خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)

سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کی نیک نامی کے حوالہ سے کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے۔ مقابلہ ہوتا تھا کہ کون بہتر ہے دوسرے سے۔ اور اس وقت سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ سب سے بہتر ہیں، پھر حضرت عمر بن خطاب، پھر حضرت عثمان بن عفانؓ۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ نے بیان کیا: حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اے لوگوں میں سب سے بہتر رسول اللہﷺ کے بعد! حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی تعریف کی تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اگر تم ایسا کہتے ہو تو مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہوا کسی آدمی پر جو عمرؓ سے بہتر ہو۔یعنی آپؓ نے فوراً اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا کہ مجھے کہتے ہو تم بہتر ہو حالانکہ میں نے تو تمہارے بارے میں بھی آنحضرتﷺسے سنا ہوا ہے کہ تم بہتر ہو۔عبداللہ بن شفیق نے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ نبیﷺ کے صحابہ میں سے کون رسول اللہﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھا تو انہوں نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ۔ مَیں نے کہا پھر کون؟ فرمایا حضرت عمرؓ۔ مَیں نے کہا پھر کون؟ فرمایا پھر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا پھر کون؟ پھر آپؓ خاموش رہیں۔

سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کے محاسن کے حوالہ سےکیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’(حضرت) ابوبکر صدیقؓ کے محاسن اور خصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سفرِ ہجرت میں آپ کو رفاقت کے لئے خاص کیا گیا اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص‘‘یعنی آنحضرت ’’(ﷺ) کی مشکلات میں آپ ان کے شریک تھے اور آپ مصائب کے آغاز سے ہی حضورؐ کے خاص انیس بنائے گئے تھے‘‘یعنی خاص دوست بنائے گئے تھے ’’تا کہ محبوب خداؐ کے ساتھ آپؓ کا خاص تعلق ثابت ہو اور اس میں بھید یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم تھا کہ صدیقِ اکبرؓ صحابہؓ میں سے زیادہ شجاع، متقی اور ان سب سے زیادہ آنحضرتﷺ کے پیارے اور مردِ میدان تھے اور یہ کہ سید الکائناتﷺ کی محبت میں فنا تھے۔ آپؓ‘‘یعنی حضرت ابوبکرؓ ’’ابتدا سے ہی حضورؐ کی مالی مدد کرتے اور آپؐ کے اہم امور کا خیال فرماتے تھے۔ سو اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبی (ﷺ) کی آپؓ کے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصّدیق کے نام اور نبی ثقلینؐ کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثَانِی اثْنَینِ کی خلعتِ فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا۔‘‘

سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کے حوالہ سےغیرمسلم مصنفین کی آراء اوراس میں مبالغہ آمیزی کی بابت کیاتبصرہ فرمایا؟

