاں جاتے ہو؟ کعب نے کہا یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے بھائی ابونائلہ ہیں۔ انہوں نے بلایا ہے۔ ان کے پاس جارہا ہوں۔ اس کی بیوی نے کہا مَیں ایسی آواز سنتی ہوں کہ گویا جس سے خون ٹپک رہا ہے۔ کعب بولا کہ معزز آدمی کو رات کے وقت حملے کے لیے بھی بلایا جائے تو وہ ضرور جائے گا۔ بہرحال محمد بن مسلمہؓ اپنے ساتھ دو آدمی بھی لے گئے تھے۔ محمد بن مسلمہؓ نے ان آدمیوں کو کہا کہ جب کعب آئے تو میں اس کے بال پکڑوں گا اور اسے سونگھوں گا۔ جب تم دیکھو کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو تم بڑھ کر اس کا کام تمام کر دینا۔ چنانچہ کعب ان کے پاس چادر لپیٹے ہوئے نیچے آیا اور اس سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا۔ آج جیسی خوشبو تو میں نے کہیں نہیںپائی یعنی بہترین خوشبو ہے۔ کعب نے کہا میرے پاس عرب کی عورتوں میں سے سب سے زیادہ معطر ہیں اور سب سے زیادہ خوبصورت۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ تمہارے سر کو سونگھوں ؟ اس نے کہا ہاں تو انہوں نے اس کو سونگھا پھر اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔ پھر کہا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں پھر جب محمد بن مسلمہؓ نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو اپنے ساتھیوں کو کہا کہ تم اس کو پکڑو اور انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو بتایا۔

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف روایت 4037)

کعب کے زخمی ہونے کی مزید تفصیل بخاری کی شرح عمدة القاری میں یہ لکھی ہے کہ محمد بن مسلمہؓ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب کعب بن اشرف پر حملہ کیا اور اس کو قتل کر دیا تو ان کے ایک ساتھی حضرت حارث بن اوسؓ کو تلوار کی نوک لگی اور وہ زخمی ہو گئے۔ اپنے ساتھیوں کی تلوار کی نوک سے زخمی ہوئے تھے۔ چنانچہ آپؓ کے ساتھی انہیں اٹھا کر تیزی سے مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن اوسؓ کے زخم پر اپنا لعاب لگایا اور اس کے بعد انہیں تکلیف نہیں ہوئی۔

(عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 192 کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت 2003ء)

کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ سیرت خاتم النبیینؓ میں جو لکھا گیا ہے وہ اس طرح ہے جس کا اس وقت میں یہاںمختصر بیان کروں گا۔بدر کی جنگ نے جس طرح مدینہ کے یہودیوں کی دلی عداوت کوظاہر کردیا تھا اور بنو قینقاع کی جلاوطنی بھی دوسرے یہودیوں کو اصلاح کی طرف مائل نہ کرسکی تھی اوروہ اپنی شرارتوں اورفتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے۔ چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ کعب گو مذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا بلکہ عرب تھا۔ اس کا باپ اشرف بنونبہانکاایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینے میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کیے۔ ان کا حلیف بن گیا اوربالآخر اس نے اتنا اقتدار اوررسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنونضیر کے رئیس اعظم ابورافع بن ابو الْحُقَیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی۔ اس لڑکی کے بطن سے کعب پیداہواجس نے بڑے ہوکر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا۔ حتی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگ گئے۔ کعب ایک وجیہ اورشکیل شخص ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعر اور نہایت دولتمند آدمی تھا۔ ہمیشہ اپنی قوم کے علماء اوردوسرے ذی اثر لوگوں کواپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا مگر اخلاقی نکتۂ نظرسے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا۔کوئی برائی ایسی نہیں تھی جو اس میں نہ ہو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہجرت کرکے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدہ میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن وامان اورمشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا۔ ظاہرا ًتو یہ معاہدہ اس نے کیامگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگی اوراس نے خفیہ چالوں اورمخفی ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہرسال یہودی علماءومشائخ کو بہت سی خیرات کر دیا کرتا تھا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لیے اس کے پاس آئےتواس نے باتوں باتوں میں ان کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شروع کر دیا اوران سے آپؐ کے متعلق مذہبی کتب کی بنا پر رائے دریافت کی۔ تو انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں توریت میں وعدہ دیا گیا ہے۔ کعب اس جواب پر بڑا بگڑگیا اورسب کوبڑا سخت سست کہا اور برا بھلا کہا اور رخصت کر دیا۔ اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھا وہ نہ دی۔ یہودی علماء کی جب روزی بند ہو گئی توکچھ عرصہ کے بعد پھر کعب کے پاس گئے اورکہا کہ ہمیں علامات سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی ہم نے دوبارہ غور کیا ہے۔ دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ اس جواب سے پھر کعب کامطلب حل ہوگیا اوراس نے خوش ہوکر ان کو سالانہ خیرات دے دی۔ بہرحال یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی جو گو ناگوار صورت میں کی گئی لیکن قابل اعتراض نہیں ہوسکتی تھی کہ اس پر سزا ملے اورنہ اس بنا پرکعب کو زیر الزام سمجھا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی اوربالآخر جنگِ بدر کے بعد تواس نے ایسا روّیہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے۔ دراصل بدر سے پہلے کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کا جوشِ ایمان ایک عارضی چیز ہے اورآہستہ آہستہ یہ سب لوگ خود بخود منتشر ہو کر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ آئیں گے لیکن

جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کو غیر متوقع فتح نصیب ہوئی اور رئوسائے قریش اکثر مارے گئے تواس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا۔ چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اورتباہ وبرباد کرنے میں صرف کر دینے کا تہیہ کر لیا۔

اس کے دلی بغض اورحسد کاسب سے پہلا اظہار اس موقع پر ہوا جب بدر کی فتح کی خبر مدینہ میںپہنچی تو اس خبر کو سن کر کعب نے علیٰ رئوس الاشہادیہ کہہ دیا، بڑا کھل کےگواہی دیتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ خبر بالکل جھوٹی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوقریش کے ایسے بڑے لشکر پر فتح حاصل ہو اور مکہ کے اتنے نامور رئیس خاک میں مل جائیں اور اگر یہ خبر سچ ہے توپھراس زندگی سے مرنا بہتر ہے۔ بہرحال جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی اور کعب کو یہ یقین ہوگیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کووہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ تھا تو وہ غیض وغضب سے بھر گیا اور فوراً سفر کی تیاری کرکے اس نے مکہ کی راہ لی۔ وہاں جاکر اپنی چرب زبانی اورشعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بارکر دیا اور آگ بھڑکائی۔ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی۔ ان کے سینے جذباتِ انتقام وعداوت سے بھر دیے۔ اورجب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجلی پیدا ہو گئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اورکعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اوربانیٔ اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ مکہ میں یہ آتش فشاں فضاپیدا کرکے اس بدبخت نے دوسرے قبائل کا رخ کیا اورقوم بقوم پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا۔ پھر مدینہ میں واپس آکر اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اورفحش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا۔ حتی کہ خاندان نبوت کی مستورات کوبھی اپنےاوباشانہ اشعار کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا اور ملک میں ان اشعار کا چرچا کروایا۔ بالآخر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپؐ کوکسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نوجوان یہودیوں سے آپؐ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا مگر خدا کے فضل سے اس کی وقت پر اطلاع ہو گئی اوراس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔

جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اورکعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریکِ جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اورسازش قتل کے الزامات پایہ ثبوت کوپہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوامی معاہدہ کی رُو سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ سے ہوا تھا، آپؐ مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکمِ اعلیٰ تھے۔ آپؐ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اوراپنے بعض صحابیوں کوارشاد فرمایا کہ اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینے کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طورپہ اعلان کرکے اسے قتل کیا جاتا تومدینہ میں ایک خطرناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کا احتمال تھا۔ جس میں نہ معلوم کتنا کشت وخون ہونا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ممکن اور جائز قربانی کرکے بین الاقوامی کشت وخون کو روکنا چاہتے تھے کہ مسلمان اور یہودی دونوں آپس میں لڑ مر کر نقصان نہ پہنچائیں، ایک دوسرے سےمارےنہ جائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کوبرملاطورپر قتل نہ کیا جائے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپؐ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہؓ کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذؓ کے مشورہ سے کریں۔ محمد بن مسلمہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لیے توکوئی بات کہنی ہو گی۔ یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گا جس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کرکسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جا سکے۔ آپؐ نے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جواس موقع پر ایک خاموش سزا کے طریق کو چھوڑنے سے پیدا ہوسکتے تھے فرمایا کہ اچھا۔ چنانچہ محمد بن مسلمہؓ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابونائلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور کعب کواس کے اندرون خانہ سے بلاکر کہا کہ ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے صدقہ مانگا ہےاورہم تنگ حال ہیں۔ کیاتم مہربانی کرکے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو؟ یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا۔ کہنے لگا۔ واللہ! ابھی کیا ہے۔ وہ دن دُور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہوکر اسے چھوڑ دو گے۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے جواب دیا کہ خیر! ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرچکے ہیں اوراب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مگر تم یہ بتائو کہ قرض دوگے یا نہیں ؟ کعب نے کہا کہ ہاں اگرکوئی چیز رہن رکھو۔ اور اس نے پہلے عورتوں پھر بیٹوں کے رہن رکھنے کا کہا جیسا کہ ابھی بخاری کے حوالے سے میں نے بیان کیا ہے اور آخر پر ان کے ہتھیار رہن رکھنے پر کعب راضی ہو گیا۔ اور محمد بن مسلمہؓ اور ان کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے گئے۔ جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر کعب کے مکان پر پہنچے اور اس کو گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف لے آئے۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے اس کو قابو کر کے وہ صحابہؓ جو پہلے ہتھیار بند تھے انہوں نے تلوار چلائی اور اسے قتل کر دیا۔ بہرحال کعب قتل ہوکر گرا اور محمد بن مسلمہؓ اوران کے ساتھی وہاں سے رخصت ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور آپؐ کو اس قتل کی اطلاع دی۔

جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اوریہودی لوگ سخت جوش میں آگئے۔ دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا تھا اور پھر آپؐ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہدشکنی،تحریک جنگ اورفتنہ انگیزی اورفحش گوئی اور سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں۔ جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ کم از کم آئندہ کے لیے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اورفتنہ و فساد کابیج نہ بوئو۔ چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اورفتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیا اوریہ عہدنامہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپردگی میں دے دیا گیا۔

تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پرالزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔ پس اس وقت کے رائج قانون یا طریق کے مطابق کعب سے جو سلوک ہوا اس پر یہودیوں کا خاموش رہنا بتاتا ہے کہ انہوں نے اس سزا اور اس سلوک کو تسلیم کیا۔

بعض مؤرخین بعد میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ناجائز قتل کروایا اور یہ غلط چیز تھی۔ واضح ہو کہ یہ ناجائز قتل نہیں تھا کیونکہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن کا معاہدہ کر چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تودرکنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہربیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی مددکرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا۔ اس نے اس معاہدہ کی رُو سے یہ بھی تسلیم کیاتھا کہ جو رنگ مدینہ میں جمہوری سلطنت کاقائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدرہوں گے اورہرقسم کے تنازعات وغیرہ میں آپؐ کا فیصلہ سب کے لیے واجب القبول ہو گا۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدہ کے تحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپؐ ان میں احکام جاری فرماتے تھے۔ اب ان حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہدوپیمان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چھوڑ دیا، عمل نہ کیا اور مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی۔ یہاں مسلمانوں سے غداری کا سوال نہیں ہے۔ اس نے حکومت وقت سے غداری کی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سربراہ حکومت تھے اورمدینہ میں فتنہ وفساد کا بیج بویا اورملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طورپر ابھارا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کیے۔ یہ سب کچھ ایسی حالت میں کیا کہ مسلمان جوپہلے ہی چاروں طرف سے مصائب میں گرفتار تھے ان کے لیے سخت مشکل حالات پیدا کر دیے اور ان حالات میں کعب کا جرم بلکہ بہت سے جرموں کا مجموعہ ایسا نہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم نہ اٹھایا جاتا؟ چنانچہ یہ قدم اٹھایا گیا اور آجکل کے مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اورعہد شکنی اور اشتعال جنگ اور سازش کے جرموں میں مجرموںکوقتل کی سزا دی جاتی ہے پھر اعتراض کس چیز کا۔ بلکہ آجکل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان میں جو ہو رہا ہے۔ وہ تو بہت بڑھ کے ہو رہا ہے اور بہرحال کئی لحاظ سے جائز بھی نہیں ۔

