خطاب حضور انور

تقویٰ کی بابت نصیحت (حضور انور کا جلسہ سالانہ برطانیہ سے افتتاحی خطاب)

٭…جلسہ سالانہ کے مقاصد میں سے ایک بڑی غرض زہد و تقویٰ کا حصول ہے

تقویٰ کی بابت نصیحت

۵۷ویں جلسہ سالانہ برطانیہ کی تقریب پرچم کشائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز افتتاحی خطاب

(حدیقۃ المہدی، ۲۸؍جولائی۲۰۲۳ء، ٹیم الفضل انٹرنیشنل) امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج جماعت احمدیہ برطانیہ کے ۵۷ ویں جلسہ سالانہ کا اپنے بصیرت افروز خطاب سے افتتاح فرمایا۔ ساڑھے چار بجے کے قریب حضورِ انور نے لوائے احمدیت جبکہ محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت برطانیہ نے برطانیہ کا قومی پرچم لہرایا۔ جیسے ہی حضورِ انور نے لوائے احمدیت لہرایا فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی اور جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس کے لیے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔

چار بج کر چھتیس منٹ پر حضور انور مردانہ پنڈال میں رونق افروز ہوئے۔ جونہی حضورِانور پنڈال میں داخل ہوئے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے اور عشاقانِ خلافت نے ان نعروں کا بھرپور جواب دیا۔ بعد ازاں افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مولانا فیروز عالم صاحب کو سورۃ النور کی آیات ۵۲ تا ۵۷ کی تلاوت کرنے اور اس کا ترجمہ تفسیر صغیر سے پیش کرنے کی سعادت ملی۔ بعد ازاں مکرم عاشق حسین صاحب نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قرآن کریم کی مدح میں فارسی منظوم کلام مع اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:

دردا کہ حسنِ صورتِ فرقان عیان نماند

آن خود عیان، مگر اثرِ عارفان نماند

بعد ازاں مکرم مرتضیٰ منان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا اردو منظوم کلام بعنوان ’’بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین‘‘ میں سے بعض اشعار پیش کیے۔ یہ اشعار حسب ذیل شعر سے شروع ہوئے:

ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے

نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے

خطاب حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ

پانچ بجنے کے دو منٹ بعد فلگ شگاف نعروں کی گونج میں حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرماتے ہوئے افتتاحی خطاب کا آغاز فرمایا۔

تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بتایا ہے کہ اس جلسے میں شامل ہونے والوں میں زُہد و تقویٰ پیدا ہوجائے۔ جب یہ زہد و تقویٰ پیدا ہوگا تو خدا تعالیٰ کا قُرب پیدا ہوگا اور اس طرح انسان خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا، اور جب انسان خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں سستی دکھائے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے ماننے والوں کو صرف یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرو، بلکہ ایک درد کے ساتھ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور آپﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کے راستے بھی دکھائے ہیں۔ آپؑ نے واضح فرمایا ہے کہ میرے سلسلۂ بیعت میں آنے والے وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔

ایک موقعے پر جماعت کو تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لیے ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے۔ کیونکہ یہ بات عقل مند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ۔

اس سے پہلے کہ مَیں متقی اور محسن سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ تفاصیل پیش کروں، مَیں متقی اورمحسن کے لفظ کی وضاحت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

متقی تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہو،جو ہر وقت اس کی رضا چاہنے والا ہو۔ جبکہ محسن متقی سے اگلا مقام ہے، یعنی صرف خود ہی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آنا بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے بعد دنیا کوبھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لانے کی کوشش کرنی ہے۔ پس محسن کا درجہ متقی سے بڑھ گیا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مومن متقی بھی ہو اور پھر محسن بھی ہو۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لیے کہ مَیں نے کسی کا مال نہیں لیا، نقب زنی نہیں کی، چوری نہیں کرتا، بدنظری اور زنا نہیں کرتا۔ ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے۔ کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری اور ڈاکہ زنی کرے تو عذاب آئے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں۔ بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہےکہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔

حضورؑ فرماتے ہیں تقویٰ ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس کی مثال توایسی ہے جیسے کسی برتن کو اچھی طرح سے صاف کیا جائے تاکہ اس میں اعلیٰ درجے کا لطیف کھانا ڈالا جائے۔ اب اگر کسی برتن کو خوب صاف کرکے رکھ دیا جائے اور اس میں کھانا نہ ڈالا جائے تو کیا اس سے پیٹ بھرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! کیا وہ صاف برتن کھانے سے سیر کردے گا؟ ہرگز نہیں! اسی طرح پر تقویٰ کو سمجھو۔ تقویٰ نفسِ امّارہ کے برتن کو صاف کرنا ہے۔

