خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مئی۲۰۲۳ء

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں عدل، احسان اور ایتائےذی القربیٰ کی پُر معارف تشریح

٭… حقوق اللہ اور حقوق العباد کي ادائيگي ہي وہ راستہ ہے جو معاشرے اور دنيا بھر کے امن کي ضمانت ديتا ہے

٭… ايسي پاک تعليم نہ ہم نے توریت ميں ديکھي ہے اور نہ انجيل ميں۔ ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ايسي پاک اور مکمل تعليم کا نام ونشان نہيں

٭… ہمارا فرض ہے کہ اللہ تعاليٰ سے تعلق کے معيار حاصل کرنے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے ليے کوشش کريں

٭… پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۵؍مئی ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ،سورة الفاتحہ اورسورۃ النحل کی آیت ۹۱کی تلاوت و ترجمہ پیش کرنے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ

یہ آیت ہر جمعے اور عیدین کے خطبہ ثانیہ میں پڑھی جاتی ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں بعض نیکیوں کے کرنے اور بعض برائیوں سے بچنے کا ذکر کیا گیا ہے، حقیقی مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور ارشادات پر عمل کرے۔ اس آیت میں جن نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی عدل، احسان اور ایتاءِ ذی القربیٰ ان کے حوالے سے آج مَیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کروں گا۔ تمام ارشادات بظاہر ایک ہی محور کے گرد گھوم رہے ہیں تاہم آپ علیہ السلام نے مختلف رنگ میں نصائح فرمائی ہیں۔

یہ ارشادات ہمیں ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق گزارنے کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔ اگر ہم ان ارشادات پر غور کریں اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں تو یقیناً ہم اللہ تعالیٰ سے بھی اپنا تعلق مضبوط کرسکتے ہیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی بڑے احسن انداز میں کرسکتے ہیں۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہی وہ راستہ ہے جو معاشرے اور دنیا بھر کے امن کی ضمانت دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ دنیا اس طرف توجہ نہیں دے رہی اور خواہ مسلمان ممالک ہوں یا باقی دنیا سب ایک دوسرے کے حقوق تلف کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایسے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو، یعنی حق اللہ اور حقوق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہوسکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو۔ یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو۔ حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت کا سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہوسکے تو ایسے بے علّت و بےغرض ہو کر خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت کرو جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔

پھر اس آیت کی روشنی میں خدا تعالیٰ کے حقوق کو مزید کھول کر بیان کرتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جیسا کہ درحقیقت بجز خدا کے کوئی پرستش کے لائق نہیں، کوئی بھی محبت کے لائق نہیں، کوئی بھی توکل کے لائق نہیں، کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت اور ربوبیتِ خاصّہ کے ہر حق اسی کا ہے۔ اگر تم نے اس قدر کرلیا تو یہ عدل ہے، جس کی رعایت تم پر فرض ہے۔ پھر اگر اس سے ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متأدب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت و جلال اور حسنِ لازوال کو دیکھ لیا ہے۔بعد اس کے ایتاءِ ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلف اور تصنع دُور ہو جائے اور تم ایسے جگری تعلق سے اسے یاد کرو جیسے مثلاً تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتا ہے۔

پھر حقوق العباد کے متعلق اس آیت کے معانی بیان کرتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ ان سے کچھ تعرض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو۔ اگر اس درجے سے ترقی کرنا چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل پر نیکی کرے۔ اس کے آزار کے عوض میں تم اس کو راحت پہنچاؤ اور مروت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔ پھر بعد اس کے ایتائے ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یا جس قدر بنی نوع کی خیرخواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو، بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو۔ جیسے شدتِ قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔

سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدعا یا غرض درمیان میں نہ ہو بلکہ اخوت و قرابتِ انسانی کا جوش اعلیٰ درجے پر نشوونما پاجائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلف کے اور بغیر کسی پیش نہاد شکر گزاری رکھنے یا دعا یا کسی اور قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔

پھر ایک موقعے پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کردیے اور تیسرے مرتبے کو محبتِ ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراضِ نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھرجاتا ہے جیسے ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسی مرتبے کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے کہ یعنی مومن لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضائے الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں پر ہی مہربان ہے۔ پھر فرمایا یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کردیں اور اس کی نعمتوں کے تصوّر سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم کرتے ہیں۔ یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور خدا کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روٹی کھلانے سے ہم کوئی بدلہ اور شکر گزاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے۔ ان تمام خدمات سے خدا کاچہرہ ہمارا مقصد ہے۔ اب سوچنا چاہیے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادتِ الٰہی اور اعمالِ صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبتِ الٰہی اور رضائے الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے۔

فرمایا خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم نوعِ انسان سے عدل سے پیش آیا کرو۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوقِ خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتے دار ہو

جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کرسکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو۔

یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے۔

خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کرکے اس کی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسے یقین کرلینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور خدا سے ایتائی ذی القربیٰ یہ ہے کہ اس کی عبادت نہ تو بہشت کی طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے غیر مذہب والوں کو اسلام کی تعلیم بتاتے ہوئے یہ مضمون بعض جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔اسی طرح اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے بھی یہ مضمون وضاحت کے ساتھ سمجھایا ہے۔

ایک موقعے پر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ عدل کی حالت یہ ہے کہ جو متقی کی حالت نفسِ امارہ کی صورت میں ہوتی ہے اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے۔ اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے، نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اسے دبا لوں، اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جاوےتو اس میں نفس اور بھی دلیر ہوجاتا ہے کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں ہے۔ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دَین واجب ادا کیا جائے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔ فرمایا: مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں بہت کم توجہ کرتے ہیں، یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس

تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہیے کیونکہ یہ امرِالٰہی کے خلاف ہے۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے، اور نہ انجیل میں۔ ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام ونشان نہیں۔

فرمایا:خدا تعالیٰ نے ان ساری ایصال خیر کی قسموں کو محل اور موقع سے وابستہ کردیا ہے اور آیتِ موصوفہ میں صاف فرما دیا کہ اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل اور موقع پر صادر نہ ہوں گی تو پھر یہ بدیاں بن جائیں گی۔ عدل فحشاء بن جائے گا یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ ناپاک صورت ہو جائے اور ایسا ہی احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی۔ یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے اور بجائے ایتائے ذی القربیٰ کے بغی بن جائے گا یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بری صورت پیدا کرے گا۔ اصل میں بغی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کردے اور حق واجب میں کمی رکھنے کو بغی کہتے ہیں یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی بغی ہے۔ غرض ان تینوں میں سے جو بھی اپنے محل پر استعمال نہ ہوگا وہی خراب سیرت ہوجائے گی۔ اس لیے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگادی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور مجالس میں اس حوالے سے بے پناہ تاکید فرمائی ہے۔ پس

ہمارا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار حاصل کرنے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگیاں گزارنے، عبادت کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے، حقوق العباد، خصوصاً آپس میں پیار محبت کے رشتے کو اس طرح قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم دنیا کے لیے مثال بن جائیں۔ ان باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم حقِ بیعت ادا کرنے والے ہوں۔ ہر جمعہ ہمیں ان باتوں کو سن کر ان پر عمل کرنے والا بنائے ورنہ ہم میں اور غیروں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم میں اور غیر میں ایک واضح فرق دکھادے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے درد سے اس کا اظہار فرمایا ہے۔

خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے پاکستان کے حالات کے لیے دعاکی تحریک فرمائی۔ تفصیل کے لیے صفحہ اوّل ملاحظہ کریں۔

٭…٭…٭

خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے پاکستان کے حالات کے لیے دعاکی تحریک فرمائی۔ تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.alfazl.com/2023/05/05/69812/

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button