سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

(گذشتہ سے پیوستہ )اب یہ التوا کیوں ہوا؟ وہ علیم وحکیم ہستی مقدم ومؤخربھی ہے۔جب چاہے کسی کام کوپہلے کردے جب چاہے پیچھے ڈال دے۔وہ مبدء ومعیدبھی ہے۔وہ جب چاہے جوچاہے فیصلہ کرتاہے اور جب چاہے اپنے اس حکم اور فیصلہ کومنسوخ کردے یااس سے بھی بہترلے آئے وہ زمین و آسمان کا مالک اور بادشاہ ہے۔مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ (البقرۃ:۱۰۷-۱۰۸)

الٰہی مصالح اور حکمتوں کی قائل اور مشاہدہ کرنے والی قومیں مطہردلوں اور پاکیزہ عقلوں کے ساتھ تدبروتفکرکرتے ہوئے ایسے وجوہات اور اسباب کی جستجوکرتے ہوئے ان حکمتوں کوکبھی پابھی لیاکرتی ہیں لیکن اگرکچھ سمجھ نہ بھی آئے تو ملائکہ صفت دل اطاعت و فرمانبرداری اور تسلیم ورضا کے سجدےبجالاتے ہوئے یہ کہاکرتے ہیں کہ سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ

اس لیے منارۃ المسیح کی تعمیروتکمیل میں روک اور التوا ہوایہ تو مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن کیوں ہوا؟اس کے اسباب ووجوہات مختلف ہوسکتے ہیں۔کسی کوکسی وجہ سے اتفاق ہوسکتاہے اور اختلاف بھی ہوسکتاہے۔مثال کے طورپراگرکوئی یہ کہتاہے کہ مالی مشکلات کی بنا پرمنارۃ المسیح کی تعمیرعارضی طورپرالتوا کاشکارہوئی تو کہنے،سوچنے اور غورکرنے میں کوئی حرج تونہیں۔

ہاں اس توجیہ سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ کیونکہ دس ہزارروپے کاتخمینہ تھا ساڑھے چارہزارروپے تو خرچ بھی ہوچکے تھےاور حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہدمبارک کے اس عرصہ میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیربھی ہورہی تھیں اور ہوچکی تھیں۔ کئی دوسرے منصوبے رسالہ ریویو اور کارپرداز مصالح قبرستان،بورڈنگ،سکول کالج وغیرہ بڑی شان کے ساتھ شروع کیے جاچکے تھے۔مسجدمبارک کی توسیع جیساپراجیکٹ بھی پایہ تکمیل کوپہنچ چکاتھا۔الدار کی توسیع،مہمان خانہ،مہمانوں کے لیےایک اورکنواں وغیرہ یہ سب وہ پراجیکٹ ہیں جو اسی آخری آٹھ دس سالوں کے بعد ہی شروع ہوئے اور مکمل بھی ہوئے۔اس لیے منارۃ المسیح کی تعمیرکے لیے چندہ کی رقم مہیاہونا ایک مشکل امر تو کہا جا سکتاہے لیکن مسیح محمدی کے ان جاں نثاروں کے لیے ناممکن اور محال امرنہ تھا۔ اگر سیالکوٹ کاایک غریب لکڑی فروش اپنے گھرکی چارپائیاں اور مال ومتاع فروخت کرکے دو سوروپے سے زائد منارۃ المسیح کے لیے دے سکتاتھا، ایک غریب پٹواری اپنی عمربھرکی جمع پونجی منارہ کی تعمیرکے لیے پیش کرسکتاہے۔حضرت ام المومنین اپنا مکان بیچ کرایک ہزارروپے دے سکتی ہیں تو نواب محمدعلی خان صاحبؓ، سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب ؓ، چودھری رستم علی صاحبؓ،شیخ رحمت اللہ صاحبؓ،اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ جیسے مخلصین کے لیےکہ جواپنی جانیں ہاتھوں میں لیے اس شمع کاطواف کرتے ہوئے یہ ورد کرتے رہتے تھے کہ جان ومال وآبروحاضرہیں تیری راہ میں۔

