پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

فروری ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ایک احمدی ہومیو پیتھ ڈاکٹر کی شہادت

گوٹریالہ،گجرات۱۹؍فروری۲۰۲۳ء:گوٹریالہ گجرات میں ایک ستّر سالہ احمدی ڈاکٹر محمد رشید کوجن کے پاس ناروے کی بھی نیشنیلٹی تھی ان کے گھر سے ملحقہ کلینک میں گھس کر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق دو حملہ آوروں نے مریض کے بھیس میں ان کے کلینک میں گھس کر ان پر حملہ کیااور اس جان لیوا حملے میںوہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔

ان کی اہلیہ پروین اختر صاحبہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ کچھ لوگ ان کے شوہر پر حملہ کر رہے ہیں جس پر انہوں نے اپنے شوہر کو محتاط رہنے کا کہا تھا۔ محمد رشید نے جواباً اُن سے کہا کہ انہیں مخالفین احمدیت اور ان کے مظالم کا اچھی طرح علم ہے لیکن غریب لوگوں کے لیے یہاں علاج معالجے کی سہولیات نہیں ہیں۔ انسانیت کی بے لوث خدمت ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھا۔ لیکن یہ پہلو ہی ان کی شہادت کا باعث بنا۔

باوجود ناروے کی شہریت رکھنے کے انہوں نے وہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے کی بجائے اپنے آبائی گاؤں میں رہ کر لوگوں کی خدمت کرنےکو ترجیح دی۔مریضوں کو ڈاکٹر کے عقائد سے کوئی غرض نہیں تھی لیکن انتہا پسند عناصر پاکستانی معاشرے کو ایسے ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اردگرد کے گاؤں کے لوگ بھی ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہوئے۔

دونوں حملہ آوروں کی ڈاکٹر صاحب سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ معلوم ہوتا ہےکہ وہ کسی مذہبی انتہا پسند کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ اس افسوسناک واقعہ کے کچھ دیر بعد ایک حملہ آور حافظ انعام قریبی علاقہ میں مردہ پایا گیا اور پولیس نے دوسرے حملہ آور کو گرفتارکر کے تفتیش کا آغاز کر دیا۔

کھوکھر غربی کے صدر جماعت کو ۲۹۵۔ج کے مقدمہ کے تحت گرفتار کر لیا گیا

کھوکھر غربی،ضلع گجرات،فروری ۲۰۲۳ء:پولیس نے مقامی صدر جماعت اور ایک احمدی کو ایف آئی آر نمبر ۲۸ اور دفعہ ۱۴۹،۱۴۷،۲۹۵ کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔

احمدی اپنی پرانی مسجد کو مسمار کر رہے تھے کیونکہ ان کے پاس ساتھ ہی ایک قدرے نئی مسجد موجود تھی۔اس موقع پر ایک مشہور ملاں نے آ کر جھگڑنا شروع کر دیا۔پولیس نے فریقین کو تھانے بلایا تو تحریک لبیک نے اس علاقے میں مظاہرہ کیا۔ چنانچہ احمدیوں کو احاطہ کو چھوڑنا پڑا۔ پولیس نے جگہ کی ملکیت کے متعلق تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ جگہ احمدیوں کی ملکیت ہے۔

اس روز رات کے وقت دوبارہ شر پسندوں نے تھانہ کا محاصرہ کر لیا تو پولیس نے ان کو خوش کرنےکےلیے احمدیوں پر مقدمہ درج کر دیا۔

احمدی کو قرآ ن سننے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا

کوٹلی آزاد جموں کشمیر،۱۰؍فروری۲۰۲۳ء:پولیس نے ایک احمدی کے خلاف زیر FIRنمبر۵۱/۲۳ دفعہ ۲۹۸۔ج اور APC۔۵۰۴ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

درخواست گزار نے کہا کہ موصوف اپنی کپڑوں کی دوکان میں اونچی آواز میں تلاوت سن رہا تھا جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور روکنے پر اس نے غوثیہ مسجد کے مولوی سے بدتمیزی کی اور یہ کہ احمدیوں نے مسجد کے مینارے تعمیر کر رکھے ہیں۔اس نے کہا کہ انتظامیہ یہ مینارے توڑے اور اس احمدی کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

مقامی صدر جماعت نے بتایا کہ اس احمدی کے پاس کام کرنے والے ایک لڑکے نے ٹی وی پر تلاوت لگائی تھی جس پر مولوی نے کہا کہ کافروں کو تلاوت سننے کا حق نہیں ہے۔اور اس نے جماعت کے خلاف بہت بیہودہ زبان استعمال کی۔اس کے بعد چالیس پچاس ملاںاکٹھے ہو کر انتظامیہ کے پاس پہنچ گئے اور احمدیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔پولیس کو دباؤ میں آکر مقدمہ درج کرنا پڑا۔

