خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ ؍23جون 2023ء

تمہیں خوشخبری ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔
خدا کی قسم! میں گویا اس وقت وہ جگہ دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کر گریں گے

یا رسول اللہ! اب تو آپ کی صداقت ہم پرکھل چکی ہے اور آپ کا مقام ہم پر واضح ہو گیا ہے اب کسی معاہد ہ کا کیا سوال ہے۔ سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجئے تو ہم اس میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر لڑائی ہوئی تو خدا کی قسم! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوانہ گزرے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاھٰذَا مَکَّۃُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَاذَ کَبِدِھَا
کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے آگے نکال کر ڈال دیے ہیں

یا رسول اللہ ! حضرت ابوبکرؓ کو ہم نے آپؐ کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا ہے اور یہ ایک نہایت تیز رفتار اونٹنی آپ کے قریب باندھ دی ہے۔
اگرخدانخواستہ ایسا وقت آئے کہ ہم ایک ایک کر کے یہاں ڈھیر ہو جائیں تو یا رسول اللہ! یہ اونٹنی موجود ہے اس پر سوار ہو جایئے اور مدینہ پہنچ جائیے

اے اللہ! یہ قریش غرور اور تکبر کے ساتھ تجھ سے لڑنے اور تیرے رسول کی تکذیب کے لئے آگئے ہیں
تُو نے جو مجھ سے نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اسے پورا کر اور آج ہی ان کا خاتمہ کر دے

جنگ بدر کی تیاری کےحالات و واقعات اور صحابہ کرام ؓکی اپنے آقا ومطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ اطاعت اور محبت کا بیان

محترم قاری محمد عاشق صاحب سابق استاذ جامعہ احمدیہ ربوہ و سابق پرنسپل و نگران مدرسۃ الحفظ ربوہ اورمحترم نور الدین الحصنی صاحب آف شام کا ذکرِ خیر اورنمازجنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ ؍23جون 2023ءبمطابق 23؍احسان 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جیسا کہ گذشتہ خطبےمیں بیان ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے مخبروں نے واپس آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قافلے یا لشکر کے آنے کی اطلاع دی۔

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر تجارتی قافلے کے بچاؤ کے لیے بڑھا چلا آ رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ طلب کیا

اور انہیں قریش کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور بڑی خوبصورت گفتگو کی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے انہوں نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں گفتگو کی۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تشریف لے چلیے جدھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخد! ا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو جواب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو دیا تھا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ (المائدة: 25) جا تُو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے بلکہ

ہم یوں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب تشریف لے جائیے اور جنگ کیجیے ہم بھی آپؐ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔

اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ برک الغماد کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ یمن میں ہے اور مکہ مکرمہ سے پانچ منزل کی مسافت پر ہے۔ عربوں کے نزدیک زیادہ سے زیادہ مسافت کی یہ بھی ایک تعبیر تھی۔ اور پھر انہوں نے کہاکہ آپ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہٴ خیر سے نوازا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام صفحہ420-421، دار الکتب العلمیة بیروت2001ء)

(غزوات النبیؐ از ابوالکلام آزاد صفحہ 30 مطبوعہ سٹی بک پوائنٹ 2014ء)

ایک مصنف نے یہ لکھا ہے کہ برک الغماد مکےکے جنوب میں کم و بیش چار سو تیس کلو میٹر کے فاصلے پر عام شاہراہ سے ہٹ کر دور دراز مقام تھا جو سفر کی دوری اور مشکل کے لیے بطور محاورہ بولا جاتا تھا جیسا کہ اردو میں کوہ قاف کہتے ہیں جو دوری کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ جتنی مرضی دور تشریف لے جائیں ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6 صفحہ139 بزم اقبال لاہور، اپریل 2022ء)

اس بارے میں ایک وضاحت

بھی ہے کہ بعض سیرت نگاروں نے اس موقع پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ حضرت مقداد نے جو آیت اس موقع پر پڑھی تھی وہ سورۂ مائدہ کی آیت ہے اور یہ سورت بہت بعد میں نازل ہونے والی سورت ہے اس لیے اس موقع پر یہ آیت پڑھنا محل نظر ہے لیکن پھر خود ہی یہ مفسرین اس کے مختلف جواز بھی پیش کرتے ہیں مثلاً یہ کہ انہوں نے بنی اسرائیل کی یہ بات یہودیوں سے سنی ہو گی یا یہ کہ بعد کے کسی راوی نے یہ آیت شامل کر دی ہو گی۔ بہرحال یہ اعتراض اتنی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ سیرت کی کتابوں میں کثرت سے یہ روایت بیان ہوئی ہے۔ نیز بخاری کی ایک شرح فتح الباری جو ابن حجر کی شرح ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ سورت مائدہ ،مکمل سورت حجة الوداع کے موقع پر نازل ہونے والی بات درست نہیں۔ اس کی چند آیات کافی عرصہ پہلے نازل ہو چکی تھیں۔ انہیں میں سےایک آیت حضرت مقداد نے بدر کے موقع پر تلاوت کی لیکن بہرحال یہودیوں سے ہی باتیں سنی تھیں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی صحیح ہو۔