فرمایا: نفس کو تین قسم پر منقسم کیا گیا ہے۔ نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ اور نفسِ مطمئنہ۔

نفسِ امّارہ کی حالت وہ ہے کہ جب انسان شیطان اور نفس کا بندا ہوتا ہے۔تقویٰ کی ابتدائی حالت یہ ہے کہ نفسِ امّارہ سے خود کو پاک کرو۔

نفسِ لوّامہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ نفس کو ملامت بھی کرتا رہتا ہے۔ جو لوگ نفسِ لوّامہ کی حالت میں ہوتے ہیں وہ شیطان اور نفس سے مسلسل ایک جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں۔

نفسِ مطمئنہ کی نسبت حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ تیسری حالت جو نفسِ مطمئنہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے کہ جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور کامل فتح ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس کا نام نفسِ مطمئنہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ۔ انسان کے ہر ایک قویٰ پر اس کا قابو ہوجاتا ہے اور طبعی طور پر اس سے نیکی کے کام سرزد ہوتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پرسچا ایمان حاصل کرے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔ تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو، اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیزکریں بلکہ نیکی بھی کرتے ہیں۔ پھرفرمایا کہ وہ نیکی کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں۔ مجھے یہ وحی باربار ہوئی ہے کہ اِنَّ اللّٰہ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ۔ فرمایا: یہ وحی اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ مَیں گِن نہیں سکتا، خدا جانے شاید دو ہزار مرتبہ ہوئی ہے۔

جماعت میں معمولی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں جو بالکل بھی درست نہیں۔ کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی عزت اتارنے لگ جاتے ہیں۔ خدا کا نام ستار ہے۔ کیوں ہر کوئی اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا۔ ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے اور تقویٰ حاصل کرناچاہیے۔ اسی تقویٰ سے انسان فرشتہ بن جاتاہے۔ اگر بیعت کر کے بھی ایسے اعمال کرنے ہیں تو اس کا کیا فائدہ۔

جو ایسا تقویٰ اختیار کرتا ہے خدا اس کوایک غیب سے رعب دے دیتا ہے۔ حضورﷺ اسوۂ کامل ہیں۔ اس لیے دوسروں پر عیب نہ لگاؤ۔ اگر وہ عیب اس میں ہے تو خدا پر معاملہ چھوڑو اور اگر اس پر عیب نہیں جو کہ اس کے خلاف پھیلایا جا رہاہے تو وہ اتہام والا خود اس میں گرفتار ہو جائے گا۔ تقویٰ حاصل کرو اور ایک دوسرے کے حق ادا کرو اور ہمسائے کے حقوق ادا کرو۔ شرک سے بچو کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اگر ہم ایسے ہو جائیں تو خدا خود ہمارے دشمنوں کو بھگت لے گا۔

اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ کیسے معلوم ہو کہ یہ حاصل ہوا؟ اس کے لیے دیکھو کہ کیا قول اور فعل ایک ہی ہے۔ اگر نہیں تو جائے تشویش ہے۔ اگر ہماری جماعت بھی ایسی ہے کہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ تو وہ اللہ غنی ہے اس جماعت کی کچھ پروا نہیں کرے گا۔

بدر کی جنگ میں فتح کا وعدہ تھا لیکن حضورﷺ دعاؤں میں مصروف رہے کہ خدا غنی ہے کہیں وعدہ میں کوئی مخفی شرط نہ ہو۔

بے شک خدا کا اسلام کو قائم کرنے کا آج بھی وعدہ ہے لیکن اگر ہم میں ایمان نہیں تو یہ ہم سے ممکن نہیں ہو گا۔

تقویٰ میں ترقی دیکھنے کے لیے نشانیاں قرآن میں ہیں کہ اللہ اس کا متکفل ہو جاتاہے اور ہر ایک مشکل سے اس کو نکالتا ہے اور ایسے ذرائع سے رزق دیتا ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ اس کو کسی ایسے موقع جو خلاف حق ہو کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔

اللہ کے ساتھ ہو۔ اگر اللہ چھوڑ دے تو جب وہ رحمٰن کسی کو چھوڑ دے تو لازمی شیطان ان سے ناطہ جوڑ لے گا۔

