مکتوب

کینیڈا۔ ایک تعارف

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

کینیڈا بر اعظم شمالی امریکہ کا شمالی ترین، وسیع وعریض ملک ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔اس خوبصورت سر زمین کا کُل رقبہ ۹.۹۸ ملین مربع کلومیٹر ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اس کا عرض ساڑھے سات ہزار کلومیٹر ہے اور یہاں چھ مختلف منطقاتِ وقت یعنیtime zonesپائے جاتے ہیں۔شمال سے لے کر جنوب تک اس کی زمین شمالی نصف کرہ یا Northern Hemisphere کے آدھے سے زیادہ حصے پر محیط ہے۔ اس کے مشرق میں بحرِ اوقیانوس (Atlantic Ocean) اور مغرب میں بحرِ منجمد شمالی (Pacific Ocean) واقع ہیں۔ جس کی وجہ سے’’سمندر سے سمندر تک‘‘اس کا سرکاری motto ہے۔اس کی سرحدیں امریکہ سے ملتی ہیں۔

کینیڈا کے دس صوبے اور تین علاقہ جات ہیں۔رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ کیوبیک (Quebec) ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے انٹاریو (Ontario) تمام صوبوں میں سرِ فہرست ہے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق کینیڈا کی آبادی ۳۸ ملین سے کچھ زائد ہے۔ کینیڈا کا دار الحکومت آٹوا(Ottawa) ہے اور اس کے تین بڑے شہر ٹورانٹو (Toronto)، مانٹریال (Montreal) اور وینکوور (Vancouver) ہیں۔

کینیڈا کی مختصر تاریخ

کینیڈا کے قدیم ترین باشندےسب سے پہلےاندازاً چودہ ہزار سال قبل ایشیا سے ہجرت کر کے آئے تھے۔مرورِ زمانہ اور حالات کے مطابق اس خطہٴ ارض پر مختلف مقامات میں منتشر ہو گئے۔ ان کی نسلیں یہاں آج تک آباد ہیں اگرچہ اب اقلیت میں ہیں۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ لفظ ’’کینیڈا‘‘دراصل قدیمی ایرو کوا(Iroquois) زبان کے لفظ ’’کاناٹا‘‘سے مشتق ہے،جس کے معنے ’’گاؤں‘‘یا ’’آبادی‘‘کےہیں۔

ہزاروں سال تک کینیڈا کے قدیمی باشندے غیر قوموں کے دخل سے محفوظ رہے۔ پھر تخمینا ً ۱۰۰۰ء میں یورپی اقوام پہلی بار یہاں آئیں۔ ان اقوام کے یہاں آنے سے قدیمی باشندوں کا اپنےملک پر تسلّط ختم ہونے لگا۔ سولہویں صدی عیسوی میں فرانسیسی اور برطانوی آبادکاروں نے یہاں اپنے قدم جمائے جس کے نتیجے میں مقامی باشندوں اور یورپیوں کے مابین کشمکش ہونے لگی اور جنگیں بھی لڑی گئیں۔ بالآخر اٹھارھویں صدی کے وسط میں برطانیہ نے کینیڈا پر اپنا پورا تسلّط جما لیا۔

۱۸۶۷ء میں پہلی بار چار صوبوں نے اکٹھے ہو کر ایک خود مختار حکومت قائم کی جس میں ایک پارلیمنٹ کے ساتھ وزیرِ اعظم(Sir John A. Macdonald) کا انتخاب کیا گیا۔ نیزاس وقت ایک دستورِ اساسی بھی تیار ہوا جس میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئیں۔ رفتہ رفتہ اس حکومت میں دیگر صوبہ جات شامل ہوتے گئے اورملک مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہوتا گیا۔

۱۹۸۲ء میں بالآخر ملکہ الیزبیتھ ثانی نے کینیڈا کے حتمی دستورِ اساسی پر دستخط کر کے اس کو برطانیہ سے مکمل طور پر آزاد قرار دیا۔ لیکن چونکہ حکومتِ کینیڈا آئینی بادشاہت کے طور پر قائم ہوئی تھی لہٰذا آج بھی برطانیہ کا بادشاہ ہی اس کا رسمی فرماںروا ہے مگر ان کے عملی اختیارات بہت کم ہیں۔

اس وقت کینیڈا کے وزیرِ اعظم عزت مآب جسٹن ٹروڈو (Justin Trudeau)ہیں جو ۲۰۱۵ء سے اس عہدہ پر فائز ہیں۔

معیشت

کینیڈا کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں کینیڈین ڈالر چلتا ہےجو بوقتِ تحریرقریباً ۰.۷۵۔امریکی ڈالر کے برابر ہے۔سولہویں صدی عیسوی سے کینیڈا دنیا کو مچھلی، پشم اور دیگر قدرتی وسائل مہیا کرتا رہا ہے۔ آجکل کینیڈا کی سب سے بڑی برآمدکردہ اشیا میں پٹرولیم، گاڑیاں اور سونا شامل ہیں۔ جو زیادہ تر امریکہ در آمد کرتا ہے۔