پھر بیان ہوا ہے کہ یہ تینوں یعنی حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت مقدادؓ چونکہ مہاجرین میں سے تھے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں۔(الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری صفحہ285المکتبۃ السلفیۃ لاہور)(فتح الباری جلد 2صفحہ 201بحوالہ دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6صفحہ 139بزم اقبال لاہور، اپریل 2022ء)چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد انصار تھے اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بیعت عقبہ کے وقت انہوں نے عرض کی تھی کہ یارسول اللہ! بیشک ہم اس وقت تک آپ کے ذمہ سے بری ہیں جب تک آپ ہمارے شہر میں تشریف نہیں لاتے لیکن جب آپ وہاں مدینےمیں تشریف لے آئیں گے تو آپ ہمارے ذمہ ہوں گے۔ ہم ہر اس چیز سے آپ کا دفاع کریں گے جس سے ہم اپنے بچوں اور اپنی عورتوں کا دفاع کرتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ کہیں انصار صرف اُس دشمن سے آپ کا دفاع کریں جو مدینہ طیبہ پر اچانک چڑھائی کر دے اور وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ ان پر اپنے شہر سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرنا لازم نہیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو حضرت سعد بن معاذ ؓنے آپ سے عرض کی کہ اے رسول اللہؐ! یوں لگتا ہے کہ حضورہماری رائے پوچھ رہے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک۔ تو حضرت سعدؓ گویا ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بیشک ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور ہم نے گواہی دی ہے کہ جو دین لے کر آپ تشریف لائے ہیں وہ حق ہے اور اس پر ہم نے آپ کے ساتھ وعدے کیے ہیں اور ہم نے آپ کا حکم سننے اور اس کو بجا لانے کے پختہ عہد کیے ہیں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تشریف لے چلیے جدھر آپ کا ارادہ ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اگر آپ ہمیں سمندر کے پاس لے جائیں اور خود اس میں داخل ہو جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگا دیں گے۔ ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے کہ آپؐ کل ہمیں ساتھ لے کر دشمن کا مقابلہ کریں۔ ہم جنگ میں صبر کرنے والے ہیں۔ دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت وفا دکھانے والے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے آپ کو وہ کارنامے دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ پس اللہ کی برکت پر آپ ہمیں لے کر روانہ ہو جائیے۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ حضرت سعد بن عبادہؓ کی طرف منسوب ہوئے ہیں لیکن اکثر روایات کے مطابق حضرت سعد بن عبادہؓ جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے سیرت نگاروں نے اس کی یہ تطبیق کی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دو مرتبہ صحابہ سے مشورہ کیا ہو۔ پہلی دفعہ مدینہ میں جب آپ کو قافلے کی خبر ملی اور مدینہ میں حضرت عبادہؓ نے یہ تقریر کی ہو اور دوسری مرتبہ جب آپ سفر میں تھے تب مشورہ کیا ہو تو اس وقت سعد بن معاذؓ نے یہ گفتگو کی ہو۔ بہرحال یہ تو شرح میں مختلف شارح اپنے مطابق لکھتے رہے ہیں لیکن اصل یہی ہے کہ سعد بن معاذؓ نے یہ کہا۔ حضرت سعد کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خوش ہوئے اور فرمایا روانہ ہو جاؤ اور

تمہیں خوشخبری ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خدا کی قسم! میں گویا اس وقت وہ جگہ دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کر گریں گے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ421، دارالکتب العلمیة بیروت2001ء)

(شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 270 مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء)

’’آپؐ کے یہ الفاظ سن کر صحابہ خوش ہوئے مگر ساتھ ہی انہوں نے حیران ہو کر عرض کیا۔ھَلَّا ذَکَرْتَ لَنَاالْقِتَالَ فَنَسْتَعِدَّ۔ یعنی’’ یا رسول اللہ! اگر آپؐ کو پہلے سے لشکر قریش کی اطلاع تھی تو آپؐ نے ہم سے مدینہ میں ہی جنگ کے احتمال کا ذکر کیوں نہ فرما دیا کہ ہم کچھ تیاری تو کر کے نکلتے‘‘۔ مگر باوجود اس خبر اور اس مشورہ کے اور باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس خدائی بشارت کے کہ ان دو گروہوں میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کو ضرور فتح حاصل ہو گی ابھی تک مسلمانوں کو معین طور پر یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ ان کا مقابلہ کس گروہ سے ہو گا اور وہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے ساتھ مٹھ بھیڑ ہو جانے کا امکان سمجھتے تھے اوروہ طبعاً کمزور گروہ یعنی قافلہ کے مقابلہ کے زیادہ خواہشمند تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 355ایڈیشن 1996ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بارے میں بیان فرمایا ہے کہ ’’جب بدر کے موقع پر مدینہ سے باہر جنگ ہونے لگی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہماری قافلہ سے مڈھ بھیڑ نہیں ہو گی بلکہ مکہ کے لشکر سے ہمارا مقابلہ ہو گا۔ اِس پر یکے بعد دیگرے مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! آپ بیشک جنگ کیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مگر ہر دفعہ جب اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد کوئی مہاجر بیٹھ جاتا تو آپ فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ آپ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ مہاجرین تو مشورہ دے ہی رہے ہیں۔ اصل سوال انصار کا ہے اور انصار اس لئے چپ تھے کہ لڑنے والے مکہ کے لوگ تھے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ ہم مکہ والوں سے لڑنے کے لئے تیار ہیں تو شاید ہماری یہ بات مہاجرین کو بری لگے اور وہ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہمارے بھائی بندوں کا گلا کاٹنے کے لئے آگے بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا مہاجر اٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے یا رسول اللہ! لڑئیے مگر آپ بار بار یہی فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ اس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپؐ کی مراد غالباً ہم انصار سے ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ اس نے کہا یارسول اللہ! ہم تو اس لئے چپ تھے کہ ہم ڈرتے تھے کہ ہمارے مہاجر بھائیوں کا دل نہ دکھے۔ اگر ہم نے کہا ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں تو ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہ ہمارے بھائیوں اور رشتہ داروں کو مارنے کامشورہ دے رہے ہیں۔ پھر اس نے کہایا رسول اللہ! شاید آپ کا اشارہ اس بیعتِ عقبہ کی طرف ہے جس میں ہم نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی دشمن حملہ آور ہوا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کرلڑنا پڑا تو ہم پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ‘‘ یہی بات ہے۔’’ اس نے کہا یارسول اللہ! جس وقت ہم نے وہ معاہدہ کیا تھا اس وقت ہمیں ‘‘ صحیح طرح ’’معلوم نہیں تھا کہ آپؐ کی کیا شان ہے۔

