خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۶؍ جنوری ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے

سوال نمبر۱:حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےمالی قربانی کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؑ نے فرمایا کہ ’’تم حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے‘‘… ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تو کوئی نیکی نہیں کہ کسی کی گائے بیمار ہو جائے اور بچنے کی کوئی امید نہ ہو تو کہہ دے کہ اسے خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں یا کوئی فقیر آئے اور اسے گھر کی باسی روٹیاں دے دی جائیں، پرانی روٹیاں جن کو گھر میں کوئی کھاتا نہیں۔ تو یہ چیزیں تو ویسے ہی اس کے کام کی نہیں رہیں۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال وہ قبول ہوتا ہے جو کسی کا محبوب مال ہواور پھر وہ قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دے۔یہی حقیقی نیکی ہے۔ یہی بات ہمدردیٔ خلق کا صحیح پتہ دیتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دل میں دوسروں کے لیے کتنا درد ہے۔ ہمارے اندر دین کی خدمت کے لیے کیا شوق ہے اور اس بارے میں ہمارے جذبات کیا ہیں… دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔اسی واسطے علم تعبیر الرؤیاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اُس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آلِ عمران:۹۳)حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے۔ جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شئے ہے … پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابوبکرؓ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ ﷺ نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے۔‘‘

سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اورصحابہ کرامؓ کی مالی قربانی کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں تو آپؑ کے مشن کو پورا کرنے کے لیے جو اشاعتِ لٹریچر ہے اور اشاعتِ اسلام کے لیے ہے،اعلیٰ ترین مثال حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاولؓ نے قائم فرمائی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ نے لکھا جس کا ذکر خود حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ’’میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپؑ کا ہے۔ حضرت پیر و مرشد مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا‘‘ پھر لکھا کہ ’’…مجھے آپ سے نسبتِ فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہوں۔ دعا فرماویں کہ میری موت صدّیقوں کی موت ہو۔‘‘اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے بہت سے صحابہؓ تھے جنہوں نے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں دیں اور ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ مجھے ان کی قربانیاں دیکھ کے حیرت ہوتی ہے۔ یہ قربانیاں کیوں دیں؟ اس لیے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مشن جو اشاعتِ اسلام کا مشن ہے اس میں آپ کے مددگار بنیں۔ اس لیے کہ مخلوق سے ہمدردی کا درد رکھتے ہوئے انہیں بھی آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق کی جماعت میں شامل کرنے کے لیے قربانی پیش کریں۔

سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریک وقف جدیداوراس کی توسیع کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ نے 1957ء میں اس تحریک کو شروع فرمایا جو دیہاتوں میں تربیت و تبلیغ کے لیے آپؓ نے شروع فرمائی جو پہلے صرف پاکستان تک ہی محدود تھی۔ پھر خلافتِ رابعہ میں اس کو وسعت دے کر تمام ممالک تک پھیلا دیا گیا اور جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی اس چندے کی رقم افریقہ کے ممالک میں تربیت و تبلیغ پہ خرچ کرنے کا ارشاد حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا اور عموماً یہی سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ اس چندے کی آمد کو افریقہ میں اور دوسرے غریب ممالک میں خرچ کیا جاتا ہے۔ احبابِ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ افریقہ کے اور دوسرے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کے احمدی اس میں حصہ نہیں لے رہے۔ ان لوگوں کی قربانیاں بھی ان کی آمد اور حالات کے مطابق قابلِ تعریف ہیں لیکن زائد اخراجات بہرحال امیر ملکوں کے چندوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےگنی کناکری کی جماعت منسایاکے امام مسجد کی مالی قربانی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: وہاں کے مشنری کہتے ہیں کہ عشرۂ وقفِ جدید منا رہے تھے۔ احباب جماعت کو مسجد میں اور انفرادی طور پر چندہ وقفِ جدید کی اہمیت اور برکت بتاتے ہوئے اس بابرکت تحریک میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلا رہے تھے کہ گاؤں کے، مسجد کے امام ابوبکر کمارا صاحب جو حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ پہلے میں چندہ ادا کروں گا کیونکہ ہمیں دوسروں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔اب یہ حالت بھی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ خود تو تحریک میں حصہ نہ لیں اور دوسروں کو کہیں بلکہ خود بھی کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں تحریک کرنی چاہیے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی جیب میں موجود دس ہزار فرانک گنی چندے میں ادا کر دیا اور بعد میں یہ ملنے آئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ چندہ تو مَیں نے دے دیا تھا لیکن کچھ دیر کے بعد ہی میرے ایک دوست نے مجھے پندرہ لاکھ فرانک تحفةً بھجوائے اور کہتے ہیں جو مَیں سمجھتا ہوں میری اس قربانی کے نتیجے میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ مجھے عطا فرمایا۔ کہتے ہیں اب میں پہلے سے اَور بڑھ کر اور باقاعدگی سے چندوں میں حصہ لیا کروں گا۔

