بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر۶۱)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…اگر کوئی قربانی کی استطاعت رکھتا ہو تو کیا اس پر قربانی فرض ہے؟

٭…ایمان ابو طالب کے بارے میں راہنمائی

سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ قربانی صرف حج کرنے والوں پر فرض ہے۔ میرا سوال ہے کہ اگر کوئی شخص حج پر نہ جائے اور قربانی کی استطاعت رکھتا ہو تو کیا اس پر قربانی فرض نہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۹؍جولائی ۲۰۲۲ء کو اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔حضورنے فرمایا:

جواب: عیدالاضحیہ کی قربانی کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضورﷺبڑی باقاعدگی کے ساتھ ہر سال عیدالاضحیہ کے موقعہ پر قربانی کیا کرتے تھے، خواہ آپ حج پر تشریف لے گئے ہوں یا آپ مدینہ میں ہی مقیم رہےہوں۔ اور بعض اوقات آپ نے اپنی قربانی کے جانور مدینہ سے مکہ میں قربان کرنے کے لیے بھی کسی کے ساتھ بھجوائے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمﷺنے اپنی قربانی کے جانور میرے والد کے ساتھ مکہ بھجوائے۔(بخاری کتاب الحج بَاب مَنْ قَلَّدَ الْقَلَائِدَ بِيَدِهِ) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺمدینہ منورہ میں دس سال رہے اور آپ نے ہر سال قربانی کی۔(سنن ترمذی کتاب الاضاحی بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ سُنَّةٌ) پھر حضورﷺکی یہ بھی سنت تھی کہ آپ ایک سے زیادہ جانوروں کی بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ جب قربانی کرنا چاہتے تو آپ دو ایسے مینڈھے خریدتے جو موٹے، سینگوں والے اور خصی ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک آپ اپنی امت کی طرف سے اور دوسرا اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ذبح کرتے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی بَاب أَضَاحِيِّ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حضورﷺنے صحابہ کو بھی مختلف مواقع پر قربانی کرنے کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ حضرت مخنف بن سلیمؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا اے لوگو!ہر گھر کو ہر سال قربانی کرنی چاہیے۔(سنن ترمذی کتاب الاضاحی بَاب الْأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ) اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جو شخص توفیق کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری نماز کی جگہ کے قریب نہ آئے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی بَاب الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا)

علاوہ ازیں حضورﷺنے حضرت علیؓ کو یہ وصیت بھی فرمائی کہ وہ ہر سال حضورﷺکی طرف سے قربانی کیا کریں۔( سنن ابی داؤد کتاب الضحایا بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ)

ان روایات کے پیش نظر بعض فقہاء نےجن میں حضرت ابو حنیفہ ؒبھی شامل ہیں، عید الاضحیہ کی قربانی کو واجب قرار دیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی صاحب استطاعت کے لیے قربانی کو فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں) ایک شخص کی عرضی پیش ہوئی کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی۔ مگران لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کر دیا ہے۔ کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دیدوں تو میری قربانی ہو جائے گی؟ فرمایا:

قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکرا قربانی کرو۔ اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں ہے۔ (بدر نمبر ۷، جلد۶، مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ءصفحہ۸ )

پس جو شخص قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اس پر فرض ہے کہ وہ حسب استطاعت قربانی کرے اور جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتا، اس کے لیے قربانی فرض نہیں ہے۔