یا رسول اللہ! اب تو آپ کی صداقت ہم پرکھل چکی ہے اور آپ کا مقام ہم پر واضح ہو گیا ہے اب کسی معاہد ہ کا کیا سوال ہے۔ سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجئے تو ہم اس میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر لڑائی ہوئی تو خدا کی قسم! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوانہ گزرے۔‘‘

(سیر روحانی نمبر 4 انوار العلوم جلد 19 صفحہ 532-533)

اس مشورے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے اور مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے بدر کے قریب نزول فرمایا۔

بدر کی تفصیل

تو پہلے بھی بیان ہو چکی ہے لیکن بیان کر دیتا ہوں کہ مدینےکے جنوب مغرب میں ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک بیضوی شکل کا ساڑھے پانچ میل لمبا اور چار میل چوڑا وسیع ریگستانی میدان ہے جس کے ارد گرد اونچے پہاڑ ہیں۔ اس میں کئی کنویں اور باغات بھی تھے جہاں عموماً قافلے پڑاؤ ڈالتے تھے۔ بدر کے میدان کے قریب نزول کرنے کے کچھ دیر بعد آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ سوار ہو کر نکلے یہاں تک کہ ایک عربی بوڑھے کے پاس جا کر رک گئے اور اس سے قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے متعلق یہ بتائے بغیر دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔ بوڑھا کہنے لگا میں تمہیں تب بتاؤں گا جب تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کس قبیلے سے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ہمیں بتاؤ گے تو ہم بھی تمہیں اپنے متعلق آگاہ کر دیں گے، اپنے بارے میں بتا دیں گے۔ وہ کہنے لگا کہ کیا ادلے کا بدلہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ بوڑھے نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ کے صحابہ فلاں فلاں دن روانہ ہو چکے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے سچ کہا تھا تو وہ آج فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے اس جگہ کا نام لیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تھے۔ پھر کہنے لگا مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ قریش فلاں دن روانہ ہوئے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے سچ کہا ہے تو وہ آج فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے اس جگہ کا نام لیا جہاں قریش پہنچے تھے۔ دونوں باتیں اس نے صحیح بتائی ہیں۔ جب وہ اپنی اطلاع سے فارغ ہوا تو اس نے کہا تم کس سے ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم پانی سے ہیں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے پلٹ آئے۔ وہ کہنے لگا کہ پانی سے ہیں ۔کیا مطلب؟ کیا عراق کے پانی سے ہیں؟ آپ کا یہ جواب بڑا ذومعنی لگتا ہے۔ اس پر بھی مؤرخین نے بحث کی ہے۔ ہمارے حوالے نکالنے والوں نے مختلف مورخین کی اس بارے میں وضاحتیں بھی پیش کی ہیں، خلاصةً دے دیتا ہوں۔ مؤرخین نے یہ سوال اٹھایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ وعدہ درست جواب نہیں دیا۔ اس کا جواب مصنفین دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو غلط جواب نہیں دیا۔ ہاں آپ نے اس کو جواب اس ذو معنی انداز میں دیا ہے کہ جھوٹ بھی نہیں اور اس خطرناک جنگی صورتحال میں معین جگہ کا پتہ بھی نہیں دیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ ہم پانی سے ہیں تو اس سے مراد وہ قرآنی ارشاد تھا کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ یہ ایک سیرت نگار نے لکھا ہے۔ یہ ابوبکر جابر الجزائری ہیں۔ایک کہتے ہیں کہ عرب کا طریق یہ تھا کہ جہاں لوگ رہتے تھے وہاں کا پتہ پانی یعنی چشمہ وغیرہ کا نام لے کر بتایا کرتے تھے کہ ہم فلاں پانی یا فلاں علاقے کے پانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ علامہ برہان حلبی ہیں انہوں نے یہ لکھا ہے۔ اس میں ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے اسی پانی یعنی چشمے کا ہی بتایا ہو جس کے قریب آپ کا قیام تھا جیسا کہ اس بوڑھے نے بتایا تھا لیکن اشارہ اس رنگ میں فرمایا ہو کہ وہ بوڑھا عراق کی سمت سمجھا ہو اور بدر کا وہ چشمہ اور عراق کی سمت ایک ہی طرف ہو۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس واپس تشریف لائے۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ، حضرت زبیر بن عوام ؓاور سعد بن ابی وقاص ؓکو چند دیگر صحابہ کے ہمراہ بدر کے چشمے کی طرف روانہ فرمایا تا کہ وہ آپ کے لیے وہاں کی خبروں کی جستجو کریں۔ انہیں قریش کے لیے پانی لے جانے والے دو غلام ملے جنہیں صحابہ کرام پکڑ کر لے آئے اور ان سے سوالات کیے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ ان دونوں نے بتایا کہ ہم قریش کے لیے پانی لے جانے والے ہیں۔ انہوں نے ہمیں پانی لانے کے لیے بھیجا ہے۔ صحابہ نے ان کی بات نہ مانی اور خیال کیا کہ شاید وہ ابوسفیان کے ملازم ہیں۔ اس لیے صحابہ نے انہیں زدوکوب کیا اور جب انہیں بہت تنگ کیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ابوسفیان کے ملازم ہیں۔ اس پر صحابہ کرام نے انہیں چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو فرمایا۔ جب ان دونوں نے تم سے سچ کہا تو تم نے انہیں مارا اور جب انہوں نے جھوٹ بولا تو تم نے انہیں چھوڑ دیا۔ بخدا ! انہوں نے سچ کہا ہے۔ بیشک وہ قریش کے غلام ہیں۔ پھر ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے قریش کے متعلق آگاہ کرو۔ ان دونوں نے بتایا بخدا! وہ اس ٹیلے کے پیچھے وادی کے دوسرے کنارے پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا وہ لوگ کتنے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: بہت سے ہیں۔ پوچھا گیا ان کی تعداد کیا ہے؟ کہنے لگے کہ ہمیں معلوم نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کھانے کے لیے روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کسی دن نو اور کسی دن دس۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ نوسو اور ایک ہزار کے درمیان ہیں۔ اونٹوں کے کھانے سے آپ نے اندازہ لگایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ ان میں قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے قریش کے کئی سرداروں کے نام بتائے جن میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ، حکیم بن حزام، امیہ بن خَلف وغیرہ شامل تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا

ھٰذَا مَکَّۃُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَاذَ کَبِدِھَا

کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے آگے نکال کر ڈال دیے ہیں۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ421-422 دارالکتب العلمیة بیروت2001ء)

(ماخوذ از اٹلس سیرت نبوی صفحہ 216 دار السلام ریاض 1424ھ)

(سیرت حبیب دوعالم، ازابوبکر جابرالجزائری، اردومترجم،صفحہ 185 ضیاء القرآن پبلیکیشنزلاہور 2015ء)

( غزوات النبی ﷺ ازعلامہ برہان حلبی،مترجم،صفحہ81 دارالاشاعت کراچی 2001ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس پر نوٹ لکھا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:ھٰذَا مَکَّۃُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَاذَ کَبِدِھَا۔ ‘‘یعنی لومکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کرڈال دیے ہیں ’’ یہ نہایت دانشمندانہ اورحکیمانہ الفاظ تھے جو آپؐ کی زبان مبارک سے بے ساختہ طورپر نکلے کیونکہ بجائے اس کے کہ قریش کے اتنے نامور رؤسا ءکاذکر آنے سے کمزور طبیعت مسلمان بے دل ہوتے ان الفاظ نے ان کی قوت متخیلہ کو اس طرف مائل کر دیا ‘‘انہوں نے ان کی سوچ کو اس طرف مائل کر دیا’’کہ گویا ان سردارانِ قریش کو تو خدا نے مسلمانوں کا شکار بننے کے لئے بھیجا ہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 356ایڈیشن1996ء)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کو حرکت دی تا کہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمےپر پہنچ جائیں اور مشرکین کو مسلط نہ ہونے دیں۔ چنانچہ عشاء کے وقت آپ نے بدر کے قریب ترین چشمےپر نزول فرمایا۔

(الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری صفحہ288 المکتبۃ السلفیۃ لاہور)

اس موقع پر حضرت حُبَاب بن منذرؓ نے ایک مشورہ دیا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قریب ترین چشمےپر پڑاؤ ڈالا تو حباب بن منذر نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا آپ نے حکم الٰہی سے اس جگہ قیام کیا ہے کہ ہم یہاں سے نہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں یا یہ صرف آپ کی رائے اور جنگی چال ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صرف ایک رائے ہے اور جنگی چال ہے۔ تب حضرت حباب نے عرض کیا کہ یہ جگہ مناسب نہیں بلکہ آپ لوگوں کو یہاں سے ہٹا لیجیے اور وہاں قیام کیجیے جو دشمن کے پانی سے قریب ترین جگہ ہو اور اس کے علاوہ جتنے کنویں ہیں ان کو بند کر دیا جائے اور اپنے لیے ایک حوض تیار کر لیا جائے جس کو پانی سے بھر دیا جائے۔ اس کے بعد ہم دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں پینے کے لیے پانی میسر ہو گا اور دشمن پانی سے محروم رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری رائے بہت درست ہے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت اس پانی پر آئے جو قریش سے قریب تر تھا اور وہاں پڑاؤ کیا اور آپ کے حکم سے باقی کنویں بیکار کر دیے گئے اور جس کنویں پر پڑاؤ ڈالا گیا اس پر ایک حوض بنا کر اس کو پانی سے بھر دیا گیا۔ سیرت ابن ہشام میں یہ حوالہ ہے۔

(ماخوذ از سیرت ابن ہشام صفحہ 424۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)

جگہ کے انتخاب کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے لیے جگہ کی تیاری کا مرحلہ تھا۔ چنانچہ سعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصےمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان تیار کیا۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے حضور ؐسے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے لیے ایک سائبان نہ تیار کر دیں تا کہ آپ اس میں قیام فرما سکیں۔

(ماخوذ از سیرت الحلبیہ جلد 2 صفحہ 213۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تفصیل بیان کی ہے وہ پہلے بھی ایک دفعہ بیان ہو چکی ہے لیکن یہاں بیان کرنا بھی ضروری ہے۔’’سعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان ساتیار کردیا اورسعد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیاکہ’’ یارسول اللہ !آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیں اورہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے، لیکن اگرخدانخواستہ معاملہ دگرگوں ہوا‘‘ اس کے علاوہ کچھ ہوا، ہماری شکست ہوئی ’’توآپؐ اپنی سواری پرسوار ہوکر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں۔ وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آجائے گی اس لئے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہرگز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کاعلم ہوگا تو وہ آپؐ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ سعد کا جوشِ اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابلِ تعریف ہے۔ ورنہ بھلا خدا کا رسول اورمیدان سے بھاگے؛’’ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ‘‘چنانچہ حنین کے میدان میںہم نے دیکھا کہ بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی، مگریہ مرکز توحید‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’اپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا۔ بہرحال سائبان تیار کیا گیا اور سعد اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ نے اسی سائبان میں رات بسر کی‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سائبان میں ننگی تلوار سونت کر آپؐ کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے رہے ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اورلکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سو لئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 357ایڈیشن1996ء)