گستاخی کے قانون کی نئی تشریح نے احمدیوں کو مزید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ گو کہ قانون میں احمدیوں پر تلاوت سننے کی مناہی نہیں لیکن پولیس ان مذہبی غنڈوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔

ایک احمدی عہدیدار پر توہین کا مقدمہ انسدادِ دہشتگردی عدالت میں منتقل

ربوہ فروری۲۰۲۳ء:جیسا کہ ایک گذشتہ رپورٹ میں ذکر آ چکا ہے کہ ۷؍جنوری ۲۰۲۳ء کو ربوہ میں ایک احمدی عہدیدار کوان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔پہلے ان کو جھنگ جیل بھیجا گیا اور پھر وہاں سے فیصل آباد جیل منتقل کر دیا گیا۔ ان کی ضمانت کا معاملہ ایڈیشنل سیشن جج لالیاں ضلع چنیوٹ کی عدالت میں چل رہا ہے۔مخالفین نے عدالتی ریمانڈ کے خلاف درخواست دی تھی اور یہ بھی کہ اس مقدمہ کو انسداد دہشتگردی عدالت میں چلایا جائے۔ یہ مطالبہ گو کہ مضحکہ خیز تھا لیکن عدالت نے اس مقدمہ کو فیصل آبا د کی عدالت برائے انسداد دہشتگردی میں منتقل کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے سامنے ضمانت کی استدعا

اسلام آباد: پانچ احمدیوں کے متعلق سپریم کورٹ کے سامنے نظر ثانی کی درخواست گزاری گئی جن پر ۲۶؍مئی ۲۰۲۰ء کوایف آئی آر نمبر۲۹\۲۰۲۰ کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے تھانہ لاہورمیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ۲۹۵۔ب،۲۹۸۔ج،۱۲۰۔ب،۱۰۹۔۳۴R/W۲۰۱۶=PECA-11کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پاکستان کے سائبر کرائم کا محکمہ جو کہ وفاقی تفتیشی ادارے کے تحت کام کرتا ہے، نے ایک احمدی کو گرفتار کیا۔

بعد ازاں دو احمدیوں کو ۳۰؍ستمبر ۲۰۲۰ء کو ایف آئی اے دفتر میں حاضری کے موقع پر گرفتار کیا گیا۔

سید علی عباس ایڈیشنل جج لاہور نے اس مقدمہ میں توہین رسالت کی دفعہ ۲۹۵۔ج بھی شامل کردی جس کے باعث اب یہ لوگ سزائے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

سیشن جج مظہر نقوی اور جمال خان نے ۲۷؍اپریل ۲۰۲۲ءکو ان کی بعد از گرفتاری ضمانت نامنظور کر دی۔

بعض احمدی احباب پر لاہور کے سائبر کرائم ونگ کے تھانہ میں FIR نمبر ۸۸ اور تعزیرات پاکستان کی دفعات۱۹۵۔الف، ۲۹۸۔ج اورPECA-۱۱کےتحت مبینہ طور پر ایک گروپ ’’سندھ سلامت‘‘کے نام سے بنانےاور اس میں احمدیت سے متعلق مواد ڈالنے کے جرم میں مقدمہ درج کیا گیا۔ ان کو ۲۵؍فروری ۲۰۲۱ء کو حافظ آباد سے گرفتار کیا گیا۔اس کے بعد عدالت نے اس کیس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔ج بھی شامل کر دی۔

۳۰؍ستمبر۲۰۲۰ءکو ایک اور احمدی کو جھوٹے مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات ۲۹۸۔ج،۲۹۵۔ب ،PECA-۱۱اور۱۰۹کے تحت گرفتار کیا گیا۔۲۳؍فروری ۲۰۲۱ء کو ان کو ضمانت مل گئی تھی۔ اور کاغذی کارروائی کے بعد چار سے پانچ دن میں رہائی بھی متوقع تھی۔۲۷؍ فروری کو جب کیمپ جیل سے رہائی متوقع تھی تو ان کو لاہور کے سائبر کرائم ونگ نے FIR نمبر ۸۸ درج کرکےمندرجہ بالا دفعات کے تحت گرفتار کر لیا۔حالانکہ باضابطہ طور پر ان کا نام اس FIR میں شامل بھی نہیں تھا۔

