خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ یکم ستمبر 2023ء

بیعت کا حق ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ تبھی ادا ہو سکتا ہے جب ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے کی کوشش کریں

جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں شامل ہونےو الے دینی علم سیکھیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اورمحبت میں بڑھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کرنے والے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تعلق ہو۔ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور دین مقدم ہو

’’جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں‘‘

ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کتنے ہیں جو غور کر کے قرآن کریم کو پڑھتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں

اعتماد کے ساتھ ہر احمدی کو قرآن کریم کو استعمال کرنا چاہیے۔ جہاں یہ ہماری تربیت کے لیے راہنما ہے وہاں غیروں کے اعتراضوں کے جواب دینے کے لیے بھی ایک زبردست ہتھیار ہے

ہر احمدی کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی نماز کی کیا حالت ہے۔ اگر ہماری یہ حالت درست ہو گئی اور ہمارا اللہ تعالیٰ سے اس طرح تعلق قائم ہو گیا تو پھر ہی وہ حالت ہے جب ہمیں حقیقی خوشی ملے گی

’’جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ معاصرت بھی رتبہ کو گھٹا دیتی ہے‘‘

’’میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں‘‘ جب ہم مسجدیں بنا رہے ہیں تو ان کو آباد کرنے کی بھی ایک فکر ہونی چاہیے

اعلیٰ اخلاق کا اظہار آپس کے تعلقات میں بھی ہونا چاہیے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُرمعارف ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے مقاصد اور جماعت احمدیہ جرمنی کے لیے نئی صدی کا ٹارگٹ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ یکم ستمبر 2023ء بمطابق یکم تبوک 1402 ہجری شمسی بمقام جلسہ گاہ (Messe Stuttgart)، جرمنی

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

الحمد للہ آج

جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ

چار سال کی پابندیوں کے بعد وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو جلسہ کے مقاصد کو حاصل کرنے والا بنائے اور وہ اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوبارہ اکٹھا ہونے کا موقع دیا ہے تو ایک دوسرے کو مل لیں گے، کچھ مجلسیں لگا لیں گے اور بس۔ نہیں! بلکہ

ایک بہت بڑا مقصد ہے جلسےکے انعقاد کا

جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے اور بڑے درد سے اس کا اظہار بھی کیا ہے وہ یہ ہے کہ

آپؑ کی بیعت میں شامل ہونےو الے دینی علم سیکھیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت میں بڑھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کرنے والے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تعلق ہو۔ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور دین مقدم ہو۔

آپ علیہ السلام ایک موقع پر فرماتے ہیں: ’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے۔‘‘(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351)پس پہلی کوشش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان مخلصین میں شامل ہونے والے ہوں جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب آ جائے اور ہمارے ہر قول و فعل سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہو۔

اس سال جماعت احمدیہ کو جرمنی میں قائم ہوئے سو سال بھی ہو گئے ہیں۔

جرمن جماعت کے افراد اس بات پر بڑے excitedبھی ہیں، خوش بھی ہیں کہ ہم اس سال جماعت کے قیام کے سو سال پورا ہونے پر یہ جلسہ کر رہے ہیں جوجماعت کے سو سال کے قیام کا جلسہ ہے۔ بہت لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یقیناً یہ خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اسلام کا خوبصورت پیغام اس ملک میں پہنچایا ہے بلکہ آپؑ کی زندگی میں بھی یہاں پیغام آ چکا تھا۔ اس لیے پیغام آئے ہوئے تو سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن ساتھ ہی

ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے اور سوچنا چاہیے کہ ان سو سالوں میں ہم نے کیا حاصل کیا۔ ہم نے اپنے ایمانوں کی کس حد تک حفاظت کی۔

جب جماعت یہاں شروع ہوئی تو چند ایک لوگ تھے۔ پھر پاکستان کے حالات بدلے، دنیا کے حالات بدلے تو بہت سے احمدی اس ملک میں آ کر آباد ہوئے۔ وہ اس لیے یہاں آئے کہ وہ احمدی تھے اور احمدی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی تعلیم پر عمل کرنے اور کھل کر اس کا اظہار کرنے پر ان پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ پس جب یہاں آ کر ان کو یہ مذہبی آزادی ملی کہ وہ کھل کر اپنے دین پر عمل کر سکیں تو پھر انہیں ایک خاص محنت سے اپنی حالت میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کر کے پھر ان پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے جن کا تقاضا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت سے کیا ہے۔ کیا وہ کوشش ہم نے کی ؟

کیا ہم نے اپنی روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی دین سے جوڑے رکھنے کی خاص کوشش کی؟ تاکہ ان مخلصین میں شامل ہو سکیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام چاہتے ہیں۔ اگر کی تو یہی وہ حقیقی شکرانہ ہے جو سو سال پورے ہونے پر ہم ادا کرنے والے ہوں گے اور جس کی ایک احمدی سے توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر نہیں تو صرف دنیاوی رسم و رواج کے مطابق سو سال پورے ہونے پر خوشی بے فائدہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ اپنی بیعت میں آنے والوں کو اپنے اندر پاک اور انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے لائحہ عمل دیا ہے۔ انہیں نصائح فرمائی ہیں۔ پس اگر ہم حقیقی طور پر ان مخلصین میں شامل ہیں جو آپؑ کی بیعت میں آئے تو ہمیں پھر ہر وقت ان کی جگالی کرتے رہنا چاہیے اور پھر اپنے قول و فعل کا اس کے ساتھ موازنہ بھی کرتے رہنا چاہیے کہ کس حد تک ہم اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا مقصد ہے۔ کہیں ہم اس ترقی یافتہ دنیا میں آ کر اپنے اس مقصد کو بھول تو نہیں گئے۔ کہیں دنیا کی چکا چوند نے ہمیں بیعت کے مقصد کو بھلانے والا تو نہیں بنا دیا۔ اگر بھلا دیا ہے تو یہ سو سالہ جشن بے فائدہ ہے۔

اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعض ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا جو ہمیں ہمارے مقصد کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔

سب سے پہلے میں آپ علیہ السلام کا یہ ارشاد پیش کروں گا جس میں آپؑ نے فرمایا کہ

ہماری بیعت ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے۔

فرماتے ہیں: ’’یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے یہ تو صرف پوست ہے۔‘‘ باہر کی کھال ہے۔ ’’مغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی جو کسی کام نہیں آ سکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں۔ ہاں ایک دو منٹ تک کسی بچے کے کھیل کا ذریعہ ہو تو ہو۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونو باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا تو اسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا۔‘‘ جو پیچھے ہٹتے ہیں جماعت سے ان کا یہی حال ہے۔ اسی طرح فرمایا ’’اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟‘‘ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔

’’جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔

خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 167۔ایڈیشن 1984ء)

پس بیعت کا حق ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ تبھی ادا ہو سکتا ہے جب ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے کی کوشش کریں۔

دنیاوی لذات کو دُور کر کے ہی انسان ایسا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ دنیا میں رہ کر پھر دین کو مقدم رکھنا یہی اصل جہاد ہے جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

دین کو دنیا پر مقدم کرنا کیا ہے! کیا دنیا کو بالکل ترک کر دینا ہے؟

اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان سست ہو جاویں۔ اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لئے ان کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو۔ ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کو اس وقت بھی مد نظر رکھیں تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کر لے۔ نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔

ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں۔ دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔ اصل مقصود دین ہو۔ پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے۔

صحابہ کرامؓ کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔ لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے۔ وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے۔ نمازوں کو نہیں چھوڑا۔ دعاؤں سے کام لیا۔ اب یہ بدقسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں۔ بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں۔ جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔‘‘ یہ عام مسلمانوں کا حال ہے۔ ’’پھر ایسی حالت میں کیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں جبکہ وہ سب کی سب دنیا ہی کے لیے ہیں۔ یاد رکھو جب تک لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرے ذرے پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی۔‘‘ یہ لکھی ہوئی بات ہے۔ ’’اگر تم مغربی قوموں کا نمونہ پیش کرو کہ وہ ترقیاں کر رہے ہیں۔ ان کے لئے اَور معاملہ ہے۔ تم کو کتاب دی گئی ہے۔ تم پر حجت پوری ہو چکی ہے۔ ان کے لئے الگ معاملہ اور مواخذہ کا دن ہے۔‘‘ان کا مواخذہ کیا ہو گا کب ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہوں گے اور ہو گا یقیناً لیکن ہو سکتا ہے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کرے، اس دنیا میںنہ کرے۔ لیکن ہم جو دعویٰ کرتے ہیں ایمان کا پھر اگر عمل نہیں کرتے تو ہمارا مواخذہ اس دنیا سے بھی شروع ہو سکتا ہے۔ پس بڑے فکر کی بات ہے۔ فرمایا

’’تم اگر کتاب اللہ کو چھوڑو گے تو تمہارے لئے اسی دنیا میں جہنم موجود ہے۔

ایسی حالت میں قریباً ہر شہرمیں مسلمانوں کی بہتری کے لئے انجمنیں اور کانفرنسیں ہوتی ہیں لیکن کسی ہمدرد اسلام کے منہ سے یہ نہیں نکلتا کہ

قرآن کو اپنا امام بناؤ۔ اس پر عمل کرو۔

اگر کہتے ہیں تو بس یہی کہ انگریزی پڑھو، کالج بناؤ، بیرسٹربنو۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا پر ایمان نہیں رہا۔ حاذق طبیب بھی دس دن کے بعد اگر دوا فائدہ نہ کرے تو اپنے علاج سے رجوع کر لیتے ہیں۔‘‘ یہ علاج چھوڑ کے دوسرا علاج شروع کرتا ہے۔ ’’یہاں ناکامی پر ناکامی ہوتی جاتی ہے اور اس سے رجوع نہیں کرتے۔ اگر خدا نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر بے شک ترقی کر لیں گے لیکن جبکہ خدا ہے اور ضرور ہے پھر اس کو چھوڑ کر کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے، اس کی بے عزتی کر کے، اس کی کتاب کی بے ادبی کر کے چاہتے ہیں کہ کامیاب ہوں اور قوم بن جاوے،کبھی نہیں‘‘۔

غیر مسلموں کو قرآن کریم جلانے کی کیوں جرأت پیدا ہوئی۔ اس لیے کہ ہم نے عملاً قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور اسی وجہ سے ان کو جرأت پیدا ہوئی جس سے ہم بھی گناہگار ہوئے۔ مسلمان گناہگار ہوئے۔

