خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 18؍اگست 2023ء

یہ سوچ ہے جو ہمارے ہر عہدیدار میں ہونی چاہیے کہ قوم کے سردار اس کے خادم ہیں

ہر عہدہ یا کوئی خدمت جس پر کسی کو مامور کیا جاتا ہے امانت ہیں

ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں اور دعا کر کے منتخب کریں

جس کو میں کسی کام کے لیے مقرر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور جو خواہش کر کے خود کام اپنے سر پر لے اس کی پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ہوتی(الحدیث)

اگر کوئی کسی عہدے کے لیے خواہش رکھتا ہو تو جماعتی نظام میں اور ہر انتخابی فورم میں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے

جو بھی مجلسِ انتخاب کے ممبر بنیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا رائے دہی کا حق استعمال کریں اور دعا کے بعد اور انصاف سے اپنی نظر میں بہترین شخص کی سفارش خلیفۂ وقت کو پیش کریں

بعض عہدیداروں کے متعلق شکایات آتی ہیں کہ ان کے رویّوں میں عاجزی نہیں ہوتی اور ایسا اظہار ہوتا ہے جیسے اس عہدے کے بعد وہ کوئی غیر معمولی شخصیت بن گئے ہیں

عہدیدار اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور جو ذمے داری دی گئی ہے اسے اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کریں

اگر تربیت کا شعبہ فعال ہو جائے تو باقی شعبے خود بخود میرے اندازے کے مطابق کم از کم ستر فیصد تک بہتر رنگ میں کام کرنا شروع کر دیں گے

ہر عہدیدار کا یہ بھی کام ہے کہ افرادِ جماعت سے ذاتی رابطہ رکھ کر ان سے ذاتی تعلق بڑھائیں

نظامِ جماعت تو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے

ہم سب ایک ہیں۔ بھائی بھائی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش کر رہے ہیں۔
یہی سوچ ہے جونظام جماعت کو ایک خوبصورت نظام بنا سکتی ہے اور یہی سوچ ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے بھی قریب کر سکتی ہے

دنیا کی تمام جماعتوں کی ملکی اور مقامی عاملہ اور اسی طرح ذیلی تنظیموں کو اس بارے میں بہت سوچ و بچار اور ایک لائحہ عمل کی ضرورت ہے تا کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کر سکیں

اگر شعبہ تربیت فعال ہے تو امورِ عامہ کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں جو افراد جماعت کے آپس کے جھگڑوں سے تعلق رکھتے ہیں یا افراد جماعت کے غلط کاموں میں ملوث ہونے سے تعلق رکھتے ہیں یا مخالفین کے کسی ذریعہ سے یا کمزور ایمان والوں کے ذریعہ سے جماعت میں بے چینی پیدا کرنے کی جو کوشش ہوتی ہے اس سے تعلق رکھتے ہیں

افرادِ جماعت کو میں بتا دوں کہ جو بھی خط ان کا یہاں آتا ہے، یہاں پہنچ جائے وہ کھولا بھی جاتا ہے پڑھا بھی جاتا ہے اور اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے

عہدیداروں کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد جو امانتیں کر دی ہیں ان کا حق ادا کریں اور اپنے فرائض نیک نیتی سے ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ادا کریں۔ خلیفہ وقت کا سلطان نصیر بنتے ہوئے ادا کریں۔ حتی الوسع لوگوں کے ایمانوں کی مضبوطی اور ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے ادا کریں

عہدیداران کے فرائض اور ذمہ داریاں

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 18؍اگست 2023ء بمطابق 18؍ظہور 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَا(النساء:59)یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانت ان کے اہل کے سپرد کرو۔ پھر ایک حدیث میں آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عہدہ اور ایسا مقام جس میں لوگوں کے معاملات دیکھنے کا اختیار دیا گیا ہو یا لوگوں کو نگران مقرر کیا گیا ہو تو یہ بھی ایک امانت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ حدیث 4719)

پس اس لحاظ سے

ہمارے جماعتی نظام میں بھی ہر عہدہ یا کوئی خدمت جس پر کسی کو مامور کیا جاتا ہے امانت ہیں۔

ہماری جماعت میں جماعتی نظام میں ہر سطح پر ہم اپنے عہدیدار منتخب کرتے ہیں۔ مقامی سطح سےلے کر مرکزی، ملکی سطح تک۔ اسی طرح مرکز میں ہیں پھر ذیلی تنظیموں میں اسی ترتیب سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ مرکزی نظام ہے یا ذیلی تنظیم کا نظام ہے ہر جگہ نچلی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک عہدیدار مقرر کیے جاتے ہیں اور عموماً یہ انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔ پس

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب تم یہ عہدیدار منتخب کرو تو ایسے لوگوں کو منتخب کرو جو بظاہر نظر یعنی تمہاری نظر میں اس کام کے لیے بہترین ہیں اور اپنے کام کی امانت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

