سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

منارة المسیح کی تعمیر اور مقامی باشندگان کی طرف سے مخالفت

(گذشتہ سے پیوستہ) لیکن ان سب حقائق کے باوجودتحصیلدارموتی رام نے۱۲؍ مئی ۱۹۰۳ء کو منفی رپورٹ ڈپٹی کمشنرکو بھیج دی۔

انہی دنوں اس کے متعلق الحکم میں شائع ہونے والی رپورٹ درج ذیل ہے :

’’منارۃ المسجداور اس کی مخالفت:الحکم کی کسی گزشتہ اشاعت میں اس مینار کے متعلق (جو جامع مسجدقادیان کی تکمیل کی خاطراس کے مشرقی کونہ پر بنایا جانا تجویزہواہے اور جس کا ابتدائی حصہ قریباً ساڑھےچارہزار روپیہ کے صرف سے تیارہوگیا ہے )ہم ایک آرٹیکل لکھ کر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادرگورداسپورکو توجہ دلا چکے ہیں اور ہمیں کامل امید ہے کہ صاحب موصوف اس پر پوری توجہ فرمائیں گے۔۸؍ مئی ۱۹۰۳ء کو جناب تحصیلدارصاحب بٹالہ بھی اس مینار کا موقع دیکھنےکے واسطے تشریف لائے تھے تحصیلدارصاحب نے موقعہ کو دیکھااورفریقین کے عذرات کو تحریری طورپرلے لیا گیا ہے۔ ہمیں یہ معلوم کرکے ازبس افسوس ہواکہ منارہ کے متعلق کسی ذمہ وار آفیسر نے اس قسم کی رپورٹ کی ہےیا بعض لوگوں نے ایسا کہا ہےکہ وہ ایک سیرگاہ ہو گا یا بطور تماشہ لوگ اس پر چڑھیں گے۔ہم اس مسل کی باقاعدہ نقل حاصل کرنے کے بعد اس پر مفصّل رائےزنی کرسکیں گےلیکن سردست اس افواہ پر اگریہ سچ ہےہم کو یہ کہنے کا حق حاصل ہےکہ مسجد کی نسبت ایسی رائے ظاہر کرنایہی نہیں کہ گورنمنٹ کو مغالطہ دینا ہے بلکہ مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہ کی توہین اور اُن کے اعتقاد پر حملہ کرنا ہے۔ کیونکہ مسجد میں تماشہ گاہ بنانا حرام ہے۔مسجدیں عبادت کے لئے ہوتی ہیں نہ تماشہ گاہ۔اس قسم کا لفظ مسجد یا اس کےکسی حصہ کے نسبت استعمال کرناخطرناک مذہبی دل آزاری ہےجس کا اپیل ہم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادرکے حضورکرتے ہیں کہ اگر مثل میں اس قسم کا کوئی لفظ ہو تو اس پر مناسب نوٹس لیا جاوے۔سردست ہم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادرکی توجہ کے لئے دہلی کے بیدارمغز صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا ایک تازہ فیصلہ ایک مسجد کی تعمیر کے متعلق پیش کرکے آپ کو اس معاملہ کے متعلق غور کرنے کے لئے مدددینا چاہتے ہیں۔دہلی میں اس قسم کا ایک مقدمہ میونسپلٹی میں پیش ہوا ہے نوعیّت ایک ہی قسم کی ہے اور ہم امید کرتےہیں کہ اگر صاحب ضلع دہلی کے فیصلہ پر غورکیا جاوےگا تو میجر ڈالس صاحب بہادرکو اچھا موقعہ ایک فیصلہ کے لئے مل جاوے گا۔ چنانچہ اس مقدمہ کے حالات حسب ذیل ہیں جو کرزن گزٹ مطبوعہ ۸؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ میں بہ تفصیل در ج ہیں ،ہم کامل وثوق سے کہتے ہیں کہ حضور ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ضلع گورداسپور کے لئے اب اس فیصلہ کے بعد منارۃ المسجد کی تعمیر کا سوال بڑی صفائی سے حل ہو جاتا ہے۔ اس سوال کے باضابطہ حل کئے جانے کے بعد ہمیں ضرورت پڑے گی کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کو اس راز سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں جو اس مخالفت کی تہ میں ہے۔