فرمایا ’’ہماری رائے تو یہی ہے جس کو آنکھیں دیکھتی ہیں۔ ترقی کی ایک ہی راہ ہے کہ خدا کو پہچانیں اور اس پر زندہ ایمان پیدا کریں۔ اگر ہم ان باتوں کو ان دنیا پرستوں کی مجلس میں بیان کریں تو وہ ہنسی میں اڑا دیں مگر ہم کو رحم آتا ہے کہ افسوس یہ لوگ اس کو نہیں دیکھ سکتے جو ہم دیکھتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 158-159۔ایڈیشن 1984ء)فرمایا میں تو ایسی نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ

مسلمانوں کی تباہی ہی تباہی ہے اگر قرآن کریم پر عمل نہیں کریں گے۔

پس مسلمان کہلا کر پھر دو عملی نہیں چل سکتی۔ مسلمانوں کی حالت کا نقشہ ہمارے لیے کافی سبق ہے۔ نام تو دین کا لیتے ہیں لیکن باتیں دنیا کی کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہر جگہ مسلمانوں کی حالت خستہ ہے۔ پس یہ بہت غور کا مقام ہے، بڑے فکر کا مقام ہے۔

پھر

دین کو ہر حال میں دنیا پر مقدم کرنے کے بارے میں

مزید ایک جگہ آپؑ نے یوں فرمایا:’’دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ لوگ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔‘‘ پہلے بھی وضاحت فرمائی ’’نہیں، صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔

انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔‘‘ پس یہ ہر احمدی کے لیے راہنما اصول ہے۔

’’کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔‘‘ مداہنت نہیں دکھانی، اپنا دین نہیں چھپانا۔ فرمایا ’’میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پا لیتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔‘‘ دنیاوی حزب اللہ نہیں، لڑائیاں کرنے والے، جنگیں کرنے والے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والا گروہ ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے۔ جو شیطان سے اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔ ’’مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ (الصف: 11)‘‘ کیا میں تمہیں ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے۔ وہ کیا ہے؟ دین کی تجارت۔ فرمایا ’’سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو درد ناک عذاب سے نجات دیتی ہے۔ پس میں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ میں زیادہ امید ان پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے۔ جو اس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو نہ پا لے۔ اس لئے کبھی سست نہیں ہونا چاہئے۔ ہر امر کو جو سمجھ میں نہ آئے پوچھنا چاہئے تاکہ معرفت میں زیادت ہو۔ پوچھنا حرام نہیں۔ بحیثیت انکار کے بھی پوچھنا چاہئے اور عملی ترقی کے لئے بھی۔‘‘ اگر انکار کرنا ہے کسی بات کا تب بھی پوچھو۔ سوال تو کرو۔ جواب تو حاصل کرو اور علمی ترقی کے لیے بھی پوچھنا چاہیے۔

’’جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کریں۔ اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے۔ قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہا گوہر موجود ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ 193تا 194۔ایڈیشن 1984ء)

پس دین کا علم حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کی راہنمائی کو پکڑنا ضروری ہے اور یہ قرآن کریم ہی اب صحیح راہنمائی کرے گا۔ اور یہی طریقہ ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی طرف راہنمائی کرے گا۔ پس

ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کتنے ہیں جو غور کر کے قرآن کریم کو پڑھتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپؑ یہ توجہ دلاتے ہوئے کہ

قرآن شریف کے ہم پر بہت احسانات ہیں اس لیے اس کو بہت غور سے اور توجہ سے پڑھنا چاہیے

فرماتے ہیں:’’پس یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:14-15)‘‘ یہ فیصلہ کرنے والا قول ہے کوئی فضول باتیں نہیں ہیں اس میں۔ ’’وہ میزان، مہیمن، نور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیساکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور،حکمت اور معرفت ہے دکھانا چاہتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارہ نہیں کر سکتے۔

خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے

اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ

خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے۔‘‘

حقائق کے ظاہر کرنے کے لیے بتانے کے لیے قائم کیا ہے ’’کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیساکہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ 155۔ایڈیشن 1984ء)

پس قرآن کریم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔بہت سے سوال اکثر احمدی کرتے ہیں۔ اگر وہ قرآن کریم کو غور سے پڑھیں تو وہیں ان کو ان کے جواب بھی مل جائیں گے۔ مختلف فنکشنز (functions)میں جب قرآن کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو سننے والے متاثر ہوتے ہیں، اسلام کی خوبیوں کے معترف ہوتے ہیں۔ پس

اعتماد کے ساتھ ہر احمدی کو قرآن کریم کو استعمال کرنا چاہیے۔ جہاں یہ ہماری تربیت کے لیے راہنما ہے وہاں غیروں کے اعتراضوں کے جواب دینے کے لیے بھی ایک زبردست ہتھیار ہے۔

دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا خدا تعالیٰ سے بھی تعلق پیدا ہو جائے۔ احکامات کا پتہ چل جائے تو پھر ان احکامات دینے والے سے تعلق ہونا چاہیے، خدا تعالیٰ سے بھی تعلق ہونا چاہیے اور یہ تعلق عبادت سے پیدا ہوتا ہے اور عبادت کا اسلام میں بہترین ذریعہ نماز ہے۔ پس