انتخاب کے وقت خویش پروری یا رشتے داری کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ بعض دفعہ بعض عہدیدار مرکزی طور پر یا خلیفہ وقت کی طرف سے براہ راست بھی مقرر کر دیے جاتے ہیں اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ غور کرکے جو بہترین شخص اس کام کے لیے میسر ہو اسے مقرر کیا جائے لیکن بعض دفعہ اندازے کی غلطی بھی ہو سکتی ہے یا عہدے حاصل کرنے کے بعد لوگوں کے مزاج بدل جاتے ہیں اور جو عاجزی اور محنت سے اور انصاف سے کام کرنے کی روح ایک عہدیدار میں ہونی چاہیے وہ نہیں رہتی۔ تو پھر ایسے شخص کے رویّے کی ذمے داری اسی پر ہو گی نہ کہ منتخب کرنے والے پر۔ بہرحال

ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں اور دعا کر کے منتخب کریں۔

بہرحال عام طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو شخص کسی کام کے لیے مقرر کیا جا رہا ہے وہ ایسا نہ ہو جو آگے بڑھ بڑھ کر صرف اس لیے آ رہا ہے کہ میں عہدیدار بن جاؤں۔ اگر بعض دفعہ ایسے شخص کا نام جماعت کے افراد کی طرف سے کسی عہدے کے لیے تجویز ہو کر آ بھی جائے تو مرکز کو یا خلیفہ وقت کو اگر اس کے حالات کا پتا ہو تو اسے کام نہیں دیا جاتا اور یہ بات عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے۔ ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو دو شخص آئے اور کہا کہ ہمیں فلاں کام سپرد کر دیا جائے، ہم اس کے اہل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جس کو میں کسی کام کے لیے مقرر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور جو خواہش کر کے خود کام اپنے سر پر لے اس کی پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ہوتی۔

(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب من لم یسأل الامارۃ اعانہ اللّٰہ علیہا حدیث7146)

(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب ما یکرہ من الحرص علی الامارۃ حدیث 7149)

اس کے کام میں برکت نہیں پڑتی۔ اس لیے

کبھی عہدے کی خواہش کر کے عہدہ لینے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔

ہاں خدمت دین کا شوق ضرور ہونا چاہیے۔ مجھے موقع ملے میں خدمت دین کروں اور یہ خدمت کسی بھی رنگ میں ملے اسے بجا لانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ پس

عہدے کی خواہش کرنا، کسی کام کا نگران بن کر اسے کرنے کی خواہش کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔

ہاں

خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے چاہے وہ کسی بھی رنگ میں ہو، یہ پسندیدہ امر ہے۔

پس یہ باتیں منتخب کرنے والوں کو بھی ہمیشہ سامنے رکھنی چاہئیں۔ قرآن کریم کے حکم کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ تمہاری نظر میں دعا کے بعد جو اہل ترین لوگ ہیں کسی خدمت کے لیے، انہیں منتخب کرو۔ اور دوسرے یہ کہ

اگر کوئی کسی عہدے کے لیے خواہش رکھتا ہو تو جماعتی نظام میں اور ہر انتخابی فورم میں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور منتخب کرنے والے کو انصاف سے اپنا انتخاب کرنے کا حق استعمال کرنا چاہیے۔

عموماً انتخاب کا یہ طریق ہے کہ ملکی مرکزی سطح پر عہدیداران کے منتخب کرنے کی رائے انتخاب کے نتائج کے ساتھ خلیفۂ وقت کو پیش کی جاتی ہے اور خلیفۂ وقت کو اختیار ہے کہ وہ چاہے کثرتِ رائے سے پیش کیے ہوئے نام کو منتخب کرے یا کسی کم ووٹ حاصل کرنے والے کو منتخب کرے۔ بعض دفعہ اس شخص کے بارے میں بعض معلومات اور بعض ایسے حالات کا مرکز اور خلیفہ وقت کو علم ہوتا ہے اور عام آدمی کو نہیں ہوتا۔ تو بہرحال

یہ ضروری نہیں ہے کہ کثرتِ رائے والے کو ضرور منتخب کیا جائے۔

اسی طرح ملکی جماعتوں کے جو انتخاب ہیں ان میں حسبِ قواعد بعض کی منظوری مقامی مرکزی انتظامیہ دے دیتی ہے اور اگر کوئی تبدیلی کرنی ہو تو خلیفۂ وقت سے پوچھ لیتے ہیں۔ کوشش تو بہرحال یہ کی جاتی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اچھے کام کرنے والے عہدیدار میسر آئیں لیکن بعض جگہ جس قسم کے لوگ میسر ہیں ان میں سے ہی منتخب کرنے پڑتے ہیں لیکن یہاں پھر چننے والوں کو،منتخب کرنے والوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ امانت کا اپنی استعدادوں کے مطابق بہترین رنگ میں حق ادا کرنے والے لوگ منتخب ہوں اور کبھی کسی خواہش کرنے والے کو یا دوستی کی وجہ سے یا رشتے داری کی وجہ سے یا یہ دیکھ کر رائے نہیں دینی چاہیے کہ اکثر ہاتھ کسی شخص کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو میں بھی اپنا ہاتھ کھڑا کر دوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی نفی ہے۔

