پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

۲۰۲۲ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

میناروں کی وجہ سے چار احمدیوں کو گرفتار کر لیاگیا

کراچی ؛ستمبر ۲۰۲۲ء:احمدیہ ہال کراچی گذشتہ پچاس سال سے احمدیوں کی مذہبی ضروریات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ عبد القادر پٹیل کی درخواست پر پولیس نے تھانہ پریڈی کراچی میں چار احمدیوں کے خلاف22/ FIR. 527 میں دفعہ ۲۹۸ + ج اور ب اور دفعہ ۳۴ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

دو گروہوں کے درمیان جھگڑا

باہومان ضلع شیخوپورہ:گاؤں کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔وہاں پر چھ احمدی خاندان بھی آباد ہیں۔ سارے مکین آپس میں رشتہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ جھگڑا ہو گیا۔کچھ احمدی ایک گروہ کے ساتھ اچھے روابط رکھتے تھے۔ایک انتہائی متشدد حملے کے دوران ان جھگڑا کرنے والوں میں سے ایک گروہ کا آدمی زین علی عمر ۲۰ سال مارا گیا۔

تفصیلات کےمطابق رائے ناصر احمد کو کچھ عرصہ کے لیے گاؤں چھوڑنا پڑا اور حال ہی میں ایک معاہدہ کر کے ان کو واپس گاؤں بلایا گیا۔اس متشدد گروہ میں سے کچھ لوگوں کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے جنہیں یہ بات پسند نہیں آئی چنانچہ انہوں نے ایک مظاہرہ کیا اور احمدیہ مخالف نعرے لگاتے ہوئے ایک احمدی کے فارم ہاؤس کی طرف روانہ ہوئے جہاں اس وقت غیر احمدی بھی موجود تھے۔لوگوں نے ان کو اس جارحانہ رویے سے منع بھی کیا لیکن انہوں نے فارم ہاؤس پر موجود لوگوں پر پتھراؤ کیا۔ ا س طیش دلانے والے عمل کے جواب میں وہاں پر موجود چند غیر احمدیوں نے ان مظاہرین پر گولیاں برسانی شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ان میں سے ایک آدمی مارا گیا۔

تھانہ بھٹی نے ۹؍ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے آٹھ کو گرفتار کر لیا۔ان میں سے تین احمدی ہیں۔پولیس نے FIR.۵۷۹ میں دفعہ ۳۰۲,۳۲۴,۲۴۸,۲۴۹ اورانسداد دہشتگردی دفعہ ۷ کے تحت ۷؍مئی ۲۰۲۲ء کو غیر احمدیوں اور احمدیوں پر مقدمہ درج کر کے رائے ناصر احمد،ان کے بیٹے رائےاسد ناصر اور کاظم حیات کو گرفتار کرلیا۔ان کے ساتھ ہی پولیس نے مقامی صدر جماعت اور ایک احمدی معلم کو بھی گرفتار کر لیا جن کے نام اس FIR میں درج بھی نہیں تھے۔مخالفین نے اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر مذہبی رنگ دے کر لوگوں کو احمدیوں کے خلاف متشدد کارروائیاں کرنے پر انگیخت کیا۔ تحریک لبیک پاکستان کا سربراہ مولوی سعد رضوی لاہور اس حملہ آور کا جنازہ پڑھانے کے لیے آیا۔اس کے بعد اس کو زبردستی قبرستان کے اس حصے میں دفن کیاگیا جو احمدیوں کےلیے مختص ہے۔اس کے بعد مخالفین نے (جو زیادہ تر تحریک لبیک پاکستان والوں پر مشتمل تھے )مظاہرہ کیا اور احمدیہ مسجد پر حملہ کر دیا۔انہوں نے مسجد کے چار مینارے تباہ کر دیے اور واش روم کی چھت پر لگے ڈش انٹیناکو بھی توڑ دیا۔اس واقعہ کے بعد احمدی خاندانوں کو گاؤں چھوڑنا پڑا۔

تحریک لبیک پاکستان کے پراپیگنڈا کے بعد پولیس نے واضح طور پر اپنا موقف بتایا ہےکہ یہ جھگڑا دو گروہوں کے درمیان ذاتی نوعیت کا تھا۔مذہب کا اس میں کوئی بھی عمل دخل نہ تھا۔

یہ بات یا د رکھنےکے قابل ہےکہ مقتول حملہ آوروں میں شامل تھااور ان پر گولیاں اپنے دفاع میں چلائی گئی تھیںاور احمدیوں نے تو کوئی گولی چلائی ہی نہیں لہٰذا ان پر قتل کاالزام لگانا ہی غلط تھا۔