پھر

دوسرا سوال قتل کے طریق کا ہے۔

رات کو مارا گیا ہے تو اس کو خاموشی سے کیوں قتل کیا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہیں تھی۔ ایک سربراہ تو مقرر کر لیا تھا لیکن صرف اسی کا فیصلہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اگر اپنے اپنے فیصلے کرنا چاہے تو ہرشخص اورہرقبیلہ آزاداورخود مختار بھی تھا۔ مجموعی طور پر مشترکہ فیصلے ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور اگر اپنے طور پر قبیلوں نے کرنے ہوتے تو وہ بھی ہوتے تھے۔ تو ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کرکے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟ کیا یہود کے پاس شکایت کی جاتی جن کا وہ سردار تھا اور جو خود مسلمانوں سے غداری کرچکے تھے، آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے؟اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہود کے پاس جایا جاتا۔ قبائلِ سُلَیم اور غطفان سے دادرسی چاہی جاتی جو گذشتہ ماہ میں تین چار دفعہ مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاری کرچکے تھے؟ وہ بھی ان کے قبیلے تھے تو ظاہر ہے کہ ان سے بھی کوئی انصاف نہیں ملنا تھا۔ بہرحال اس وقت کی حالت پر غورکرو اور پھر سوچو کہ مسلمانوں کے لیے سوائے اس کے وہ کون سا راستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اورتحریک جنگ اور فتنہ پردازی اور سازش قتل کی وجہ سے اس کی زندگی کو اپنے لیے اورملک کے امن کے لیے خطرہ پاتے توخود حفاظتی کے خیال سے موقع پاکر اسےقتل کردیتے کیونکہ

یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہوجاوے بجائے اس کے کہ بہت سے پُرامن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اورملک کا امن برباد ہو۔

اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ فتنہ قتل سے بڑا ہے۔بہرحال

اس معاہدہ کی رُوسے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اوریہود کے درمیان ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہیں تھی بلکہ آپؐ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جومدینے میں قائم ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور اُمور سیاسی میں جو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔

پس اگر آپؐ نے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی اس لیے تیرہ سو سال بعد اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا اعتراض جو آجکل کے orientalistsکرتے ہیں، مستشرقین کرتے ہیں یہ بودہ ہے کیونکہ اس وقت تو یہودیوں نے آپؐ کی بات سن کر اس پر کوئی اعتراض نہیں کیاتھا۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 466تا 472)

اسی عرصہ میں

حضرت حفصہ بنت عمرؓ کی دوسری شادی

بھی ہوئی۔ حضرت حفصہ ؓحضرت عمرؓ کی بیٹی تھیں اور ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت حفصہؓ کے شوہر جنگِ بدر میں شریک ہوئے اور جنگ سے واپسی پر بیمار ہو کر انتقال کر گئے تو بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ کے ساتھ شادی کی۔

اس کی تفصیل بخاری میں یوں درج ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ جب حضرت حفصہ بنت عمرؓ خُنَیْس بن حُذَافَہ سَہْمِیؓ سے بیوہ ہوئیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے تھے اور بدر میں شریک تھے۔ مدینہ میں انہوں نے وفات پائی تو روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہاکہ میں حضرت عثمان بن عفانؓ سے ملا۔ ان کے پاس حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپؓ چاہیں تو حفصہ بنت عمرؓ کا نکاح آپؓ سے کر دوں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا میں اپنے اس معاملے پر غور کروں گا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں چنانچہ میں کئی روز تک ٹھہرا رہا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کچھ دنوں کے بعد کہا کہ مجھے یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے پھر میں حضرت ابوبکرؓ سے ملا کہ اگر آپؓ چاہیں تو میں حفصہ بنت عمرؓ کا نکاح آپؓ سے کر دوں۔ حضرت ابوبکرؓ خاموش ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا اور حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ عثمانؓ کی نسبت میں نے ان سے زیادہ محسوس کیا یعنی احساس زیادہ ہوا کہ انہوں نے بھی انکار کر دیا۔ کہتے ہیں پھر میں کچھ دن ٹھہرا رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے آپؐ سے ان کا نکاح کر دیا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب، حدیث 4005)

