پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

فیصل آباد میں احمدیت مخالف کانفرنس

چک ۸۸ ج ب ہسیانہ،ضلع فیصل آباد، ۲۹؍ جنوری ۲۰۲۳ء:تحریک لبیک پاکستان نے اس گاؤں میں حضرت ابوبکر کانفرنس منعقد کی۔ مگر اپنے موضوع پر بات کرنے کی بجائے انہوں نے احمدیت کے خلاف گالی گلوچ کی اور عرفان محمود برق نامی ایک شدت پسند ملاں نے انتہائی غلیظ گفتگو کی اور حاضرین کو کہا کہ احمدیوں کو سلام نہیں کرنا۔ احمدی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے حاضرین کو احمدیوں کے خلاف اکسایا اور کہا کہ احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں اور آپ سب ختم نبوت کے محافظ۔

انس رضوی مجمع کو من گھڑت تاریخ کی باتیں بتا کر اکساتا رہا

بدنام زمانہ مولوی خادم رضوی کے بیٹے انس رضوی نے ایک ویڈیو میں کہا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جنگ یمامہ میں چھتیس ہزار مرزائیوں کو قتل کیا تھا۔

جماعت احمدیہ کا قیام ۱۸۸۹ء میں عمل میں آیا تھا جبکہ جنگ یمامہ ۶۳۲ء میں لڑی گئی تھی۔اس ملاں نے ایک تیر سے دو شکار کیے یعنی سچائی اور عقل دونوں کو ہی مات دے دی۔انس رضوی ایک سیاسی پارٹی چلا رہا ہے اوراس کے پیروکار ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ دکھ کی بات ہےکہ ایک مذہبی راہنما کی نظر میں سچائی اور حقائق کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

’’ایمان میں رخنہ ‘‘انسانی حقوق کے کمیشن کی ۲۰۲۱۔۲۰۲۲ء کی رپورٹ

انسانی حقوق کے کمیشن کی ۲۰۲۱-۲۰۲۲ء کی رپورٹ کی یہ شہ سرخی پاکستان کے گذشتہ سال کے حالات کی آئینہ دار ہے۔ پاکستان میں احمدیوں کی حالت نہیں بدلی اور پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد تو اور ہی بری ہو گئی۔

احمدیوں کے متعلق رپورٹ کا خلاصہ

پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اور جب بات احمدیوں کی ہو تو پھر ریاست اپنی آنکھیں بالکل بند کر لیتی ہے۔نکاح کی ترمیم نے جماعت احمدیہ کو بالکل ہی الگ تھلگ کر دیا ہے۔ اور یکساں نصاب نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جو اقلیتوں کو بالکل نظر انداز کر رہا ہے۔

جماعت احمدیہ کو اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا جارہا جب تک کہ وہ اپنی غیر مسلم کی حیثیت نہ مان لیں۔شیڈیول کاسٹ کے نمائندوں نے احمدیوں کو اقلیتی کمیشن کا حصہ نہ بنائے جانے پر تنقید کی ہے۔

نکاح کی ترمیم کو احمدیوں اور باقی مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پیکا ۲۰۱۶ء ایکٹ کےتحت احمدیوں کے خلاف سولہ مقدمات درج کیے گئے۔ ذیل میں درج کیے جانے والے مقدمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے پیکا ایکٹ کو احمدیوں کے خلاف استعمال کیاجارہاہے۔۲۰۲۰ء میں تین احمدیوں کے خلاف توہین کے مقدمات درج کیے گئے جن میں پیکا ایکٹ بھی لگایا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے ان میں دفعہ ۲۹۵ -ج بھی شامل کردی جس کی سزا موت ہے۔لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت مسترد کردی۔ ان پر قرآن کا ایک ترجمہ سوشل میڈیا پر پھیلانے کا مقدمہ ہے جو عام مسلمانوں کے عقائد سے مختلف ہے۔اس کے برعکس احمدیوں نے قبروں اور مساجد کی بے حرمتی کے سات مقدمات درج کروائے لیکن ریاست کی طرف سےان پر کوئی بھی کارروائی نہ کی گئی۔

سوشل میڈیا پر ہونے والی ۵۳ فیصد نفرت انگیزی براہِ راست احمدیوں سے متعلق اور گیارہ فیصد شیعوں کے متعلق ہوتی ہے۔۲۰۲۱ء میں ٹوئٹر پر ایک صارف نے کہا کہ احمدی قیادت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے چاہئیں اور یہ بات احمدی انسانی حقوق کےایک سرگرم رکن کےمتوجہ کرنے پر کھل کر سامنے آئی۔