ہر احمدی کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی نماز کی کیا حالت ہے۔ اگر ہماری یہ حالت درست ہو گئی اور ہمارا اللہ تعالیٰ سے اس طرح تعلق قائم ہو گیا تو پھر ہی وہ حالت ہے جب ہمیں حقیقی خوشی ملے گی۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’میرا مذہب تو یہ ہے کہ جس کو بلا سے بچنا ہو وہ پوشیدہ طور پر خدا سے صلح کر لے اور اپنی ایسی تبدیلی کر لے کہ خود اسے محسوس ہووے کہ میں وہ نہیں ہوں۔ خدا تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرعد:12)‘‘ یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے تبدیل نہ کریں جو ان کے نفسوں میں ہے، ان کے دلوں میں ہے۔ فرمایا

’’سچے مذہب کی جڑ خدا پر ایمان ہے اور خدا پر ایمان چاہتا ہے کہ سچی پرہیز گاری ہو۔ خدا کا خوف ہو۔

تقویٰ والے کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ آسمان سے اس کی مدد کرتا ہے۔ فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ متقی سے معجزہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اگر انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی کرلے اور ان افعال اور اعمال کو چھوڑ دے جو اس کی نارضامندی کا موجب ہیں تو وہ سمجھ لے کہ ہر ایک کام برکت سے طے پا جائے گا۔ ہمارا ایمان تو آسمانی کارروائیوں ہی پر ہے۔‘‘ آسمان سے کام ہوں گے تو ہوں گے اَور کوئی ذریعہ نہیں۔ ’’یہ سچی بات ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کسی کا ہو جائے تو سارا جہان اپنی مخالفت سے کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ جس کو خدا محفوظ رکھنا چاہے اس کو گزند پہنچانے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس خدا پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔‘‘ فرمایا ’’پس خدا پر بھروسہ کرنا ضروری ہے اور یہ بھروسہ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر ایک شئے سے بکلی یاس ہو۔ اسباب ضروری ہیں مگر خلق اسباب بھی تو خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہر ایک سبب کو پیدا کر سکتا ہے اس لئے اسباب پر بھی بھروسہ نہ کرو اور یہ بھروسہ یوں پیدا ہوتا ہے کہ نمازوں کی پابندی کرو اور نمازوں میں دعاؤں کا التزام رکھو۔ ہر ایک قسم کی لغزش سے بچنا چاہئے اور ایک نئی زندگی کی بنیاد ڈالنی چاہئے۔ یہ یاد رکھو!

عزیز بھی ایسے دوست نہیں ہوتے جیسے خدا عزیز ہوتا ہے۔ وہ راضی ہو تو کُل جہان راضی ہو جاتا ہے۔

اگر وہ کسی پر رضا مندی ظاہر کرے تو الٹے اسباب کو سیدھا کر دیتا ہے۔‘‘ بگڑے کام بھی بن جاتے ہیں۔ ’’مضر کو مفید بنا دیتا ہے۔ یہی تو اس کی خدائی ہے۔ ہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس کے لیے دعا کی جاتی ہے اس کو ضروری ہے کہ خود اپنی صلاحیت میں مشغول رہے۔‘‘ دعا کے لیے کہتے ہیں، دعا کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کرنے میں خود بھی مشغول ہونا پڑے گا۔ ’’اگر وہ کسی اَور پہلو سے خدا کو ناراض کر دیتا ہے تو وہ دعا کے اثر کو روکنے والا ٹھہرتا ہے۔

مسنون طریق پر اسباب سے مدد لینا گناہ نہیں ہے مگر مقدم خدا کو رکھے اور ایسے اسباب اختیار نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 184-185 ایڈیشن 2022ء)

نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ اور اس کا علاج

بیان فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:’’غرض میں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سست اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے پھر شہروں اور گاؤں میں تو اَور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے۔ سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ان کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزہ کو چکھا۔ اَور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے۔ پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے گویا ان کے دل دکھتے ہیں‘‘ کہ اذان ہو گئی اور نماز کے لیے جانا پڑے گا۔ ’’یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں۔ بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے۔ پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو! اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت باعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔

اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کر کے خواب راحت چھوڑ کر کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے۔پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے درپے پیالے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آ جاتا ہے۔ دانش مند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے‘‘ باقاعدگی سے پڑھے ’’اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سرور آ جاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسے سرور کا حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کہ وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہو جاوے گی۔ پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اسے ہوتے ہیں اور احسان پیش نظر رہے۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ(ھود:115)

نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں۔ پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے۔

یہ جو فرمایا ہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ۔یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔ وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ ان کی روح مردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا۔ اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا الصلوٰة کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنے وہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ

وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔

وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کرتی ہے۔

نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔ نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ 162تا 164 ایڈیشن 1984ء)

پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم نمازوں میں سرور حاصل کرتے ہیں ؟ کیا ہم مکمل بھروسہ صرف اسباب پر تو نہیں رکھتے؟

اگر ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں، اپنے مقصد کو پورا کرنے والے ہیں۔ ورنہ قابل فکر حالت ہے۔