نوکری کے دوران ایک احمدی پر جھوٹا مقدمہ قائم کرنے کی کوشش

سکھیکی ضلع حافظ آباد:جنوری ۲۰۲۲ء: ایک احمدی محکمہ انہار میں بطور محرر نوکری کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی نے ڈپٹی کمشنر حافظ آباد کو درخواست دی کہ مذکورہ احمدی نے انہیں تبلیغ کی ہے اور دھمکی دی ہےکہ اگر وہ احمدی نہ ہوا تو اس کونوکری سے برخاست کروا دیں گے۔ ڈپٹی کمشنر نے درخواست اسسٹنٹ کمشنر کو بھجوا دی جس نے فریقین سے معاملہ کے متعلق تحقیق کی۔SDO حافظ آباد نے اس معاملے کے متعلق بتایا کہ یہ دعویٰ جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور موصوف نے کبھی کوئی تبلیغ نہیں کی۔اسی طرح ان کے محکمہ کے دوسرے افراد نے بھی اس بات کی تائید کی کہ انہوں نے کبھی دفتر میں ایسی گفتگو نہیں کی۔اس پر اسسٹنٹ کمشنر نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت سے باز رہے ورنہ اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

اسلامی القاب کے استعمال پر احمدیوں کو تھانے طلب کر لیا گیا

پیرو چک، ضلع سیالکوٹ، فروری ۲۰۲۲ء:محمد بلال نے چھ احمدیوں کے خلاف ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی۔ اس نے ان پر الزام لگایا کہ ان سب نے اپنے گھروں اور اپنی دکانوں پر آیاتِ قرآنی، کلمہ اور درود لکھا ہوا ہے۔اس نے درخواست میں لکھا کہ غیر مسلم ہونے کے باوجود احمدیوں نےخود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے اسلامی عبارتیں استعمال کی ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ آئین و قانون کے مطابق ایک جرم ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق (احمدیوں کا) اسلامی شعائر کا استعمال توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ متعصب شخص اس بات کو بھول گیا کہ یہ شعائر احمدی عقائد کا حصہ ہیں۔اور آئین سب کو اپنے عقائد پر عمل کی آزادی دیتا ہے۔

فریقین کو تھانے میں بلایا گیا۔اور احمدیوں نےاپنا موٴقف واضح کیا۔پولیس نے کہا وہ اپنا آئندہ لائحہ طے کرنے کے لیے بعد میں فیصلہ کریں گے۔

احمدیوں کو پولیس نے ناجائز طریق پر دھمکایا

چک ۸۸، ضلع فیصل آباد ؛ ۱۴؍جون ۲۰۲۲ء:گذشتہ کچھ عرصے سے معاندین احمدیت احمدی مساجد پر میناروں،محرابوں اور اسلامی تحریرات کے متعلق مختلف اضلاع میں پولیس سے رابطے کر رہے ہیں جن میں فیصل آباد سر فہرست ہے۔ اسی ضمن میں پولیس نے تعزیراتِ پاکستان ۲۹۸ ب کے تحت ۱۹؍فروری ۲۰۲۲ء کو چک ۸۸کے احمدی بزرگان پر مقدمہ درج کر دیا۔

بعدازاں پولیس نے مقامی احمدیوں کو تھانہ ڈجکوٹ میں بلایا اور احمدیہ مسجد سے مینار اور اسلامی تحریرات بشمول کلمہ طیبہ ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ اس پر احمدیوں نے کہا کہ وہ مینار اور کلمے کو ڈھانپ دیں گے لیکن تھانیدار نے کہا کہ اب بات اس سے آگے نکل چکی ہے۔

۱۴؍جون کو پولیس نے مقامی صدر جماعت کو تھانے میں طلب کیا جو ایک اور احمدی کے ساتھ تھانے گئے۔پولیس نے احمدیوں سے ایک تحریر کا تقاضا کیا کہ احمدی مسجد کے متعلق زیریں عدالت کا فیصلہ مان لیں۔ احمدیوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے متعلق اپیل دائر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور چونکہ پولیس خود اس کیس میں ایک فریق ہے لہٰذا پولیس کا یہ تقاضا ناجائز اور غلط ہے۔

پولیس نے ان کو دھمکایا کہ وہ ان پر ۱۶ ایم پی او کے تحت نقضِ امن کا مقدمہ درج کر دیں گے۔ پولیس نے ان کو تھانے میں بند کر دیا۔

پولیس نے مقامی احمدی صدر جماعت کو حراست میں لے لیا

ترگڑی، ضلع گوجرانوالہ؛۱۷؍جون ۲۰۲۲ء:ایک شخص مقامی صدر جماعت کے گھر کے باہر موبائل فون استعمال کر رہا تھا۔ انہوں نے اس شخص سے وہاں پر رکنے کی وجہ دریافت کی۔بعد ازاں پولیس نے مقامی صدر کو حراست میں لے لیا۔ گرفتاری کے عمل میںتحریکِ لبیک پاکستان سے متعلقہ عناصر پیش پیش تھے۔ پولیس نے گرفتاری کا یہ جواز پیش کیا کہ موصوف کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔انہوں نے تھانے کے باہر ایک ہجوم کے اکٹھا ہونے پر ان کو کسی اَور جگہ منتقل کر دیا۔