سیرت خاتم النبیینؓ میں اس واقعہ کو یوں لکھا ہے کہ’’حضرت عمر بن خطابؓ کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہ تھا۔ وہ خُنَیسبن حُذَافہ کے عقد میں تھیں جوایک مخلص صحابی تھے اورجنگِ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خُنَیس بیمارہوگئے اوراس بیماری سے جانبر نہ ہوسکے۔ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓکو حفصہ کے نکاح ثانی کافکر دامن گیر ہوا۔ اس وقت حفصہ کی عمر بیس سال سے اوپر تھی۔ حضرت عمرؓنے اپنی فطرتی سادگی میں خود عثمان بن عفان سے مل کر ان سے ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ اب بیوہ ہے۔ آپؓ اگرپسند کریں تواس کے ساتھ شادی کر لیں مگر حضرت عثمانؓ نے ٹال دیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓسے ذکر کیا لیکن حضرت ابوبکرؓنے بھی خاموشی اختیار کی اورکوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر حضرت عمرؓکو بہت ملال ہوا اور انہوں نے اسی ملال کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے ساری سرگزشت عرض کر دی۔ آپؐ نے فرمایا۔

عمر! کچھ فکر نہ کرو۔ خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کوعثمان و ابوبکرؓ کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔

یہ آپؐ نے اس لیے فرمایا کہ آپؐ حفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثومؓ کوحضرت عثمانؓ کے ساتھ بیاہ کر دینے کاارادہ کرچکے تھے جس سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ دونوں کواطلاع تھی اور اسی لیے انہوں نے حضرت عمرؓ کی تجویز کوٹال دیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے اپنی صاحبزادی ام کلثوم ؓکی شادی فرما دی … اوراس کے بعد آپؐ نے خود اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کو حفصہ کے لیے پیغام بھیجا۔ حضرت عمرؓ کو اس سے بڑھ کر اَور کیا چاہئے تھا۔ انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اورشعبان ۳ھ میں حضرت حفصہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر حرم نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔ جب یہ رشتہ ہوگیا تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ شاید آپؓ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہو۔ بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے اطلاع تھی لیکن میں آپؐ کی اجازت کے بغیر آپؐ کے راز کو ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں اگر آپؐ کا یہ ارادہ نہ ہوتا تومیں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کر لیتا۔

حفصہ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں جوگویا حضرت ابوبکرؓکے بعد تمام صحابہؓ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرّبین خاص میں سے تھے۔ پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمرؓاورحفصہ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جو خُنَیس بن حُذَافہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ حفصہ سے خود شادی فرما لیں اوردوسری عام مصلحت یہ مدنظر تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی اتنا ہی عورتوں میں جو بنی نوع انسان کا نصف حصہ بلکہ بعض جہات سے نصف بہتر حصہ ہیں دعوت وتبلیغ اورتعلیم و تربیت کاکام زیادہ وسیع پیمانے پر اورزیادہ آسانی اورزیادہ خوبی کے ساتھ ہو سکے گا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 477-478)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ ’’حضرت حفصہؓ کی عمرشادی کے وقت قریباً اکیس سال تھی اور بوجہ اس کے کہ حضرت عائشہؓ کے بعد وہ صحابہؓ میں سے ایک افضل ترین شخص کی صاحبزادی تھیں۔

ازواجِ مطہرات میں ان کا ایک خاص درجہ سمجھا جاتا ہے

اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی ان کا بہت جوڑ تھا اور سوائے کبھی کبھار کی کش مکش کے جو ایسے رشتہ میں ہوجایا کرتی ہے وہ دونوں آپس میں بہت محبت کے ساتھ رہتی تھیں۔ حضرت حفصہؓ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ چنانچہ حدیث میں ایک روایت آتی ہے کہ انہوں نے ایک صحابی عورت شفاء بنت عبداللہؓ سے لکھنا سیکھاتھا۔ان کی وفات 45ھ میں ہوئی جبکہ ان کی عمر کم وبیش تریسٹھ سال کی تھی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 480)

