خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 28؍ اپریل 2023ء

’’ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کے واسطے مامور کئے گئے ہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

انبیاء کی جماعتوں کا کام صبر اور قانون کی پابندی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تو جماعت کو بےشمار جگہ صبر کی تلقین فرمائی ہے، دعا کی تلقین فرمائی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ جن کے پاؤں نازک ہیں اور میرے ساتھ ان خاردار اور پتھریلے راستوں پر چل نہیں سکتے اور صبر کی طاقت نہیں رکھتے وہ بےشک مجھے چھوڑ دیں

یہ صبر ہی تو ہے جو دنیا میں جماعت کی انفرادیت قائم کیے ہوئے ہے

ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے جنہوں نے امن قائم رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لیے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ تم نے صبر سے کام لینا ہے

صبر انبیاء کی جماعتوں کے اہم ترین اور اوّلین فرائض میں سے ہے جس کے بغیر کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور نہ دنیا کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتی ہے

مستقل مزاجی سے اپنے اندرونے کی صفائی کرنا اصل صبر ہے اور جو ایسے لوگ ہوں پھر اللہ تعالیٰ ان کی مدد کے لیے ایسی جگہوں سے آتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا

یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہ ہو ،کسی دنیاوی خوف کی وجہ سے نہ ہو بلکہ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے ہو تو پھر ہی وہ حقیقی صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے

سنت انبیاء اور انبیاء کی جماعتوں کی سنت یہ ہے کہ وہ صبر اور دعا سے کام لیتے ہیں جیساکہاللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔ رسول کا بھی حکم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تعلیم بھی یہ دی تھی

یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے جماعت کے وسیع تر مفادات کے لیے عارضی اور چھوٹی تکلیفوں کو صبر سے برداشت کرنا ہے

’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتاہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کرلیتا ہے۔ ‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات مبارکہ کی روشنی میں مشکلات اور تکالیف پر صبرکرنےکی نصیحت

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 28؍اپریل 2023ءبمطابق 28؍شہادت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں اور اس پر بڑی پُرزور اپنی دلیلیں بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جماعت کے حالات پر جیساکہ پاکستان میں یا بعض اَور جگہ پر ہیں ہمیں صرف صبر دکھانے کی بجائے کچھ ردّعمل دکھانا چاہیے۔ بہت صبر ہو گیا۔ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثالیں دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں اس طرح جماعت نے ردّعمل دکھایا اور بعض جگہ جماعت کو ردّعمل کی آپؓ نے اجازت دی۔ یہ بالکل غلط باتیں ہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ ہاں ان باتوں کو غلط سمجھا گیا ہے۔ بعض واقعات شاید سامنے آئے ہوں، کسی نے پڑھے ہوں لیکن غلط سمجھا ہے۔ ہاں آپؓ نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بعض کارروائیاں کیں لیکن یہ نہیں کہ بلا سوچے سمجھے بلوائیوں کے جلوسوں کی طرح جلوس لے کر نکل آنے کی اجازت دے دی اور پھر اگر یہ کہیں کہ کوئی احتجاج کسی صورت میں ہوا تو وہ خلیفہ وقت کی اجازت کے ماتحت تھا، نہ کہ ہر افسر اپنے طور پہ اپنے لوگوں کو اکٹھا کر کے احتجاج شروع کر دے۔ بہرحال تقسیمِ ملک سے پہلے جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور بعض انگریز افسروں نے اور دوسرے ہمارے مخالف افسروں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریروں کو اشتعال انگیز تقریریں کہہ کر یا ان کا رنگ دے کر پھر آپؓ پر ہاتھ ڈالا جائے لیکن ہر دفعہ اس لیے ناکام ہوتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ مخالفین اور حکومت کے افسران کو ان کا چہرہ دکھا کر ہمیشہ جماعت کو یہ آخر پر فرمایا کرتے تھے کہ

انبیاء کی جماعتوں کا کام صبر اور قانون کی پابندی ہے

اور اس کا اعتراف خود اس وقت کے مخالف افسران نے کیا کہ تقریر کے دوران جب ہم سمجھتے تھے کہ آج ہاتھ ڈالنے کا موقع آئے گا، بغاوت اور امن برباد کرنے کی دفعات لگا کر ہم پکڑنے کی کوشش کریں گے، لیکن جب تقریر کا اختتام ہوتا تھا تو بالکل اَور رنگ میں جماعت کو نصیحت فرماتے اور ان کاموں سے منع فرماتے تھے جو قانون کے دائرے سے باہر ہیں اور پھر ان مخالف افسران کے منصوبوں پر پانی پھر جاتا تھا اور یہ ہو بھی کس طرح سکتا تھا کہ آپؓ کوئی ایسی بات کریں جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بالکل خلاف ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تو جماعت کو بےشمار جگہ صبر کی تلقین فرمائی ہے، دعا کی تلقین فرمائی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ جن کے پاؤں نازک ہیں اور میرے ساتھ ان خاردار اور پتھریلے راستوں پر چل نہیں سکتے اورصبر کی طاقت نہیں رکھتے وہ بےشک مجھے چھوڑ دیں۔

(ماخوذ از انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23-24)