(سبل الھدیٰ جلد11 صفحہ398 دار الکتب العلمیة بیروت 1993ء )

حضرت مصلح موعودؓ نے اس بارے میں بیان فرمایا ہے کہ ’’جب بدر کے میدان میں پہنچے تو صحابہ نے ایک اونچی جگہ بنا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بٹھا دیا اور پھر انہوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹنی کس کے پاس ہے۔ چنانچہ سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹنی لے کر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب باندھ دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم تمام کے تمام اس جگہ شہید نہ ہو جائیں۔ہمیں اپنی موت کا تو کوئی غم نہیں یا رسول اللہ! ہمیں آپؐ کا خیال ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہم اگر مر گئے تو اسلام کو کچھ نقصان نہیں ہو گا لیکن آپ کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم آپؐ کی حفاظت کا سامان کر دیں۔

یا رسول اللہ ! حضرت ابوبکرؓ کو ہم نے آپؐ کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا ہے اور یہ ایک نہایت تیز رفتار اونٹنی آپ کے قریب باندھ دی ہے۔ اگرخدانخواستہ ایسا وقت آئے کہ ہم ایک ایک کر کے یہاں ڈھیر ہو جائیں تو یارسول اللہ! یہ اونٹنی موجود ہے۔ اس پر سوار ہو جایئے اور مدینہ پہنچ جائیے۔

وہاں ہمارے کچھ اور بھائی موجود ہیں انہیں معلوم نہ تھا کہ جنگ ہونے والی ہے۔ اگر معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوتے۔ آپؐ ان کے پاس پہنچ جایئے۔ وہ آپؐ کی حفاظت کریں گے اور دشمن کے شر سے آپؐ محفوظ رہیں گے۔‘‘(بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے۔ انوارالعلوم جلد 15صفحہ244-245)لیکن بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کی بات نہیں ماننی تھی اور نہ مان سکتے تھے لیکن یہ ایک جذبہ تھا جو اُن صحابہؓ کا تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ اس ضمن میں اَور فرماتے ہیں کہ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیا جائے۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقعہ پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کا فرض سرانجام دیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ364-365)

بہرحال صبح کے وقت قریش اپنے مقام سے آگے بڑھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا:

اے اللہ! یہ قریش غرور اور تکبر کے ساتھ تجھ سے لڑنے اور تیرے رسول کی تکذیب کے لئے آگئے ہیں۔ تُو نے جو مجھ سے نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اسے پورا کر اور آج ہی ان کا خاتمہ کر دے۔

مشرکین میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ربیعہ کو ایک سرخ اونٹ پر سوار دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ان میں سے کسی کے پاس بھلائی ہے تو وہ اس سرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اگر وہ اس کا کہا مانیں گے تو راہ راست پر آ جائیں گے۔

کفار کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے پانی پینے کا واقعہ

بھی ملتا ہے۔ باوجود کہ پانی پہ قبضہ تھا لیکن جب یہ لوگ یعنی قریش بدر کے میدان میں اترے تو ان میں سے ایک گروہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض پر آکر پانی پینے لگا۔ ان میں حکیم بن حزام بھی شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو پانی پینے دو۔ اس دن ان میں سے جس نے بھی حوض سے پانی پیا وہ سب قتل ہوئے سوائے حکیم بن حزام کے جو اس کے بعد مسلمان ہو گئے تھے۔ وہ بھی قسم اٹھاتے تھے تو یوں کہتے تھے کہ اس ذات کی قسم !جس نے مجھے غزوۂ بدر کے دن نجات دی تھی۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 424۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)

جنگ کے لیے صفیں درست کرنے کے بارے میں

لکھا ہے کہ صبح کے وقت قریش کے آنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی صف بندی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کے ساتھ صفیں درست کر رہے تھے۔ آپ اس کے ساتھ اشارہ کر رہے تھے کہ آگے ہو جاؤ، پیچھے ہو جاؤ حتی کہ وہ سیدھے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو جھنڈا عطا فرمایا جسے انہوں نے اس مقام پر رکھ دیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کا جائزہ لینے لگے۔ آپ کا رخ مغرب کی طرف تھا۔

(سبل الھدیٰ و الرشاد۔ ذکر غزوۃ بدر الکبری۔ جلد 4 صفحہ 33۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1993ء )

اس سارے عرصےمیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے ایک عجیب واقعہ کا بھی ذکر بھی ملتا ہے جو حضرت سَوَاد بن غَزِیّہؓکا ہے جس سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ غزوۂ بدر میں صفیں سیدھی کرتے وقت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سَوَاد بن غَزِیّہؓکے پاس سے ہوا تو وہ صف سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیٹ پر تیر لگا کر اشارہ کیا کہ اے سواد! سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ حضرت سواد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے مجھے تکلیف دی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ آپ مجھے بدلہ دیں۔ میرے پیٹ پہ آپؐ نے تیر مارا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا بدلہ لے لو۔ حضرت سواد آپ سے بغل گیر ہوگئے اور آپ کے جسم کا بوسہ لینے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے سواد! تُو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیا وقت ہے۔ جنگ کا وقت ہے ۔پتہ نہیں میں زندہ رہوں کہ نہیں۔ میں نے چاہا کہ آپ کے ساتھ میرے آخری لمحات جو گزریں وہ اس طرح کہ میرا جسم آپ کے جسم مبارک سے مسّ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ (السیرۃ الحلبیہ باب ذکر مغازیہﷺ، جلد 2 صفحہ 220-221، دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)یہ تھے محبت وعشق کے نظارے۔

باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

اس وقت

کچھ مرحومین کا ذکر

بھی کرنا چاہتا ہوں جس میں ایک ہیں مکرم قاری محمد عاشق صاحب جو جامعہ احمدیہ کے استاد تھے اور مدرسةالحفظ کے نگران اور پرنسپل تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں پچاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ قاری عاشق صاحب کو قرآن کریم حفظ کرنے اور تجوید سیکھنے کے بعد احمدیت قبول کرنے سے پہلے پاکستان کے مختلف مقامات پر اہلحدیث کے مدارس میں درس و تدریس کا موقع ملا۔ خود انہوں نے بیعت کی تھی۔ قاری عاشق صاحب بیعت سے پہلے اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ قاری صاحب نے خود اپنے بارے میں جو کتاب لکھوائی تھی اس میں بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں 1957ء کا واقعہ ہے جب میں کراچی میں تھا تو وہاں بعض اہل علم دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ میں اکثر ان کے پاس چلا جاتا۔ وہاں پر اخبار کا مطالعہ کرتا اور کچھ علماء کے ساتھ مجلس بھی رہتی۔ ایک دن میں وہاں بیٹھ کر اخبار پڑھ رہا تھا کہ ایک دوست جن کے زیر مطالعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب تھی کہنے لگے یار کمال ہے! میں نے کہا بھائی کیا کمال ہے؟ کہنے لگے ہمارے علمائے کرام مختلف آیات کے ناسخ و منسوخ کا عقیدہ رکھتے ہیں جبکہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں۔ تو قاری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس بات پر تجسس پیدا ہوا۔ میں نے سوچا کہ اس بارے میں تحقیق کی جائے کہ یہ سچے ہیں یا جھوٹے ہیں۔ پھر انہوں نے لکھوایا اپنی خودنوشت میں کہ ایک دن میں احمدیت کے بارے میں تعارف حاصل کرنے احمدیہ ہال کراچی میں نماز کے بعد گیا۔ ملاقات ایک احمدی سے ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ اختلافی مسائل کے بارے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں۔ اس بارے میں میری مدد اور راہنمائی کی جائے۔ وہاں بیٹھے ایک دوست مجھے احمدیہ ہال سے اپنے گھر لے گئے۔ مجھے کچھ کتب پڑھنے کے لیے دیں۔ مَیں نے وہ کتب مطالعہ کیں اور اپنے انہی اہل علم دوستوں میں سے ایک مولوی صاحب کو دکھائیں کہ یہ تو عین اسلام ہے۔ مولوی صاحب نے کہا آپ بہت شریف النفس ہیں۔ آپ کو نہیں معلوم اس لیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مرزا صاحب کی چھوٹی کتابوں میں جو عقائد درج ہیں وہ اسلام کے مطابق ہیں یہ وہ کتب ہیں جو انہوں نے شروع زمانے میں تحریر کی تھیں لیکن بڑی کتب جو بعد میں تحریر کی گئی ہیں ان میں مرزا صاحب نے جھوٹے خیالات اور عقائد لکھے ہیں۔ حالانکہ براہین احمدیہ تو شروع میں لکھی گئی تھی اور وہی اسلام کی اصل تھی۔ بعد میں اَور بھی کتابیں ہیں۔ بہرحال ان کا جو رابطہ تھا اس کے بعد پھر قاری صاحب گئے اور ان سے کہا کہ کوئی بڑی کتاب دیں تو انہوں نے بہرحال بڑی کتابیں دینے میں کوئی عذر پیش کیا حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں کوئی تضاد نہیں ہے چاہے وہ پہلی کتابیں ہیں یا بعد کی لکھی ہوئی آخری کتابیں ہیں۔ اس احمدی کی کیا حکمت تھی،کیوں کتابیں نہیں دیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن بہرحال اس کے بعد پھر قاری صاحب کا رابطہ ان سے ختم ہو گیا۔ اس کے بعد قاری صاحب کی خودنوشت سوانح کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص خدائی تقدیر نے ان کے دل میں ایک تڑپ پیدا کر دی تھی اور قاری صاحب متعدد مواقع پر ربوہ تشریف لاتے رہے اور مقامی سطح پر احمدی احباب سے رابطہ کرتے رہے۔ دعائیں بھی کرتے رہے۔ اسی دعا کی کیفیت میں انہیں متعدد خوابیں بھی آئیں۔ انہی خوابوں میں ایک خواب یہ بھی تھی کہ اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ المَسِيْحُ کہ آسمان کی آواز سنو کہ مسیح آ گیا۔ قاری صاحب کہتے ہیں اس وقت تو ان الفاظ سے میرا دھیان احمدیت کی طرف نہیں گیا لیکن احمدی ہونے کے بعد یہ یاد آیا کہ وہ خواب پورے ہوئے ہیں۔ جو مختلف خوابیں دیکھی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔ قاری صاحب لکھتے ہیں کہ جب میں اپنی زندگی کے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا کہ میری توجہ بار بار جماعت احمدیہ کی طرف مبذول ہوتی رہی اور مجھے ہدایت نصیب ہو گئی۔

