مکتوب

مکتوبِ افریقہ

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

بر اعظم افریقہ کے مختلف ممالک کی چند خبریں پیش ہیں۔ یہ خبریں بی بی سی، سی این این، وائس آف امریکہ کے افریقہ پیجز اور افریقہ کے مقامی میڈیا سے رپورٹ ہوئی ہیں۔

دنیا کے غریب ترین ممالک میں ۳۳؍ افریقی ممالک

٭… کم ترقی یافتہ ممالک یا ’’ایل ڈی سی‘‘ Least Developed Countries کے بارے میں کانفرنس ہر دس سال کے بعد منعقد ہوتی ہے اور اس سال یہ ۵ تا ۹؍مارچ ۲۰۲۳ء کوہو ئی جسے ’ایل ڈی سی ۵‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کانفرنس ۴۶ نامزد ممالک کی ضروریات کو عالمی ایجنڈے میں دوبارہ سرفہرست لانے اور ان کی مدد کرنے پر مرکوز ہو گی جو پائیدار ترقی کی راہ پر واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چھ ممالک اس عمل سے گزر چکے ہیں جن میں بوٹسوانا (۱۹۹۴ء میں)، کابوویڈ (۲۰۰۷ء)، مالدیپ (۲۰۱۱ء)، سیموا (۲۰۱۴ء)، استوائی گنی (۲۰۱۷ء) اور وینوآٹو (۲۰۲۰ء) شامل ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل ایسے ملک ہیں جہاں بہت سے اشاریوں میں سماجی معاشی ترقی کی شرح بہت کم ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایسے تمام ممالک میں مجموعی قومی فی کس آمدنی (جی این آئی) ۱,۰۱۸ امریکی ڈالر سے کم ہے۔ ان کے مقابلے میں امریکہ میں یہ آمدنی ۷۱,۰۰۰ ڈالر، فرانس میں ۴۴,۰۰۰ ڈالر، ترکیہ میں ۹,۹۰۰ ڈالر اور جنوبی افریقہ میں ۶,۵۳۰ ڈالر ہے۔ اس وقت کم ترقی یافتہ ممالک کی تعداد ۴۶ہے جن کی بڑی اکثریت کا تعلق افریقہ سے ہے۔ اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل ہر تین سال کے بعد اس فہرست کا ازسرنو جائزہ لیتی ہے۔۱۹۹۴ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیانی عرصہ میں چھ ممالک اس فہرست سے نکل آئے ہیں۔ اس وقت چھیالیس کم ترقی یافتہ ممالک میں ۱.۱ ارب لوگ رہتے ہیں جو کہ دنیا کی آبادی کا چودہ فیصد اور تاحال غربت میں زندگی گزارنے والی آبادی کا پچہتر فیصد سے زیادہ ہیں۔

مارچ ۲۰۲۳ء تک اقوام متحدہ کی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں درج ذیل ۴۶؍ ملک شامل تھے:

افریقہ (۳۳؍ ممالک): انگولا، بینن، برکینا فاسو، برونڈی، وسطی جمہوریہ افریقہ، چاڈ، کوموروز، جمہوریہ کانگو، جبوتی، اریٹریا، ایتھوپیا، گیمبیا، گنی، گنی بساؤ، لیسوتھو، لائبیریا، مڈغاسکر، ملاوی، مالی، موریطانیہ، موزمبیق، نائیجر، روانڈا، ساؤ ٹومے اینڈ پرنسپے، سینیگال، سیرالیون، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، تنزانیہ، ٹوگو، یوگنڈا اور زیمبیا۔

ایشیا (۹ ممالک): افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، عوامی جمہوریہ لاؤ، میانمار، نیپال، ٹیمور۔لیسٹے اور یمن۔

غرب الہند (ایک ملک): ہیٹی الکاہل (۳؍ ممالک): کیریباٹی، جزائر سولومن اور طوالو

سیرالیون میں صدارتی انتخابات

٭… ۲۴؍جون ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ سیرالیون میں صدارتی الیکشن منعقد ہوئے۔۲۰۰۲ء میں سیرا لیون کی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد یہ پانچواں الیکشن تھا جو بے روزگاری اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی پرتشدد بیان بازی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق حکمران جماعت SLPP کے سابقہ صدر جولیس مادا بیو ۵۶.۱۷ فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلے جبکہ آل پیپلز کانگریس (APC) مرکزی حریف سامورا کمارا ۴۱.۱۶ فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ الیکشن کمیشن نے صدر جولیس مادا بیو کو ملک کے متنازعہ قرار دیے جانے والے صدارتی انتخابات کا فاتح قرار دیا ہے۔ چیف الیکٹورل کمشنر محمد کینیوئی کونے نے ۲۷؍جون کو عید الاضحی سے ایک روز قبل نتائج کا اعلان کی۔ واضح رہے کہ سیرالیون میں صدارتی امیدوار کی ۵۵؍ فیصد برتری ضروری ہے۔