یہ صبر ہی تو ہے جو دنیا میں جماعت کی انفرادیت قائم کیے ہوئے ہے۔

کئی سیاستدان اور میڈیا والے مجھ سے بھی پوچھتے ہیں۔ میں ان کو اکثر دفعہ یہ جواب دیتا ہوں کہ جو لوگ ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں اور ظلم کر رہے ہیں ان لوگوں میں سے ہی ہم احمدی بھی آئے ہیں اور اس ظلم کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان لوگوں میں سے لوگ آ بھی رہے ہیں۔ ہمارے مزاج بھی ویسے ہی تھے جیسے ان لوگوں کے ہیں۔ ہم بھی ان جیسا ردّ عمل دکھا سکتے ہیں لیکن

ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے جنہوں نے امن قائم رکھنے اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لیےہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ تم نے صبر سے کام لینا ہے۔

ہاں قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جو کوشش کر سکتے ہو وہ کرو۔ بعض دفعہ بعض معاملات کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے بھی خدا تعالیٰ پر چھوڑنے کی تلقین فرمائی ہے کہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑو اور فرمایا خدا تعالیٰ خود ہماری مدد کو آئے گا اور وہ آیا۔ پس واضح ہونا چاہیے کہ یہ انبیاء کی تاریخ ہے اور یہی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم ہے کہ ہم نے صبر سے کام لینا ہے۔ بہرحال اس جواب پر

لوگ حیران بھی ہوتے ہیں اور سراہتے بھی ہیں کہ یہ امن سے رہنے والوں کا حقیقی ردّعمل ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے بات کرنے والوں کے لیے مزید کھول کر آپؓ کے خطبہ کی روشنی میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ اس خطبہ میں آپؓ نے صبر کے معنی بڑی تفصیل سے بیان فرمائے، روشنی ڈالی بلکہ اس کے بعد ایک سلسلہ ٔخطبات اعلیٰ اخلاق کا بھی شروع کیا اور اس کو بھی صبر کے مضمون کے ساتھ جوڑا۔ بہرحال اس خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں بعض باتیں بیان کروں گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مختلف مواقع پر ارشادات جو آپؓ نے فرمائے جو

صبر سے متعلق

باتوں کے متعلق ہیں وہ حوالے پیش کروں گا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر کو ایک انتہائی اہم چیز قرار دیا اور فرمایا کہ

یہ انبیاء کی جماعتوں کے اہم ترین اور اوّلین فرائض میں سے ہے جس کے بغیر کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی اورنہ دنیا کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتی ہے

اور کوئی جماعت ایسی نہیں گزری جس نے اس فرض کی ادائیگی کے بغیر کامیابی کا منہ دیکھا ہو۔

صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔

آپؓ نے تفسیر میں بھی یہ وضاحت فرمائی۔ آپؓ نے بعض آیات کی تفسیر میں اس کو بیان فرمایا ہے۔ ایک صبر یہ ہے کہ انسان کو کسی ردّعمل کی طاقت ہو اور پھر وہ صبر دکھائے اور دوسرے اس وقت کا صبر ہے جب اس کو مقابلے کی طاقت ہی نہ ہو۔ وہ صبر ہے مجبوری کا صبر۔

طاقت ہوتے ہوئے تو صبر یہی ہے کہ فتنہ و فساد کرنے والوں کا یا ظلم کرنے والوں کا جواب نہ دینا۔

جیسا مخالفین سلوک کر رہے ہیں اس طرح کا ردعمل نہیں دکھانا اور انتہائی صبر کا اللہ تعالیٰ کی خاطر مظاہرہ کرنا۔ اور طاقت نہ ہوتے ہوئے بھی صبر ہے جو آسمانی آفات پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر شکر کرنا ہے۔ بہرحال اردو میں تو صبر صرف یہی ہے کہ خاموش ہو جاؤ، صبر ہو گیا لیکن عربی میں اس کے بڑے وسیع معنی ہیں۔ جب ہم عربی میں معنی دیکھیں تو صحیح سمجھ آتی ہے کہ صبر کے حقیقی معنی کیا ہیں اور کس طرح کا صبر ایک مومن کو دکھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مختلف جگہوں پر صبر کی تلقین فرمائی ہے اور جو صبر کے لفظ کے حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے لغت میں بیان ہوئے ہیں اس کے مطابق

صبر کے تین معنی ہیں۔

نمبر ایک یہ کہ گناہ سے بچنا اور اپنے نفس کو اس سے روکنا۔ دوسر ایہ کہ نیک اعمال پر استقلال سے قائم رہنا اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ جزع فزع سے بچنا۔ یہی معنی عموماً اردو میں لیے جاتے ہیں۔

پس پہلے معنی کی رو سے متواتر اور استقلال کے ساتھ ان بدیوں کا مقابلہ کرنا انسان کا کام ہے جو اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اور پھر ان بدیوں کے مقابلے کے لیے بھی تیار رہنا جو آئندہ اسے اپنی طرف کھینچ سکتی ہیں۔ پس یہ صبر اتنا ہی نہیں کہ یہ کہہ کر کہ ہم بڑے صابر ہیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں بلکہ

مستقل مزاجی سے اپنے اندرونے کی صفائی کرنا اصل صبر ہے اورجو ایسے لوگ ہوں پھر اللہ تعالیٰ ان کی مدد کے لیے ایسی جگہوں سے آتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