پھر اسی دوران میں

حضرت امام حسنؓ کی پیدائش

کا واقعہ بھی ہوا۔ حضرت امام حسن بن علی بن ابوطالب نصف رمضان تین ہجری کو پیدا ہوئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی ولادت شعبان ۳ ہجری میں ہوئی۔ بعض کہتے ہیں غزوۂ احد کے ایک سال بعد ہوئی اور بعض کہتے ہیں دو سال بعد ہوئی۔ شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ پہلی رائے زیادہ درست ہے اور محکم ہے۔ حضرت علیؓ نے ان کا نام حَرْب رکھا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدل کر حَسن کر دیا۔ ولادت کے ساتویں دن آپؐ نے ان کا عقیقہ کیا اور ان کے بال منڈوائے اور حکم دیا کہ ان کے بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کی جائے۔ اُمّ فضل نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا ایک عضو آپؐ کا میرے گھر میں ہے یا کہا میرے کمرے میں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ فاطمہ سے ایک بچہ پیدا ہو گا تم اس کی دیکھ بھال کرو گی اور تم اس کو قُثَمکے ساتھ دودھ پلاؤ گی۔ ام فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کی زوجہ تھیں اور قُثَمان کے بیٹے کا نام تھا۔ چنانچہ حضرت امام حسنؓ پیدا ہوئے اور ام فضل نے ان کو قُثَمکے ساتھ دودھ پلایا۔

حضرت حسن بن علیؓ سے عرض کیا گیا کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ باتیں یاد ہیں تو بیان کیجیے۔ انہوں نے کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات یاد ہے۔ میں نے ایک مرتبہ صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجورلے کر اپنے منہ میں رکھ لی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میرے منہ سے نکال دیا اس حال میں کہ اس میں میرا لعاب مل چکا تھا اور اس کو صدقے کی کھجوروں میں ملا دیا۔ کسی نے کہا یا رسول اللہؐ! ایک کھجور کی کیا بات ہے؟

آپؐ نے فرمایا کہ ہمارے لیے یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسنؓ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کوئی نہ تھا۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حسنؓ کواپنے شانے پر سوار کیے ہوئے تھے ۔کسی نے کہا کہ اے صاحبزادے! تم کیسی اچھی سواری پر سوار ہو۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سوار بھی تو اچھا ہے۔ ان کو اپنے نواسے سے بڑا پیار تھا۔

حضرت براءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حسن بن علی کو اپنے شانے پر سوار کیے ہوئے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ اے اللہ! میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی اسے دوست رکھ۔ بعض روایات میں اس بات کا بھی ذکر آتا ہے کہ حضرت امام حسنؓ کی وفات زہر سے ہوئی تھی۔

(الاصابہ جلد اول صفحہ 492، الحسن بن علی، دارالفکر بیروت 2001ء)

(اسد الغابہ جلد2 صفحہ 13تا16دارالکتب العلمیۃ بیروت)

بہرحال حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت امام حسنؓ کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ’’دو ہجری کے واقعات میں حضرت علیؓ اورحضرت فاطمہؓ کے نکاح کاذکر گزر چکا ہے۔ ان کے ہاں رمضان تین ہجری میں یعنی نکاح کے قریباًدس ماہ بعد ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رکھا۔ یہ وہی حسن ہیں جو بعد میں مسلمانوں میں امام حسن علیہ الرحمۃ کے نام سے ملقّب ہوئے۔ حسنؓ اپنی شکل وصورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتے تھے اور

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح اپنی اولاد حضرت فاطمہؓ سے بہت محبت تھی اسی طرح حضرت فاطمہ ؓکی اولاد سے بھی آپؐ کو خاص محبت تھی۔ کئی دفعہ فرماتے تھے کہ خدایا! مجھے ان بچوں سے محبت ہے تُو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والوں سے محبت کر۔

کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ آپؐ نماز میں ہوتے تو حسنؓ آپؐ سے لپٹ جاتے۔ رکوع میں ہوتے تو آپؐ کی ٹانگوں میں سے راستہ بنا کرنکل جاتے۔ بعض اوقات جب صحابہؓ انہیں روکتے تو آپؐ صحابہ کومنع فرمادیتے کہ روکو نہیں۔ دراصل چونکہ ان کا لپٹنا آپؐ کی توجہ کومنتشر نہیں کرتا تھا اس لیے آپؐ ان کی معصوم محبت کے طفلانہ مظاہرہ میں مزاحم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ امام حسنؓ کے متعلق ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ میرا یہ بچہ سید یعنی سردار ہے اورایک وقت آئے گا کہ خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلح کرائے گا۔ چنانچہ اپنے وقت پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینﷺ ازحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 480-481)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیاکہ خلافت سے الگ ہو گئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اَور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے‘‘ یعنی معاہدہ کر لینے سے’’شیعہ پر زَد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونو کے ثناخواں ہیں۔‘‘ یعنی حسن کے بھی اور حسین کے بھی۔ ’’اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔‘‘ (ملفوظات جلد8صفحہ 278-279۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء) یہ تھا ان بچوں کا قصہ۔

جیساکہ میں کئی خطبوں سے

فلسطینیوں کے لیے دعا

کا ذکر کر رہا ہوں۔ آج بھی اسی بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ دعائیں جاری رکھیں۔ اب تو ظلم کی انتہا ہوتی جا رہی ہے۔ حماس سے جنگ کے نام پر معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں، بیماروں کو مارا جا رہاہے۔ ہر قسم کے جنگی اصول و ضوابط کو اس نام نہاد مہذب دنیا نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو بھی سمجھ دے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہتّر، تہتّر سال پہلے یہ تنبیہ کی تھی کہ مسلمانوں کو ایک ہونا چاہیے۔ اگر ایک نہ ہوئے تو وہ فیصلہ کریں کہ ایک ایک کر کے مرنا ہے۔ ایک ایک کر کے اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے یا ایک ہی وجود ہو کر اپنا ایک وجود برقرار رکھنا ہے اور باقی رہنا ہے۔

کاش کہ اب بھی یہ لوگ اس بات کو سمجھ جائیں اور ایک ہو جائیں!

حالت تو یہ ہے کہ مجھے کسی نے بتایا کہ عمرہ پر جانے والوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہاں جا کر فلسطین یا اسرائیل کی جنگ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔ وہاں کی حکومت ویزا دیتے ہوئے یہ ہدایت کرتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو حکومت کی طرف سے، مسلمان حکومت کی طرف سے انتہائی بزدلی کا اظہار ہے۔ بہرحال عمرہ کی عبادت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اس دوران تو بہرحال کسی قسم کی ایسی باتیں نہیں ہوں گی لیکن

مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعا تو ضرور کرنی چاہیے

اور جو جانے والے ہیں وہ کاش کہ ان دعاؤں کو بھی یاد رکھیں۔

مسلمان حکومتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں آجکل تو بڑی کمزور آواز ہے۔

بعض آوازیں اٹھی ہیں۔ اس سے زیادہ زور دار آواز تو بعض غیر مسلم لوگوں اور سیاستدانوں اور حکومتوں نے اٹھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی جرأت اور حکمت پیدا فرمائے۔

یو این کے سیکرٹری جنرل بھی اچھا بولتے ہیں آجکل تو وہ زیادہ اچھا بول رہے ہیں لیکن ان کی آواز کی لگتا ہے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے بعد یا اگر یہ مزید پھیل گئی اور عالمی جنگ کی صورت اختیار کر لی تو یواین کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے۔ لگتا ہے کہ اب دنیا اپنی تباہی کو قریب تر لے کے آ رہی ہے اور اس تباہی کے بعد جو لوگ بچیں گے انہیں اللہ تعالیٰ عقل دے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا کریں اور اس کی طرف لَوٹ کر آئیں۔ بہرحال ہمیں اس حوالے سے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل جمعۃ المبارک ۸؍دسمبر۲۰۲۳ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button