مکتوب

مکتوب کینیڈا (بابت ماہ ستمبر؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء)

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی

وسط ستمبر۲۰۲۳ء میں کینیڈا اور بھارت کے درمیان سیاسی تعلقات میں کچھ کشیدگی پیدا ہو گئی۔ کچھ عرصے سے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر ناراض ہیں۔ اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے مطابق بھارت کینیڈا کی ملکی سیاست میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس وجہ سے دونوں ملکوں کے سفارتی اور سیاسی تعلقات میں خلش پیدا ہو گئی ہے۔

در اصل گذشتہ چند سالوں سے کینیڈا میں سکھوں کا علیحدگی پسند گروہ پہلے سے بڑھ کر فعال ہو گیا ہے۔یہ گروہ سکھوں کے لیے علیحدہ وطن یعنی ’’خالصتان ‘‘کے قیام کا حامی ہے۔ وہ کینیڈا میں مختلف وقتوں میں ’’خالصتان‘‘ کے قیام کی تحریک چلاتے رہتے ہیں اور ریفرنڈم کرواتے ہیں۔اس تحریک سے ہندوستان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اگرچہ کینیڈا میں کیے جانے والے ریفرنڈم کا بھارت کی سیاست پر کوئی اثر نہیں تاہم بھارت کو ڈر ہے کہ کہیں یہ تحریک زور پکڑ کر ہندوستان کی سیاست پر اثر انداز نہ ہو جائے۔

جون ۲۰۲۳ء میں سکھوں کے علیحدگی پسند’’خالصتانی‘‘ گروہ کے راہنما ہردیپ سنگھ( جو بھارتی نژاد کینیڈین تھے) کو برٹش کولمبیا کے صوبے میں ایک بازار میں قتل کر دیا گیا۔ خالصتانی گروہ کے سرکردہ اور حامی افراد نے اس قتل پر شور اٹھایا اور مختلف ملکوں میں مظاہرے کیے اور حکومتوں پر بھارت کے خلاف دباؤ ڈالا۔

وزیر اعظم ٹروڈو سے نریندر مودی نے جب G20 کے موقع پر ناراضگی کا اظہار کیا اور سکھ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا تو میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ٹروڈو نے جواباً کہا کہ کینیڈا ہمیشہ پُرامن مظاہروں اور آزادیٔ اظہار کا تحفظ کرے گا۔… یہ وہ چیز ہے جو کینیڈا کے لیے بہت اہم ہے۔ کینیڈا تشدّد کو روکنے اور نفرت کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔…یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چند افراد کے انفرادی اقدامات مجموعی طور پر کینیڈا کے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ لیکن یہ جواب بھارت کو پسند نہ آیا اور ان دونوں ممالک میں تلخی بڑھنے لگی۔(بحوالہ بی بی سی اردو)

G20 سے واپسی کے چند دنوں بعد ہی ۱۸؍ستمبر۲۰۲۳ء کو وزیر اعظم ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں بھارت پر کینیڈا کی سیاست میں دخل اندازی کا الزام لگایا بلکہ ماورائے عدالت قتل کا الزام لگاتے ہوئےکہا کہ اس بات پر یقین کرنے کی قابل اعتماد وجوہات ہیں کہ کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین کے قتل میں انڈین حکومت کے ایجنٹس ملوث ہیں ۔اس قتل سے ان کی مراد ہردیپ سنگھ کا قتل تھا۔

اس الزام کے بعد خاص طور پر دونوں ممالک کی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ انڈیا نے فوراً ان الزامات کی بھرپور تردید کی۔اورپھر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو اپنے ملک سے نکال دیا۔بھارت نے اپنے متعدد شہریوں کو کینیڈا جانےپر تنبیہ بھی کی کہ تشدد پسند عناصر کی بنا پر بھارتی شہریوں کا وہاں جانا خطرہ کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور کینیڈین شہریوں کے لیے انڈیا کے ویزوں کی فراہمی کا عمل تا حکمِ ثانی معطل کر دیا گیا۔

اس مہم میں ابتدا سے وزیر اعظم ٹروڈو تن تنہا ہی کھڑے ہیں۔اس الزام کے قریباً ایک ماہ بعد امریکہ اور برطانیہ کی وزارت خارجہ نے محتاط بیانات دیے ہیں ۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ ان الزامات پر سنجیدہ ہے اور یہ کہ باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لیے سفارتکاروں کا موجود رہنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم نے انڈین حکومت سے کہا ہے کہ اسے اس خیال پر قائم نہیں رہنا چاہیے کہ کینیڈا کو انڈیا میں اپنے سفارتکاروں کی موجودگی کو کم کرنا چاہیے۔انڈیا کو اس معاملے میں کینیڈا کی تحقیقات میں تعاون کرنا چاہیے۔ برطانیہ کی وزارتِ خارجہ نے بھی اسی قسم کا بیان دیا ہے۔(بحوالہ بی بی سی اردو)