مخالفین تو یہ چاہتے ہیں کہ ہم صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں اور ان جیسی حرکتیں کریں تا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم نے عقل سے کام لینا ہے، اپنے اندر جھانکنا ہے کہ کیا تم جو باتیں کر رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہیں کہ نہیں اور اس کے مطابق کام کرنا ہے۔

دوسرے معنی کی رو سے یہ وضاحت ہو گی کہ انسان استقلال کے ساتھ اُن نیکیوں پر قائم رہے جو اسے حاصل ہو چکی ہیں اور اُن نیکیوں کے حصول کے لیے کوشش کرے جو اسے ابھی نہیں ملیں۔ یہ بھی صبر کی ایک قسم ہے۔ یہ بھی حقیقت میں ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہے اور یہ قرب ظاہر ہے، ظاہری اظہار کے ساتھ دعاؤں سے مل سکتا ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِيْنَ (البقرۃ:46)اور صبر اور دعا کے ذریعہ سے اللہ سے مدد مانگو اور بےشک فروتنی اختیار کرنے والوں کے سوا دوسروں کے لیے یہ امر مشکل ہے۔ جو اللہ کا خوف رکھنے والے ہوں، عاجزی دکھانے والے ہوں وہی ایسے صبر کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا ہو۔

پھر آگے ایک دوسری جگہ فرمایا کہ وَ الَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً وَّ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد:23)اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثابت قدمی سے کام لیا ہے اور نماز کو عمدگی سے ادا کیا ہے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے چھپ کر بھی اور ظاہر بھی ہماری راہ میں خرچ کیا ہے اور جو بدی کو نیکی کے ذریعہ سے دُور کرتے رہتے ہیں، انہی کے لیے اس گھر کا بہترین انجام مقدر ہے۔ اور یہ گھر، یہ دنیا تو عارضی ہے، یہاں تو مشکلات ہیں۔ جو انجام کار گھر ہے جو آخری گھر ہے وہ ایسے لوگوں کو ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔

پس صبر مستقل مزاجی، عاجزی اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کا نام ہے

اور یہ اس وقت ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق کریں گے اور اپنی زندگیوں کو گزاریں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہو گا۔ اور پھر جیساکہ بیان ہوا ہے ایک مطلب صبر کا جزع فزع نہ کرنا بھی ہے۔ ظاہری ابتلا، بیماری یا مالی نقصان یا کوئی مشکل آئے تو نہ ہی گھبرانا ہے نہ شکوے کے رنگ میں شورمچانا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا کر دیا۔ یہ چیزیں بے صبری کی علامت ہیں۔

اللہ تعالیٰ پر شکوہ بالکل غلط چیز ہے۔ ہمیشہ یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ جو کچھ میرے پاس ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کےرنگ میں ہے۔ آج اللہ تعالیٰ نے لیا ہے تو کل اَور دے دے گا۔ پس یہ سوچ رکھنے والے حقیقی مومن ہیں اور یہی صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی صابر بھی ہیں۔

پس یہ تین معنی ہیں صبر کے۔ لیکن

یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہ ہو، کسی دنیاوی خوف کی وجہ سے نہ ہو بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے ہو تو پھر ہی وہ حقیقی صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے۔

اگر کوئی شخص بڑے افسروں کے سامنے یا بادشاہ کے سامنے اس کے ظلم کی وجہ سے اس لیے خاموش رہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صبر کر رہے ہیں تو یہ حقیقی صبر ہے اور اگر زندگی کے خوف سے ہے تو یہ غلط چیز ہے۔

ہم جو صبر کی تلقین کرتے ہیں صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔

اگر بدلہ ہی لینا ہے تو کئی احمدی جوش میں بھرے بیٹھے ہوں گے کہ ہمیں اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہے۔ ہم بدلہ لے کر ایک دفعہ ان ظالموں کو مزہ چکھا سکتے ہیں اور چکھا دیں گے لیکن یہ ہم نہیں کریں گے۔ یہ تعلیم کے خلاف ہے جو ہمیں دی گئی ہے اور

ہم ایسی حرکت سے کراہت کرتے ہیں کیونکہ یہ انبیاء کی جماعتوں کا شیوہ نہیں ہے

اور ہم نے بیعت کے عہد میں بنی نوع انسان کو ہر شر سے محفوظ رکھنے کا عہد بھی کیا ہوا ہے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے ان باتوں سے روکا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر کے ضمن میں ایک یہ وضاحت بھی فرمائی کہ یہ یاد رکھو کہ تمہارے عمل سے صبر اور بےغیرتی میں فرق واضح نظر آنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ضرورت کے لیے کسی شخص سے رقم مانگنے جائے اور دوسرا شخص اُسے برا بھلا کہے اور بے حیا کہے اور بے شرم کہے، بہت بے عزتی کرے اور مانگنے والا ہنس کر اس کی بات کو ٹال دے اور خیال کرے کہ اس وقت میں ضرورت مند ہوں اس لیے مجھے اس کی گالیاں بھی سن لینی چاہئیں تو یہ بے حیائی اور بے غیرتی ہے لیکن کبھی قومی اور مذہبی اغراض کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے، خاموش بھی رہنا پڑتا ہے اور یہ صبر نفسانی اغراض کے لیے نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ حقیقی صبر ہے اور بےغیرتی نہیں ہے مثلاً کسی ایسی جگہ پر جہاں اس کے بدلہ لینے کی وجہ سے اس کی قوم پر کوئی مصیبت آتی ہے وہاں اگر وہ حملہ کرتا ہے اور صبر نہیں کرتا تو اسے بیوقوف کہیں گے کیونکہ اس طرح وہ اپنی قوم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس

جب وہ اپنی قوم کے نفع کے لیے بدلہ نہیں لیتا یا دنیا کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے صبر کرتا ہے تو اس کا یہ صبر،صبر کہلائے گا۔

پس یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے۔ بعض لوگ بڑے جوش میں آ جاتے ہیں کہ فلاں شخص کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے تو اجتماع کرو اور جلوس نکالو۔ تو یہ سب چیزیں غلط ہیں۔ دشمن تو یہ چاہتا ہے کہ اس طرح کا ردّ عمل ہو تا کہ ہم مزید سختیاں کریں۔ ان افسران سے مل کر جو پہلے ہی ہمارے خلاف ہیں ان احمدیوں کو قابو میں کریں۔ ان کے نظام پر مزید پابندیاں لگانے کی کوشش کریں یا اس کا حکومت سے مطالبہ کریں جبکہ حکومت کے بعض افسران بھی خاص طور پہ بلکہ اکثریت خلاف ہو۔ اس وقت جبکہ حکومت کے بعض افسران ان کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں اور پھر ایسے موقعوں پر منافقین بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہاں ایسے موقعوں پر اس طرح کا ردّعمل جب ہوا تو ہم نے دیکھا کہ حالات خراب ہوئے۔ ہوں گے بھی اور یہ تجربہ بھی ہے کہ اس طرح کے موقعوں پر جب اس طرح ردعمل ظاہر ہوا تو حالات خراب بھی ہوئے۔ بعض ایسے واقعات جماعت کی تاریخ میں ہیں جس کا فائدہ کے بجائے نقصان ہوا اور جب صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو بہتر کرنے کی قانونی کوشش کی گئی ،گو ہر جگہ تو سو فیصد نہیں لیکن بہت سی جگہوں پر اس کا فائدہ بھی ہوا۔

یہ پیغام ہم بہرحال پہنچا دیتے ہیں کہ ہم بھی اسی قوم کے ہیں اور غلط ردّعمل کا اظہار ہم سے بھی ہو سکتا ہے یا ہم میں سے کسی شخص سے ہو سکتا ہے لیکن ہم نہیں کرتے۔

یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور آہستہ آہستہ بعض افسران پر اس کا مثبت اثر بھی ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ بعض ایسی باتیں تجربہ میں آئی ہیں۔ اگر ہم گالیوں کے جواب گالیوں اور مار دھاڑ کے جواب مار دھاڑ سے دینا شروع ہو جائیں تو جو زیر تبلیغ ہیں ان پر تو ہم مثبت اثر ڈالنے کی بجائے منفی اثر ڈال رہے ہوں گے۔ پھر ان کو یہ کہنے کا حق ہے کہ مسیح موعودؑ نے آ کر ان میں کیا مثبت تبدیلی پیدا کر دی جوہم ان میں شامل ہو جائیں۔ جیسے ان کے مخالفین کے رویے ہیں ویسے ہی مخالفین کے ساتھ ان کے بھی رویے ہیں۔

سنت انبیاء اور انبیاء کی جماعتوں کی سنت یہ ہے کہ وہ صبر اور دعا سے کام لیتے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے، رسول کا بھی حکم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تعلیم بھی یہ دی تھی۔

پس

یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے جماعت کے وسیع تر مفادات کے لیے عارضی اور چھوٹی تکلیفوں کو صبر سے برداشت کرنا ہے

بلکہ حضرت مصلح موعودؓ نے تو ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ ہمیں بعض دفعہ قانون کا بھی دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سختیاں صبر سے برداشت کرنی چاہئیں۔

بہرحال حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی کتب میں بعض سخت الفاظ استعمال کیے ہیں اس لیے ہم بھی کر سکتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے انبیاء کی اَور شان ہوتی ہے۔ جیسے ہم دنیاوی مثال میں دیکھتے ہیں کہ ایک مجسٹریٹ ہے یا جج ہے جو ملزم کو چور کہتا ہے تو وہ اس کا کام ہے اور اس کا حق ہے اور اس بنیاد پر وہ اس کو سزا دیتا ہے اور اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرتا ہے لیکن ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو چور یا مجرم کہتا پھرے اور اگر وہ کہے گا تو فساد پیدا ہو گا۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لوگوں کی کمزوریاں ظاہر کرکے ان کی نشاندہی فرماتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لیے اور ان کے غلط نظریات سے لوگوں کو بچانے کے لیے یہ کرتے ہیں لیکن جہاں تک آپ علیہ السلام کی ذات کا سوال ہے اپنے بارے میں آپ فرماتے ہیں

گالیاں سن کر دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

اور

ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ دوسروں کی سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلو اور برداشت کرو۔