گو جماعتی مرکزی نظام کے انتخابات تو اس سال نہیں ہونے، ہو چکے ہیں لیکن ذیلی تنظیموں کے انتخابات ہونے ہیں بعض جگہ انصار کے، خدام کے، لجنہ کے، تو ان تنظیموں کے ممبران کو چاہیے کہ

جو بھی مجلسِ انتخاب کے ممبر بنیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا رائےدہی کا حق استعمال کریں اور دعا کے بعد اور انصاف سے اپنی نظر میں بہترین شخص کی سفارش خلیفۂ وقت کو پیش کریں۔

اگر ہم انصاف کے ساتھ اپنے اس فریضے کو سرانجام دینے والے بن جائیں گے تو تبھی جماعتی ترقی میں ہمارا کردار مثبت ہو گا اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی میں

عہدیداروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ

دلانا چاہتا ہوں۔ بیشک جماعتی عہدیدار منتخب ہو چکے ہیں لیکن انہیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے تو اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرانجام دینا چاہیے۔

بعض عہدیداروں کے متعلق شکایات آتی ہیں کہ ان کے رویّوں میں عاجزی نہیں ہوتی اور ایسا اظہار ہوتا ہے جیسے اس عہدے کے بعد وہ کوئی غیر معمولی شخصیت بن گئے ہیں۔

میں یہ تو نہیں کہتا کہ فرعونیت پیدا ہو گئی لیکن بہرحال اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر جن عہدیداروں کو نامزد کیا جاتا ہے اور وہ واقف زندگی بھی ہیں ان میں اگر یہ بات پیدا ہو تو یہ بالکل قابلِ برداشت نہیں۔ بعض واقفین زندگی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا تو ان کے بارے میں شکایت ہے کہ بڑا متکبرانہ رویہ ہے۔ سلام تک کا جواب نہیں دیتے۔ ایسے رویے دکھانے والے اپنی اصلاح کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو خدمت کا موقع دیا ہے تو زمین پر جھکیں اور ہر بچے بڑے سے پیار اور عاجزی سے ملیں۔ آپ کو مقرر کیا گیا ہے کہ افرادِ جماعت کی خدمت کریں نہ یہ کہ ان پر کسی قسم کی افسر شاہی کا رعب ڈالیں۔

پھر بعض ایسے ہیں جو اپنے کام بھی صحیح طرح سرانجام نہیں دیتے۔ یہاں میری طرف سے بھی بعض معاملات رپورٹ کے لیے جاتے ہیں تو ان کی دراز میں پڑے رہتے ہیں جب تک یاددہانی نہ کراؤ، بار بار نہ پوچھو اور چھ مہینے سال بعد پھر ایک معافی نامہ لکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے سے غلطی ہو گئی۔ ہم ان پر بروقت کارروائی نہیں کر سکے۔ اگر مرکز کے خطوط کے ساتھ، خلیفہ وقت کے خطوں کے ساتھ ان کا یہ سلوک ہے اور یہ رویہ ہے تو پھر عام فردِ جماعت کے متعلق ان سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ نیک سلوک کرتے ہوں گے۔ ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ ان کو خدمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔

عہدیداران کو بعض اَور ذمہ داریوں کی طرف بھی میں توجہ دلانا چاہوں گا۔

ایک تو یہی کہ

اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور جو ذمے داری دی گئی ہے اسے اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کریں۔

ہر وقت یہ ذہن میں رہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے اوپر نگران ہے۔ وہ ہماری ہر حرکت دیکھ رہا ہے۔ کوئی عہدہ ملنے کے بعد ہم ہر قسم کی بندشوں سے آزاد نہیں ہو گئے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے زیادہ آ گئے ہیں۔ لوگوں نے ہمیں منتخب کیا ہے، ہم پر اعتماد کر کے خلیفہ وقت نے ہمیں اس خدمت کے لیے منظور کیا ہے تو ہمیں اس اعتماد کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اس خدمت کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کے لیے صرف کرنی ہیں۔ یہ سوچ ہو گی تو تبھی صحیح کام کرنے کی روح بھی پیدا ہو گی اور افراد جماعت کا بھی تعاون رہے گا۔ اکثر عہدیدار جو شکایت کرتے ہیں کہ بعض شعبوں میں افراد جماعت تعاون نہیں کرتے بیشک یہ افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے خود خدمت کے لیے چنا ہے ان سے تعاون بھی کریں لیکن ساتھ ہی عہدیداران کا بھی کام ہے کہ اپنی بہترین مثالیں لوگوں کے سامنے قائم کریں۔ اب ایک عہدیدار کی رپورٹ ملی کہ وہ اپنی آمد پر صحیح چندہ نہیں دیتا اور نہ ہی کم شرح سے چندہ ادا کرنے کی اجازت لینی چاہتا ہے تو ایسا شخص پھر دوسروں کے لیے کیا نمونہ پیش کرے گا؟ دوسروں کو کس طرح کہے گا کہ مالی قربانی کرو؟ پس