پھر لکھتے ہیں کہ انصار اللہ کے اجتماع پر شیخ عبدالقادر صاحب سوداگر مل مربی سلسلہ لاہور کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ انصار کے اجتماع پر گئے تھے اس وقت ابھی بیعت نہیں کی تھی۔ کہتے ہیں میں نے اجتماع کے پہلے دن کے سارے پروگرام دیکھے۔ غالباً اجتماع کے دوسرے یا تیسرے دن میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میری بیعت کروا دی جائے۔ چنانچہ ہم دفتر اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں گئے اور خاکسار بیعت فارم پُر کر کے احمدیت کے نور سے منور ہو گیا۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ 11 تا 22مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کو ابتلاؤں سے بھی گزرنا پڑا۔ دوسری طرف ان کے غیر از جماعت شاگردوں اور راہنماؤں کی طرف سے مختلف طریق سے واپس لانے کی کوشش بھی کی گئی۔ لالچ بھی دیے گئے، سختیاں بھی کی گئیں۔ قاری صاحب کہتے ہیں کہ ’’احمدیت قبول کرنے کے بعد کئی مشکلات میری راہ میں آئیں لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے ثابت قدم رکھا اور اس کے بتائے ہوئے رستے پر چلتا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی موجود تھی اس لئے مجھے کوئی بھی دنیاوی لالچ راہ حق سے ہٹا نہ سکی۔ مجھے جماعت احمدیہ سے متنفر کرنے اور واپس جماعت اہلحدیث میں لے جانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن اللہ کے فضل سے جو ایمان کا رنگ مجھ پر چڑھا اس کی وجہ سے بڑی کوششوں کے باوجود بھی وہ مجھے واپس لے جانے میں ناکام ہو گئے۔ ‘‘

(میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ27 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

ان کی شادی ایک بیوہ سے ہوئی تھی جن کے پہلے تین بچے تھے۔ ان کی ایک بیٹی ان سے پیدا ہوئی۔

جماعتی خدمات کے بارے میں لکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ صوفی خدا بخش زیروی صاحب ایک دن مسجد میں مجھے ملے اور مجھے کہا کہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جو اس وقت وقف جدید کے انچارج تھے ان کا پیغام یہ ہے کہ آپ کو ان کے پاس ربوہ لے کے آؤں۔ بیعت یہ کر چکے تھے۔ کہتے ہیں جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت میاں صاحب نے پہلے آپ کی تلاوت سنی اور پھر وقف جدید کے معلمین کو قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھانے کے لیے ڈیوٹی تفویض فرمائی اور وقف جدید میں ہی رہائش کا بھی انتظام کر دیا۔ یہ 1964ء کی بات ہے۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ27-28 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

کہتے ہیں وقف جدید میں بطور معلم قاری صاحب کا باقاعدہ تقرر یکم جنوری 1965ء میں ہوا۔ اسی دوران جامعہ احمدیہ کے درجہ شاہد کے طلبہ آپ سے قرآن کریم پڑھنے کے لیے دفتر وقف جدید آتے اور بعد میں محترم میر داؤد احمد صاحب جو اس وقت جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے ان کے کہنے پر قاری صاحب جامعہ احمدیہ میں جاکر پڑھانے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ جامعہ نصرت گرلز کالج میں بھی جو کہ جماعت کا کالج تھا تو پردہ کی پابندی کے ساتھ لڑکیوں کو بھی قرآن شریف پڑھاتے تھے۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ35-36 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

جنوری 1969ء میں حافظ کلاس ربوہ کے انچارج حافظ شفیق صاحب کا انتقال ہوا تو پرنسپل جامعہ میر داؤد احمد صاحب نے حافظ صاحب کو کہا کہ کلاس میں آ جایا کریں۔ ان کی کلاس آپ لےلیا کریں۔ ان دنوں میں یہ کلاس مسجد مبارک میں ہوا کرتی تھی۔ مجھے بھی یاد ہے مسجد میں بیٹھے لڑکے حفظ کر رہے ہوتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے پھر قاری صاحب کا حافظ کلاس میں بھی تقرر فرمایا، اس کی منظوری دی اور ساتھ یہ لکھا کہ وقف جدید میں بھی پڑھائیں گے اور حافظ کلاس کو بھی پڑھائیں گے۔ چنانچہ 1969ء کو باقاعدہ حافظ کلاس میں تقرر ہوا۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ40-41 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

1998ء میں ان کی ریٹائرمنٹ ہو گئی۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ52 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے 2019ء تک مدرسة الحفظ اور مدرسة الظفر میں قرآن کریم پڑھانے کا کام جاری رکھا۔ جلسہ سالانہ 1964ء کے بابرکت موقع پر آپ کو پہلی دفعہ تلاوت کی سعادت ملی۔

قاری صاحب اپنا واقعہ لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فروری 1965ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓسے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ تاریخی ملاقات کا احوال اس طرح بتایا کرتے تھے کہ جب میں نے شرف مصافحہ حاصل کیا تو وہ لمحہ میرے لیے اپنی زندگی بدلنے کا موجب بنا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضور کی خدمت میں میرا تعارف کروایا کہ یہ قاری محمد عاشق صاحب ہیں جو نومبائع ہیں۔ جب وہ میرا تعارف کروا رہے تھے تو حضور ازراہ شفقت نظر بھر کر مجھے دیکھتے رہے اور میں بھی حضور کا بابرکت ہاتھ تھامے آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا رہا۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ28تا30 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

رمضان المبارک میں آپ کی مسجد مبارک میں پندرہ سال تک نماز تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی لگتی رہی۔ مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے ایک دفعہ آپ کو کہا تھا کہ مسجد مبارک میں نماز تہجد اور نماز تراویح کے پڑھانے کی آپ کی ڈیوٹی بار بار اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی تلاوت بہت پسند ہے۔

(ماخوذ از میری داستان مرتبہ حافظ مسرور احمد و محمد مقصود احمد صفحہ37،35مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ، جنوری 2013ء)

ان کے شاگرد بھی بےشمار ہیں اور اب دنیا میں مختلف جگہوں پہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں ان کے خطوط بھی مجھے آئے جنہوں نے ان کی خوبیوں سے فیض پایا،ان کے علم سے فیض پایا۔ وہ سب اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد اور نسل میں بھی ان کی خواہش کے مطابق دعاؤں اور اخلاص کی حالت پیدا کرے۔