جواب: فرمایا: الجیریا کا بیسویں صدی کا ایک مؤرخ ہے آندرے سرویئر (André Servier)وہ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ابوبکر کا مزاج سادہ تھا۔ غیر متوقع عروج کے باوجود انہوں نے غربت والی زندگی بسر کی۔ جب انہوں نے وفات پائی تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بوسیدہ لباس، ایک غلام اور ایک اونٹ ترکہ میں چھوڑا۔ وہ اہلِ مدینہ کے دلوں پر سچی حکومت کرنے والے تھے۔ ان میں ایک بہت بڑی خوبی تھی اور وہ تھی قوت و توانائی۔ لکھتا ہے کہ محمدﷺ نے جس خوبی کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا تھا اور جو آپ کے دشمنوں میں کمیاب تھی وہ خوبی حضرت ابوبکرؓ میں پائی جاتی تھی اور وہ کیا خوبی تھی ،غیرمتزلزل ایمان اور مضبوط یقین اور ابوبکر صحیح جگہ پر صحیح آدمی تھا۔ پھر لکھتا ہے کہ اس معمر اور نیک سیرت انسان نے اپنے موقف کو اختیار کیا جبکہ ہر طرف بغاوت برپا تھی۔ آپ نے اپنے مومنانہ اور غیر متزلزل عزم سے حضرت محمدﷺ کے کام کو از سرِ نو شروع کیا…پھر ایک برطانوی مؤرخ ہے جے جے سانڈرز(J.J. Saunders)۔ وہ لکھتا ہے کہ پہلے خلیفہ کی یاد مسلمانوں میں ہمیشہ ایک ایسے انسان کے طور پر جاگزیں رہی ہے جو کامل وفا دار، لطف و کرم کا پیکرتھا اور کوئی سخت سے سخت طوفان بھی ان کی مستقل تحمل مزاجی کو ہلا نہ سکا۔ ان کا عہدِ حکومت اگرچہ مختصر تھا لیکن اس میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ بہت عظیم تھیں۔ ان کی طبیعت کے ٹھہراؤ اور ثبات و استقلال نے ارتداد پر قابو پا کر عرب قوم کو دوبارہ دائرہ ٔاسلام میں داخل کر دیا اور ان کے تسخیرِ شام کے مصمم ارادے نے عرب دنیا کی سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔ پھر ایک اَور انگریز مصنف ہے ایچ جی ویلز(H.G. Wells)۔ یہ کہتا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی سلطنت کی اصل بنیاد رکھنے والے محمدﷺ سے زیادہ ابوبکر تھے جو آپؐ کے دوست اور مددگار تھے… جب محمدﷺکا انتقال ہوا تو ابوبکر آپؐ کے خلیفہ اور جانشین بنے اور پہاڑوں کو بھی ہلا دینے والے ایمان کے ساتھ انہوں نے بڑی سادگی اور سمجھداری سے تین یا چار ہزار عربوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی سی فوج کے ساتھ ساری دنیا کو اللہ کے تابع فرمان بنانے کا کام شروع کیا۔ بہرحال جیساکہ میں نے کہا کہ مصنف نے حضرت ابوبکرؓ کی بعض خوبیوں کا ذکر کیا ہے جو بلاشبہ اُن میں موجود تھیں لیکن چونکہ یہ لوگ آنحضرتﷺ کے اس اعلیٰ و ارفع مقامِ نبوت کی حقیقت کا ادراک اور شعور نہیں رکھتے تھے اس لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ وغیرہ کی تعریف میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی طور پر درست نہیں ہو سکتا حالانکہ حضرت عمرؓ ہوں یا حضرت ابوبکرؓ یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہﷺ کے وفادار اور کامل متبع اور عاشق تھے۔ یہ لوگ حضرت محمدﷺ کے شعور نہ تھے بلکہ خادمانہ رنگ میں حضرت محمدﷺ کے لیے ہاتھ اور پاؤں تھے۔ ایسا ہی دینِ اسلام آنحضرتﷺ کے دماغ کا نام یا کام نہ تھا جس طرح اس نے یہ لکھا ہے کہ اسلام جو تھا اس کا دماغ آنحضرتﷺ تھے بلکہ سراسر خدائی راہنمائی اور وحیٔ الٰہی کے نتیجہ میں ایک کامل اور مکمل شریعت اور دین کا نام اسلام ہے اور نہ ہی کسی بھی گھبراہٹ یا تزلزل کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ آنحضرتﷺ کے لیے ڈھارس بنے بلکہ اوّل تو اس اشجع الناس، جری اور بہادر نبیﷺ کی ساری زندگی میں ہم کبھی کسی گھبراہٹ یا تزلزل کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر کوئی پریشانی کا موقع آیا بھی ہو تو خدائے قادر و توانا ان کے لیے ڈھارس بنتا رہا……