مذہبی جنونیوں نے احمدیہ ہال کراچی کے مینارے مسمار کر دیے

۲؍ فروری ۲۰۲۳ء، کراچی:سہ پہر ساڑھے تین بجے کچھ مذہبی جنونی احمدیہ ہال کی دیوار پر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں کے وار کر کے مسجد کے میناروں کو شہید کر دیا۔ جبکہ چند شدت پسند گلی میں کھڑے ہو کر احمدیت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔وہاں پر کچھ پولیس والے بھی موجود تھے لیکن انہوں نے کچھ نہ کیا۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں ۱۹۵۰ء سے موجود ہے اور یہ دوسری آئین کی ترمیم اور بدنام زمانہ آرڈینس XX سے بہت پہلے سے تعمیر کی گئی ہے۔

یہ مذہبی جنونیوں کا وطیرہ بن چکا ہے کہ گروہ کی شکل میں حملہ کر کے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کر لیا جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ ان کو قانون میں کوئی سقم مل گیا ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو ناقابل گرفت سمجھ کر یہ اقدام کر رہے ہیں۔وہ خود ہی وکیل، جج اور فیصلے پر عمل درآمد کروانے والے بن گئے ہیں۔

ڈیلی ایکسپریس ٹربیون نے بھی اس واقعہ کو رپورٹ کیاہے کہ چند نامعلوم انتہاپسندوں نے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے میناروں کو مسمار کر دیا۔ یہ واقعہ پریڈی تھانہ کی حدود میں پیش آیا۔چند شر پسند میناروں کو مسمار کررہے تھے اور باقی نفرت انگیز نعرے بلند کر رہے تھے۔پولیس ان لوگوں کو قابو کرنے میں ناکام رہی۔ تھانہ انچارج ساجد خان کا کہنا ہےکہ ان انتہاپسندوں نے پولیس پر بھی حملہ کیا ہے۔اگر جماعت کے ممبر آگے نہ بھی آئے تو پھر بھی ہم ان شرپسندوں کے خلاف مقدمہ درج کریں گے۔جماعت احمدیہ کے ترجمان نے اس واقعہ کی پرزور مذمت کی اور پولیس کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ اس واقعہ کو روکنے میں ناکام رہے اور یہ کہ پورے پاکستان میں احمدیہ مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس سے قبل بھی مارٹن روڈ پر ایک احمدی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا لیکن باوجود مقدمہ درج ہونے کےکوئی بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ جماعت احمدیہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ایسے واقعات ان کو خوف میں مبتلا کرتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک انتہائی تاریخی اہمیت کی حامل مسجد کو موتی بازار وزیر آباد میں نشانہ بنایا گیا تھا جس میں انتظامیہ خود بھی شامل تھی۔وہاں پر ایک انتہاپسند عرفان الیاس بٹ نے انتظامیہ کو شکایت کی تھی کہ احمدیوں نے ایک کمرہ ایسا تعمیر کیا ہےجو ایک قریبی مسجد کے مشابہ ہے اور اس کے اوپر مینارے بھی موجود ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان نےکہا یہ ان کے خلاف انتہاپسندی کی انتہا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی بھی۔

صوبہ سندھ میں احمدیہ مسجد میں آتشزدگی

نور گڑھ،ضلع عمر کوٹ،سندھ، ۳؍فروری۲۰۲۳ء: رات کے اندھیرے میں چار نامعلوم شر پسندوں نے مسجد کی دیوار پھلانگ کر پیٹرول چھڑک کر مسجد کو آگ لگا دی جس سے مسجد میں موجود تمام فرنیچر اور قالین جل کر خاکستر ہوگئے۔ احمدیوں کو اس بات کا علم اس وقت ہوا جب وہ صبح فجر کی نماز کے لیے مسجد پہنچے۔احمدیوں نے مقدمہ درج کروا دیا ہے اور مجرموں کی تلاش جاری ہے۔

صوبہ سندھ میں ایک اور مسجد پر حملہ

گوٹھ غازی خان میرانی،ضلع میر پور خاص سندھ، ۳؍فروری ۲۰۲۳ء: چند شر پسند عناصر نے گوٹھ چودھری جاوید اختر میں مسجد کے مینارے شہید کر دیے اور مسجد کو آگ لگا دی۔ مقامی احمدیوں نے پولیس سے شر پسندوں کو تلاش کرنے کے لیے استدعا کی ہے۔

احمدیہ مسجد پر مسلح حملہ

سیٹلائٹ ٹاؤن،میر پور خاص سندھ،۴؍فروری ۲۰۲۳ء: رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب میر پور کے قریبی علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں احمدیہ مسجد کے صدر دروازے پر کسی نے گولی داغی جو کہ دروازے سے پار ہو کر دیوار پر لگی۔اللہ کے فضل سے تمام لوگ محفوظ رہے۔ اس واقعہ کی شکایت پولیس کو کر دی گئی ہے۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہنگامہ آرائی