اپنے ذاتی نمونے بہت ضروری ہیں۔ بہت زیادہ استغفار کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

اگر ایک سیکرٹری تربیت خود پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتا تو دوسروں کو کس طرح تلقین کر سکتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ دو۔ اسی طرح ایک واقف زندگی اور مربی خود نوافل ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا تو افراد جماعت کو وہ کس طرح نصیحت کر سکتا ہے کہ عبادتوں کی طرف توجہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اسی طرف تو ہماری توجہ دلائی ہے کہ غیر احمدی مولوی نصیحت کرتا ہے لیکن اس کے عمل اس کی نصیحت کے مطابق نہیں ہیں اس لیے اس کی باتوں کا اثر نہیں ہوتا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ67 ایڈیشن 1984ء)

پس ہمارے لیے تو ہر لمحہ بڑی فکر سے گزارنے کی ضرورت ہے۔ ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جب یہ ہو گا تب ہی ہم اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

سیکرٹریان تربیت اگر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے پیار اور محبت کے ساتھ جماعت کی تربیت کریں تو افرادِ جماعت میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔

ہر عہدیدار کو اپنے شعبے کی بہتری کے لیے کم از کم دو نفل بھی روزانہ پڑھنے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔اگر تربیت کا شعبہ فعال ہو جائے تو باقی شعبے خود بخود میرے اندازے کے مطابق کم از کم ستر فیصد تک بہتر رنگ میں کام کرنا شروع کر دیں گے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ

عہدیداروں نے اپنے نمونے قائم کرنے ہیں اور خاص طور پر امرائے جماعت نے، صدران جماعت نے اور خصوصاً سیکرٹریان تربیت نے،

باقی نے بھی کرنے ہیں، یہ نہیں کہ باقی نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا ان عہدیداروں کو خاص توجہ دلانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی نہ بھی کریں تو فرق نہیں پڑتا۔ ہر ایک کرے گا تبھی جماعتی ترقی صحیح طرح ہو گی۔ اگر اپنے نمونے نہ دکھائیں تو یہ نہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت فرق پڑتا ہے۔ ہر عہدیدار کے عمل کا فرق پڑتا ہے۔ اگر سیکرٹری مال خود اپنے چندے احتیاط سے ادا نہیں کر رہا تو دوسروں کو کیا کہے گا، جیساکہ میں نے بتایا اور پھر اس کے کہنے میں کیا برکت ہو گی؟ اگر تبلیغ کا سیکرٹری تبلیغ کا حق ادا ہی نہیں کر رہا تو افراد جماعت کو کس طرح تبلیغ کے لیے متحرک کرے گا؟ پس ہر شعبہ اہم ہے۔ اسی طرح ذیلی تنظیموں کے صدران کے عہدے ہیں اور باقی عاملہ ممبران کے عہدے اہم ہیں۔

ذیلی تنظیموں میں بھی ہر سطح پر اپنے آپ کو فعال کرنا ہو گا۔

بعض جگہ صدر لجنہ کے بارے میں شکایت آتی ہے کہ ان کے رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ بعض کے نومبائعات کے ساتھ رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ ان کو کھینچنے کے بجائے ان کو دوڑانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان نومبائعات کو بڑے غلط طریقے سے کہا جاتا ہے کہ ہم تمہاری اصلاح کریں گے جبکہ میرے نزدیک خود ایسی صدر لجنہ کی اصلاح ہونی چاہیے اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پاس عہدے مستقل چلتے رہتے ہیں۔ ممبرات لجنہ بھی اپنے انتخاب میں نہیں دیکھتیں کہ کون اہل ہے اور کون نہیں ہے جس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر شکایات آتی ہیں اور جب خرابیاں پیدا ہوں تو اَور لوگوں کے ایمان کو ٹھوکر لگتی ہے۔ اگر منتخب کرنے والیاں خود اپنا حق رائےدہی انصاف سے اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ادا نہیں کر رہیں تو پھر شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پس

انتخابات کے وقت امانتوں کے اہل کو منتخب کریں تو شکایات ختم ہوں گی ورنہ ہم اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔

عہدیداروں سے میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ سٹیجوں پر بیٹھنے کے لیے نہیں ہیں۔

ہر عہدیدار کو اپنی ڈیوٹی ایک عام کارکن بن کر دینی چاہیے۔

ایک نومبائعہ خاتون نے مجھ سے ذکر کیا۔اس جلسے پہ باہر سے آئی ہوئی خاتون تھی کہ یہاں جلسے پر ایک بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے دیکھا کہ صدر لجنہ ڈسپلن کی ڈیوٹی والی لڑکیوں کے ساتھ ڈیوٹی دے رہی تھی۔ یہ توبہرحال اس صدر کا فرض تھا۔ یہ کوئی غیر معمولی کام نہیں جو اس نے کیا۔ اگر ڈیوٹی نہ دے رہی ہو اور ہر جگہ پر نگرانی نہ کر رہی ہو تو تب وہ قصور وار ہے۔ اگر صدر خود اس طرح ڈیوٹی نہ دے یا چیک نہ کرے تو وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہی لیکن بہرحال