درخواست گزار نے کچھ با اثر لوگوں کی مداخلت کے باعث کیس واپس لےلیا لیکن وہ ایک معاندِاحمدیت رانا اکرام اللہ اور اس کے ساتھ بیس پچیس آدمیوں کے دباؤ کی وجہ سے اپنے وعدے سے پھر گیا چنانچہ۲۰؍ جون ۲۰۲۲ء کو پولیس نے مذکورہ احمدی کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔

احمدیوں کے خلاف عدالت میں ایک جھوٹا مقدمہ

چک ۴۶ شمالی،ضلع سرگودھا، ستمبر ۲۰۲۲ء: محمد اسلم کچھیلا کے داماداسد اکرم کچھیلا نے سات احمدیوں کے خلاف تعزیراتِ پاکستان – ۲۲ الف اور ب کے تحت سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ درج کروا دیا۔اس نے ان احمدیوں پر مسجد کی مشابہت رکھنےوالے میناروں،احمدیہ ترجمے والے قرآن کے ایک نسخے اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا تحریر کردہ ایک کتابچہ رکھنے اور اسے تقسیم کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کروایا۔اس نے الزام لگایا کہ احمدیوں نے ایک عمارت کو مسجد کی طرز پر بنا کر اور اس میں اشتعال انگیز مواد رکھ کر جرم کا ارتکاب کیاہے۔ اس نے فوجداری مقدمہ درج کرنے اور اس کے مطابق کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

عدالت نے پولیس کو تفتیش کر کے ر پورٹ دینے کا کہا۔ جس پر پولیس نے رپورٹ پیش کی کہ مسجد کی تعمیر پینتالیس، چھیالیس سال پرانی ہے جس پر دو چھوٹے مینارے ہیں نیز یہ کہ مسجد میں کوئی لاؤڈ سپیکر نہیں ہے اور اس میں اذان نہیں دی جاتی۔ مزید برآں مذکورہ احمدی کے خلاف پمفلٹ تقسیم کرنے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہ ہیں۔ دورانِ تفتیش نہ تو درخواست گزار خود سامنے آیا نہ ہی کوئی مقامی آدمی ان الزامات کی تائید میں سامنے آیا۔ اس درخواست میں جس کا نام موجود ہے، اس نے بیان دیا کہ اس کو اس کیس میں پیش کیے جانے والےبیان کےمتعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔اس کا نام اس کیس میں جان بوجھ کراس کی مرضی کے بغیر شامل کیا گیا ہے۔اسی طرز کی درخواستیں پہلے بھی دو پارٹیوں کی طرف سے دی جا چکی ہیں۔ چنانچہ اس درخواست کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا۔ یہ کام صرف جماعت احمدیہ کو دباؤ میں لانے کےلیے کیا گیا ہے۔

ذاتی نوعیت کے مقدمے کوفرقہ وارانہ رنگ دے کر احمدیوں کو تکلیف دینے کی کوشش

تھانہ شہر سلطان،ضلع مظفر گڑھ (پنجاب): پولیس نے آٹھ احمدیوں کے خلاف ۹؍ستمبر ۲۰۲۲ء کو ایف آئی آر نمبر ۵۹۳ میں طاقت کے بے جا استعمال اور جائیداد کے معاملات وغیرہ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔معاملہ ایک احمدی کے گھر پر ناجائز قبضے کا تھا جبکہ اس سے متعلق مقدمہ زیر سماعت تھا۔ جھگڑے کے باعث احمدیوں نے اس متنازعہ گھر کا قبضہ واپس حاصل کرنے کی کوشش کی۔مخالف فریق نے بدنام زمانہ تحریک لبیک پاکستان سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا جس پر انہوں نے تھانہ کا محاصرہ کر لیا جس پر پولیس نے اس ہجوم کو مطمئن کرنے کےلیے آٹھ احمدیوں پر مقدمہ درج کر دیا۔

پولیس نے ایک احمدی کو گرفتار کرنے کے لیےان کے گھر پر چھا پہ مارا لیکن وہ وہاں موجود نہ تھے۔اس پر پولیس نے ان کے اسّی سالہ بزرگ والد کو زیرِ حراست لے لیا۔

جب یہ معاملہ سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ مشہور ہو گیا تو کچھ مقامی سیاستدانوں نے دخل اندازی کر کے احمدیوں کی حمایت کی۔ آج کل پاکستان کے صوبہ پنجاب میں احمدی ہونا بہت حوصلہ رکھنے کا متقاضی ہے۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد۔ یوکے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button