صاحبزادہ سلطان احمد خانصاحب بیرسٹر نے جو سیول لائین میں رہتے ہیں ایک درخواست اس مضمون کی میونسپل کمیٹی میں گزرانی کہ مجھے اپنی کوٹھی کے احاطہ میں ایک مسجد بنانے کی اجازت مل جائے۔جس وقت وہ درخواست جلسہ میں پیش ہوئی تو سب سے پہلے دہلی کے سیول سرجن صاحب بہادر نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ سیول لائین میں مسجد کبھی نہیں بن سکتی۔اس پر ایک مسلمان ممبر نے صاحب بہادر سے سوال کیا کہ کیا وجوہات ہیں جس سے آپ ایسا فرماتے ہیں۔کیا کوئی میونسپل ایکٹ ایسا ہے جس سے سیول لائین میں مسجد بنانے کی ممانعت نکلتی ہے یا خاص اور کوئی وجہ ہے۔سیول سرجن صاحب موصوف نے اس کا یہ جواب دیا کہ صبح کے وقت مؤذن کی اذان سے ہمارے آرام میں خلل پڑے گا اس لئے ہم ہرگز اس بات سے رضامند نہیں ہیں کہ وہاں کوئی مسجد بنے۔مسلمان ممبر نے اس کا نہایت ہی معقول جواب دیااور بیان کیا کہ تمام دنیا میں صرف گورنمنٹ انگلشیہ کویہ بہت بڑا فخر ہے کہ اس کے ہاں اوّل درجہ کی مذہبی آزادی رعایا کو عطا ہوتی ہے اگر سیول لائین میں مسجد کو روکا گیا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ برطن اعظم کی حکمت عملی کو صدمہ پہنچایا گیا۔رہا اذان کا آرام میں خلل انداز ہونے کے متعلق اس کا یہ جواب ہے کہ مؤذن کی آواز زیادہ سے زیادہ بیرسٹر صاحب کے احاطہ تک جا سکتی ہے۔ وہاں سے قریب ملی ہوئی ہے۔کسی انگریز کی کوٹھی نہیں ہے کوٹھی کے ایک طرف رسالہ پڑا ہوا ہے جس میں مسلمان بھی ہیں۔ ایک طرف قبرستان ہے پھر نہیں سمجھ میں آتا آرام میں خلل کیونکر پڑ سکتا ہے۔اگر آرام میں کوئی خلل پڑنے کا اندیشہ ہے تو سب سے زیادہ انجن کی سیٹی سے خلل پڑنا چاہیئے حالانکہ اس کے خلاف آج تک کچھ نہیں سنا گیا۔اس پر جدید ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے جو اوّل درجہ کے انصاف پسند اور رحم دل ہیں مسلمان ممبر کی تائید ان الفاظ میں کی کہ بیشک گورنمنٹ انڈیا کو مذہبی آزادی دینے کا بہت بڑا فخر حاصل ہے۔پھر دوران تقریر میں ایک ہندو ممبر نے یہ سوال کیا کہ آیا سیول لائین میں کو ئی مسجد بنی بھی ہے یا نہیں۔اس پر دوسرے مسلمان ممبر نے یہ جواب دیا کہ ہاں یعقوب خانصاحب آفندی مرحوم کی کوٹھی میں مسجد بنی ہوئی ہے۔اس کا جواب ایک ہندو ممبر نے یہ دیا کہ وہ صرف ایک چبوترہ ہے مسجد نہیں ہے۔مسلمان ممبر کی طرف سے جواب الجواب یہ دیا گیا کہ مسجد کے معنے جائے سجدہ ہے گنبد اور مینارسے نہیں ہے۔ہرشخص کی توفیق ہے جس کی جو توفیق ہوئی اس نے ویسی مسجد بنالی۔غرض وہاں مسجد کا بنانا ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے منظور فرمالیا اور صاحبزادہ صاحب کی درخواست پر یہ لکھا گیا کہ سائل کمیٹی میں نقشہ داخل کرے کہ کس طرز کی مسجد بنانا چاہتا ہے۔ہم ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے ممنون ہیں کہ انہوں نے اس معاملہ میں اس فراخ حوصلگی اور عالی ظرفی سے کام لیا جو برٹش قو م کا درحقیقت ایک تمغہ ہے اور یہی صفت ہے جس سے برٹش قوم تمام دنیا کی قوم سے سربرآوردہ ہے۔‘‘(الحکم نمبر۱۸جلد۷، ۱۷؍مئی ۱۹۰۳ءصفحہ ۸)

سیرت المہدی میں اسی واقعہ کے تسلسل میں کچھ مزیدتفصیل بھی ہمیں ملتی ہے جواس کی تفصیل وتاریخ کے ساتھ ساتھ حضرت اقدسؑ کی سیرت کاایک روشن باب بھی ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب منارۃ المسیح کے بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکایتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہوگی۔چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیا ن آیا او ر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کر نے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے۔حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڈھامل بیٹھاہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کو ئی موقعہ ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کو ئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقعہ ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میں اس وقت بڈھامل کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہو اتھا۔اور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑگیا تھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۱۴۸)