پھر

علم و معرفت میں ترقی اور شیطان کے حملے سے بچنے کے بارے میں توجہ

دلاتے ہوئے اور یہ کہ

مرشد اور مرید کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں

فرماتے ہیں: ’’مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔ جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مرید اپنے مرشد سے لیکن شاگرد اگر استاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ یہی حال مرید کا ہے۔پس اس سلسلہ میں تعلق پیدا کر کے اپنی معرفت اور علم کو بڑھانا چاہئے۔ طالبِ حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہرگز ٹھہرنا نہیں چاہئے ورنہ شیطان لعین اَور طرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ کھڑے پانی میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے ،کیڑے اس میں پیدا ہو جاتے ہیں ،کئی بیماریوں کی وجہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کی حالت ہوتی ہے جو ایک جگہ ٹھہر گیا۔ پس ہمارے قدم آگے بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ فرمایا: ’’اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لئے سعی نہ کرے تو وہ گر جاتا ہے۔ پس سعادت مند کا فرض ہے کہ وہ طلب دین میں لگا رہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا لیکن آپ کوبھی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی دعا تعلیم ہوئی تھی پھر اَور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے۔ جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل طلب باقی ہیں۔ بعض امور کو وہ ابتدائی نگاہ میں (اس بچے کی طرح جو اقلیدس کے اشکال کو محض بیہودہ سمجھتا ہے)‘‘ یعنی جیومیٹری کی شکلیں ہیں یا جو مختلف ڈایاگرام (diagram)سائنسدانوں کی طرف سے بنائے جاتے ہیں تو بچہ ان کو لکیریں سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تو فرمایا کہ ایسے لوگ ایسے ہی ہیں جو بچے کی طرح ہیں۔ ان چیزوں کو ’’بالکل بیہودہ سمجھتے تھے۔‘‘ فرمایا ’’لیکن آخر وہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے۔‘‘ جب بڑے ہوئے عقل آئی تو یہ پتا لگا اس میں تو بڑی کام کی باتیں ہیں۔ ’’اس لئے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ ہی علم کو بڑھانے کے لئے ہر بات کی تکمیل کی جاوے۔ تم نے بہت ہی بیہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلہ کو قبول کیا ہے۔‘‘ فرمایا بہت سی بیہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلے کو قبول کیا ہے ’’اگر تم اس کی بابت پورا علم اور بصیرت حاصل نہیں کرو گے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوا۔ تمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی۔ ذرا ذراسی بات پر شکوک اور شبہات پیدا ہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگا جانے کا خطرہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ 193 ایڈیشن 1984ء)

پس بعض لوگ جن کے ایمان ڈگمگاتے ہیں اس لیے کہ وہ علم میں ترقی نہیں کرتے یا اپنی من گھڑت تشریحیں اور توجیہیں کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ نہیں کرتے۔

اگر ہم دینی علم کی طرف توجہ دیں تو خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان میں بھی ہم ترقی کریں گے اور اسلام اور احمدیت کی سچائی پر بھی ایمان میں ہم بڑھنے والے ہوں گے۔ اپنے بچوں کی ایمان کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے

اور اس طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر میری بیعت کی ہے تو مجھے حکَم اور عدَل تسلیم کرو۔ اس بات پر یقین رکھو کہ جو بات میں کہوں گا خدا تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق کہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص راہنمائی سے کہوں گا۔ پس آپؑ نے فرمایا کہ اپنے ایمان کی یہ حالت پیدا کرو کہ حکم اور عدل کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو۔

فرمایا کہ ’’جو شخص ایمان لاتا ہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے۔ نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔ یاد رکھو ظن مفید نہیں ہو سکتا۔‘‘ بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ’[خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا(یونس:37) ‘‘ یقیناً ظن حق سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ حق بہرحال حق ہے۔ بدظنیاں پیدا کرنے سے حق چھپ نہیں سکتا۔ ’’یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بامراد کر سکتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’یقین کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزارسکے۔‘‘ اگر دنیاوی باتوں میں تم بدظنیاں کرنے لگو۔ وہیں سے مثال دیکھ لو۔ ’’وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے۔ یہ ایک موٹی مثال ہے۔‘‘ جن کو وہم کی بیماری ہوتی ہے وہ تو اس طرح سوچ سوچ کے اپنی زندگی اجیرن کر لیتے ہیں۔ روحانی امور میں بھی یہی چیز دیکھنی چاہیے کہ ایسی بدظنیاں پیدا نہ ہوں۔ فرمایا ’’اسی طرح پر انسان روحانی امور میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حکم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔ وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہو گا۔ وہ حکم عدل ہو گا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو پھر کب ہو گی۔ یہ طریق ہرگز اچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بدظنیاں بھی ہوں۔ میں اگر صادق نہیں ہوں تو پھر جاؤ اَور صادق تلاش کرو اور یقیناً سمجھو کہ اس وقت اَور صادق نہیں مل سکتا اور پھر اگر دوسرا کوئی صادق نہ ملے اور نہیں ملے گا تو پھر میں اتنا حق مانگتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیا ہے۔

جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔ اصل بات یہ ہے کہ معاصرت بھی رتبہ کو گھٹا دیتی ہے۔

اس لئے حضرت مسیحؑ کہتے ہیں کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کو اہل وطن سے کیا کیا تکلیفیں اور صدمے اٹھانے پڑے تھے۔ سو یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک سنت چلی آتی ہے ہم اس سے الگ کیونکر ہو سکتے ہیں۔‘‘