سوال نمبر۵: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تنزانیہ کی ایک خاتون کی مالی قربانی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:تنزانیہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں۔ ایک جماعت کی ایک خاتون نے بتایا کہ ایک دن وہ گھر کی خریداری کے لیے بازار جا رہی تھیں۔ رستے میں معلم سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے چندہ وقفِ جدید کے بارے میں بتایا اور اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تو کہتی ہیں میں نے اسے کہا کہ میرے پاس اس وقت دو ہزار شلنگ ہے۔ بازار سے میں سودا لینے جا رہی ہوں تو ایک ہزار شلنگ چندہ ادا کر دیا اور باقی ایک ہزار کا اپنا سامان خرید لوں گی۔ کہتی ہیں وہاں مجھے ایک خاتون نے پیچھے سے آواز دی جس نے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے پانچ ہزار شلنگ لیے ہوئے تھے اور لمبا عرصہ گزر گیا تھا جس کی واپسی کی مجھے اب امید بھی نہیں تھی۔ اس خاتون نے آواز دے کر وہ پانچ ہزار شلنگ مجھے دیے کہ یہ تمہارا قرض تھا جو میں نے واپس کرنا تھا۔ پھر وہ دوبارہ معلم کے پاس واپس آئیں اور کہا کہ یہ تو چندے کی برکت سے مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا اس لیے مزید ایک ہزار شلنگ چندہ ادا کر دیا۔

سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نائیجیریاکےایک احمدی کی مالی قربانی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: نائیجیریاکے مبلغ ہیں ۔ کہتے ہیں کانو سٹیٹ کے ایک احمدی دوست ناصر صاحب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین سال سے بغیر جاب (job)کے پریشان تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنی استطاعت کے مطابق دوبارہ چندہ دینا شروع کر دوں۔ جاب نہیں تھا تو چندہ بھی بند کیا ہوا تھا۔ کہتے ہیں جو کچھ ہے اس کے مطابق چندہ تو دینا شروع کروں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ پچھلے سال جون کے مہینے سے چندہ دینا شروع کیا اور وہ مربی صاحب کو بتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں ابھی تین مہینے نہیں گزرے تھے کہ مجھ سے ایک دوست نے رابطہ کیا کہ ایک کمپنی کو مارکیٹنگ کے لیے ایک آسامی درکار ہے اور اس طرح اس کمپنی نے مجھے ہائر کر لیا اور اس کمپنی کا یہ اپنی طرز کا پہلا کانٹریکٹ تھا۔ کہتے ہیں مجھے یقین ہوگیا کہ یہ جو اتنے عرصہ کے بعد مجھے ملازمت ملی یا مجھے کاروبار یا کام ملا یہ اس چندے کی برکت ہے۔

سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مارشل آئی لینڈ کی ایک خاتون کی مالی قربانی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:مارشل آئی لینڈکے ساجد اقبال صاحب کہتے ہیں یہاں ایک خاتون لورین (Loreen) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ مالی قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر بہت فضل فرمایا ہے۔ پہلے مالی قربانی میں حصہ نہیں لیتے تھے کیونکہ یقین نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے بدلے میں کتنی برکت فرماتا ہے اور اس وقت پیسوں کی کمی بھی تھی۔ کھانے پینے کا سامان لینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور گھر کے اخراجات پورے کرنے میں بہت پریشانیاں ہوتی تھیں لیکن جب مسجد سے مالی قربانی کی برکات کے بارے میں خطبات سنے تو سوچا کہ قربانی میں حصہ لینا چاہیے۔ چنانچہ کہتی ہیں ہم نے قربانی کرنی شروع کر دی، چندہ دینا شروع کر دیا اب اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ گھر کے اخراجات بھی پورے ہو جاتے ہیں۔ کھانے پینے میں بھی کوئی تنگی نہیں ہوتی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایسی ایسی جگہوں سے ہمارے پاس رقمیں آ جاتی ہیں جن کا ہمیں تصور بھی نہیں ہوتا اور جتنا بھی ہم دیں اللہ تعالیٰ اتنا بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

سوال نمبر۸:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےانڈیاکےایک احمدی کی مالی قربانی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:وہاں کے مبلغ انچارج نے لکھا ہے کہ ناظم صاحب مال، انسپکٹر صاحب وقفِ جدید مالی سال کے اختتام کے پیش نظر مالاپورم کیرالہ کے دورے پر تھے۔ ہمارے علاقے میں بھی آئے تو وہاں ایک مخلص احمدی رحمان صاحب کا فون آیا جو بزنس کرتے ہیں کہ آپ پہلے میری کمپنی میں آجائیں۔ میں نے کمپنی اپنی بنائی ہے اس میں ایک نیا حصہ بنایا ہے وہاں دعا کروانی ہے۔ اور جب ہم وہاں گئے تو بغیر پوچھے دس لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔نیز دورے کے لیے اپنی بڑی گاڑی پٹرول وغیرہ ڈلوا کردی۔ انہوں نے کہا بھی کہ ہمیں چھوٹی گاڑی ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ مرکزی نمائندوں کے لیے اچھی قابلِ اعتبار گاڑی ہونی چاہیے تاکہ آپ آرام سے سفر کر سکیں۔ کہتے ہیں یہ رقم میں نے اپنی ایک پراپرٹی کی رجسٹری کے لیے رکھی ہوئی تھی مگر آپ کے آنے کی وجہ سے وقفِ جدید میں ادائیگی کر دی ہے اور رجسٹری کی تاریخ آگے کروا لی ہے۔ چند دن کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ ایک بڑی رقم ان کو بغیر کسی خاص کوشش کے مل گئی جو موصوف کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔ دس لاکھ سے بھی کہیں زیادہ رقم تھی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button