برکات تقویٰ سے ایک یہ ہے کہ اللہ ہر قسم کے مصائب سے نجات عطا فرماتاہے۔ یہ خدا پر کامل توکّل اور تقویٰ سے ہی ممکن ہے۔ کسی سے ظلم نہ کرو۔ کسی کو حقارت سے نہ دیکھو۔ تکبر اور انا سے بچو کیوںکہ اس انا سے غصہ آتا ہے جو خدا کو پسند نہیں۔

متقی کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ قویٰ کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کو جائز استعمال کر کے خدا کے حکم کے تحت چلتا ہے۔ نماز کو قائم کرتے ہیں خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں۔ ہماری جاعت کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اہل تقویٰ کے لیے شرط ہے کہ اپنی زندگی غربت اور عاجزی سے بسر کریں۔ غربت سے مراد مالی کمی نہیں بلکہ مراد عاجزی سے زندگی گزارناہے۔ اس کے برعکس انسان پر غضب ہو گا اور ایک دوسرے سے حقیر سلوک کرے گا اس لیے جماعت ایسی باتوں سے بچے۔

کسی سے ایسے نہ پیش آؤ کہ اس کی دل شکنی ہو اور کسی کا چڑ کر نام نہ لو۔ بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ کسی کا خاندان یا تعلیم یا شکل و صورت اس کو خدا کے نزدیک کچھ بھی بڑا نہیں کرتی بلکہ صرف تقویٰ ہے جو کہ اس کو خدا کے نزدیک بڑا کرے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کی خدمت کے لیے تقویٰ کی ضرورت کو بنیاد قرار دیا۔ اگر اللہ کی پناہ کی قلعہ میں آؤ گے پھر اللہ تعالیٰ خدمت کا موقع دے گا۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی حالت کمزور ہو گئی۔ دنیا حقارت سے دیکھتی ہے۔ اندرونی حالت بھی کمزور ہو تو پھر خاتمہ ہی سمجھو۔ مسلمانوں کی حالت سے افرادِ جماعت کو سبق لینا چاہیے۔ سرحدوں کا محافظ ہونا پڑے گا۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ کہ اسلام پر داغ لگ جائے۔ خلافِ شرع فعل سے اپنی تضحیک نہیں ہوتی بلکہ در پردہ اسلام پر اس کا اثر پڑتاہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میری جماعت کے لوگ میرے مرید ہو کر مجھے بدنام نہ کریں۔ ہمسایہ پر اچھا اثر ڈالیں۔ جو دوسرے کر رہےہوں وہی احمدی کر رہے ہوں تو یہ باعث ندامت ہوگا کہ عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آئے تھے لیکن کیا اثر پڑا؟

ہماری دنیاو عاقبت سنوارنے کے لیےانتہائی درد کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنے نفس میں انتہائی جوش پاتا ہوں۔ ایسا جوش ہے کہ میں رک نہیں سکتا۔ اس لیے ان پر ایسے کار بند ہوں کہ ایک نمونہ ہوں۔ اپنے قول اور فعل سے سمجھا دو۔ اگر عمل نہیں کرنا تو پھر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں مخفی تبدیلی نہیں چاہتا۔ صحابہؓ میں جو تبدیلیاں تھیں اس سے تائب ہو کر لوگ ایمان لاتے رہے۔ ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں لاتے ہوئے اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے اس طرف توجہ کرنی ہو گی۔ اگر ہمارے عمل وہ تبدیلیاں نہیں کرتے تو ہم تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے۔

حقیقی احمدیوں سے خدا تعالیٰ کا کیا وعدہ ہے اس بارے میں فرماتے ہیں کہ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ یہ وعدہ نصاریٰ سے ہوا تھا۔ اب حضرت مسیح موعودؑ سے بھی یہی وعدہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں وہ سن لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس کا اثر رسول اللہﷺ اور خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یادر رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتےہو تو پھر اتنا ہی میں کہتاہوں کہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر تک مطمئنہ کے درجے تک نہیں پہنچ جاتے۔ یہ باتیں ہمیں حق بیعت تک پہنچاتی ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم تقویٰ سے بڑھتے ہوئے محسنین کے درجہ تک پہنچ جائیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ جلسے کے دنوں میں دعاؤں پر زور دیں اور جلسے کے حقیقی مقصد کو حاصل کرنے والے بنیں۔ ان دنوں میں درود شریف پڑھیں، استغفار بھی بہت کریں اور نمازوں میں بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جلسے میں آنے کا مقصد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ دن ذکر الٰہی میں گزارنے والے ہوں۔ دعا کر لیں اللہ تعالیٰ ہماری ساری دعائیں قبول فرمائے۔آمین

چھ بجے کے قریب حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی جس کے ساتھ اس اجلاس کی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچی۔


متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button