نبیوں کی مخالفت ہوتی ہے۔ اگر ہمارے سے ہو رہی ہے تو یہ تو کوئی ایسی بات نہیں۔ ’’اس لئے ہم کو جو کچھ اپنے مخالفوں سے سننا پڑا یہ اسی سنت کے موافق ہے مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ (الحجر:12)‘‘ کہ کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا مگر وہ اس سے تمسخر کرتے ہیں۔ ’’افسوس

اگر یہ لوگ صاف نیت سے میرے پاس آتے تو میں ان کو وہ دکھاتا جو خدا نے مجھے دیا ہےاور وہ خدا خود ان پر اپنا فضل کرتا اور انہیں سمجھا دیتا مگر انہوں نے بخل اور حسد سے کام لیا اب میں ان کو کس طرح سمجھاؤں۔‘‘

اب بھی ایک سو تیس بتیس سال ہونے لگے یہ لوگ نشانات دیکھ کے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ فرمایا ’’جب انسان سچے دل سے حق طلبی کے لئے آتا ہے تو سب فیصلے ہو جاتے ہیں لیکن جب بدگوئی اور شرارت مقصود ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’… حجج الکرامہ میں ابن عربی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مسیح موعود جب آئے گا تو اسے مفتری اور جاہل ٹھہرایا جائے گا اور یہاں تک بھی کہا جاوے گا کہ وہ دین کو تغیر کرتا ہے۔ اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس قسم کے الزام مجھے دئیے جاتے ہیں ان شبہات سے انسان تب نجات پا سکتا ہے جب وہ اپنے اجتہاد کی کتاب ڈھانپ لے اور اس کی بجائے وہ یہ فکر کرے کہ کیا یہ سچا ہے یا نہیں۔ بعض امور بیشک سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں لیکن جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں وہ حسن ظن اور صبر اور استقلال سے ایک وقت کا انتظار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اصل حقیقت کو کھول دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت صحابہ سوال نہ کرتے تھے بلکہ منتظر رہتے تھے کہ کوئی آ کر سوال کرے تو فائدہ اٹھاتے تھے ورنہ خود خاموش سر تسلیم خم کئے ہوئے بیٹھے رہتے اور جرأت سوال کی نہ کرتے تھے۔ میرے نزدیک اصل اور اسلم طریق یہی ہے کہ ادب کرے۔ جو شخص آداب النبی کو نہیں سمجھتا اور اس کو اختیار نہیں کرتا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہلاک نہ کیا جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ 73تا 75 ایڈیشن 1984ء)

یہ آپؑ اپنے زمانے کی باتیں کر رہے ہیں جب لوگ آپؑ کی مجلس میں بیٹھتے تھے۔آج آپؑ کی کتابوں کو دیکھ کے بھی، پڑھ کے بھی اور دلائل سن کے بھی اس قسم کی باتیں ہی لوگ کرتے ہیں۔ فرمایا یہ شخص آداب النبی کو نہیں سمجھتے اور یہی اندیشہ ہے کہ وہ ہلاک نہ ہو جائیں۔

پس مسلمان تو اپنی بدقسمتی کی وجہ سے یہ پیغام سننے اور سمجھنے میں بڑی حیل و حجت کرتے ہیں اور ان کی حالتِ زار بھی ان کو اس طرف متوجہ نہیں کرتی کہ دیکھیں کہ کیا وجہ ہے ہماری یہ جو حالت ہوئی ہوئی ہے من حیث القوم ہم کیا بن رہے ہیں۔ زمانہ بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں بھی پوری ہو رہی ہیں تو کم از کم آنے والے موعود کو تلاش تو کریں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر میں نہیں تو کوئی اَور لیکن تمہیں اَور کوئی نہیں ملے گا۔لیکن دنیا میں پڑ کر سب بھول رہے ہیں لیکن

ہمارا کام پھر بھی یہ ہے کہ ان کو بچانے کی کوشش کریں اور مسیح موعودؑ کا پیغام ہر ایک تک پہنچائیں اور صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ ہر فرد تک چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا لامذہب ہے یہ پیغام پہنچائیں۔

ابھی تو بہت کام ہمارا کرنے والا ہے۔ جرمنی میں جماعت کو سو سال پورے ہونے پر بھی ہم جرمنوں تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا سکے۔ پس اس لحاظ سے بھی جائزے لینے کی ضرور ت ہے۔

اسلام کا پیغام پہنچانے اور تبلیغ کی طرف توجہ

دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں۔ ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو دوسرے یورپ پر اتمام حجت کریں۔ عرب پر اس لئے کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں۔ ایک بہت بڑاحصہ ایساہوگا کہ ان کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ خدا نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے۔‘‘

آج بھی حقیقت ہے ہر عرب تک ہمارا پیغام نہیں پہنچا باوجود یکہ پہلے زمانے کے لحاظ سے کوششیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ اگر پہنچا ہے تو مخالفین کے ذریعہ سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کا استہزا کرکے قادیانی کے نام سے ہمیں پکار کر ہمیں دنیا میں یا اپنے لوگوں میں متعارف کرایا ہے اور ہر جھوٹ اور من گھڑت کہانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو بتائی ہے۔ ایک طرف کاپیغام ان کو پہنچا ہے۔ اگر تعارف ہے تو مخالفین کے ذریعےسے لیکن ہمارے ذریعےسے تعارف اچھی طرح ابھی نہیں ہوا۔