ان مخلصین کے لیے اب باقی صرف سات آٹھ ہزارروپے کی رقم پیش کردیناکوئی مشکل امرنہ تھا۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ الٰہی مصلحتیں ہواکرتی ہیں۔ کوئی ایسی مصلحت آڑے آئی۔ہاں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ایک امتحان تھا خالص اور ناخالص کا،کھرے اور کھوٹے کا۔أَلَا إِنَّ الْمَدِيْنَةَ كَالْكِيرِتُخْرِجُ الْخَبِيْثَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِيْنَةُ شِرَارَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ (مسلم کتاب الحج باب المدینہ تنفی شرارھا حدیث نمبر۳۳۵۲) قادیان وہ مدینۃ المسیح تھا کہ جس نے بھٹی کی مانندشریروں اوربدنصیبوں کونکال باہرکیا۔۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو اس فضل عمر،مصلح موعود،خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے خلافت کی مسندپرقدم رکھا۔ انجمن کاخزانہ جس میں کہ صرف چندآنے کی رقم تھی تقریباً سارے صیغے ہی مقروض تھے کہ ۲۷؍نومبر۱۹۱۴ء میں اس اولوالعزم خلیفہ نے اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھ کر اس کام کو دوبارہ شروع کردیا اور۱۹۱۶ء کے ابتدا تک شروع رہ کر پایۂ تکمیل کو پہنچا۔اس سے یہ بھی اشارہ ملتاہے کہ صرف روپے کی کمی ہی بنیادی وجہ نہیں ہوسکتی تھی۔

بہرحال اس دفعہ تعمیر کی نگرانی کے فرائض حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ؓ کے فرزندحضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے سرانجام دیے۔اس کے لیے اجمیر شریف سے بہترین سنگ مرمر مہیا کیا گیا۔ یہ خوش نما اوردلکش اورشاندار مینار (جو فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے )ایک سوپانچ فٹ اونچا ہے۔ اس کی تین منزلیں ایک گنبد اور بانوےسیڑھیاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیر ینہ خواہش کے مطابق اس پر مخلصین چندہ دہندگان کے نام درج ہیں جنہوں نے منارہ کے لیے ایک ایک سوروپیہ چندہ دیا۔ اس پر ایک خوبصورت گھڑیال بھی نصب ہے اوربجلی کے قمقمے بھی آویزاں ہیں جو میلوں تک کے حلقہ کو روشنی پہنچاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’جب منارہ کاکام بندپڑارہا۔ایک دن ایک شخص نے سوال کیا۔حضوریہ منارہ کب تیارہوگا؟ حضورعلیہ السلام نے فرمایا۔اگرسارے کام ہم ہی ختم کرجاویں تو پیچھے آنے والوں کے لئے ثواب کہاں سے ہوگا۔‘‘(سیرت احمدؑ،مرتبہ قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ۱۴۳)

مسجداقصیٰ میں پہلی بارلاؤڈاسپیکرکی تنصیب

امام مہدی کے زمانے کے ساتھ نت نئی اور حیرت انگیزایجادات کوایک خاص مناسبت اور تعلق ہے۔کیونکہ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اسلام کی اشاعت اور تبلیغ ساری دنیاکے کناروں تک پہنچانے کے سامان اس خدائے قادرمطلق نے پہلے سے مقررکررکھے تھے اسی لیے اس زمانے میں سائنسی ایجادات اتنی تیزی اور کثرت سے ہوئیں کہ انسانی عقل وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا(الزلزال:۴)کے مصداق حیرت زدہ ہے کہ ؛ دنیاکیاسے کیاہوجائے گی!

انہی ایجادات میں سے ایک لاؤڈاسپیکرکی ایجاد تھی۔ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں ۲؍دسمبر ۱۹۳۷ء کو حضور ؓنے مسجد اقصیٰ میں لاؤڈ سپیکر لگانے کا ارشاد فرمایا۔ اس سے صوبہ سرحد کے محترم فقیر محمد خان صاحب نے اپنے آقا کے منشاء مبارک پر اپنے خرچ پر ایک لاؤڈ سپیکر کا انتظام فرمایا اور حضورؓ نے ۷ ؍جنوری ۱۹۳۸ء کو پہلی مرتبہ اس آلہ کے ذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔‘‘(بحوالہ مرکز احمدیت قادیان ا ز برہان محمد ظفر صاحب صفحہ ۵۷)نوٹ:تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحہ ۶۴۸ پر بھی ایسا ہی نوٹ ہے لیکن وہاں تحریک کی تاریخ ۲ کی بجائے ۳؍دسمبر لکھی ہے۔

