سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

انگریزحکومت کے ساتھ وفاداری

خداکی بہت بڑی عنایت اور مہربانی اوراس سرزمین پر اس رحمان اوررحیم خداکا بہت بڑااحسان ہوا کہ سکھ حکومت کے اس ’آتشی تنور‘ سے عوام الناس کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص نجات ملی اور انگریزوں کی نسبتاً بہت ہی مہربان اورمنصف حکومت کا آغازہوا۔چنانچہ جب تک سکھوں کی حکومت کا باقاعدہ خاتمہ نہ ہوا تب تک آپ نے سکھ حکومت کا ساتھ دیا۔اور جب ۲۹؍مارچ ۱۸۴۹ء کو گورنرجنرل ہندوستان لارڈ ڈلہوزی کے عہد میں سکھ حکومت کےخاتمہ اور انگریزحکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تو اس پر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے حسب تعلیم اسلام اس حکومت وقت کے ساتھ اطاعت اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا، جسے پھر آپ نے اپنی آخری سانسوں تک نبھایا۔ہرچند کہ اس حکومت نے آپ کی ساری جائیداد ضبط کرلی لیکن حضرت مرزاصاحب کی وفاکے قدم ذرا سے بھی نہیں ڈگمگائے۔اور اس وقت بھی کہ جب عام ہندوستانیوں اورخصوصاً مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء میں بغاوت برپا کی تو اس خاندان نے جس کے پاس ایک بار پھر موقعہ تھا کہ اپنی آزادحکومت کا اعلان کردیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جس حدتک ممکن ہوسکا ہرقسم کی مددکے ساتھ اپنی وفاکا عملی ثبوت دیا۔حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب نے اس حالت میں بھی سرکار انگریزی کے ساتھ سچی وفاداری اور دوستی کا پورا ثبوت دیا۔ اور اس عہد دوستی کو ایسا نبھایا کہ وہ آج تک ایک قابل قدر خدمت سمجھی جاتی ہے۔اس بغاوت کے وقت بھرتی میں مدد دینے کے علاوہ پچاس گھوڑے معہ سازوسامان و سواران اپنے خرچ سے سرکار انگریزی کو دیےاور آپ کا بڑا صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب، جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت لڑرہا تھا۔جبکہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر ۴۶نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے،تہ تیغ کیا۔جنرل نکلسن صاحب بہادر نے مرزا غلام قادر صاحب کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا تھا کہ۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ وفادار رہا ہے۔

سرلیپل گریفن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :اردوترجمہ: رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضٰی کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا۔ اس پر غلام مرتضٰی اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔نو نہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دوران غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔ ۱۸۴۱ء میں یہ جنرل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیندار بنا کر پشاور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کارہائے نمایاں کیے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو وہ اپنی سرکار کا وفادار رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج کو لیے دیوان مولراج کی امداد کے واسطے ملتان جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمان آبادی کو جمع کر کے فوج تیار کی اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں پر حملہ کر کے ان کو شکست فاش دی اور دریائے چناب کی طرف دھکیل دیا جہاں چھ سو سے زیادہ باغی دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے۔انگریزی گورنمنٹ کی آمد پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہو گئی مگر سات سو کی ایک پنشن غلام مرتضٰی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح پر ان کے حقوق مالکانہ قائم رہے۔اس خاندان نے غدر۱۸۵۷ء میں نہایت عمدہ خدمات کیں۔ غلام مرتضٰی نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میں تھا جب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر۴۶ نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا تھا۔ جنرل نکلسن نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا کہ ۱۸۵۷ء کے غدر میں خاندان قادیان نے ضلع کے دوسرے تمام خاندانوں سے زیادہ وفاداری دکھائی ہے۔

(Punjab Chiefs Revised Edition Vol.2 Pg. 41)

غرض حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے زمانہ حیات میں حکومت کے پورے فرمانبردار اور وفادار دوست تھے۔گورنمنٹ کے حکام اور عہدیداروں کی نظر میں ایک موٴقر اور معتمد دوست سمجھے جاتے تھے۔ دربار گورنری میں انہیں کرسی دی جاتی تھی۔ اور ان کی تحریروں پر عزت کے ساتھ غور کیا جاتا تھا۔ حکام نے جو خطوط انہیں وقتاً فوقتاً لکھے ان سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ دلی جوش سے لکھے گئے ہیں۔جو بغیر ایک خاص خیرخواہ اور سچے وفا دار کے کسی دوسرے کے لیے تحریر نہیں ہو سکتے۔ اکثر صاحبان ڈپٹی کمشنر و کمشنر اپنے ایام دورہ میں اظہار محبت و مودّت کے لیے مرزا صاحب کے مکان پر جا کر ملاقات کرتے تھے اور کبھی کبھی ایسابھی اتفاق ہواکہ مرزا صاحب ان کی ملاقات کے لیے نکلے ہیں اور پالکی میں جا رہے ہیں، سامنے سے عہدہ دار مذکور آگیا…اور اس نے ان کی عزت و مرتبہ کے لحاظ سے پسند نہیں کیاکہ مرزا صاحب پالکی سے اتریں۔وہ آپ ساتھ ساتھ باتیں کرتا ہوا مکان تک چلا گیا ہے۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی اس عزت و اکرام کا پتا ان خطوط سے بھی ملتا ہے جو آپ کی وفات پر ڈپٹی کمشنر سے لے کر کمشنر اور فنانشل کمشنر اور لیفٹیننٹ گورنر بہادر تک نےآپ کی تعزیت میں لکھے۔