باشندے

کینیڈا بین الثقافتی ملک ہے۔ اس کے باشندے دنیا کی مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے اور متفرق زبانیں بولنے والے ہیں۔ تاہم آدھی سے زائد آبادی ایسے باشندوں پر مبنی ہے جو برطانوی یا فرانسیسی آبادکاروں کی نسل سے ہیں اوراسی لحاظ سے انگریزی اور فرانسیسی سرکاری زبانیں ہیں۔

یہاں خاص طور پر امیگریشن کی بنا پر قریباً پانچ دہائیوں سے آبادی میں خوب اضافہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کینیڈا آباد ہی امیگریشن سے ہوا ہے۔

کینیڈا کی وسیع سرزمین کی طرح اس کے لوگوں کے دل بھی کشادہ ہیں۔ دنیا بھر میں وہ اپنی خوش اخلاقی اور صلح پسندی کی وجہ سے مشہور ہیں۔یہ ایک پُر امن ملک ہے۔ یہاں عمومی طور پر تمام اقوام محبت، بھائی چارےاور ہمدردی کے جذبات سے رہتی ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کرتی ہیں۔ہر ایک کو مذہبی آزادی کا حق ہے۔

مذاہب

۲۰۱۱ءکے ایک survey کے مطابق کینیڈا کی آبادی میں ۶۷.۳% عیسائی پائے جاتے ہیں۔ جس کے بعد ۲۳.۹% لا مذہب ہیں، پھر مسلمان ۳.۲%، ہندو ۱.۵% اور سکھ ۱.۴% ہیں۔پھر درجہ بدرجہ دیگر مذاہب کے پیروکار پائے جاتے ہیں۔ (بحوالہ ۲۰۱۱ National Household Survey، شائع کردہ مورخہ ۸؍مئی۲۰۱۳ء)

موسم

کینیڈا بہت ٹھنڈا ملک ہے۔ زیادہ تر سردی رہتی ہے۔ عام طور پر موسم گرما مختصر اور گرم جبکہ موسم سرما لمبا اور سرد ہوتا ہے۔ ملک کی وسعت کی وجہ سے اس کے موسم میں تنوّع اور انتہا بھی پایا جاتا ہے۔موسم سرما میں بھاری برفباری ہوتی ہے۔ موسم بہار کی بارشیں موسم گرما کے گلزاروں اور گلستانوں کے لیے زمین کو تیار کرتی ہیں۔ تیز دھوپ، لمبے دن اور چھوٹی راتیں کینیڈا میں موسم گرما کی خصوصیت ہیں اور خاصی گرمی ہو جاتی ہے۔ پھر خزاں میں جھڑتے ہوئے رنگارنگ دیدہ زیب پتے دیکھنے کو ملتے ہیں۔غرض یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر موسم اپنی پوری آب و تاب سے ظاہر ہوتا ہے۔ہر موسم میں کینیڈا اپنی خوبصورتی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی شانِ قدرت نمودار ہوتی ہے۔

کینیڈا میں احمدیت

کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک سے ہوتا ہے جب ۱۸۹۹ء میں حضور علیہ السلام کا ذکر ٹورانٹو کے اخبار The Evening Star میں پہلی بار ہوا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا، صفحہ ۸۔۹)

۱۹۱۹ء میں پہلی بار کینیڈا میں ایک احمدی دوست نے مستقل رہائش اختیار کی اورپہلی جماعتی تنظیم مانٹریال میں ۱۹۶۳ء میں قائم ہوئی ۔جماعت احمدیہ کینیڈا کی باقاعدہ حکومتی رجسٹریشن ٹورانٹو میں ۵؍ دسمبر ۱۹۶۶ء کو ہوئی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھتی گئی اور خلافتِ احمدیہ کی عظیم الشان قیادت میں تھوڑے عرصہ میں ترقیات کی منازل طے کرتی چلی گئی اور اب بھی نئی ترقیات کی طرف رواں دواں ہے۔ آج کینیڈا میں ہزاروں احمدی خاندان آباد ہیں۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ

اس سرزمین کو تین خلفائے احمدیت کی قدم بوسی کا شرف نصیب ہوا ہے۔ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پچھلی بار ۲۰۱۶ء میں جلسہ سالانہ کینیڈا کے موقع پر تشریف لائے اور آپ نے یہاں ایک ماہ سے زائد عرصہ قیام فرمایا۔

کینیڈا میں ہونے والی جماعتی سرگرمیاں

۴۵ واں جلسہ سالانہ کینیڈا

اِمسال جماعت احمدیہ کینیڈا کا ۴۵ واں جلسہ سالانہ مورخہ ۱۴ تا ۱۶؍ جولائی ۲۰۲۳ء کو انٹرنیشنل سینٹر، مسی ساگا میں منعقد ہو گا۔ اِن شاء اللہ العزیز۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔اور ہر شعبہ تندہی سےکام میں مصروف ہے۔ احبابِ جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو نہایت مبارک فرمائے اور تمام رضاکاران و مہمانان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button