خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ ستمبر ۲۰۲۲ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے

سوال نمبر ۱ :حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احدکے بعد ابوسفیان کے آئندہ جنگ کرنے کے وعدہ اورلشکرقریش کی مکہ واپسی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:ابوسفیان جب جنگِ احد کے خاتمے کے وقت درے میں تھا اور اس نے کہا آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام پر پھر جنگ کا وعدہ رہا اور آنحضرتﷺ نے اسے قبول فرمایا تو ابوسفیان جلدی سے اپنے لشکر کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس سے آگے کے واقعات حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان کیے ہیں کہ’’آنحضرتﷺ نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراًستر صحابہؓ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی شامل تھے تیار کرکے لشکرِ قریش کے پیچھے روانہ کردی۔عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ یابعض روایات کی رُو سے حضرت سعد بن وقاصؓ کو قریش کے پیچھے بھجوایا اوران سے فرمایا کہ اس بات کاپتہ لاؤ کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اور آپؐ نے ان سے فرمایا اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اورگھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھناکہ وہ مکہ کی طرف واپس جا رہے ہیں، مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں۔ اور آپؐ نے ان کوتاکید فرمائی کہ اگر قریش کالشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراً آپؐ کو اطلاع دی جاوے اور آپؐ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پر حملہ کیا تو خدا کی قسم! ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں اس حملہ کا مزا چکھا دیں گے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے بھیجےہوئے آدمی آپؐ کے ارشاد کے ماتحت گئے اوربہت جلد یہ خبر لے کر واپس آ گئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جا رہا ہے۔‘‘

سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعدحضرت ابوبکرؓ کی حضرت ام ایمن سے ملاقات کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی طرف چلیں۔ ہم ان کی زیارت کریں جس طرح رسول اللہﷺ ان سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ انہوں نے یعنی حضرت انسؓ نے کہا کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ ان دونوں نے کہا کہ آپؓ کیوں روتی ہیں؟ جو بھی اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے۔وہ کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ جو بھی اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے لیکن میں اس لیے روتی ہوں کہ اب وحی آسمان سے منقطع ہو گئی ہے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اُمّ ایمن نے ان دونوں کو بھی رُلا دیا۔ وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صلح حدیبیہ کے موقع پرصحابہؓ کے اضطراب کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبی کریمﷺ اور قریش مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہو رہا تھا اور ابوجندل کو نبی کریمﷺنے معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کر دیا تو اس وقت صحابہؓ بہت جوش میں تھے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھاہے کہ’’مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورمذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگررسول اللہؐ کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔ آخر حضرت عمرؓسے نہ رہا گیا۔ وہ آنحضرتﷺ کے قریب آئے اور کانپتی ہوئی آواز میں فرمایاکیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ہوں۔ عمرؓنے کہا کہ کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں ضرورایسا ہی ہے۔ عمرؓنے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟ آپؐ نے حضرت عمرؓ کی حالت کودیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا۔ دیکھو عمر! میں خدا کا رسول ہوں اورمیں خدا کے منشا کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ مگر حضرت عمرؓ کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا۔ کہنے لگے کیا آپؐ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایاہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا؟ عمرؓنے کہا کہ نہیں ایسا تو نہیں کہا۔ آپؐ نے فرمایا تو پھر انتظار کرو تم ان شاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کاطواف کرو گے۔مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓ کی تسلی نہ ہوئی لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓوہاں سے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓکے پاس آئے اوران کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں۔ حضرت ابوبکرؓنے بھی اسی قسم کے جواب دیئے جو آنحضرتﷺ نے دئیے تھے مگر ساتھ ہی حضرت ابوبکرؓنے نصیحت کے رنگ میں فرمایا دیکھو عمر! سنبھل کر رہو اور رسولِ خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قسم! یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ توگیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اورمیں توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا یعنی صدقے کئے، روزے رکھے، نفلی نمازیں پڑھیں اورغلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دُھل جائے۔‘‘