جو اپنی امانت کا حق ادا کرنے والے عہدیدار ہیں وہ دوسروں کی اصلاح کا بھی باعث بنتے ہیں اور لجنہ میں بنتی ہیں۔

پس

یہ سوچ ہے جو ہمارے ہر عہدیدار میں ہونی چاہیے کہ قوم کے سردار اس کے خادم ہیں۔

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔

اسی طرح عام حالات میں بھی

ہر عہدیدار کا یہ بھی کام ہے کہ افرادِ جماعت سے ذاتی رابطہ رکھ کر ان سے ذاتی تعلق بڑھائیں۔

ان کی خوشی غمی میں شامل ہوں۔ ہر فرد جماعت کو یہ احساس پیدا کروائیں کہ

نظامِ جماعت تو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے،

نہ کہ کوئی افسر ہے یا کوئی ماتحت ہے۔ کوئی بڑا ہے یا کوئی چھوٹا ہے۔

ہم سب ایک ہیں۔ بھائی بھائی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش کر رہے ہیں۔ یہی سوچ ہے جو نظام جماعت کو ایک خوبصورت نظام بنا سکتی ہے اور یہی سوچ ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے بھی قریب کر سکتی ہے

اور یہ سوچ نہ رکھنے اور اس کے خلاف عمل کرنے سے ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لینے والے ہوں گے۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت معقل بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی، اپنے فرض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت حرام کر دے گا اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا۔(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح حدیث7151،7150)پس یہ بہت بڑا انذار ہے، بڑے خوف کا مقام ہے، بڑی فکر والی بات ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔ یہ لمبی روایت ہے اور جگہوں کا،نگرانوں کا بھی یہاں ذکر ہے لیکن جو اپنے متعلقہ ہے وہ میں پڑھ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ امیر بھی نگران ہے۔(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالیٰ اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول … الخ حدیث 7138)یعنی عہدیدار بھی۔ اس میں عہدیداران بھی شامل ہیں کہ وہ نگران ہیں اور ہر ایک سے اپنی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ رعایا سے مراد وہ لوگ نہیں جن پر حکومت کی جاتی ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جن کی مدد کرنے کی، ان کی اصلاح کی، ان کی بہتری کی ذمے داری ڈالی گئی ہے۔

پس اسی حدیث میں مثال دی گئی ہے کہ خاوند اپنے گھر کا نگران ہے، عورت اپنے بچوں کی نگران ہے۔(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالیٰ اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول … الخ حدیث 7138) تو حکومت کرنے کے لیے تو نگران نہیں۔ ان کی تربیت کے لیے، ان کی بہتری کے لیے منصوبے بنانے کے لیے، ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نگران ہے۔ پس اگر یہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بہشت حرام ہو جاتی ہے۔ پس

وہ لوگ جو نگران بنائے گئے ہیں، عہدیدار بنائے گئے ہیں اگر صحیح طرح کام سرانجام نہیں دے رہے اور اپنے علاقے میں صرف خلیفۂ وقت کے نمائندے، نام نہاد نمائندے بنے بیٹھے ہیں وہ خلیفہ وقت کو بھی بدنام کر رہے ہیں اور خلیفۂ وقت کو بھی گنہگار بنا رہے ہیں۔

جیساکہ میں نے مثال دی تھی کہ رپورٹیں مہینوں نہیں بھیجتے۔ اب

ایسے لوگوں کے بارے میں میرے پاس اس کے علاوہ اَور کوئی حل نہیں کہ اگر حقیقت میں وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو ان کو خدمت سے فارغ کر دیا جائے اور میں پھر ان کے گناہوں میں شامل نہ ہوں۔ پس مَیں بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ یہ لوگ بھی استغفار کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ایسے سلطان نصیر عطا ہوں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیں نہ یہ کہ صرف عہدہ لینے کے لیے عہدے سنبھالے ہوں۔

یہ بھی ایک بہت توجہ طلب بات ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ

جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمے دارہو اللہ تعالیٰ اس کی حاجات اور مقاصد پوری نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے۔

پس جہاں یہ ذمے داری خلیفہ وقت کی ہے وہاں ان تمام عہدیداروں کی بھی ہے جو خلیفہ وقت کے اپنی اپنی جماعتوں میں نمائندے ہیں اور یہ عہدیداروں پر بہت بڑی ذمےداری ہے۔ صرف عاملہ کے اجلاسوں میں اپنی رائے دے کر اور میٹنگز میں شامل ہو کر سمجھ لینا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے یہ کافی نہیں ہے۔ لوگوں کی بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرنا اور پھر اس پر عمل درآمد کروانا انتہائی ضروری امر ہے۔ اور جو وسائل ہمارے پاس ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کا جو بہترین حل ہو سکتا ہے وہ ہمیں نکالنا چاہیے۔ اس کے لیے دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے شعبہ امورِعامہ بھی ہے اور شعبہ صنعت و تجارت ہے اور اس طرح ذیلی تنظیموں کو اس کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔بیشک ہمارے پاس وسائل کم ہیں لیکن جو ہیں ان کا بہترین استعمال صحیح منصوبہ بندی سے بہت سوں کی مدد کر سکتا ہے۔

