ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۵۰)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

دینی امور کی طرف توجہ کی ضرورت

’’افسوس ہے کہ جس قدر محنت اور دعا دنیوی امور کے لیے ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے لیے اس قدر بالکل نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو عام رسمی رواجی الفاظ میں کہ صرف زبان پر ہی و ہ مضمون ہو تا ہے نہ کہ دل میں۔اپنے نفس کے لیے توبڑے سوز اور گدازش سے دعائیں کرتے ہیں کہ قرض سے خلاصی ہو یا فلاں مقدمہ میں فتح ہو یا مرض سے نجات ملے مگر دین کے لیے ہر گز وہ سوزش وگدازش نہیں ہوتی۔دعا صرف لفظوں کا نام نہیں کہ موٹے اور عمدہ عمدہ لفظ بول لیے بلکہ یہ اصل میں ایک موت ہے۔اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۱)کے یہی معنے ہیں کہ انسان سوزوگدازش میں اپنی حالت موت تک پہنچاوے مگر جاہل لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف اکثر دھوکا کھاتے ہیں۔جب کوئی خوش قسمت انسان ہو تو وہ سمجھتا ہے۔ کہ دنیا اور اس کے افکار کیا شئے ہے۔اصل بات تو دین ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہواتو سب ٹھیک ہے؂

شب تنور گذشت و شب سمور گذشت

یہ زندگی خواہ تنگی سے گذرے خواہ فراخی سے وہ آخرت کی فکر کرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلدششم صفحہ۲۲۷-۲۲۸، ایڈیشن۱۹۸۴ء)

تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں فارسی کی ایک ضرب المثل ’’شب تنور گذشت و شب سمور گذشت‘‘ آئی ہےجو ایرانی کتب میں ملتی ہے۔کہتے ہیں ایک مرتبہ سردیوں کی یخ بستہ رات میں ایک فقیر کو کوئی جگہ نہ ملی۔ اس نے بادشاہ کے محل کے قریب ناچارایک تنور پر جسے تھوڑی دیر پہلے گرمایا گیا تھا پڑا ؤ ڈالا۔پہلو کے بل لیٹا تو کچھ ہی دیر میں نیچےکا پہلو بہت گرم ہوگیا جبکہ دوسرا پہلو شدت سردی کی وجہ سے بہت ٹھنڈاہوگیا، تو کروٹ بدل لی۔ اسی طرح ساری رات بے آرامی میں کروٹیں بدلتا رہا۔صبح اٹھا تو آواز بلند کی اے بادشاہ! اِس سرد رات میں تو محل کے اندر شراب پی کر کمبل میں مزے کی نیند سویا۔ رات تیری بھی گزر گئی۔جب کہ ایک فقیر تیری ہمسائیگی میں ساری رات تنور پرکروٹیں بدلتا رہا اور تجھے اس کی خبر نہ ہوسکی،رات اس کی بھی گزر گئی۔ اس حکایت کو اشعار میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔

شَنِیْدِہْ اِیْم کِہْ مَحْمُوْدغَزْنَوِیْ یِکْ شَبْ شَرَابْ خُوْرْد وشَبَشْ جُمْلِہْ دَرْسَمُوْر گُذَشْت

سننے میں آیا ہے کہ محمود غزنوی نے ایک را ت شراب پی اور اس کی ساری رات سمور( کمبل ) میں گذری۔

گَدَایِ گُوْشِہْ نَشِیْنِیْ لَبِ تَنُوْرْ خَزِیْد

لَبِ تَنُوْربِہْ آنْ بِیْنَوَایِ عَوْر گُذَشْت

ایک گوشہ نشین فقیر تنور پر کروٹیں بدلتارہا۔اس بےسروسامان کی رات وہاں گذر گئی۔

عَلَی الصّبَاحْ بِزَدْ نَعْرِہ اِیْ کِہْ اَیْ مَحْمُوْد

شَبِ سَمُوْر گُذَشْت ولَبِ تَنُوْر گُذَشْت

صبح ہوتے ہی اس نے نعرہ لگایا کہ اے محمود! تنور (پر سونے ) والی رات بھی گزرگئی اور سمور (پہن کر سونے )والی رات بھی گزرگئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button