سوال نمبر۴: حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے آنحضرتﷺکے ساتھ عشق کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کا تعلق بھی آنحضرتﷺ سے عشقیہ تھا۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہونے کے لئے مکہ سے نکلے تو اس وقت بھی آپ کا تعلق عاشقانہ تھا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اس وقت بھی تعلق عاشقانہ تھا۔ چنانچہ جب آنحضرتﷺپراِذَاجَآءَنَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ۔وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِی دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًاکی وحی قرآنی نازل ہوئی جس میں مخفی طور پر آپؐ کی وفات کی خبر تھی تو آپؐ نے خطبہ پڑھا اور اس میں اس سورت کے نزول کا ذکر فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقیات میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی۔ اس سورت کو سن کر سب صحابہؓ کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور سب اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ الحمد للہ! اب یہ دن آ رہا ہے مگر جس وقت باقی سب لوگ خوش تھے، حضرت ابوبکرؓ کی چیخیں نکل گئیں اور آپؓ بے تاب ہو کر رو پڑے اور آپؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! آپ پر ہمارے ماں باپ اور بیوی بچے سب قربان ہوں۔ آپؐ کے لئے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ گویا جس طرح کسی عزیز کے بیمار ہونے پر بکرا ذبح کیا جاتا ہے اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرتﷺ کے لئے پیش کی۔آپؓ کے رونے کو دیکھ کر اور اس بات کو سن کر بعض صحابہؓ نے کہا دیکھو! اس بڈھے کو کیا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو اختیار دیا ہے کہ خواہ وہ رفاقت کو پسند کرے یا دنیوی ترقی کو۔ اور اس نے رفاقت کو پسند کیا۔ یہ کیوں رو رہا ہے؟ اس جگہ جو اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہےحتّٰی کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے بھی اس کا اظہار حیرت کیا۔ رسول کریمﷺ نے لوگوں کے اس استعجاب کو محسوس کیا اور حضرت ابوبکرؓکی بیتابی کو دیکھا اورآپ کی تسلی کے لئے فرمایا کہ ابوبکرؓمجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتا‘‘ پھر آگے فرمایا ’’مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں۔ پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے سب لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے اور اس طرح آپ کے عشق کی آنحضرتﷺ نے داد دی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے حضرت ابوبکرؓ کو بتا دیا کہ اس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرتﷺ کی وفات کی خبر ہے اور آپؓ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کیا کہ ہم مر جائیں مگر آپؐ زندہ رہیں۔ رسول کریمﷺ کی وفات پر بھی حضرت ابوبکرؓنے اعلیٰ نمونہ عشق کا دکھایا۔ غرض حضرت ابوبکرؓنے غارِ ثور میں اپنی جان کے لئے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ رسول کریمﷺ کے لئے کیااور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر تسلی دی۔ہر مقام پر جہاں بھی اظہار کیا وہاں آنحضرتﷺ کے عشق کی وجہ سے کیا۔

سوال نمبر۵: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کی آنحضرتﷺکی متابعت کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’رسول کریمﷺ کی متابعت صحابہؓ جس طرح کیا کرتے تھے اس کا ثبوت حضرت ابوبکرؓ کے ایک واقعہ سے مل سکتا ہے۔ رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکرؓ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمرؓجیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابوبکرؓنے جواب دیا۔ ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے جو رسول کریمﷺ نے دیا ہے۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ رسول کریمﷺ کے زمانے میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوٰة میں دیا کرتے تھے تو میں وہ رسّی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوٰة ادا نہیں کرتے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ’’اگر تم اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو بیشک نہ دو۔ میں اکیلا ہی ان کا مقابلہ کروں گا۔ کس قدر اتباعِ رسولؐ ہے کہ نہایت خطرناک حالات میں باوجود اس کے کہ اکابر صحابہ لڑائی کے خلاف مشورہ دیتے ہیں پھر بھی رسول کریمﷺ کے حکم کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا خطرہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح لشکر اسامہ کو روک لینے کے متعلق بھی صحابہؓ نے بہت زور لگایا مگر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر دشمن اتنا طاقتور ہو جائے کہ وہ مدینہ پر فتح پائے اور مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو جسے رسول کریمﷺ نے بھجوانے کے لئے تیار کیا تھا روک نہیں سکتا۔‘‘

سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےآنحضرتﷺکی اتباع میں حضرت ابوبکرؓ کی بابت دنیا سے بیزاری کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکر صدیقؓ صحابہ کرامؓ سے محو گفتگو تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد آپؓ نے اپنے غلام سے کہا کہ پانی پلاؤ۔ غلام کچھ دیر کے بعد مٹی کے برتن میں پانی لایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے برتن کو پکڑا اور پیاس بجھانے کے لیے اپنے منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ آپ نے دیکھا کہ برتن تو شہد سے بھرا ہوا ہے جس میں پانی بھی ملا ہوا ہے۔ آپ نے وہ برتن رکھوا دیا اور وہ پانی نہیں پیا۔ پھر غلام کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ غلام نے کہا کہ پانی میں شہد ملایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ برتن کی طرف غور سے دیکھنے لگے۔ چند لمحات ہی گزرے تھے کہ آپؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہچکیاں باندھ باندھ کر رونے لگے۔ روتے روتے آپؓ کی آواز اَور بلند ہو گئی اور آپؓ پر شدید گریہ طاری ہو گیا۔ لوگ متوجہ ہوئے اور تسلی دینے لگے کہ اے خلیفہ رسول !آپ کو کیا ہو گیا ہے۔آپؓ اس قدر شدید کیوں رو رہے ہیں؟ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ سسکیاں بھر کر کیوں رو رہے ہیں لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رونا بند نہ کیا بلکہ آس پاس کے تمام لوگوں نے بھی آپ کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور رو رو کر وہ خاموش بھی ہو گئے لیکن حضرت ابوبکرؓ مسلسل روتے جا رہے تھے۔ جب آپ کے آنسو ذرا تھمے تو لوگوں نے آپ سے رونے کا سبب پوچھا کہ اے خلیفہ رسولﷺ! یہ رونا کیساہے۔ آخر کس چیز نے آپ کو رلایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے کپڑے کے کنارے سے آنسو پونچھتے ہوئے اور اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے فرمایا میں نبی کریمﷺ کے مرض الموت کے ایام میں آپﷺ کے پاس موجود تھا۔ میں نے آنحضورﷺ کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ چیز دُور کر رہے ہیں لیکن وہ چیز مجھے نظر نہیں آ رہی تھی۔ آپؐ کمزور آواز میں فرما رہے تھے کہ مجھ سے دُور ہو جاؤ، مجھ سے دُور ہو جاؤ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کسی چیز کو اپنے سے ہٹا رہے تھے جبکہ آپ کے پاس کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ حضور اکرمﷺ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ درحقیقت دنیا تھی جو اپنی تمام آرائش و نعمت کے ساتھ میرے سامنے آئی تھی۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ دُور ہو جاؤ۔ ایک کشفی کیفیت آپؐ پر طاری ہوئی تھی۔ پس وہ یہ کہتی ہوئی دور ہو گئی کہ اگر آپﷺ نے مجھ سے چھٹکارا پا لیا تو کیا ہوا۔ جو لوگ آپﷺ کے بعد آئیں گے وہ مجھ سے کبھی نہیں بچ سکیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پریشانی میں اپنا سر ہلایا اور غمزدہ آواز میں فرمایا لوگو! مجھے بھی اس شہد سے ملے پانی کی وجہ سے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں اس دنیا نے مجھے آ گھیرا نہ ہو اس لیے میں سسکیاں بھر کر رویا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button