بہرحال فرمایا:’’اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو پہنچائیں اگر نہ پہنچائیں تو معصیت ہوگی۔ ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ ان کی غلطیاں ظاہرکی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بناکر خد ا سے دور جاپڑے ہیں۔ یورپ کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ واقعی اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ کا مصداق ہوگیا ہے۔‘‘ یعنی وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں۔ سوائے دنیا داری کے عام طور پر لوگوں میں کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ ہمارے بعض لوگ اور نوجوان ان کی اس ترقی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انہیں بتائیں کہ تم جس طرف جا رہے ہو یہ صرف تباہی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں تبلیغ کرنی چاہیے۔ فرمایا ’’طرح طرح کی ایجادیں صنعتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ مغربی ممالک میں ترقی یافتہ ملکوں میں۔’’اس سے تعجب مت کرو کہ یورپ ارضی علوم وفنون میں ترقی کررہا ہے۔‘‘ امپریس (Impress) نہ ہو جاؤ کہ یہ ترقی ہو رہی ہے۔ ’’یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب آسمانی علوم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو پھر زمین ہی کی باتیں سوجھا کرتی ہیں۔ یہ کبھی ثابت نہیں ہوا کہ نبی بھی کلیں بنایا کرتے تھے۔‘‘ پرزے بنایا کرتے تھے ’’یا ان کی ساری کوششیں اور ہمتیں ارضی ایجادات کی انتہا ہوتی تھیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 253-254۔ایڈیشن 1984ء)

پس یہ بات ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں گڑ جانی چاہیے کہ ہم نے دنیا کمانے کے لیے احمدیت قبول نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے لیے احمدیت قبول کی ہے اور یہ پیغام ہم نے دنیا والوں کو پہنچانا بھی ہے۔یہی چیز ہے جو ہماری دنیا و آخرت سنوارنے والی ہو گی۔

آپؑ

اپنے آنے کی غرض اور مقصد

بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔

توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو اپنا مطلوب، مقصود اور محبوب اور مطاع یقین کر لیا جاوے۔ موٹی موٹی بت پرستی اور شرک سے لے کر اسباب پرستی کے شرک اور باریک شرک اپنے نفس کو بھی کچھ سمجھ لینے تک دور کر دیا جاوے۔‘‘ ہر بات میں اپنے نفس کا بھی شرک شامل نہ ہو۔ کسی باریک سے باریک چیز کا بھی شرک شامل نہ ہو، یہ توحید ہے۔ ’’جس میں دنیا گرفتار ہے‘‘ آجکل اس سے بچناہے’’اور اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جس قدر قویٰ انسان لے کر آیا ہے ان کو اپنے محل اور موقع پر خرچ کیا جاوے۔ یہ نہیں کہ بعض کو بالکل بیکار چھوڑ دیا جاوے اور بعض پر بہت زور دیا جاوے۔ مثلاًاگر کوئی ہاتھ کو بالکل کاٹ دے تو کیا اس سے کوئی خوبی پیدا ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ سچے اور کامل اخلاق یہی ہیں کہ جو جو قوتیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہیں ان کو اپنے محل پر ایسے طور سے خرچ کیا جاوے کہ جس میں افراط اور تفریط پیدا نہ ہو۔ افراط یہ ہے کہ مثلاً جس کو قوتِ شامہ میں افراط ہو تو حدت الحس کی مرض ہو جاوے گی‘‘ یعنی اس انسان کی سونگھنے کی حس اگر تیز ہو جائےتو انسان کے لیےایک مشکل کھڑی ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی خوشبو کی حس تیز ہو جاتی ہے اس کی وجہ سے ان کو تکلیف شروع ہو جاتی ہے سردرد شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اَور دوسری خوشبوئیں ہیں ان کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں تو

یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اعتدال میں رکھے اور ہر مرض سے بچائے روحانی مرض سے بھی۔

فرمایا تفریط یہ ہے۔ افراط تو حدت الحس کی مرض ہو جاوے گی ’’اور پھر اس سے اَور امراض شدیدہ پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘ بیماریاں بڑھتی ہیں۔ ’’تفریط یہ ہے کہ اس کی حس بالکل مفقود ہو جاتی ہے اور اعتدال یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے محل اور مقام پر رہیں اور یہی وہ درجہ اور مقام ہے جہاں اخلاق اخلاق کہلاتے ہیں اور اسی کو میں قائم کرنے آیا ہوں۔‘‘

درمیانہ رستہ اختیار کرنا چاہیے اور اعلیٰ اخلاق جن کا اسلام میں حکم ہے ان کو کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

فرمایا ’’روحانیت سے مراد وہ آثار اور علامات ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہونے پر مترتب ہوتے ہیں اور یہ کیفیتیں ہیں جب تک پیدا نہ ہوں انسان سمجھ نہیں سکتا مگر اصل غرض یہی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 297 ایڈیشن 2022ء)

پس یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں ایک ایسا انسان بناتی ہیں جو حقیقی مومن ہے۔ پس

یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس معیار پر ہیں کہ ہمارا مقصود و مطلوب اور سب سے زیادہ محبوب خدا تعالیٰ کی ذات ہو۔ اگر یہ نہیں تو ہم ابھی اپنے ایمان کے کمزور درجےپر ہیں۔