کینیڈا کی عدالتِ عظمیٰ کی نئی جسٹس

۲۶؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی عدالتِ عظمیٰ (Supreme Court) میں ایک نئی جسٹس میری مورو (Mary Moreau)کے تقرر کا اعلان کیا۔

جون ۲۰۲۳ء سے عدالتِ عظمیٰ میں ایک جگہ خالی تھی کیونکہ پچھلے جسٹس رسل براؤن نے اپنے کردار پر اٹھنے والے گھناؤنے الزامات کی بنا پر عدالت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

میری مورو کے تقرر سے پہلی مرتبہ کینیڈا کی عدالتِ عظمیٰ میں عورتوں کی تعداد مرد جسٹسوں کی نسبت اکثریت میں ہے۔ میری مورو گذشتہ ۲۹؍سال سے جج ہیں اور انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک مثلاً یوکرین، ہیٹی، کولمبیا اور مراکش میں ججوں کی ٹریننگ کی ہے۔ امید ہے کہ ان کا وسیع تجربہ عدالتِ عظمیٰ اور ملک میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے مفید ثابت ہو گا۔(بحوالہ اخبار ’’دِی گلوب اینڈ میل‘‘)

ستمبر اور اکتوبر میں ہر سال کینیڈا کے دو اہم قومی دن منائے جاتے ہیں جن کا تعلق ملک کی قدیم تاریخ سے ہے۔ خصوصاً اُس دَور سے جو اَب یورپین آبادکاروں کے دور سے موسوم ہے۔ جس میں ملک کا نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا گیا اور قدیم باشندوں کا اقتدار ہاتھ سے جاتا رہا۔

قومی یومِ سچائی و مصالحت (۳۰؍ستمبر)

کینیڈا میں ہر سال ۳۰؍ستمبر کا دن National Day for Truth and Reconciliationیعنی قومی دن برائے سچائی و مصالحت منایا جاتا ہے۔ اس دن کا پس منظر کینیڈا کی تاریخ کا تاریک باب ہے۔

یورپین آبادکار کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اپنے تسلّط کو قائم کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس وسیع و عریض زمین پر قبضہ جمانے کے لیے انہوں نے مختلف طریقے استعمال کیے۔ انہوں نے قدیم باشندوں سےجنگیں بھی کیں اور آپس میں بعض سمجھوتے بھی کیے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جس میں طرح طرح کے ظلم قدیم باشندوں پر ڈھائے گئے۔

اپنا قبضہ جمانے کا ایک نہایت ظالمانہ ذریعہ جو اختیار کیا گیا وہ مقامی باشندوں کے بچوں سےتعلق رکھتا ہے۔ سترھویں صدی کے آغاز میں ہی کیتھولک چرچ نے کینیڈا میں اقامتی مدارس یعنی boarding schoolsکو قائم کیا۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ مقامی باشندوں کی اولاد سفید فام کینیڈین سوسائٹی کی رُکن بن جائے اور اپنے مذہب، اپنی زبان اور کلچر کو چھوڑ دے اور مدعا یہ تھا کہ اس طرح جب یہ بچے اپنا کلچر اور اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لیں گے تو قدیم باشندوں کی قومی پہچان ختم ہو جائے گی اور ان کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

۱۸۸۳ء سے ان مدارس کو گورنمنٹ کی سرپرستی بھی حاصل ہونے لگی اور کیتھولک چرچ کے پادری اور نَنز اسے چلاتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۶ء تک چلتا رہا۔ ان اقامتی مدارس کوresidential schoolsکہا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک قانون مقامی باشندوں کے بچوں کو ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے پر پابند کرتا تھا۔

مذہب اورقانون کے نام پر قدیم باشندوں کی اولاد پر ظلم کیے گئے۔ بچوں کےذاتی ناموں کو تبدیل کر کے عیسائی طرز کے نام رکھوائے گئے۔ انہیں اپنے خاندانوں سے علیحدہ کر دیا گیا، بدنی سزائیں دی گئیں اور ان سے طرح طرح کی زیادتیاں کی گئیں۔ قریباً ایک کروڑ۵۰ لاکھ بچوں نے ان مدارس میں تعلیم حاصل کی اور ۱۸۳۱ء سے ۱۹۹۶ء تک ملک بھر میں ۱۳۰ اقامتی مدارس قائم تھے اور ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ۸۰ مدارس قائم تھے۔ (بحوالہ کینیڈین انسائیکلوپیڈیا)