صدر مادابیو جو ۱۹۹۰ء کی دہائی میں بغاوت کرنے والے سابق راہنما تھے، نے اپنی پہلی جمہوری مدت میں تعلیم اور خواتین کے حقوق کی حمایت کی جو کہ معاشی مشکلات پر بڑھتی ہوئی مایوسی کی وجہ سے تھی۔

اعلان کے بعد خلاف توقع اے پی سی کے کارکنان پُرامن رہے۔۷۲؍ سالہ سامورا کمارا نے ٹوئٹ کی کہ وہ نتائج کو ’’واضح طور پر ‘‘ مسترد کر تے ہیں۔لکھا کہ ’’یہ ہمارے پیارے ملک کے لیے ایک افسوسناک دن ہے اور یہ ہماری نوخیز جمہوریت پر ایک حملہ ہے۔ یہ نتائج قابل اعتبار نہیں ہیں اور میں انتخابی کمیشن کی طرف سے اعلان کردہ نتائج کو واضح طور پر مسترد کرتا ہوں۔‘‘

یورپی یونین کے مبصرین نے کہا کہ انتخابی کمیشن کی طرف سے شائع کردہ صدارتی نتائج میں ’’اعداد و شمار میں تضادات‘‘ہیں۔ امریکہ نے گنتی کے عمل میں شفافیت کی کمی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پچھلے سال غیرمعمولی طور پر پرتشدد مظاہروں کو ہوا دی۔ورلڈ بینک کے مطابق اقتصادی بدحالی نے سیرا لیون میں بحالی کی امیدوں کو روک دیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر بے روزگاری برقرار ہے اور نصف سے زیادہ آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ سیرا لیون کی ۷۰ لاکھ سے زیادہ آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد غربت کا سامنا کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کی بے وزگاری مغربی افریقہ میں سب سے زیادہ ہے۔ روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ تاجر اور غیر ملکی بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ گذشتہ ایک سال میں ایک ڈالر کے مقابل لیون کی قیمت دس ہزار لیون(۱۰ نئے لیون) سے بڑھ کر ۲۴ ہزار لیون(۲۴ نئے لیون) ہو گئی ہے۔

سیرالیون کا ۲۳۰؍ سالہ قدیم کاٹن ٹری ٹوٹ گیا

٭… ۲۴؍ مئی ۲۰۲۳ء کی رات شدید طوفانی بارشوں کی وجہ سے سیرالیون کے دار الحکومت میں ایستادہ درخت زمین بوس ہو گیا۔ کاٹن ٹری کو آزادی اور حریت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مقامی روایت کے مطابق یہ چار سو سالہ قدیم درخت تھا۔ اس کی باقاعدہ تاریخ ۱۸۹۳ء سے ملتی ہے جب اس کے نیچے امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے والے سیاہ فام غلاموں نے موجودہ دار الحکومت فری ٹاؤن کی بنیاد رکھی تھی۔

نائیجیریا کے صدر نے حلف اٹھا لیا

ایک ٹوٹی پھوٹی قوم، ایک بیمار معیشت اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے پس منظر کے باوجود پیر ۲۳؍مئی ۲۰۲۳ء کو نائیجیریا کے نومنتخب صدر بولا احمد تینوبو نے بطور سولہویں صدر کے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ تقریب حلف برداری ابوجا میں پانچ ہزار گنجائش والے ایگل اسکوائر کے مقام پر سخت سیکیورٹی کے درمیان منعقد ہوئی۔اس روز عام قومی تعطیل کا اعلان کیا گیا اور نائیجیریا کے عام باشندوں کو بغیر دعوت کے تقریب میں شامل نہ ہونے کاکہا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے نتائج پر اختلاف کیا تھا، اور بدامنی کے خدشات تھے۔

ٹینوبو نے نائیجیریا کے باشندوں کو بتایا کہ ان کی حلف برداری ایک ’’شاندار لمحہ‘‘ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے ایسی سختیاں برداشت کی ہیں جن کی وجہ سے دوسرے معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے۔ اس کے باوجود ہم نے اس شاندار لمحے پر پہنچنے کے لیے بھاری قیمت چکائی ہے۔ ایک بہتر مستقبل کا امکان اسے بہتر بنانے کے لیے ہماری بہتر صلاحیت کے ساتھ ضم ہو جاتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ انہوں نے صرف ۳۷؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

امریکہ نے نائیجیرین باشندوں کے داخلہ پر پابندی عائد کر دی

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پیر۱۶؍مئی ۲۰۲۳ء کو کہا کہ امریکہ نے افریقی ملک کے ۲۰۲۳ء کے انتخابات کے دوران جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کے باعث مزید نائیجیرین باشندوں پر داخلے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ بلنکن نے ایک بیان میں کہا: ’’یہ افراد ووٹروں کو دھمکیوں اور جسمانی تشدد کے ذریعے ڈرانے، ووٹ کے نتائج میں ہیرا پھیری، اور دیگر سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں جو نائیجیریا کے جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