ایک شعبہ جو آجکل تقریباً تمام جماعتوں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے وہ رشتہ ناطہ کا شعبہ ہے۔

اس کے لیے بہت وسیع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جماعتی نظام کو بھی، ذیلی تنظیموں کے نظاموں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا ہو گا۔ یہاں پھر

جماعتی بھی اور ذیلی تنظیموں کے بھی شعبہ تربیت کو بہت فعال کرنے کی ضرور ت ہے۔

پھر اسی شعبےکی طرف بات پلٹ جاتی ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کی صحیح تربیت ہو تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ رشتے کے معاملے میں دولت، خاندان اور خوبصورتی کی بجائے دین کو فوقیت دو۔

(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین حدیث 5090)

اگر یہ ہماری ترجیح ہو جائے گی تو پھر لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اپنی دینی حالتوں کو بہتر کرنے اور خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کو ترجیح دیں گے اور اس طرح ہم اپنی اگلی نسل کو محفوظ کر سکیں گے ورنہ آجکل دجال جو چالیں چل رہا ہے اس سے معمولی کوششوں سے بچنا بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے تو بہت وسیع منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ پس

ہر عہدیدار کو پہلے اپنے گھر کی اصلاح کی ضرورت ہے

پھر جماعت میں اس بات کی طرف بہت توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ہمارا عہد صرف عہد ہی نہ ہو بلکہ ہم میں سے ہر ایک اس کی عملی شکل بن جائے۔ جب یہ ہوگا تبھی ہم دجال کا مقابلہ کر سکیں گے۔ اپنی نسلوں کو بچا سکیں گے۔ اپنے عہدوں کی بھی حفاظت کر سکیں گے، ان کا حق ادا کر سکیں گے اور اپنی امانتوں کا بھی حق ادا کر سکیں گے۔ پس

دنیا کی تمام جماعتوں کی ملکی اور مقامی عاملہ اور اسی طرح ذیلی تنظیموں کواس بارے میں بہت سوچ و بچار اور ایک لائحہ عمل کی ضرورت ہے تا کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کر سکیں۔

جیساکہ میں نے امورِ عامہ کے کام کی مختصراً تھوڑی سی مثال دی تھی۔

ہمارے نظام میں امورِ عامہ کا بھی ایک شعبہ ہے اور یہ شعبہ بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور ہے بھی

لیکن عموماً یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ اس شعبے کے کام لوگوں کو سزائیں دلوانا یا سختی سے لوگوں کو تنبیہ کرنا ہے۔ امورِعامہ کے شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کو دنیا میں ہر جگہ پتہ ہونا چاہیے کہ ان کا صرف اتنا کام نہیں ہے۔ یہ تو کام کا ایک حصہ ہے اور سختی سے تنبیہ کرنا تو بہرحال ان کا کام نہیں ہے۔ جب کوئی حل نہ ہو تو یہ ایک انتہا ہوتی ہے جہاں سزا کے طور پر سفارش کی جاتی ہے۔ یہاں پھر میں یہی کہوں گا کہ

اگر شعبہ تربیت فعال ہے تو امورِ عامہ کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں جو افراد جماعت کے آپس کے جھگڑوں سے تعلق رکھتے ہیں یا افراد جماعت کے غلط کاموں میں ملوّث ہونے سے تعلق رکھتے ہیں یا مخالفین کے کسی ذریعہ سے یا کمزور ایمان والوں کے ذریعہ سے جماعت میں بے چینی پیدا کرنے کی جو کوشش ہوتی ہے اس سے تعلق رکھتے ہیں۔

اور بعض جگہ تربیت کے شعبے نے افراد جماعت کے ساتھ ایک خاص تعلق پیدا کر کے اس بارے میں کوشش بھی کی ہے تو جہاں لوگوں کی شکایات اس کوشش سے دور ہوئیںاور نظام سے بدظنی دور ہوئی وہاں انہوں نے جماعتی فیصلوں کا احترام بھی کیا اور اسے احترام سے قبول بھی کیا اور پھر مخالفین کی جو منافقین یا بدظن افراد سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں تھیں وہ بھی ناکام ہوئیں۔ پس

شعبہ تربیت اور امورِعامہ کو بعض معاملات میں مل کر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