۱۹۹۸ء سے حکومتی سطح پر مختلف تدابیر اختیار کی جانے لگیں جن سے ان مظالم پر شرمندگی اور تأسف کا اظہار مقصود تھا اور ان مدارس کے طلبہ یا ان طلبہ کے ورثاء کی دلجوئی اور ان سے مصالحت کی جانے لگی۔

چنانچہ اب اسی مصالحت کے تحت ہر سال ۳۰؍ستمبر کوان بچوں کی یاد میں جو اقامتی مدارس کے مظالم کا نشانہ بنے ملک بھر میں یومِ سچائی اور مصالحت منایا جاتا ہے۔ اس روز خاص طور پر نارنگی(orange) رنگ پہنا جاتا ہے اور تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سکول میں بچوں کو اقامتی مدارس کے بارے میں تعلیم بھی دی جاتی ہے تا کہ کینیڈا کی تاریخ کا یہ تکلیف دہ باب آئندہ نہ دہرایا جائےاور مظلوموں کی یاد تازہ رہے۔

یومِ تشکّر(۹؍اکتوبر۲۰۲۳ء)

ہر سال اکتوبر کے دوسرے پیر کو کینیڈا میں یومِ تشکّر (Thanks Giving Day) منایا جاتا ہے۔ امسال کینیڈا میں مؤرخہ ۹؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو یوم تشکّرمنایا گیا۔ اس روز تمام سکولوں، دفتروں، بینکوں اور حکومتی اداروں وغیرہ میں چھٹی ہوتی ہے۔

یوم تشکّرموسمِ خزاں میں منعقد ہونے والا خاص قومی تہوار ہے جس کا مقصد ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے جو سال بھر نازل ہوتی رہیں۔ اس کا خاص مقصد فصلوں کی کٹائی پر شکرگزاری کا اظہار ہے۔

جشنِ تشکّرکی روایت کینیڈا کے قدیم باشندوں میں آباد کاروں کی آمد سے پہلے بھی رائج تھی۔ چنانچہ وہ اپنی مخصوص رسموں کے مطابق ناچ گانوں کے ذریعے شکر گزاری کا اظہارکرتے تھے۔ جب آبادکار کینیڈا آئے تو وہ اپنی روایات بھی ساتھ لائے۔ ان روایات میں اپنے یورپین کلچر کے مطابق شکر گزاری کے جشن منانا بھی شامل تھا۔

کہا جاتا ہے کہ شمالی امریکہ میں یورپین آباد کاروں نے پہلا جشنِ شکر گزاری ۱۵۷۸ء میں منایا جب ان کی کشتی شمالی کینیڈا کے علاقہ میں لنگر انداز ہوئی۔ اس موقع پر کپتان نے احباب سے خطاب کیا اور انہیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تلقین کی۔

اس کے بعد مختلف وقتوں اور سالوں میں اس جشن کو منایا جاتا رہا اور رفتہ رفتہ یہ باقاعدہ تہوار کی صورت اختیار کر گیا۔ پھر حکومت نے اسے قومی دن کے طور پر شمار کرنے کا اعلان کیا اور ۱۹۵۷ء میں یہ طے پایا کہ ہر سال ماہِ اکتوبر کے دوسرے پیر کو ملک بھر میں یومِ تشکّرمنایا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے کینیڈین انسائیکلوپیڈیا)

اگرچہ کسی زمانے میں اس تہوار کا مذہبی پہلو نمایاں تھا اور خدا تعالیٰ سے شکر گزاری کے جذبات کو بیان کیا جاتا تھالیکن اب یہ کم دکھائی دیتا ہے۔

یومِ تشکّرکے دن کو تمام کینیڈین اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں۔ اکثر کینیڈین اپنے گھروں میں دوست احباب اور رشتہ داروں کو مدعو کرتے ہیں اور ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٹرکی کا گوشت خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور سب شوق سے اسے اپنے عزیزوں کے ساتھ تناول کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کینیڈا کے خوبصورت ملک پر اپنے فضل کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے اور اس کے باشندوں کو حقیقی شکر گزار بندے بننے کی توفیق بخشے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button