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےصحابہ کرامؓ کے مقام کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے بڑے زبردست بادشاہ ابوبکرؓاور عمرؓبلکہ ابوہریرہؓ کا نام لے کر بھی رضی اللہ عنہ کہہ اٹھتے رہے ہیں اور چاہتے رہے ہیں کہ کاش ان کی خدمت کا ہی ہمیں موقعہ ملتا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ ابوبکر اور عمر اور ابوہریرہؓ نے غربت کی زندگی بسر کر کے کچھ نقصان اٹھایا۔ بےشک انہوں نے دنیاوی لحاظ سے اپنے اوپر ایک موت قبول کر لی۔ لیکن وہ موت ان کی حیات ثابت ہوئی اور اب کوئی طاقت ان کو مار نہیں سکتی۔ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔‘‘پھر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکرؓ کو اللہ تعالیٰ نے محض اِس لئے ابوبکرؓ نہیں بنایا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریمﷺ کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے عمرؓ کا درجہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریمﷺ کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ عثمانؓ اور علیؓ کو محض اس لئے خدا تعالیٰ نے عثمانؓ اور علیؓ کا جو مرتبہ ہے وہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریمﷺ کی دامادی کے مقام پر پہنچ گئے تھے یا طلحہؓ اور زبیرؓ کو محض اس لئے کہ وہ آپؐ کے خاندان یا آپؐ کی قوم میں سے تھے اور آپؐ کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے عزتیں اور رتبے عطا نہیں کئے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قربانیوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جس سے زیادہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتا۔‘‘

سوال نمبر۵:حضرت مصلح موعودؓنےدینی اور دنیاوی بادشاہت میں کیافرق بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:آپؓ فرماتے ہیں: ’’دیکھو! ابوبکر بادشاہ بن گئے۔ لیکن ان کا باپ یہ سمجھتا تھا کہ ان کا بادشاہ ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ انہیں بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی۔ اس کے مقابلہ میں تیمور بھی ایک بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی دنیوی تدابیر کی وجہ سے بادشاہ ہوا تھا۔ نپولین بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن وہ اپنی محنت اور دنیوی تدابیر سے بادشاہ بن گیا تھا۔ نادر شاہ بھی بڑا بادشاہ تھا لیکن اسے بھی بادشاہت اپنی ذاتی محنت اور کوشش اور دنیوی تدابیر سے ملی تھی۔ پس بادشاہت سب کو ملی۔ لیکن ہم کہیں گے تیمور کو بادشاہت آدمیوں کے ذریعہ ملی۔ لیکن ابوبکرؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی۔ ہم کہیں گے نپولین کو بادشاہت دنیوی تدابیر سے ملی تھی لیکن حضرت عمرؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ سے ملی۔ ہم کہیں گے چنگیز خان کو بادشاہت دنیوی ذرائع سے ملی تھی لیکن حضرت عثمانؓ کو بادشاہت خدا تعالیٰ نے دی۔ ہم کہیں گے نادرشاہ دنیوی تدابیر سے بادشاہ بنا تھا لیکن حضرت علیؓ کو بادشاہت خداتعالیٰ نے دی۔ پس بادشاہت سب کوملی، دنیوی بادشاہوں کا بھی دبدبہ تھا، رُعب تھا۔ اُن کا بھی قانون چلتا تھا اور خلفاء کا بھی۔ بلکہ ان کا قانون ابوبکرؓ، عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ سے زیادہ چلتا تھا۔ لیکن یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوئے تھے‘‘یعنی یہ چاروں’’اور وہ آدمیوں کے ذریعہ بادشاہ ہوئے تھے۔‘‘جو دنیادار بادشاہ تھے… جو بادشاہت خدا تعالیٰ کے ذریعہ ملنے والی تھی وہ حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ کو ملی۔ ان کے سوا دوسرے لوگوں کونہیں ملی۔ دوسروں کو جو بادشاہت ملی وہ شیطان سے ملی یا انسانوں سے ملی…خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے یا بندوں سے ملنے والی چیز زیادہ برکت والی ہوتی ہے۔ انسانی تدابیر سے حاصل کی ہوئی بادشاہت بند بھی ہو سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بادشاہت بند نہیں ہو سکتی۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ’’یزید بھی ایک بادشاہ تھا اُسے کتنا غرور تھا۔ اُسے طاقت کا کتنا دعویٰ تھا۔ اس نے رسول کریمﷺ کے خاندان کو تباہ کیا۔‘‘بظاہر اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا تھا۔ ’’اس نے آپؐ کی اولاد کو قتل کیا اور اس کی گردن نیچے نہیں ہوتی تھی۔‘‘بڑا اکڑ کے رہتا تھا ’’وہ سمجھتا تھا کہ میرے سامنے کوئی نہیں بول سکتا۔حضرت ابوبکرؓ بھی بادشاہ ہوئے لیکن ان میں عجز تھا، انکسار تھا۔ آپؓ فرماتے تھے مجھے خدا تعالیٰ نے لوگوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اور خدمت کے لیے جتنی مہلت مجھے مل جائے اس کا احسان ہے۔ لیکن یزید کہتا تھا مجھے میرے باپ سے بادشاہت ملی ہے۔ میں جس کو چاہوں مار دوں اور جس کو چاہوں زندہ رکھوں۔ بظاہر یزید اپنی بادشاہت میں حضرت ابوبکرؓسے بڑھا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا میں خاندانی بادشاہ ہوں۔ کس کی طاقت ہے کہ میرے سامنے بولے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ میں اس قابل کہاں تھا کہ بادشاہ بن جاتا۔ مجھے جو کچھ دیا ہے خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔ میں اپنے زور سے بادشاہ نہیں بن سکتا تھا۔ میں ہر ایک کا خادم ہوں۔ میں غریب کا بھی خادم ہوں اور امیر کا بھی خادم ہوں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو تو مجھ سے اس کا ابھی بدلہ لے لو۔ قیامت کے دن مجھے خراب نہ کرنا۔‘‘حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں’’ ایک سننے والا کہتا ہو گا کہ یہ کیا ہے۔ اسے تو ایک نمبردار کی سی حیثیت بھی حاصل نہیں۔لیکن وہ یزید کی بات سنتا ہو گا تو کہتا ہو گا یہ باتیں ہیں جو قیصر و کسریٰ والی ہیں۔‘‘یہ بادشاہوں والی باتیں ہیں جو یزید کر رہا ہے۔’’لیکن جب حضرت ابوبکرؓ فوت ہو گئے تو اُن کے بیٹے، اُن کے پوتے اور پڑپوتے پھر پڑپوتوں کے بیٹے اور پھر آگے وہ نسل جس میں پوتا اور پڑپوتا کا سوال ہی باقی نہیں رہتا وہ برابر ابوبکرؓ سے اپنے رشتہ پر فخر کرتے تھے…غرض اولاد تو الگ رہی غیر بھی اپنی جان ان پر نثار کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ہر کلمہ گو جب آپ کا نام سنتا ہے تو کہتا ہے رَضِی اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ مگر وہ فخر کرنے والا یزید جو اپنے آپ کو بادشاہ ابنِ بادشاہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا تھا جب فوت ہوا تو لوگوں نے اس کے بیٹے کو اس کی جگہ بادشاہ بنا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو وہ منبر پر کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو! میرا دادا اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ بادشاہت کے مستحق لوگ موجود تھے۔ میرا باپ اُس وقت بادشاہ بنا جب اُس سے زیادہ مستحق لوگ موجود تھے۔ اب مجھے بادشاہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ مجھ سے زیادہ مستحق لوگ موجود ہیں۔ اے لوگو! مجھ سے یہ بوجھ اٹھایا نہیں جاتا۔ میرے باپ اور میرے دادا نے مستحقین کے حق مارے ہیں لیکن میں اُن کے حق مارنے کو تیار نہیں۔ تمہاری خلافت یہ پڑی ہے جس کو چاہو دے دو۔ میں نہ اِس کا اہل ہوں اور نہ اپنے باپ دادا کو اس کا اہل سمجھتا ہوں۔ انہوں نے جابرانہ اور ظالمانہ طور پر حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ میں اب حقداروں کو ان کا حق واپس دینا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر گھر چلا گیا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button