باقی جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قربانی کے مسئلہ کے بارے میں جواب کا تعلق ہے تو جس یوٹیوب کے کلپ کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس سارے جواب کو اگر آپ غورسے سنیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایسے ممالک جہاں لوگ آسودہ حال ہیں اور انہیں سارا سال سہولت کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں میسر ہوتی ہیں، عید کی قربانیاں بھی اس سوچ کے ساتھ کہ خود اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے سے زیادہ ثواب ہو گا، صرف انہی امیر ممالک میں کر لی جائیں اور غریب ممالک کے لوگوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ بات قربانی کی روح کے خلاف ہے۔ ہاں تبرک کے طور پرکچھ قربانیاں ان آسودہ حال ممالک میں کر لینی چاہئیں لیکن زیادہ قربانیاں غریب ممالک میں کر کے وہاں کے لوگوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرنا قربانی کی روح کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ حضور ؒنے اس سوال کے جواب میں کہ قربانی کے بارے میں اسلامی فلسفہ کی روشنی میں کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ صاحب استطاعت آدمی خود قربانی کرے نہ کہ کسی کو کہہ دے کہ میں پیسے بھیج دیتا ہوں تم قربانی کر دینا۔یہ کہاں تک درست ہے؟ فرمایا:قربانی کا جہاں تک تعلق ہے، قربانی جو فرض ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے حج کے موقعہ پر ارض حرم میں فرض ہے۔باقیوں کے لیے قرآن کریم نے کہیں قربانی کی فرضیت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس لئے وہ حج کی قربانی کی تائید میں ثواب لینے کی خاطر کرتے ہیں۔ اور ثواب لینے کی خاطر ثواب کے مفہوم کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اپنے ہاتھ سے چھری چلا دیں ایک ایسے معاشرہ میں جہاں لوگ پہلے ہی گوشت کھا کھا کرپاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ Mad cow disease عام ہو گئی ہے اور جہاں غریب مسلمان بھوکا مررہا ہے یا افریقن بھوکا مر رہا ہےوہاں قربانی نہ کروائیں کہ مجھے ثواب مل جائے۔ تو ثواب ملے گا یا عذاب ملے گا۔ تبرکاً کچھ قربانی اگر انسان شوق کے جذبہ سے یہاں بھی کر دےمیں اس کے خلاف نہیں کہتا۔مگر ایسے ملکوں میں بہتر ہے مسلمان کے لیے کہ اپنے غریب ملکوں میں اپنے بھائیوں کی خاطر جن کو سال میں ایک دفعہ بھی گوشت نصیب نہیں ہوتا۔سوائے اس کے کہ قربانی کے دن کچھ مل جائے۔ وہاں قربانیاں کروائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، قرآن کریم کی آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ قربانیوں کا گوشت ملنا ہے اور نہ خون ملنا ہے، تمہارے دل کا تقویٰ ملے گا۔ پس اگر تقویٰ کے ساتھ آپ دوسرے ملک میں قربانی کرائیں تو تقویٰ تو خدا کو پہنچ جائے گا۔ جزاء تقویٰ کی ملنی ہے نہ کہ گوشت کی ملنی ہے۔(مجلس سوال و جواب مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۹۷ء)

سوال: کینیڈا ہی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مجلس سوال و جواب میں فرمایا تھا کہ حضرت ابو طالب کے مشرک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ان کے مسلمان ہونے کا کوئی ثبوت ہے، انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ لیکن ان کو مشرک اور جہنمی کہنا گناہ ہے۔ جبکہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ حضرت ابو طالب کے ٹخنوں تک آگ پہنچے گی۔ جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔ ان دونوں باتوں میں تضاد لگتا ہے، اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے متعلق درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب:یہ بات بالکل درست ہے کہ حضرت ابو طالب کے مشرک ہونے کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت ابوطالب نے غیر معمولی طور پر آنحضورﷺ کی مدد اور حمایت کی، چنانچہ شعب ابی طالب میں محصور رہنے کا تکلیف دہ زمانہ ہو یا مشرکین مکہ کی پُر زور مخالفت ہوکسی موقعہ پر بھی آپ نے حضورﷺکا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آنحضورﷺکی کفار مکہ کی طرف سے ہونے والی مخالفت اور حضرت ابوطالب کی طرف سے حضورﷺکو ملنے والی حمایت کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریّہ ہیں سفہاء ہیں اور ذرّیت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النّار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضرتﷺکو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کانام ہیزم جہنّم اور وقود النّار رکھااور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذرّیت شیطان اور پلید ٹھہرایامیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتاہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے بازآجاورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔آنحضرتﷺنے جواب میں کہاکہ اے چچایہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چچا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔آنحضرتﷺیہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیّت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرتﷺیہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اِس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تُو اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے جااپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔

یہ سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگریہ تمام عبارت الہامی ہے جوخدائے تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لیے اس عاجز کی طرف سے ہے۔ اس الہامی عبارت سے ابو طالب کی ہمدردی اور دلسوزی ظاہرہے لیکن بکمال یقین یہ بات ثابت ہے کہ یہ ہمدردی پیچھے سے انوار نبوت وآثار استقامت دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۱۰ تا ۱۱۲ و حاشیہ)

پس حضرت ابو طالب نے حضورﷺکی انتہائی درجہ کی حمایت کی یہاں تک کہ حضورﷺکی خاطر وہ اپنی قوم کی مخالفت اٹھانے کو بھی تیار ہو گئے۔ لیکن انہوں نے اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑا اور حضورﷺکے اصرار کے باوجود کلمہ پڑھ کر توحید کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ رؤسائے مکہ کی شکایت پر حضرت ابو طالب کے حضورﷺکو اس کام سے باز آنے کی تلقین کرنے اور پھر حضورﷺکے جواب پر حضرت ابو طالب کی طرف سے حضورﷺکی حمایت کے اعلان کے واقعہ کا ذکر کر کے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:ابو طالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا ہےاور یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریمﷺکو ان سے بہت ہی محبت تھی ان کی قربانیوں اور حسن سلوک کی وجہ سے، اس لئے آپ کو سخت دکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مر رہے ہیں۔ آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لا إله إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰهِکہہ دیجئے مگر ابو طالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ آخر رسول کریمﷺنے بہت اصرار کیا آپ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چچا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ابو طالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانا نہ چاہتے تھے۔ اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریمﷺکے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔(خطبات محمود جلد۱۷ صفحہ ۲۶۴، مورخہ یکم مئی ۱۹۳۶ء)