اڈا،ٹوبہ ٹیک سنگھ،فروری ۲۰۲۳ء:احمدیوں کے خلاف ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہنگامہ آرائی جاری ہے۔ ڈی سی پی گوجرہ نے احمدیوں کو بلا کر کہا کہ مسجد کے مینارے ہٹا دیں۔احمدیوں نے کہا کہ یہ مسجد ۱۹۶۴ء میں بنی تھی اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کے مینارے گرائے۔

۲۷؍ جنوری کو چھ لوگ میناروں کو شہید کرنے آئے۔ جب ان سے قانونی دستاویزات کا مطالبہ کیا گیا تو وہ چلے گئے۔ لیکن بعد میں احمدیوں کو دیواریں اونچی کرکے میناروں کو چھپانےکو کہا گیا۔ جس پر مجبوراً عمل کیا گیا۔

ایک اور گاؤں چک ۲۹۷ ج ب میں شر پسندوں نے احمدی گھر اور مسجد کے باہر نفرت انگیز الفاظ لکھ دیے۔ اس بات کی اطلاع پولیس کو کر دی گئی ہے۔

جمعہ کی نماز کے وقت احمدیوں کو مسجد چھوڑ کر جانے پر مجبور کر دیا گیا

قصور،۱۸؍فروری ۲۰۲۳ء:ساڑھے بارہ بجے کے قریب احمدی مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کےلیے جمع ہوئےتو تحریک لبیک کے شر پسند وہاں جمع ہو گئے اور احمدیوں کو کافر کہتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کا اسلامی عبادات جمعہ وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک شر پسند نے کہا کہ احمدی یہاں بہت جمعے پڑھ چکے اب دوبارہ کبھی اس طرف رخ نہ کرنا۔ایک پولیس اہلکار نے مداخلت کر کے صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی۔کسی نے پولیس کو کال کی تو پولیس نے آکر احمدیوں کو ہی یہ کہہ دیا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں۔ چنانچہ احمدیوں نے کسی اَور جگہ نماز جمعہ ادا کی۔

پولیس اور مقامی مولوی نے ہجوم کو کہاکہ کسی بھی غیرقانونی عمل کا حصہ نہ بنیں۔ اس پر ہجوم احمدیوں کے خلاف نعرے لگاتا ہوا منتشر ہو گیا۔اس واقعہ کی ویڈیو ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔ جس میں دو احمدیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب ہجوم نے ان سے ان کے نام پوچھے تو ایک انتہا پسند نے کہا کہ اپنے نام کے ساتھ ’احمد‘ مت لگاؤ۔ ان شر پسندوں کی دیدہ دلیری سے اندازہ ہوتا ہےکہ ان کو کسی کا بھی کوئی ڈر نہیں ہے۔

ایک احمدی کے گھر سے مقدس الفاظ والی لوح ہٹا دی گئی

گوجرانوالہ،فروری ۲۰۲۳ء:امیر پارک کے رہائشی احمدی کے گھر کے باہر ایک ٹائل لگی تھی جس پر ’ماشاء اللہ‘ کندہ تھا۔ پولیس ان کے گھر کے باہر آئی اور ان سے ان کی مذہبی شناخت دریافت کی اور کہا کہ وہ یہ ٹائل اتارنے آئے ہیں۔ گھر والوں اور کچھ ہمسایوں نے ان کو اس بات سے روکا تو پولیس نے کہا کہ جس کو کوئی مسئلہ ہے وہ تھانہ میں آجائے اور پاکستان میں اس فقرےکا مطلب سب جانتے ہیں۔ چنانچہ پولیس وہ ٹائل اتار کر لے گئی۔

مذہبی معاملات میں دھمکی آمیز رویہ

باہو مان،ضلع شیخوپورہ،فروری ۲۰۲۳ء:ہم مئی ۲۰۲۲ء کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ ایک احمدی کو دو گروہوں کے باہمی جھگڑے میں ملوث کر کے گرفتار کر لیا گیا تھا اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کیا گیا۔ ان کو تحریک لبیک کی طرف سے کہا گیا کہ اگر وہ اور ان کا خاندان احمدیت کو چھوڑ دے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور مقدمہ بھی واپس لے لیا جائے گا۔ اس پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ احمدیت کو چھوڑ رہے ہیں۔ اس پر ان کے ڈیرے پر بنی مسجد کو جس میں احمدی نماز ادا کرتے تھے ان لوگوں نے احمدیت مخالف نعرے لگاتے ہوئے مسمار کر دیا۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button