سید علی عباس نے اس مقدمے میں توہین کی دفعات شامل کیں ۔

ہائی کورٹ کے جج طارق سلیم نے ۱۲؍جنوری ۲۰۲۲ء کو دو احمدیوں کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ انہی دو احباب کی ضمانت سپریم کورٹ کے جج جمال خان اور مظہر نقوی نے ۲۷؍اپریل ۲۰۲۲ء کو مسترد کی تھی۔

سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی تو مظہر علی نقوی،اعجاز الاحسن اور منیب اختر پر مبنی بینچ نے درخواست ضمانت مسترد کر دی اور لاہور ہائی کورٹ کو کہا کہ ایف آئی اے دو ماہ کے اندر بتائے کہ آیا توہین کی یہ دفعات لاگو ہوتی ہیں یا نہیں۔

ایک احمدی ملزم کے متعلق عدالت کا غیر معمولی رویہ

راولپنڈی،۳۱؍جنوری۲۰۲۳ء:لاہورہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے سامنے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے متعلق ایک احمدی عہدیدار کی گرفتاری نہ ہونے کے متعلق رٹ دائر کی گئی ہے۔ایک ٹیم نے ربوہ میں چھاپہ مارا جس میں ڈی پی او چنیوٹ کی شمولیت کو عدالت نے یقینی بنانے کو کہا۔اس احمدی عہدیدار نے کراچی کےکورٹ سے حفاظتی ضمانت لےلی تھی۔پولیس نے عدالت کو اس معاملے سے آگاہ کر دیا۔ لیکن ۲۵؍جنوری کو دوبارہ درخواست گزار نے درخواست دی کہ ابھی تک گرفتاری نہیں ہوئی۔ اس پر عدالتی بینچ کے جج عبد العزیز نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو ۲۷؍ جنوری کو بلا کر پندرہ روز کے اندر گرفتاری کی ’خوشخبری‘ سنانے کو کہا۔

ہائی کورٹ کے جج نے متحدہ علماء بورڈ سے مدد مانگ لی

چک اٹھاسی جھنگ برانچ، ہسیانہ ضلع فیصل آباد،۴؍ فروری ۲۰۲۳ء:ایک معاند احمدیت محمد اسماعیل نے احمدیہ مسجد کے میناروں کے متعلق تھانہ میں درخواست دائر کی۔اس نے یہ درخواست سیشن عدالت فیصل آباد اور لاہور ہائی کورٹ میں بھی دی۔یہ درخواست شجاعت علی خان کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس جج نے اس معاملے کے متعلق علماء بورڈ سے مشورہ مانگا ہے۔ اور یہ وہ علماء ہیں جو کہ احمدیت کے انتہائی دشمن ہیں۔

احمدیوں کے معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کی اپیل

سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف مقاطعہ اور ان کو تنہا کرنے کی ایک مہم جاری ہے اور اس ضمن میں کئی نفرت انگیز ویڈیوز احمدیوں کو نشانہ بنانے کےلیے پھیلائی جا رہی ہیں۔

۳؍ فروری ۲۰۲۳ء کو ایک مولوی عبد الواحد قریشی نے پاکستان ایئر لائنز کے جہاز میں بیٹھ کر وزیر ہوا بازی خواجہ سعد رفیق کو مخاطب کر کے ویڈیو بنائی اور اس کو پیغام دیا کہ پاکستان ایئر لائنز کو احمدیوں کےساتھ کوئی بھی کاروبار نہیں کرنا چاہیے۔

قریشی نے کہا کہ شیزان کا کیچپ پی آئی اے میں دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔اس نے کہا کہ احمدیوں کی بنائی ہوئی کوئی بھی چیز اس ایئر لائن میں استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

اپنی ویڈیو میں قریشی نے کہا کہ ’’میں ناظرین سے پی آئی اے کی فلائٹ میں بیٹھ کر مخاطب ہوں۔ میں لاہور سے کراچی جا رہا ہوں اور اس جہاز میں شیزان کا کیچپ دیا جارہاہے۔یہ قادیانیوں کا بنایا ہوا ہے اور اس کی یہاں تشہیر کی جارہی ہے۔وزیر ہوابازی ایک معروف شخصیت کا بیٹا ہے اس کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیےاور اس کے دوست جو اس پیغام کو دیکھ رہے ہیں اس کو آگاہ کریں۔قادیانی ہمارے پیارے ملک کے آئین کو نہیں مانتے۔ان کی مصنوعات کی کیوں تشہیر کی جارہی ہے۔ اگر آنحضورﷺ کی شفاعت کا حقدار بننا ہے تو اس سب کو روکنا ہو گا‘‘۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button