جب مسجدمیں پہلی بار لاؤڈسپیکرلگا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس پرپہلی بار درس دیتے ہوئے فرمایا:’’اس خدا کا بےانتہاء شکر ہے جس نے ہر زمانہ کے مطابق اپنے بندوں کے لیے سامان بہم پہنچائے ہیں۔ کبھی وہ زمانہ تھا کہ لوگوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل کر جانا بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور اس وجہ سے بہت بڑے اجتماع ہونے ناممکن تھے۔ لیکن آج ریلوں، موٹروں، لاریوں، بسوں، ہوائی جہازوں اور عام بحری جہازوں کی ایجاد اور افراط کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ بسہولت کثیر تعداد میں قلیل عرصہ میں ایک مقام پر جمع ہو سکتے ہیں اور اس وجہ سے موجودہ زمانہ میں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ وہ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے عظیم الشان اجتماعات میں تقریر کرکے اپنی آواز تمام لوگوں تک پہنچا سکے۔

پس خدا نے جہاں اجتماع کے ذرائع بہم پہنچائے وہاں لوگوں تک آواز پہنچانے کا ذریعہ بھی اس نے ایجاد کروا دیا۔ اور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ شکر ہے اس پروردگار کا جس نے اس چھوٹی سی بستی میں جس کا چند سال پہلے تک کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اپنے مامور کو مبعوث فرما کر اپنے وعدوں کےمطابق اس کو ہر قسم کی سہولتوں سے متمتع فرمایا یہاں تک کہ ہم اب ہم اپنی اس مسجد میں بھی وہ آلات دیکھتے ہیں جو لاہور میں بھی لوگوں کو عام طور پر میسر نہیں ہیں۔ آج اس آلہ کی وجہ سے اگر اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھا یا جائے تو ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں تک بسہولت آواز پہنچائی جا سکتی ہے اور ابھی تو ابتداء ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس آلہ کی ترقی کہاں تک ہو گی۔ بالکل ممکن ہے اس کو زیادہ وسعت دے کر ایسے ذرائع سے جو آج ہمارے علم میں بھی نہیں میلوں میل یا سینکڑوں میل تک آوازیں پہنچائی جا سکیں اور وائر لیس کے ذریعے تو پہلے ہی ساری دنیا میں خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ پس اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہو سکے گا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دقتیں بھی ہمارے راستہ میں حائل ہیں، لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام دقتیں دور ہو جائیں گی۔ تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جا رہا ہو اور جاوا کے لوگ، اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کے لوگ، اور ہنگری کے لوگ، اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ، اور ایران کے لوگ، اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائر لیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا۔ اور کتنے ہی عالی شان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کر کے بھی آج ہمارے دل مسر ت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد میں آج اس آلہ کے لگائے جانے کی تقریب کے موقع پر سب سے بہتر مضمون یہی سمجھتا ہوں کہ میں شرک کے متعلق کچھ بیان کروں کیونکہ یہ آلہ بھی شرک کے موجبات میں سے بعض کو توڑنے کا با عث ہے۔‘‘(خطباتِ محمود جلد ۱۹ صفحہ ۱ تا ۴ خطبہ فرمودہ ۷؍جنوری ۱۹۳۸ء)

خداکے یہ بندے خداکے بلائے بولتے ہیں۔جب یہ بولتے ہیں تو ’خدا بولتا سا لگتاہے‘

گفتۂ او گفتۂ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

خداکے اس ایک بندے نے جوکچھ کہاتھا خدانے وہ دن بھی دکھادیے کہ جب اسی خلیفہ کاایک بیٹا،قرآن وحدیث کادرس ایک جگہ پربیٹھ کردینے لگا تو ساری دنیاکے لوگ اپنی اپنی جگہوں پربیٹھ کراس درس کوسننے لگے۔ایم ٹی اے کی بدولت اب خداکے فرستادے مسیح موعوؑدکالایاہواپیغام توحیداور محمدمصطفیٰ ﷺکی رسالت اورقرآن و حدیث کی باتیں اس مسیح کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزاطاہراحمدصاحبؒ کی خلافت میں دنیابھرمیں ہواؤں کے دوش پرزمین کے کناروں تک پہنچنے لگیں۔اور آج حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مبارک عہدمیں عربی،اردو،انگریزی،جرمن، بنگلہ، ترکی اور دیگرکئی زبانوں میں دنیابھرکے ملکوں اور گھرگھرمیں خدائے قادروذوالجلال کی وحدانیت کاپیغام پہنچ رہاہے۔فالحمدللہ علیٰ ذالک

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button