پس ایک طرف تو حضرت ابو طالب نے اپنے آخری سانسوں تک حضورﷺکا ساتھ دیا لیکن دوسری طرف حضورﷺ اور آپ کے دین کو سچا جانتے ہوئے بھی انہوں نے کلمہ پڑھ کر توحید کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے حضورﷺنے حضرت ابوطالب کے بارے میں فرمایا کہ امید ہے کہ قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کچھ نفع دے گی کہ وہ آگ کے درمیانے درجہ میں کر دیے جائیں گے کہ آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوتے۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب قصۃ ابی طالب) دوزخ کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺمیں صراحت موجود ہے ایک ہسپتال کی مانند ہے اور گناہگاروں کو اس میں علاج کے لیے بھیجا جائے گا۔ اب ہسپتال میں کینسر کا علاج کروانے والے مریض بھی جاتے ہیں اور چھوٹے موٹے زخم کی مرہم پٹی کروانے والا شخص بھی جاتا ہے۔پس حضورﷺکے اس ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے کہ جس طرح دوسرے مخالفین اسلام جنہوں نے اسلام کی مخالفت اور اسے نابود کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا اور اس کی دشمنی میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا ان کا جہنم میں جانا ایسا ہی ہو گا جس طرح کہ ایک موذی مرض میں مبتلا انسان ہسپتال میں جاتا ہے اور ایک لمبے عرصہ کے لیے اس میں رہتاہے۔ اور حضرت ابوطالب کا جہنم میں جانا ایسا ہی ہو گا جس طرح ایک چھوٹے سے زخم کی مرہم پٹی کروانے والا شخص ہسپتال میں جاتا ہے اور مرہم پٹی کروا کر گھر واپس آ جاتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۳ اور ۱۱۴ کی تشریح میں مشرکین کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر مشرک کے متعلق یہ حکم نہیں ہے، بعض مشرک نادانی اور رسم ورواج کے تابع شرک بھی کرتے ہیں، اللہ کا خوف بھی رکھتے ہیں، اللہ کی دشمنی نہیں کرتے۔ چنانچہ ہندوؤں میں بکثرت ایسی مثالیں ہیں کہ ویسے مشرک کہلائیں گے لیکن خدا کا خوف رکھنے والے ہیں۔ دعاؤں کی تحریک کرتے ہیں اور مومن ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی کثرت سے ایسے ہندو آتے تھے جو آپ کو نیک سمجھتے تھے اورآپ کا تعلق باللہ ان پر واضح اور روشن تھا۔ اس لیے چونکہ وہ آپ کی سچی خوابوں کےپورا ہونے اور بعض الہامات کے پورا ہونے کےگواہ بھی تھے۔ آپ سے دعائیں کراتے تھے اور آپ دعائیں کرتے تھے۔ میرے پاس ہندوستا ن سےکثرت سے خط آتے ہیں۔جوں جوں جماعت کا تعارف پھیل رہا ہےاور بعض ہندو ٹیلی ویژن کے ذریعہ رابطہ کر کے لکھتے ہیں کہ ہمارا تأثر ہے کہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، ہمارے لئے بھی دعائیں کریں۔ تو مشرکوں کی قسمیں ہیں۔ بعض وہ ہیں جو شرک پر پختہ ہو کر پھر توحید کے دشمن بن جاتے ہیں، ان کے لیے قطعی منع ہے کوئی دعا نہیں کرنی، استغفار نہیں کرنا۔اور میرے نزدیک ان آیا ت میں اس مضمون کو کھول دیا گیا ہے۔ فرمایا ہے، ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں۔وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ۔( خواہ وہ (ان کے) قریبی ہی کیوں نہ ہوں بعد اس کے کہ اُن پر روشن ہوچکا ہو کہ وہ جہنمی ہیں) شرک تو ان کا واضح تھا۔ بعد میں تَبَیَّن کس چیز کا ہوا ہے۔ ایسے لوگ تو معروف مشرک تھے، بیٹوں کو نہیں پتہ تھا کہ وہ مشرک ہیں؟ تو دعا کب روکتے ہیں وہ؟ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ، جب یہ بات ان پر خوب کھل جائے کہ وہ اصحاب جہنم ہیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ مشرک تو جہنم میں جائے گا لیکن مشرک جو مومن ہو جائے گا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ کسی پر یہ بات کیسے کھل جائے گی کہ وہ جہنمی ہے، اس کے سمجھنے کا طریق یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی مثال دیدی ہے۔ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ۔(اور ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف اس وجہ سے تھا کہ اس نے اس سے ایک وعدہ کیا تھا۔) مشرک جانتے ہوئے باپ سے وعدہ کر لیا کہ میں تیرے لیے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا کرنے کی اجازت بھی دیدی۔ اور اس وقت تک خاموش رہا، جب تک حضرت ابراہیم نے اپنا وعدہ پورا نہ کر لیا پھر جب خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أنَّهُ عَدُوٌّ لِلّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ، کہ یہ شخص صرف مشرک نہیں بلکہ اللہ کا دشمن ہے۔ تو وہ مشرک جو توحید سے دشمنی کرے اس کا حال اَور ہے اور وہ مشرک جو ساد ہ لوح، نیک مزاج ہے مگر اپنے ماں باپ کے پیچھے شرک میں مبتلا ہے۔ اس کا ایک تو یہ فرق ہے کہ اگر وہ اپنی زندگی میں دعاؤں کی درخواست کرتا ہے تو اس کے لیے دعا کرنا جائز ہے، منع نہیں ہے، اس آیت کے مفہوم سے یہ بات کھلتی ہے۔ دوسرے اس کا جہنمی ہونا قطعی نہیں ہوتا۔ جو مشرک خدا کا دشمن ہو جائے وہ جہنمی ہے۔ اور وہ مشرک جو خدا کا دشمن نہ ہو، اور رسماً شرک کر رہا ہے اس کے لیے امکان موجود ہیں۔ ایک اَور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر شرک کے مضمون کو دینی ناموں سے الگ کر کے آپ دیکھیں یعنی مسلمان، ہندو، یہودی، عیسائی تو بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو شرک کرتے ہیں اور کھلم کھلا شرک کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کے دشمن نہیں ہیں۔ اس لئے ان کی نماز جنازہ بھی پڑھی جاتی ہے، ان کے لیے استغفار بھی کی جاتی ہے۔ اب آپ ملتان ہی چلے جائیں تو وہاں اتنی قبروں کی پوجا ہوتی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کوئی مسلمانوں کا ملک ہے یا ہندوؤں کا ملک ہے۔ اور اسی طرح عیسائیوں میں بھی اہل کتاب بھی کہلاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔ اور شرک کے باوجود ان سے وہ تعلقات پھر بھی جائز ہیں جو قرآن کریم نے اہل کتاب کے لیے جائز قرار دیے ہیں۔ تو ان دو آیات کی روشنی میں، میں یہی سمجھتا ہوں۔ باقی فقہاء کا جو بھی مؤقف ہو کہ وہ دعا جو رسول اللہﷺ نے سکھائی ہے اسے بے تردّد پڑھنا چاہیے، خواہ کوئی ایسے بریلویوں سے نکل کر آیا ہو، جو جانتا ہے کہ وہ مُردوں سے مانگنے والے اور داتاؤں کے سامنے سجدے کرنے والے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ساتھ یہ شرط رکھ دی ہے کہ ان کا اللہ کا دشمن ہونا، توحید سے نفرت کرنا یہ ثابت ہو جائے تو پھر اس کے بعد تمہارے لئے جواز نہیں کہ کوئی دعا کرو۔ لیکن یہ سارے لوگ اپنے آپ کو ساتھ ساتھ مواحد بھی کہہ رہے ہیں۔ خدا کو ایک بھی مانتے ہیں اور دوسری طرف سے شرک بھی شروع کر دیتے ہیں۔ تو یہ مشکوک لوگ ہیں، ان کے حق میں وہ دعا جو نماز میں رسول اللہﷺ نے سکھائی ہے وہ کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہاں اگر ایسا شخص ہو جس کو پتا ہو کہ میرے ماں باپ شرک میں صف اول کے لوگ ہیں اور توحید کے دشمن ہیں تو وہاں میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس دعا پہ آ کے اسے رک جانا چاہیے۔ کیونکہ وہاں وہ دعا قرآن کریم کے ایک واضح حکم سے متصادم ہو گی۔ پس ایسا شخص اس دعا کے بغیر بھی نماز مکمل کر لے گا۔ آدمی رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ کہہ سکتا ہے…بہرحال یہ ایسا مسئلہ ہےجس میں اختلاف جو مرضی کرے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نےبات کھول دی ہے کہ میرے نزدیک تو کسی مسلمان کے لیے ان حالات میں کہ اس کو پتا ہو کہ ماں باپ مشرکانہ حرکتیں کرتے تھے یا ہندو بھی جو نیک ہوں اور خدا پرست ہوں مگر شرک میں پیدا ہوئے اس لیے مسلمان بننے کی توفیق نہ ملی ان کے لیے بھی استغفار جائز ہے۔(ترجمۃ القرآن کلاس از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ، سورۃ التوبہ آیت ۱۱۳ تا ۱۲۲)