یہاں وہ خطوط درج کیے جاتے ہیں۔یہ خطوط سیرت المہدی اور حیات احمد جلد اول میں درج ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنی بعض کتب میں ان کودرج فرمایا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف ’’کشف الغطاء‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں کہ’’میرا خاندان ایک خاندان ریاست ہے اور میرے بزرگ والیان ملک اور خودسر امیر تھے جو سکھوں کے وقت میں یکدفعہ تباہ ہوئے اورسرکار انگریزی کا اگرچہ سب پر احسان ہے مگر میرے بزرگوں پر سب سے زیادہ احسان ہے کہ انہوں نے اس گورنمنٹ کے سایہٴ دولت میں آکر ایک آتشی تنورسے خلاصی پائی اور خطرناک زندگی سے امن میں آگئے۔میرا باپ میرزا غلام مرتضٰی اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھا اور گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں نے پُر زور تحریروں کے ساتھ لکھا کہ وہ اس گورنمنٹ کا سچا مخلص اوروفادار ہے اور میرے والد صاحب کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لئے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفا دار رئیس تھے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے ۵۷ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں میں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لئے دیے تھے چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستان میں مردانہ وار لڑائی مفسدوں سے کر کے اپنی جانیں دیں اورمیرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم تمّوں کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی۔غرض اسی طرح میرے ان بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال سے اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتو ں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا۔سو انہی خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کرے گی جوبڑے فتنہ کے وقت میں ثابت ہو چکا ہے۔سر لیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی مرزا غلام قادر کا ذکر کیا ہے اور میں ذیل میں ان چند چٹھیات حکام بالادست کو درج کرتا ہوں جن میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی کی خدمات کا کچھ ذکرہے

نقل مراسلہ

(ولسن صاحب) نمبر ۳۵۳

تہور پناہ شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان حفظہ

عریضہ شمامشعر بریاد دہانی خدمات و حقوقِ خود وخاندانِ خود بملاحظہ حضور ایں جانب درآمد۔ ماخوب میدانیم کہ بلاشک شما و خاندانِ شما از ابتدائے دخل و حکومتِ سرکار انگریزی جاں نثار وفاکیش ثابت قدم ماندہ اید و حقوق شمادراصل قابل قدر اند۔ بہر نہج تسلی و تشفی دارید۔سرکار انگریزی حقوق و خدمات خاندان شما را ہرگز فراموش نخواہد کرد۔ بموقعہ مناسب بر حقوق و خدمات شما غور و توجہ کردہ خواہد شد۔ باید کہ ہمیشہ ہوا خواہ و جان نثار سرکار انگریزی بمانند کہ در ایں امر خوشنودی سرکار و بہبودی شما متصور است۔فقط

المرقوم ۱۱؍ جون ۱۸۴۹ء مقام لاہور انارکلی

Translation of Certificate of J.M.Wilson.

To,

Mirza Ghulam Murtaza Khan chief of Qadian.

I have pursued your application reminding me of your and your family’s past services and rights. I am well aware that since the introduction of the British Govt. you and your family have certainly remained devoted, faithful and steady subjects and that your rights are really worthy of regard. In every respect you may rest assured and satisfied that the British Govt will never forget your family`s rights and services which will receive due consideration when a favourable opportunity offers itself.

You must continue to be faithful and devoted subjects as in it lies the satisfaction of the Govt and your welfare.

11-6-1849. Lahore

نقل مراسلہ

(رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور)

تہورو شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند۔از آنجا کہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیہ در باب نگاہداشت سواران وبہمر سانی اسپاں بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی۔ اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔ لہٰذا بجلد وے اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ کا سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشاء چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰/ اگست ۱۸۵۸ء پروانہ ھٰذا باظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی و وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔

مرقومہ تاریخ ۲۰؍ستمبر ۱۸۵۸ء

Translation of Mr, Robert Cast‘s Certificate

To,

Mirza Ghulam Murtaza Khan Chief of Qadian

As you randered great help in enlisting sowars and supplyig horses to Govt, in the mutiny of 1857 and maintained loyalty since its beginning up to date and thereby gained the favour of Govt, a Khilat worth Rs.200/- is presented to you in recognition of good services and as a reward for your loyalty. More over in accordance with the wishes of chief commissioner as conveyed in his No.576 Dated. 10th August 1858. This parwana is addressed to you as a token of satisfaction of Govt. for your fidelity and repute.

نقل مراسلہ

فنانشل کمشنر پنجاب مشفق مہربان دوستان مرزاغلام قادر رئیس قادیان حفظہ۔

آپ کا خط دو ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ حضور اینجانب میں گذرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا۔ ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔

المرقوم۲۹؍جون ۱۸۷۶ء

الراقم سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر فنانشل کمشنر پنجاب

Translation Of Sir Robert Egerton

Financial Commr`s:

Murasala Dated 29 June 1876.

My dear friend Ghulam Qadir,

I have perused your letter of the 2nd instant and deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza. who was a great well wisher and faithful chief of Govt.

In consideration of your family services. I will esteem you with the same respect as that bestowed on your loyal father. I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favourable opportunity occurs.”

(روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۱۷۹۔۱۸۵)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button