حضرت مصلح موعودؓ مثال دیتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گاڑی میں بیٹھے جا رہے تھے کہ شہر کے بدمعاش آپؑ پر پتھر پھینکتے جاتے تھے جو آپؑ کی گاڑی پر آ کر لگتے تھے۔ گھوڑا گاڑی تھی، بند تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماتھے پر بل تک نہ پڑتا تھا جو کچھ یہ کررہے تھے۔ کھڑکی توڑ کےبعض پتھر اندربھی آ جاتے تھے اور جو صبر تھا آپؑ کا، اسی کا اثر تھا کہ انہی لوگوں میں سے سینکڑوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ کر داخل ہو جاتے تھے۔ پس

یہ اخلاق ہمیں آج بھی دکھانے ہوں گے۔

اگر کوئی مخالفت میں ذاتی مفاد اور دل کے کینوں اور بغضوں کی وجہ سے بڑھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس سے انتقام لے گا بشرطیکہ ہم صبر کے ساتھ دعا سے بھی کام لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی لوگ آپؐ یا صحابہؓ کے صبر و حوصلہ کو دیکھ کر ہی اسلام لائے تھے اور اس زمانے میں بھی یہ مثالیں ہمیں ملتی ہیں جیساکہ حضرت مصلح موعودؓنے بیان فرمایا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی آپؑ کے صبر کو دیکھ کر لوگ جماعت میں شامل ہوئے۔(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 9 صفحہ 130 تا 140)اور آج بھی اور ابھی بھی ہم دیکھتے ہیں بعض خطوط مجھے مختلف ملکوں سے آتے ہیں کہ بہت سارے لوگ جماعت کی اسی تاریخ کو دیکھ کر جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔

جماعت کو صبر کی تلقین فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’صبر بڑا جوہر ہے۔ جو شخص صبر کرنے والا ہوتا ہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ اس سے تقریر کراتا ہے۔ جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے۔ جو شخص ہمارا مکذب ہے اس پر لازم نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ بولے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ضروری نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ لے۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بہت پائے جاتے ہیں۔

صبر جیسی کوئی شئے نہیں مگر صبر کرنا بڑا مشکل ہے۔

اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ200 ایڈیشن1984ء)

پھر

جماعت کی حالت کا نقشہ کھینچے ہوئے اور نئے آنے والوں کی مشکلات کا ذکر

فرماتے ہوئے صبر کی تلقین کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

’’ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔‘‘ فرمایا ’’میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خد تعالیٰ پر ایمان قوی ہو۔‘‘ ایمان کی مضبوطی کے لیے یہ مشکلات آتی ہیں۔ ’’اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔ پس

یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرواور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔

وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو۔‘‘ صرف یہ نہیں کہ لڑنا نہیں ہے بلکہ ان کے لیے دعا کرو ’’کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔‘‘ پس صرف دنگہ فساد سے نہیں روکا بلکہ دعا کرنے کے لیے کہا۔ ہمدردی دل میں رکھنے کے لیے کہا تا کہ وہ بھی حق کو پہچاننے والے بن سکیں۔ فرمایا ’’تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔

دیکھو! میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ۔‘‘

قرآن شریف کا بھی یہ حکم ہے کہ وہاں سے چلے جاؤ ’’اور نرمی سے جواب دو۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو۔‘‘ایسے مخالفت کرتا ہے جس سے فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ ’’جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اُسے شرم آجاتی ہے۔‘‘ ٹھیک ہے بہت سارے لوگ اس زمانہ میں تو بے شرم ہیں، آگے سے الٹا ظلم بھی کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو شرم آ جاتی ہے۔ ’’اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔‘‘

گذشتہ خطبوں میں میں نے بنگلہ دیش کے واقعات بیان کرتے ہوئے ایک مثال بھی دی تھی کہ بلوائیوں میں سے ایک لڑکے کو جب ہمارے لڑکے نے کہا کہ تمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کیا کر رہے ہو؟کس نام پہ کر رہے ہو؟ پھر جب اس کو سمجھ آ گئی تو اس نے اینٹ پیچھے پھینک دی یا پتھر جو اٹھایا ہوا تھا نیچے پھینک دیا۔ فرمایا

’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتاہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کرلیتا ہے۔

یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔‘‘ بہت بڑی تنبیہ ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ فرمایا ’’نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔‘‘ یہی تمہیں جوش آتا ہے ناں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے گندی گالیاں دیتے ہیں تو تمہیں جوش آ جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’تو اس معاملہ کو خد اکے سپرد کر دو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خد اپر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ مَیں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتاہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بیرنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے۔‘‘ ٹکٹ لگائے بغیر خط بھیج دیتے ہیںتو وہ ڈاک کے ٹکٹ کے پیسے بھی دینے پڑتے ہیں ’’اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے۔ فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں اور میں اعتبار نہیں کرتاکہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو۔‘‘ جیسی گالیاں یہ لوگ دیتے ہیں ایسی تو ابوجہل نے بھی نہیں دی ہوں گی ’’لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔ جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر توشاخ نہیں ہوتی۔‘‘