پس جائزے لینے کی ضرورت ہےکہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر ہماری ہر دنیاوی خواہش بے حقیقت ہے کہ نہیں، اس کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہو گا تو تبھی ہم مسجدوں کے بھی حق ادا کرنے والے ہوںگے۔

اسی طرح

جب ہم مسجدیں بنا رہے ہیں تو ان کو آباد کرنے کی بھی ایک فکر ہونی چاہیے۔

پس ہر احمدی کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ توحید کا کس حد تک اس کے دل میں زور ہے، شوق ہے، جذبہ ہے۔ اسی طرح اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہے تو ہر احمدی سے ہونا چاہیے۔ یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو ہمارا پیغام پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ مختلف مساجد کے افتتاح میں جب میں جاؤں تو جو احمدیوں کے واقف لوگ ہیں وہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ احمدیوں کے اخلاق اچھے ہیں لیکن

ایک کمی میں نے دیکھی ہے۔ یہ اچھے اخلاق دکھا کر پھر اسلام اور احمدیت کا تعارف صحیح طور پر نہیں کرایا جاتا۔

اگر یہ تعارف کروایا جائے تو پھر ہی ہم جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا احمدیت اور اسلام کا صحیح پیغام یورپ کے لوگوں تک، اس ملک کے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔

اسی طرح

اعلیٰ اخلاق کا اظہار آپس کے تعلقات میں بھی ہونا چاہیے۔

صرف یہ نہیں کہ غیروں کے لیے۔ ان کو تو اعلیٰ اخلاق دکھا دیے اور گھر میں اور اپنے معاشرے میں ایک فساد برپا ہو۔ پس یہ باتیں ہیں جن کو ہمیں اخلاق کے حوالے سے اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ یہی اعلیٰ اخلاق ہیں جن کے پیدا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے تھے اور پھر فرمایا کہ روحانیت کے معیار کا نتیجہ تب مترتب ہوتا ہے، تب ظاہر ہوتا ہے، تب اس کا پتا چلے گا کہ روحانیت پیدا ہوئی ہے جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے۔ اپنوں اور غیروں کو ایک حسن ہمارے اندر نظر آ رہا ہو گا۔ ہمارے بچے ہمارے سے سبق لینے والے ہوں گے تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم یہ معیار حاصل کرنے والے ہیں۔

امیر صاحب جرمنی گذشتہ دنوں مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ

ہمارا اگلی صدی کا ٹارگٹ

کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جن چند باتوں کا میں نے ذکر کیا ہے، یہ ساری باتیں نہیں ہیں چند باتیں ہیں جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔

کیایہ ہم نے اس گزری ہوئی صدی میں حاصل کر لیا ہے؟ کیا ہمارا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا ہو گیا ہے؟ کیا ہماری نمازوں کے اعلیٰ معیار قائم ہو گئے ہیں؟ کیا ہم نماز کے اوقات میں دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر نماز کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں یا صرف مسجدیں بنانے پر ہی زور ہے؟ کیا ہم قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدہ ہیں ؟ کیا ہم قرآنی احکامات کو تلاش کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ کیا ہم اپنے بچوں کو دین سے جوڑنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں ؟ کیا ہمیں صرف اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کی فکر ہے یا ان کی دین کی بھی فکر ہے۔ کیا ہمارے اعلیٰ اخلاق آپس کے تعلقات میں وہ معیار حاصل کر چکے ہیں جو رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:30) کا نظارہ ہمیں دکھائیں؟ کیا اعلیٰ اخلاق کے نمونے غیروں پر ظاہر کر کے انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے ہم آگاہ کر رہے ہیں یا صرف کہیں اعلیٰ اخلاق دکھا کر ہم یہ بتا رہے ہیں کہ ہم پُرامن لوگ ہیں؟

بہت سی جگہوں پر جب مجھے غیروں سے کچھ کہنے کا موقع ملا تو اکثر لوگوں نے یہی کہا ہے کہ ہمیں اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا پہلی دفعہ علم ہوا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اپنے تعلقات اور اخلاق اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کر رہے جس طرح کرنے چاہئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کرنے کا کیا فائدہ ہے جب اس سے اسلام کی تعلیم کا تعارف ہی لوگوں میں نہ ہو۔

پس پہلے یہ جائزہ لیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیاروں کو کس حد تک ہم نے حاصل کر لیا ہے۔ اگر حاصل کر لیا ہے جو میرے نزدیک ابھی حاصل نہیں ہوا اور خود اپنے جائزے سے ہر ایک کو پتہ لگ جائے گا، میرے کہنے کی ضرورت نہیں۔ تو پھر

اگلی صدی کا نیا ٹارگٹ کیا ہے!

اگلی صدی کا ٹارگٹ یہی مختصر لائحہ عمل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میں نے بیان کیا ہے۔ ہم یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے دنیا کے دل جیتنے ہیں۔ اس دنیا کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرنا ہے۔ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے۔ پس اس حوالے سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ جرمنی کی جماعت احمدیہ کو نئی صدی میں داخل ہونا چاہیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اپنی اولادوں اور نسلوں کو بھی یہ نصیحت کرتے رہیں گے اور ان کی اس طرح تربیت کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی یہ جاگ ایک نسل سے دوسری نسل میں لگتی چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button