جیساکہ ابھی بیان کیاگیاہے کہ تحصیلدارنے حقائق کونظراندازکرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو منفی رپورٹ بھیجی لیکن ڈپٹی کمشنرایک منصف مزاج اور داناشخص تھا۔ تمام رپورٹس کوپڑھتے ہوئے اس کومعاملہ کی تہ تک جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہوگی ۱۲؍ مئی کوبھیجی جانے والی رپورٹ پراس نے اگلے ہی روزیعنی ۱۳؍مئی ۱۹۰۳ء کوتحصیلدار کی رپورٹ کومستردکرتے ہوئے مینارکی تعمیرپرکیے جانے والے تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے تعمیرکے حق میں فیصلہ دے دیا۔

مصنف لائف آف احمداپنی کتاب میں منارۃ المسیح کی بابت اس کیس کے تفصیلی سرکاری ریکارڈ کوخودملاحظہ کرنے کاحوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’I have seen the original file in the Record office at Gurdaspur. Case No. 17/،4, date of instituting 14-،4،-1903, Goshwara 176, No. in General Register 1012, Miscellaneous file R.M. Batala. ‘‘(Life of Ahmad p.577)

خیر!یہ محکمانہ کارروائی ہوئی اور…

’’غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے‘‘

جس کام کوخداکرناچاہے اور آسمان پراس کافیصلہ کردے تو زمین والوں سے وہ کام رکانہیں کرتے۔ بے شک روکیں پڑتی ہیں لیکن وہ عارضی ہواکرتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں کی طرح غائب ہوجایاکرتی ہیں۔

بھلاخالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے!

۱۳؍ مئی ۱۹۰۳ء کو انتظامیہ کی طرف سے مینارکی تعمیرکے سلسلہ میں فیصلہ بھی آگیا کہ مخالفین کی درخواست درخوراعتناء نہیں سمجھی جارہی اورمینارکی تعمیرکی بابت کسی قسم کاکوئی اعتراض بھی قابل توجہ وسماعت نہیں ہے۔اور یوں مخالفین کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔

الحکم میں فیصلہ کی یہ خبراس طرح دی گئی:

’’ہم نہایت مسرت اور خوشی کےساتھ خداتعالیٰ کا شکرکرتے ہوئے اس خبرکا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہواہے کہ منارۃ المسجد کی جس قدر مخالفت کی گئی تھی وہ ضلع گورداسپور کے بیدارمغز اور دقیقہ رس جناب میجر ڈالس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی عدالت سے آخر بےسود ثابت ہوئی اور آپ نے اس معاملہ میں کسی قسم کی دست اندازی کو بالکل غیر ضروری سمجھا جیسا ہم نے اپنے اخبار میں صاحب موصوف کی بیدار مغزی اور معدلت گستری سے امید کی تھی۔ وہ امید پوری ہوئی اور ہماری تحریریں اس معاملہ میں نتیجہ خیز۔ہم اس مثل کی نقل کے حاصل کرنے کی سعی کررہے ہیں باضابطہ مصدقہ نقل مل جانے پر ہم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا اصل حکم شائع کرنے کے قابل ہوں گے۔

بہرحال ہم سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے اپنے مخدوم مجسٹریٹ ضلع کے شکرگزارہیں کہ انہوں نے ہمارے معروضات پر جیسا کہ آپ کی تشریف آوری پر ہم نے توقع کی تھی پوری توجہ فرمائی اور ہماری مذہبی آزادی اور مذہبی عبادت گاہ کے جائز حقوق کی حفاظت فرما کراپنی انصاف پسندی اور بےرورعایت پالیسی کا ثبوت دیا ہے۔ ضلع گورداسپور کی رعایا کو ایسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر جس قدرناز ہو وہ کم ہے۔ منارۃالمسجد کے روکنے میں ہمارے مخالفوں نے پوری کوشش کی مگر خداتعالیٰ نے ان کو اپنے ان ارادوں میں پوراناکام ونامراد رکھا۔والحمدللہ علیٰ ذالک۔

ہم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی ذات سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آئندہ کےلئے ایسی سازشیں کرنے والوں کا پورا لحاظ رکھیں گے۔پبلک کے امن میں خلل اندازی کرنے کا انہیں موقع نہ دیا جاوےگا۔ہم یہ امر آپ کی توجہ کےلئے پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ بعض آدمی اس قماش کے یہاں موجود ہیں جو ہمیشہ ایسے ہی جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں۔

بہرحال ہماری قوم کےلئے یہ بہت بڑی شکر گزاری اور خوشی کا موقع ہے جو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گورداسپورکی بیدارمغزی سے ان کو ملا ہے۔اور سب سے زیادہ ہمارے لئے کہ ہماری تحریریں مؤثر ثابت ہوئیں۔‘‘(الحکم نمبر۲۰جلد۷،۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۹کالم ۲،۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button