پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

مارچ و اپریل۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

قانون کس کا ہے ؟ ریاست کا یا ملّاں کا؟

چکلالہ، راولپنڈی۔ اپریل ۲۰۲۳ء: ملاں تو اب سرعام حکومت کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ نہ تو ان کوکسی کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی ڈر۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ملاں قاری ادریس اردو زبان میں محکمہ تعلیم کو اس بات پر چیلنج کر رہا ہے کہ انہوں نے کیوں ایک احمدی کو سکول کے ہیڈماسٹر کے طور پر تعینات کیا۔

وہ ویڈیو میں چند رسمی عربی کلمات کے ساتھ بات کا آغاز کر کے کہتا ہےکہ’’میں رحمت آباد،چکلالہ ڈھوک مسنی کے رہائشیوں سے مخاطب ہوں۔ مجھے ابھی خبر ملی ہے کہ رحمت آباد کے سکول میں جہاں پندرہ سو سے دو ہزار کے درمیان مسلمان طلبہ داخل ہیں۔ اس سکول کا ہیڈ ماسٹر ایک قادیانی مرزائی[احمدی] …کو بنا دیا گیا ہے۔میں محکمہ تعلیم،ڈپٹی کمشنر اور انتظامیہ سے استدعا کرتا ہوں کہ اس شخص کو نوکری سے برخاست کیا جائے۔یہ بطور ہیڈ ماسٹر ہمیں کسی بھی قیمت پر منظور نہیں ہے۔اگر وہ سکول میں داخل ہوا تو اپنی ٹانگوں پر واپس نہیں جائے گا۔ کسی بھی خون خرابے اور بد امنی کے ذمہ دار محکمہ تعلیم اور انتظامیہ ہوں گے۔اس کو نہ صرف نوکری سے برخاست کیا جائے بلکہ کسی بھی علاقے اور صوبے میں اس کو نوکری نہ دی جائے۔ میں علاقے کے علماء کو بھی یاد دلاتا ہوں کہ انہوں نے ہر بار قادیانیوں کا سامنا کیا ہے۔اس بدبخت کابھی سامنا کریں۔ہم علاقے کے علماء اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ایک نشست رکھ رہے ہیں اور ہم سکول میں گشت کریں گے اور کسی بھی قیمت پر اس کو سکول میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

ملاں کی بات کے یہ نکات قابل غور ہیں کہ وہ:

٭…مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کسی کی نوکری کا فیصلہ کر رہا ہے

٭…کھلے عام طاقت کے زور پر ایک شخص کو نوکری کی جگہ پر آنے سے روک رہا ہے

٭…ایک سرکاری ملازم کو ڈیوٹی پر حاضر ہونے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے

٭…اپنی طاقت کے دائرہ اختیار کو دوسرے صوبوں تک پھیلا رہا ہےکہ اسے کسی بھی صوبے میں ان کا بطور ہیڈماسٹر کام کرنا منظور نہیں

٭…کھلے عام سکول میں پہرہ دینے کی بات کر رہا ہے کہ ان کو سکول میں داخل بھی نہیں ہونے دے گا

ایک معصوم احمدی کے ساتھ پولیس کی جارحیت

نواں کوٹ،شیخوپورہ:رحیم آباد،نواں کوٹ ضلع شیخوپورہ میں ایک ہی احمدی خاندان آباد ہےجن کا ایک عزیز احمدیت چھوڑ کر غیر احمدیوں کی مسجد میں چلا گیا۔ اس پر مخالفین نے اس شخص کے ساتھ اس خاندان کے ایک احمدی کو بھی تھانے بلوا لیا اور ان کو کہا گیا کہ وہ دوبارہ اس مسجد میں نہیں جائیں گے۔ حالانکہ وہ احمدی پہلے کبھی وہاں نہیں گئے تھے۔لہٰذا ان کو خواہ مخواہ تکلیف کا نشانہ بنایا گیا۔

ہجوم کا غیظ و غضب

اخبار کے ایک تراشے پر ایک رائے کا اظہار

داسو،خیبر پختونخوا۔۱۳؍اپریل ۲۰۲۳ء:حال ہی میں ایک چینی باشندہ ایک بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے سے بال بال بچا۔ اس خطرناک صورتحال پر روزنامہ ڈان نے ایک اداریہ لکھا ہے۔انسانی حقوق اور پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو ریکارڈ کا حصہ بنانا ضروری ہے۔