اپنی ذات کے لیے آپؑ میں صبر کی انتہا تھی جیساکہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی فرمایا تھا کہ اپنی ذات کے لیے انتہا کا صبر ہے۔ اگر سختی کی ہے کہیں جو لوگوں نے کہاکہ جی حضرت مسیح موعودؑ سختی کرتے ہیں تو اصلاح کے لیے ہے اور یہ حق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کو ملا ہے۔ ہر ایک کو یہ حق نہیں ہے اور جب حق نہیں ہے تو پھر اگر ہم ایسی باتیں کریں گے تو اس سے اصلاح کی بجائےفساد پھیلنے کا، بڑھنے کا زیادہ امکان ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔ آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔ ان کی گالیاں ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔‘‘ پس ہم نے بھی نہیں تھکنا۔ ’’اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بےشک میں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا لیکن میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے۔ پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم خود غور کرو کہ ان کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے، ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔‘‘ جماعت جو بڑھ رہی ہے وہ انہی لوگوں میں سے تو آ رہے ہیں۔ ’’اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پید ا ہو گئی۔‘‘

اس زمانے میں جب آپؑ نے یہ بات فرمائی اس وقت جماعت کی تعداد آپؑ نے بتائی کہ دو لاکھ ہے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں آپؑ کا پیغام پہنچ چکا ہے اور جماعت قائم ہے۔ کیا کسی ردّعمل اور طاقت کے اظہار سے یہ ہوا ہے؟ نہیں بلکہ قربانیوں اور صبر اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

پس اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں صبر کا مظاہرہ کرتے رہنا ہوگا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اَور سے؟ انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٰ کفر کی کیا تاثیر ہوئی؟ جماعت بڑھی۔ اگر یہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پیدا کر دیتا لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اسے پامال کرسکے۔ جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔

میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آرہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رک جاوے۔‘‘

پانی کا ایک flowآ رہا ہے دریا کی صورت میں۔ وہ اپنا ہاتھ رکھ کے سمجھتے ہیں کہ پانی رک جائے گا ’’مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رک نہیں سکتا۔ یہ ان گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رکے گا۔ کیا شریف آدمیوں کاکام ہے کہ گالیاں دے۔ میں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بیباکی سے زبان کھولتے ہیں۔‘‘ پاکستان میں تو ان کے جلوس عجیب عجیب گالیاں نکال رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑھے چمار سے بھی نہیں سنی ہیں جو ان مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں۔‘‘فرماتے ہیں ’’ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی حالت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ گالیوں سے صرف ان کی اپنی حالت کا اظہار ہو رہا ہے کہ ان کے ذہن کیسے ہیں، ان کے عمل کیسے ہیں۔’’اور اعتراف کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے۔(آمین)‘‘ پھر فرمایا کہ ’’ایسے گالیاں دینے والے خواہ ایک کروڑ ہوں خدا تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ جانتے ہیں کہ ایک پیسہ کا کارڈ ہی ضائع ہو گا مگر نہیں جانتے کہ اس پیسہ کے نقصان کے ساتھ نامۂ اعمال بھی سیاہ ہو جائے گا۔‘‘ کارڈ میں جو گالیاں لکھتے ہیں تو اپنے نامۂ اعمال کو بھی سیاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ’’پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گالیاں دی کیوں جاتی ہیں۔ کیا صرف اس لئے کہ میں کہتاہوں کہ قرآنِ شریف کو نہ چھوڑو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہ کرو۔ غضب کی بات ہے کہ قرآنِ شریف میں لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور پھر زمین پر نہیں آئیں گے مگر یہ ماننے میں نہیں آتے اور اس عقیدۂ مخالفتِ قرآن پر اڑتے ہیں۔ اگر میں نہ آیا ہوتا اور خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم نہ کیا ہوتا تو یہ جو کچھ چاہتے کہتے کیونکہ ان کو بیدار کرنے والا اور آگاہ کرنے والا ان میں موجود نہ تھا۔ لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے اور میں وہی ہوں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم قرار دیا ہے تو پھر میرے فیصلہ پر چون وچرا کرنا ان کا حق نہیں تھا۔ طریق تقویٰ تو یہ تھا کہ میری باتوں کو سنتے اور غور کرتے۔ انکار کے لئے جلدی نہ کرتے۔

میں سچ سچ کہتاہوں کہ میرے آنے کے بعد ان کا حق نہیں ہے کہ یہ زبان کھولیں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور حَکَمہو کر آیا ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد7صفحہ203تا206 ایڈیشن 1984ء)

پھر

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جس صبر کا معیار قائم کیا اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔

اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل نے ان کو فوراً فوراً قبول کر لیا تھا۔ اس لیے قوم کی طرف سے کوئی دکھ اور مصیبت یا روک ان کو پیش نہیں آئی۔‘‘ حضرت موسیٰ کو اپنی قوم کی طرف سے تو کوئی دکھ نہیں پیش آیا۔ فرعون کی طرف سے آیا تھا ’’لیکن برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ہی قوم سے مشکلات اور انکار کا مرحلہ پیش آیا۔ پھر ایسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں کیسی اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوئی ہیں جو آپؐ کے کمالات اور فضائل کا سب سے بڑھ کر ثبوت ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کے اِذن و امر سے تبلیغ شروع کی تو پہلے ہی آپؐ کو یہ مرحلہ پیش آیا کہ قوم نے انکار کیا۔ لکھا ہے کہ جب آپؐ نے قریش کی دعوت کی اور سب کو بلا کر کہا کہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جواب دو۔ یعنی میں اگر تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑی بھاری فوج پڑی ہوئی ہے اور وہ اس گھات میں بیٹھی ہوئی ہے کہ موقع پاکر تمہیں ہلاک کر دے تو کیا تم باور کرو گے۔ سب نے بالاتفاق کہا کہ بےشک ہم اس بات کو تسلیم کریں گے۔ اس لئے کہ تُو ہمیشہ سے صادق اور امین ہے۔ جب وہ یہ اقرار کر چکے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو! میں سچ کہتا ہوں کہ میں خد اتعالیٰ کا پیغمبر ہوں اور تم کو آنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ اتنی بات کہنی تھی کہ سب آگ ہو گئے اور ایک شریر بول اٹھا۔ تَبًّا لَکَ سَائِرَالْیَوْمِ‘‘یعنی آپؐ کے لیے نعوذ باللہ ہلاکت کے الفاظ کہے۔فرمایاکہ ’’افسوس جو بات ان کی نجات اور بہتری کی تھی ناعاقبت اندیش قوم نے اس کو ہی بُرا سمجھا اور مخالفت پر آماد ہ ہو گئے۔ اب اس کے بالمقابل موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو دیکھو۔ بنی اسرائیل باوجود یکہ ایک سخت دل قوم تھی لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ پر فوراً ہی اس کو قبول کر لیا اور اس طرف موسیٰ علیہ السلام سے افضل کو قوم نے تسلیم نہ کیا۔‘‘ آپؑ مزید آگے بیان کرنے کے لیے حضرت موسیٰ کی قوم کی مثال دے رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ کو تو انہوں نے تسلیم کر لیا لیکن حضرت موسیٰ سے جو افضل نبی تھے ان کو تسلیم نہیں کیا۔ ’’اور مخالفت کے لئے تیار ہو گئے۔ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ ’’مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔‘‘ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ ’’آئے دن قتل کے منصوبے ہونے لگے اور یہ زمانہ اتنا لمبا ہوگیا کہ تیرہ برس تک برابر چلا گیا۔ تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔ اس عرصہ میں آپؐ نے جس قدر دکھ اٹھائے ان کابیان بھی آسان نہیں ہے۔ قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذارسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی۔‘‘ ادھر تکلیفیں ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے صبر کرو اور مستقل مزاجی سے قائم رہو۔ یہی صبر کے حقیقی معنی ہیں ’’اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے تُو بھی صبر کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا۔ اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر پہلے نبیوں کا سانہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لیے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حدتک محدود ہوتی تھیں لیکن اس کے مقابلہ میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اوّل تو اپنی ہی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف ہو گئی اور ایذارسانی کے درپے ہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔

جب ان کوسنایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ایک خد اکے بندے اور رسول تھے تو ان کو آگ لگ گئی کیونکہ وہ تو ان کو خدا بنائے بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر حقیقت کھول دی۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جس کو خدا بنا لیتا ہے اور اپنا مبعود مانتا ہے اس کا ترک کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ پھر ا س کو چھوڑنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ عیسائیوں کا یہ اعتقاد پختہ ہو گیا ہوا تھا۔ اس لئے جب انہوں نے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مصنوعی خدا کو انسان بنا دیا تو وہ دشمنِ جان بن گئے۔‘‘ ایک طرف اپنی قوم دشمن،کافر دشمن، بت پرست دشمن پھر عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔ ’’اور اسی طرح پر یہودیوں میں بہت سی مشرکانہ رسومات پیدا ہو گئی تھیں۔‘‘ پھر آگے یہودیوں کا ذکر آ گیا۔ ان میں مشرکانہ رسومات پیدا ہو گئی تھیں ’’اور وہ حضرت مسیح کا بالکل انکار کرتے تھے۔‘‘ حضرت عیسیٰؑ کےماننے کے لیے تیار نہیں تھے ’’جب ان کو متنبہ کیا گیا تو وہ بھی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘ اب یہودی بھی، عیسائی بھی، مشرک بھی، دوسرے مذاہب والے بھی سب مخالف ہو گئے کیونکہ یہودی ’’وہ تو حضرت مسیح کو معاذ اللہ مکار اور کذاب کہتے تھے۔ بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ تم ان کو کذاب کہنے میں خود کذاب ہو۔ وہ خد اتعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی ہے۔اس کے علاوہ ان کی مخالفت کی ایک بڑی بھاری وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنی بے وقوفی اور کم فہمی سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے آئے گا کیونکہ توریت میں جیساکہ سنت اللہ ہے۔ آخری نبی کے متعلق جو پیشگوئی ہے وہ ایسے الفاظ میں ہے جس سے ان کو یہ شبہ پیدا ہو گیا تھا۔ وہاں لکھا ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے۔ وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی لئے بیٹھے تھے حالانکہ اس سے مراد بنی اسماعیل تھی۔ پس جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سنا کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں تو ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا اور جو کچھ وہ توریت کی اس پیشگوئی کے موافق سمجھے بیٹھے تھے وہ غلط قرار دیا گیا۔ اس سے ان کے آگ لگی اور وہ مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘

(ملفوظات جلد7صفحہ198تا200 ایڈیشن 1984ء)

ایک احمدی کسی گاؤں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے گاؤں میں مولوی کی مخالفت کا ذکر کیا اور دعا کے لیے کہا اور یہ ’’عرض کی کہ میرے گاؤں میں ایک مولوی جو مدرسہ میں ملازم ہے سخت مخالف ہے اور مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔ حضور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس کی تبدیلی وہاں سے کر دے۔ حضرت اقدس نے اس موقعہ پر تبسم فرمایا‘‘ مسکرائے ’’اور پھر اسے اس طرح سمجھایا‘‘فرمایا’’کہ

اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو۔

پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ برس دکھ اٹھائے۔ تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں مگر آپؐ نے صحابہؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی۔ آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے۔ اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خداتعالیٰ ان کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے۔ کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں۔ صبر بھی ایک عبادت ہے خداتعالیٰ فرماتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ صبر بھی ایک عبادت ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یعنی ان پر بے حساب انعام ہوں گے۔ یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔ دوسری عبادت کے واسطے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے۔ صبر جیسی کوئی شئے نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ234-235 ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک موقع پر کچھ لوگ جو بیعت کی غرض سے قادیان آئے ہوئے تھے ان کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:’’دنیوی لوگ اسباب پر بھروسہ کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس بات کے لیے مجبور نہیں ہے کہ اسباب کا محتاج ہو۔ کبھی چاہتا ہے تو اپنے پیاروں کے لئے بلا اسباب بھی کام کر دیتا ہے اور کبھی اسباب پیدا کر کے کرتا ہے اور کسی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنے بنائے اسباب کو بگاڑ دیتا ہے۔ غرض اپنے اعمال کو صاف کرو اور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرو اور غفلت نہ کرو۔ جس طرح بھاگنے والا شکار جب ذرا سست ہو جاوے تو شکاری کے قابو میں آجاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کرنے والا شیطان کا شکار ہو جاتا ہے۔ توبہ کو ہمیشہ زندہ رکھو اور کبھی مردہ نہ ہونے دو۔‘‘ کبھی بغیر توبہ کے نہ رہو ہمیشہ توبہ کرتے رہو ’’کیونکہ جس عضو سے کام لیا جاتا ہے وہی کام دے سکتا ہے اور جس کو بیکار چھوڑ دیا جاوے پھر وہ ہمیشہ کے واسطے ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح توبہ کو بھی متحرک رکھو تا کہ وہ بیکار نہ ہو جاوے۔

اگر تم نے سچی توبہ نہیں کی تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو پتھر پر بویا جاتا ہے۔ اور اگر وہ سچی توبہ ہے تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لاتا ہے۔

آج کل اس توبہ میں بڑی بڑی مشکلات ہیں۔‘‘ ان نئے بیعت کرنے والوں کو فرمایا کہ ’’اب یہاں سے جا کر تم کو بہت کچھ سننا پڑے گا اور لوگ کیا کیا باتیں بنائیں گے کہ تم نے ایک مجذوم، کافر، دجال وغیرہ کی بیعت کی۔‘‘ گالیاں دیں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو۔ ’’ایسا کہنے والوں کے سامنے جوش ہرگز مت دکھانا۔‘‘ ایسا کہنے والوں کے سامنے جوش ہرگز مت دکھانا۔

’’ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کے واسطے مامور کئے گئے ہیں۔‘‘

پس یہ باتیں ہیں جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس لئے چاہئے کہ تم ان کے لئے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس کام کے لیے مامور کیے گئے ہیں وہ صبر ہے پس ہماری بھی کامیابی اسی میں ہے کہ آپؑ کے نقش قدم پر چلیں۔

فرمایا ’’…ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار توبہ۔‘‘ ردعمل نہیں۔ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ویسا ردعمل نہیں ہے بلکہ

’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدنظررکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔

نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے جب نماز پڑھوتو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو۔ اور ہرایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو۔‘‘(ملفوظات جلد5 صفحہ303 ایڈیشن 1984ء)ہر بدی سے بچو۔

پس یہ وہ نصائح ہیں جو ہماری کامیابی اور ترقی کی بنیادہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق اگر ہم صحیح رنگ میں استغفار، توبہ، دینی علوم سے آگاہی اور پانچ وقت کی نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہیں گے تو ہماری کامیابی ہے۔ دشمن جتنا شور و فغاں میں بڑھ رہا ہے اتنا ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا ہو گا۔ یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔ اسی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار تلقین فرمائی ہے۔ نہ کہ کسی قسم کے ردّعمل دکھانے کی۔ ہماری کامیابی بہرحال مقدر ہے جیساکہ آپؑ نے فرمایا۔ ان شاء اللہ۔

ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حکمت سے ہم نے اپنے کام کو بھی جاری رکھنا ہے۔ بہت سے کام حکمت سے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے حکمت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہر احمدی اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لے تو بہت سے مسائل کا حل ہمارے رویّوں اور دعاؤں سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر عطا فرمائے اور دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کے لیے ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button