دوسرا ذکر ہے

مکرم نور الدین الحصنی صاحب

کا،جو شام کے بہت پرانے احمدی تھے۔ آجکل سعودی عرب میں تھے۔ کئی سال سے احمدی ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی ایک جیل میں قید تھے۔ یہ اسیرِ راہ مولیٰ تھے۔ بیماری اور سختیوں کے باوجود ایمان پر ثابت قدم رہے اور بالآخر اسیری کے دوران ہی 25مئی کو تقریباً 82سال کی عمر میںان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے والد الحاج عبدالرؤوف الحصنی صاحب نے 1938ء میں بیعت کی تھی۔ مکرم منیر الحصنی صاحب سابق امیر جماعت شام مرحوم نورالدین الحصنی صاحب کے تایا تھے۔ مرحوم نے بچپن سے ہی اسلامی اخلاق و اقدار اور خلافت کی محبت کے ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی جب آپ کے والد صاحب فوت ہو گئے۔ مرحوم اکثر مکرم منیر الحصنی صاحب کی صحبت میں رہتے تھے اور ان سے انہوں نے جماعت کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب 1955ء میں دمشق تشریف لے گئے تو مرحوم کے چچا مکرم بدرالدین الحصنی صاحب کے گھر ٹھہرے۔ان دنوں میں مرحوم کو ایک بار حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تلاوت کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ سوموار اور جمعرات کا بطور خاص روزہ رکھا کرتے تھے۔ تلاوت قرآن کریم کا بہت شوق تھا۔ تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑی۔ زندگی کے آخری روز تک جیل میں بھی اپنے ایمان پر قائم رہے اور جماعت کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ اس بات پر ایمان تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت قریب ہے۔ یہ بات جیل میں اپنے ساتھ ملنے والے ہر شخص کو بتایا کرتے تھے۔ پسماندگان میں ان کی بیوہ ہیں جو احمدی ہیں اور انہوں نے اپنے خاوند سے وفا کا تعلق رکھا ہے۔ ان خاتون نے ان کی جیل کے عرصےمیں بہت قربانی کی۔ اولاد میں تین بیٹے عبدالرؤوف الحصنی صاحب اور محمد معاذ الحصنی اور فواز الحصنی کے علاوہ ایک بیٹی زینب الحصنی ہیں۔ پوتے پوتیاں بھی ہیں۔ سب اللہ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں۔

مرحوم کے بیٹے معاذ الحصنی صاحب کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب چاہتے تھے کہ ہم سب بہن بھائی اپنی پوری تسلی کر کے جماعت میں داخل ہوں اور الحمد للہ کہ ہم نے پورے ایمان کے ساتھ بیعت کی اور سعودی عرب میں جب تھے تو جماعت کی تلاش شروع کی۔ پھر ہاشم صاحب مرحوم جو یوکے، کے رہنے والے تھے اور وہاں کام کرتے تھے، ان سے ملاقات ہوئی اور پھر کہتے ہیں کہ ہمارے والد رابطہ ہونے پر آخر دم تک جماعتی کاموں میں مصروف رہے۔ بہت مہربان اور کھلے دل کے مالک تھے۔ دوسروں کی امداد کرنا آپ کو بہت اچھا لگتا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2019ء میں ان کو بلا کر قید کر لیا گیا۔ کافی کوشش اور تگ و دو کے بعد پتا چلا کہ والد صاحب پر احمدی ہونے اور سوشل میڈیا پر اس کی تبلیغ کرنے کا الزام ہے۔ دو سال تک کہتے ہیں ہم نے ان کی رہائی کے لیے ہر قسم کی کوشش کی۔ کئی وکیلوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان کی رہائی کا حکم بھی صادر ہوا اور رہائی بھی عمل میں آ گئی لیکن رہائی کے چند گھنٹے کے بعد پولیس نے ان کو فون کر کے پولیس سٹیشن بلایا اور دوبارہ گرفتار کر لیا اور اس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ ان پر سختی کی گئی۔ ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ان کی صحت خراب تھی۔ بیماری بڑھاپے کی وجہ سے بیمار بھی ہوتے رہے ہسپتال بھی جاتے رہے لیکن ان کے گھر والوں سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی۔

ان کے بڑے بیٹے عبدالرؤوف الحصنی ہیں جو کینیڈا میں ہیں وہ بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جماعت کے لیے بہت اخلاص و محبت رکھتے تھے۔ اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم تھے اور پھر انہوں نے عبادت اور اخلاص کا خاص ذکر کیا ہے۔ انہوں نے تفصیل لکھی ہے کہ 2016ء میں جب قید کیے گئے تو آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور روزہ کھولنا پسند نہیں کیا باوجود اس کے کہ آپ جانتے تھے کہ آپ کو قید میں مشقّت برداشت کرنی پڑے گی۔ جب افسر نے پانی پیش کیا تو آپ نے کہا کہ میرا روزہ ہے۔ پھر نماز عصر پڑھنے کی اجازت مانگی۔ اس نے اجازت دے دی۔ آپ نے اس کے سامنے نماز پڑھی تو اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ آپ لوگ تو ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں۔ بہرحال اس کا اس پر اثر ہوا، اس نے ان کو اس وقت چھوڑ دیا۔ پھر دسمبر 2019ء میں بغیر کوئی وجہ بتائے دوبارہ پولیس نے پکڑ لیا اور جیل میں ڈال دیا اور اسی اسیری کی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں اور خصوصیات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ نماز کے بعد میں نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ ان شاء اللہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button