’’ہماری مذہبی انتہا پسندی کاایک اور باب اتوار کو لکھا گیا جہاں ایک چینی باشندہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر ایک بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے سے بال بال بچا۔مبینہ طور پر وہاں اُس نے نماز کے وقفوں کی وجہ سے ضائع ہونے والے وقت پر بات کی جس وجہ سے مزدور غصے میں تھے اور اس پر توہین کا الزام عائد کر رہے تھے۔ان مزدوروں نے قریبی گاؤں میں جا کر لوگوں کو بھڑکایا۔ چنانچہ لوگ وہا ں جمع ہو گئے اور چینی کیمپ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی اوراس چینی باشندے کو پولیس سٹیشن لے گئی جہاں سے اسے پرواز کے ذریعے ایبٹ آباد لےجایا گیا۔

سوموار کو انسداد دہشتگردی عدالت نے اس کو چودہ روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ اس کہانی میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سری لنکا کے شہری سنتھیا کمارا کی طرح قتل ہونے سے بچ گیا۔دسمبر ۲۰۲۱ء میں سنتھیا پر توہین کا الزام عائد کر کے سینکڑوں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا تھا۔سفاکانہ قتل کی کارروائی میں اس کو تشدد سے قتل کر کے اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی۔

چھ سال قبل مشعال خان کو سینکڑوں طلبہ نے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا تھا۔اس واقعہ کی ویڈیوز نے ریاستی سرپرستی میں پھیلائے جانے والے فاتحانہ مذہبی افکار ونظریات کی تشہیر کے مکروہ چہرے سے پردہ فاش کر دیا تھا۔اور یہ بھی دکھا دیا تھا کہ وہ معاشرے کے ساتھ کیا کر نے کی طاقت رکھتے ہیں۔

صرف توہین کا الزام ہی اس نوجوان کے قتل کےلیے کافی تھا۔۲۰۱۴ء میں ایک شادی شدہ مسیحی جوڑے کو جواینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا تھا اسی طرح توہین کا الزام لگا کر زندہ جلا کر ان کے تین بچوں کو یتیم کر دیا گیا۔

توہین کا الزام پاکستان میں کسی کو قتل کرنے یا کسی اقلیت کے خاندان کو تباہ کرنے یا ان کی پوری کی پوری بستی جلانے کےلیے کافی ہے۔حتی کہ ذہنی معذور بھی ان ’نیکوں‘ کے غیظ وغضب سے نہیں بچ پاتے۔

پہلے پہل تو ایسے مجرم صاف بچ کر نکل جاتے تھے۔ مشعال اور سنتھیا کےمعاملے میں سخت سزائیں سنائی گئی ہیں لیکن ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔سزا سے کچھ فرق نہیں پڑ رہا اور نہ ماورائے عدالت قتل کاسلسلہ رک رہا ہے۔ مارچ ۲۰۲۱ء تک چوراسی افراد کو توہین کا الزام لگا کر قتل کیا جاچکا ہےاور چودہ سو پچاس کے قریب توہین کے مقدمات بنائے جا چکے ہیں۔

اس لہر کو موڑنے کےلیے غیر معمولی طاقت درکار ہو گی۔ایسے اقدامات کی ضرورت جس سے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال سے روکا جا سکے۔ ابھی تک تو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اگر اس کو روکا نہ گیا تو یہ معاشرہ اژدھے کی طرح خود کو ہی نگلتا جائے گا۔‘‘

اس اداریہ میں بخوبی پرانے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے میڈیا میں احمدیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی وجہ عوام کا خوف ہے۔ امید ہے کہ لوگوں کو یا د ہو گا کہ کیسے ۱۲؍ اگست ۲۰۲۲ء کو دن دہاڑے نصیر احمد کو ربوہ بس اڈے پر چاقو کے وار کر کے شہید کر دیا گیا تھا۔اسی طرح امریکی پاکستانی شہری طاہر احمد نسیم کو جنہیں احمدی سمجھا گیا تھا،۲۹؍ جولائی ۲۰۲۲ء کو پشاور کی عدالت میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا اور کس بے شرمی سے پولیس والے قاتل کے ساتھ سیلفیاں (تصاویر)بنا رہے تھے۔ یہ وہ سال تھا جب پاکستان تحریک انصاف کے وزیر علی محمد خان نےاپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ قادیانیت اسلام کےلیے ایک بڑا فتنہ ہے۔ ریاست پیادوں کےپیچھے تو جاتی ہے لیکن قتل و غارت گری پر اکسانے والے سیاستدانوں کے پیچھے نہیں جاتی۔