جیساکہ میں نے کہا

امورِعامہ کا کام تو بہت وسیع ہے۔

جماعت میں معاشی استحکام پیدا کرنے کے لیے پروگرام بنانا ان کا کام ہے۔ افراد جماعت کو ملازمت اور دیگر ذرائع روزگار کے لیے راہنمائی اور مدد کرنا ان کا کام ہے۔ خدمتِ خلق کے کاموں کو سرانجام دینا ان کا کام ہے۔ پیار اور محبت سے سمجھا کر تنازعات کو ختم کروانا ان کا کام ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن

قضائی معاملات میں امورِعامہ کا بہرحال دخل نہیں ہے کہ فیصلہ کرنا شروع کر دیں۔

ہاں قضا کے فیصلوں کی تنفیذ کروانا ان کا کام ہے لیکن اس میں فیصلہ کے بعد اگر کوئی فریق اس کی تعمیل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو امورِعامہ کے شعبےکا کام ہے کہ اسے آرام سے سمجھائیں کہ اس پر عمل نہ کر کے کیوں اپنا دین برباد کرتے ہو۔ تھوڑے سے دنیاوی مفاد کی خاطر کیوں اپنا دین برباد کرتے ہو۔ اور پھر ایسے لوگ میرا وقت بھی ضائع کرتے ہیں۔ یہ بار بار مجھے لکھتے رہتے ہیں حالانکہ خود غلطی پہ ہوتے ہیں۔ تو بہت سے لوگ سمجھ جاتے ہیں اگر ان کو سمجھایا جائے۔ بہرحال

امورِعامہ کا کام صرف سزائیں دلوانا نہیں ہے بلکہ ان سزاؤں سے لوگوں کو بچانا ہے اور اس کے لیے انہیں ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہیے۔

اگر کہیں غلط کام ہوتا دیکھیں یا سمجھیں کہ اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو فوراً شعبہ تربیت کو بھی ساتھ ملا کر اور مربیان کی مدد بھی حاصل کر کے جہاں وہ جماعتی مفاد کی حفاظت کریں گے وہاں لوگوں کے ایمان بچانے کی بھی کوشش کریں گے اور یہ کرنی چاہیے۔

بعض دفعہ عہدیداروں کے رویّے نظام کے بارے میں بدظنّیاں پیدا کر دیتے ہیں۔

مثلاً یہ کہ اگر کسی نے اپنی ضرورت کے لیے خلیفہ وقت کو درخواست دی ہے تو صدر جماعت یا امیرجماعت یا امورِعامہ یا اگر کسی خاص شعبے سے متعلق ہے تو اس کے کام کرنے والے اس شخص سے سختی کرتے ہیں کہ ہمارے ذریعےسے کیوں نہیں درخواست دی۔ اور معاملہ لٹک جاتا ہے بجائے اس کے کہ اگر مرکز سے ان کو رپورٹ کے لیے کہا گیا ہے تو فوری رپورٹ بھجوائیں۔ پھر جب جواب نہیں جاتے تو اس شخص کو بدظنی پیدا ہو جاتی ہے اور براہ راست لوگ مجھےلکھتے ہیںکہ ہماری درخواستیں نہیں پہنچتیں۔ جن درخواستوں پر جب لمبا عرصہ کارروائی نہیں ہوتی تو ان کو خاص طور پر بدظنی پیدا ہوتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کو ہماری درخواست پہنچی ہی نہیں ہے۔ ایسی بھی صورتحال ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تو یہ کہ ہمارے سے کیوں نہیں پوچھا، دوسرے یہ کہ کیونکہ ہمارے سے پوچھا نہیں اس لیے اس پر کارروائی نہ کرو۔ اور پھر بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں خلیفۂ وقت پہ اور خلیفۂ وقت کے دفتر پہ۔ حالانکہ یہ سب غلط ہے۔

ہر خط یہاں پہنچتا ہے۔ جو یہاں آ جائے وہ پڑھا بھی جاتا ہے، کھولا بھی جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس کو روک لیا جائے۔

اور ہر قسم کی درخواست متعلقہ جماعت کو رپورٹ کے لیے بھجوائی بھی جاتی ہے۔ تو بہرحال

افرادِ جماعت کو میں بتا دوں کہ جو بھی خط ان کا یہاں آتا ہے، یہاں پہنچ جائے تو وہ کھولا بھی جاتا ہے، پڑھا بھی جاتا ہے اور اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔

متعلقہ جماعت کا شعبہ اس کے جواب میں دیر لگاتا ہے۔ تو ایسے عہدیداران کو خوف کرنا چاہیے کہ ان کے یہ عمل فردِ جماعت اور خلیفۂ وقت میں دوری پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ نظام کے بارے میں بدظنیاں پیدا کرنے والے ہوتے ہیں اور اس طرح وہ متعلقہ عہدیدار گنہگار بن رہا ہوتا ہے۔ کسی کے ایمان سے کھیل کر وہ اپنے آپ کو گنہگار بنا رہا ہوتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کو خوف کرنا چاہیے۔