پس حضرت ابو طالب اگرچہ شرک کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آنحضورﷺکی کوشش اور خواہش کے باوجود توحید کا اقرار نہیں کیا لیکن وہ ایسے شرک میں مبتلا نہیں تھے جس شرک میں وہ مشرکین مبتلا تھے جو توحید اور خدا تعالیٰ کے دشمن تھے اور کھلم کھلا شرک کا اظہار کرتے تھے اور خد ا تعالیٰ اور آنحضورﷺکی مخالفت میں دن رات کمربستہ تھے۔ اس لیے حضرت ابوطالب اپنی نیک فطرت اور آنحضورﷺکی مدد اور حمایت کرنے کی وجہ سے نیز قیامت کے روز حضورﷺکی شفاعت کی بدولت خدا تعالیٰ کے دشمن مشرکین کی طرح نہ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور نہ ہی لمبا عرصہ جہنم میں رہیں گے۔ ہاں کچھ وقت کے لیے جس طرح ایک معمولی بیماری کا شکار علاج کے لیے کچھ وقت کے لیے ہسپتال جاتا ہے، حضرت ابوطالب کو بھی اسی طرح کچھ وقت کے لیے علاج کے لیے جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی حقیقت کو حضورﷺکے ارشاد میں بیان کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button