صرف مسلمان طلبہ کےلیے ایک نیا نصاب

ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے ۲۷؍ مارچ ۲۰۲۳ءکو تمام یونیورسٹیوں کو ایک مراسلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام مسلما ن طلبہ کو ڈگری اس وقت دی جائے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ناظرہ قرآن،باترجمہ قرآن اور تفسیر کا ایک مخصوص نصاب مکمل کر لیں۔یہ ستمبر ۲۰۲۳ء سے لاگو ہوگا۔ اس کا ذکر ڈگری میں نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کے کوئی زائد نمبر دیے جائیں گے۔اس معاملے میں کچھ مسائل ہیں۔

اول یہ کہ یہ قرارداد ۱۶؍جنوری کی ایک قرارداد کے ساتھ سینیٹ میں موجود ہے جہاں پرائمری سے لےکر یونیورسٹی تک تمام طلبہ کےلیے قرآن،سنت اور سیرت آنحضرت ﷺ کو پڑھایا جانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرار داد جماعت اسلامی کے سینیٹر کی طرف سے پیش کی گئی اور یہ یکساں قومی نصاب کے پروگرام کا ایک شاخسانہ معلوم ہوتی ہے۔جہاں ڈرامائی انداز میں تعلیم کے ابتدائی سالوں میں اسلامی تعلیم کو بہت زیادہ کر دیا گیا اور ختم نبوت کے موضوع پر خاص زور دیا گیا ہے۔اور ساتھ قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔

سماجی و معاشرتی گروہوں نے اس کو ایک بیوقوفانہ چال قرار دیا ہے۔ اس سے مدرسے کے طلبہ تو آگے نہیں آئیں گے لیکن عام تعلیمی ادارے مدرسوں کے زیر اثر ضرور چلے جائیں گے۔

اس بیانیے کو یونیورسٹیوں اور ڈگریاں جاری کرنے والے اداروں تک لےجانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔البتہ یہ نقصان ضرور ہوگا کہ طلبہ کے اندر اقلیتوں کے خلاف مزید نفرت پیدا ہوگی۔

انتہا پسندوں کی خواہش کے مطابق اس قسم کے اقدامات پاکستان کو واقعۃً ایک ’حقیقی ‘اسلامی ریاست بنانے کی طرف لےجا رہے ہیں۔

لائبریریوں سے قرآن کریم کی تلاشی

چنیوٹ۔۵؍اپریل ۲۰۲۳ء:ضلع چنیوٹ کے کالجوں کے ڈپٹی ڈائریکٹر نےو ایک مراسلہ جاری کیا ہے جس میں پروفیسروں اور لیکچراروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی ہے جو اس بات کا جائزہ لےگی کہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری کالج کی لائبریری میں قرآن کا کوئی ایسا ترجمہ شدہ نسخہ تو نہیں ہے جو جماعت احمدیہ نے شائع کیا ہو۔کمیٹی کو کہا گیا کہ وہ ہر پرنسپل سے تین دن کے اندر اندر ایک حلف نامہ(سرٹیفکیٹ ) حاصل کرے اور اس کی رپورٹ ڈپٹی ڈائریکٹر کے دفتر میں جمع کروائے۔ یہاں پر کام کی عجلت قابل غور ہے۔

اس سرکلر کی پہلی سطر یوں ہے کہ ’’اوپر سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال کے زیر اثر آپ کو ہدایت کی جارہی ہےکہ بہت باریک بینی سے لائبریریوں کی چھان بین کریں…‘‘

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سرکلر پر کسی بھی طباعت کا عنوان یا ناشر کا نام درج نہیں ہے۔اور نہ ہی کوئی اَور ایسی نشانی موجود ہے جس سے پتا چلے کہ اس کو بھیجنے والا کون ہے۔

نیز اس پر درج ہے کہ ’’نیا ترجمہ‘‘۔ اس پر احمدی خود بھی حیران ہیں اوراس نئے ترجمے کےبارے میں جاننا چاہتے ہیں۔شاید ہی کسی احمدی کو پاکستان میں اس بات کا علم ہو کہ جماعت نے ڈوگری زبان میں ایک نیا ترجمہ کیا ہے اور یہ زبان کہاں بولی جاتی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کو چاہیے تھاکہ ساتھ کمیٹی کو یہ بھی ہدایت کرتا کہ یہاں ڈوگری زبان بولنے والا بھی کوئی شخص تلاش کریں۔ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر نے خود بھی اس ’نئے ترجمے ‘کو نہیں دیکھا ہو گا۔

ایک ٹوئٹر صارف سعدیہ نے لکھا کہ نگران حکومت پاگل ہو گئی ہے۔ یہ ہر وہ کام کر رہی ہےجو اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔اب لائبریریوں پر چھاپے مارے جائیں گے اور احمدیہ ترجمے والا قرآن تلاش کیا جائے گا۔مضحکہ خیز!

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button