حکمران آل پروگریسو کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹینوبو نے اپنے قریبی حریف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اتیکو ابوبکر اور لیبر پارٹی کے پیٹر اوبی کو شکست دی، جنہوں نے دھوکا دہی کا الزام لگاتے ہوئے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے انہیں عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

صومالیہ میں قصبہ پانی میں ڈوب گیا

٭… وسطی صومالیہ میں دریائے شبیل کے ساحلی کنارے ٹوٹنے اور بیلڈوینے قصبے کے پانی میں ڈوبنے کے بعد سیلاب نے تقریباً ایک چوتھائی ملین افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ حکومت کے مطابق، ملک کو چار دہائیوں میں شدید ترین خشک سالی کا سامنا ہے۔ مقامی باشندوں نے بتایا کہ صومالیہ اور ایتھوپیا کے پہاڑی علاقوں میں موسمی بارشوں نے سیلاب کو جنم دیا جس سے مکانات، فصلیں اور مویشی بہ گئے اور حیران کے علاقے کے دارالحکومت بیلڈوینے میں سکول اور ہسپتال عارضی طور پر بند ہوگئے۔صومالی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے کہا کہ سیلاب نے صرف بیلڈوین میں ۲۴۵,۰۰۰ سے زیادہ افراد کو بے گھر کیا ہے۔

یوگنڈا میں ہم جنس پرستی کے لیے سزائے موت کا بل منظور

٭… یوگنڈا میں پارلیمنٹ کے سپیکر نے بیان دیا کہ بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے یوگنڈا کے صدر یووری میوزیوینی نے دنیا کے کچھ سخت ترین اینٹی LGBTQقوانین پر دستخط کردیے ہیں۔اس بل میں ’’بڑھتی ہوئی ہم جنس پرستی‘‘کے لیے سزائے موت بھی شامل ہے جس میں نابالغ کے ساتھ جنسی تعلق، ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کے دوران جنسی تعلق اور بے حیائی شامل ہے۔ یہ بل ہم جنس پرستوں کے لیے جنسی تعلیم کو جرم قرار دیتا ہے اور اسے غیر قانونی بناتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ بل پارلیمنٹ میں مسترد ہو گیا تھا۔

یوگنڈا کے صدر کو پہلے ہی اس قانون پر امریکہ سمیت مغربی حکومتوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ اسی طرح کے ایک ہم جنس پرست قانون کو عدالتوں نے ۲۰۱۴ء میں ختم کر دیا تھا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ اور امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ صدر کی جانب سے ہم جنس پرستی کے خلاف سخت قانون سازی کی منظوری کے بعد ایچ آئی وی سے نمٹنے میں یوگنڈا کی پیش رفت ’’سنگین خطرے‘‘ میں ہے۔

سوڈان تنازع

اریٹیرین مہاجرین دو بحرانوں کے درمیان پھنس گئے

٭… پالوچ ہوائی اڈہ، جو عام طور پر جنوبی سوڈان کے تیل کے شعبوں میں خدمت کرنے والے خوش لباس کارکنوں سے پُر رونق ہے، گذشتہ ایک ماہ سے پڑوسی ملک سوڈان میں تنازعات سے فرار ہونے والے ہزاروں لوگوں کے لیے ایک کیمپ میں تبدیل ہو گیا ہے یہاںبیت الخلاء کی کوئی سہولت نہیں، بہتا پانی نہیں، کچن نہیں۔ بس لوگوں کا ہجوم جو اپنے ٹھلوں کے ارد گرد رہتے ہیں، سامان کی ٹرالیوں پر آرام کرتے ہیں، یا فلائٹ پکڑنے کے انتظار میں عارضی خیموں کے نیچے سوتے ہیں۔ وہ محفوظ قیام کی تلاش میں سوڈان کی سرحد سے چار گھنٹے کی مسافت پر یہاں پہنچ چکے ہیں۔

کینیا میں دنیا کے معمر ترین شیر سمیت دس بھوکے شیر مارے گئے

٭… انسانوں اور حیوانوں کی لڑائی اس قدر خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ کینین وائلڈ لائف سروس کے مطابق جنوبی کینیا میں گزشتہ ہفتے کے دوران دس شیر اس وقت مارے گئے جب انہوں نے انسانی آبادی پر حملہ کیا۔ KWSکے مطابق یہ ایک بار میں مارے جانے والے شیروں کی غیر معمولی تعدادہے۔ خیال رہےکہ ان میں سے سب سے پہلے دنیا کے معمر ترین بھوکے شیرLoonkiito کو مار ا گیا تھا جس کی عمر انیس سال تھی۔ عمومی طور پرشیر کی عمر ۱۳؍ سال ہوتی ہے۔ ان مارے جانے والے دس میں سے چھ شیروں نے گیارہ بکریاں اور ایک کتے کو ہلاک کیا تھا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button