ہر عہدیدار کو یہ سمجھنا چاہیے اور خاص طور پر جن کے سپرد افراد جماعت کی ضروریات کا خیال رکھنے کا کام ہے کہ اگر انہوں نے اپنے کام میں سستی دکھائی اور لوگوں کے حق ادا نہ کیے تو نہ صرف اپنی امانتوں میں خیانت کرنے والے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں بھی آنے والے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جو امام، اس سے مراد ہر عہدیدار ہے، حاجت مندوں، ناداروں اور غریبوں کے لیے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات کے لیے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔

(سنن الترمذی ابواب الاحکام باب ما جاء فی امام الرعیۃ حدیث 1332)

پس اگر کوئی ایسا سوچ رکھنے والا عہدیدار یا ان کے دفتر میں کام کرنے والے کارکن ہیں تو اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے میں جلدی کیا کریں یا کم از کم جلد رپورٹ دیا کریں، پھر مرکز کا کام ہے کہ جائزہ لے کر دیکھے کہ کس حد تک یہ حاجت پوری کی جا سکتی ہے لیکن جواب ہی نہ دینا اور درخواست کو ایک کونے میں رکھ دینا یہ بہت بڑا جرم ہے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ ہر نیک کام کرنے کی طرف توجہ رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اگر کوئی برا کام کرو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو۔ یہ نیکی بدی کو مٹا دے گی اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔

(سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی معاشرۃ الناس حدیث 1987)

اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰؓ اور معاذ بن جبل ؓکو یمن کے دو علیحدہ حصوں کی طرف والی مقرر کر کے بھیجا تو یہ نصیحت فرمائی کہ

آسانی پیدا کرنا۔ مشکلیں نہ پیدا کرنا۔ محبت و خوشی پھیلانا اور نفرت نہ پنپنے دینا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الی الیمن … الخ حدیث 4342،4341)

پس

یہ وہ نصیحت ہے جو ہر عہدیدار کو جو لوگوں سے زیادہ واسطہ رکھتا ہے
اپنے لیے راہنما اصول کے طور پر سامنے رکھنی چاہیے۔

پس یہی وہ طریق ہے جس سے عہدیدار جماعت کے افراد کی خدمت کا حق ادا کر سکتے ہیں اور ان کے ایمان کی حفاظت میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں اور جماعت کی اکائی کو قائم رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور اپنی امانتوں کے بھی حق ادا کر سکتے ہیں اور

جب یہ ہوگا تو ایک ایسا حسین معاشرہ پیدا ہو گا جو صحیح اسلامی معاشرہ ہے اور جس کے قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے اور ہم نے ان کو مان کر عہد بیعت کیا ہے۔

پس ہمیشہ عہدیدار یہ بات یاد رکھیں کہ افراد جماعت نے انہیں منتخب کیا ہے یا آئندہ کریں گے تو اس لیے کہ وہ اپنی امانتوں کا حق ادا کریں لیکن اگر انہوں نے اپنی سوچ کے ساتھ، منتخب کرنے والوں نے اپنی سوچ کے ساتھ انتخاب نہیں بھی کیا تو اب

عہدیداروں کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد جو امانتیں کر دی ہیں ان کا حق ادا کریں اور اپنے فرائض نیک نیتی سے ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ادا کریں۔ خلیفہ وقت کا سلطان نصیر بنتے ہوئے ادا کریں۔ حتی الوسع لوگوں کے ایمانوں کی مضبوطی اور ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے ادا کریں

اور جب یہ سوچ رکھیں گے اور اس سوچ کے ساتھ اپنے فرائض ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں بھی برکت ڈالے گا اور ہر موقع پر معین و مددگار بھی ہو گا۔ اگر یہ نہیں تو ہم تقویٰ سے دور ہٹنے والے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ سے بھی خیانت کر رہے ہوں گے، خلیفہ وقت سے بھی خیانت کر رہے ہوں گے اور جن لوگوں نے اعتماد کیا تھا صحیح یا غلط ان کے ایمانوں کو بھی نقصان پہنچانے والے ہوں گے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 239-240)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں:’’انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں۔ ایک حسنِ معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو۔‘‘ امانتوں کے حق ادا کرنے میں کوئی عمل ضائع نہ ہو۔ ’’…ایسا ہی لازم ہے‘‘ فرمایا ’’… ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے۔ یعنی حقوق اللہ اور حقوقِ عباد میں تقویٰ سے کام لے یہ حسن معاملہ ہے یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 218)

پس

ہر عہدیدار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے اپنے اندر روحانی خوبصورتی پیدا کرنی ہے۔

ہم خاص طور پہ عہدیدار سب سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان باتوں کے مخاطب ہیں۔

ہر احمدی تقویٰ پر چلنے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتا ہے لیکن عہدیداروں اور وہ جن کے سپرد جماعتی خدمات ہیں وہ سب سے زیادہ اس بات کے مخاطب اور ذمہ دار ہیں کہ اپنے عہدوں اور امانتوں کی حفاظت کریں، جو ہمارے سپرد ذمہ داریاں ہیں انہیں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button