خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 21؍اپریل 2023ء

’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

جب ہم خود اپنی زندگیوں کو تقویٰ پر چلانے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے گزار رہے ہوں گے تو ہم اپنے بچوں اوراپنی نسلوں کے سامنے بھی وہ نمونے پیش کر رہے ہوں گے جس سے نیکیوں کی جاگ ایک نسل سے دوسری نسل کو لگتی چلی جاتی ہے

رمضان کے مہینے میں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک تربیتی ماحول اور انتظام ہمارے لیے مہیا فرمایا ہے لیکن وہ اس لیے کہ ہر رمضان کے بعد ہم تقویٰ کے اگلے اور بلند معیاروں کو حاصل کرتے چلے جائیں۔ نہ اس لیے کہ رمضان کے بعد ہم واپس اپنے نچلے معیار پر چلے جائیں

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ تو خاص طور پر شیطان کے حملوں کا زمانہ ہے۔ اپنے تمام تر حیلوں اور مکروں اور ہتھیاروں سے شیطان حملے کر رہا ہے۔ ایسے خوفناک حملے ہیں کہ جس کی مثال پہلے نہیں ملتی تھی۔ پس ایسے حالات میں خداتعالیٰ کی طرف خاص طور پر جھکنے کی ضرورت ہے

ہر مشکل سے اور ہر بلا اور مصیبت سے بچنے کا یہ نسخہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے کہ میری تعلیم کے مطابق خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو اور پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہیں کس طرح شیطان اور دجال کے حملوں سے بچاتا ہے

’’دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’یاد رکھو! یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہم اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرتے ہوئے، اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمولیت کا حق ادا کرنے والے ہیں

’’چاہیئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں تقویٰ کی تشریح اور اس کے حصول کی تلقین

تین دن یا چار دن یا ہفتے کی دعائیں نہیں، مستقل دعائیں کریں(پاکستان اور دنیا بھر میں موجود احمدیوں کے لیے دعا ؤںکی تلقین)

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 21؍اپریل 2023ءبمطابق 21؍شہادت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ رمضان گذر گیا اور بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے رمضان میں عبادت اور اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے منصوبے بنائے ہوں گے لیکن ان پر جس طرح سوچا تھا عمل نہیں کر سکے۔ کئی لوگ اس طرح مجھے خط لکھتے ہیں۔ اور آج رمضان کا آخری دن بھی چند گھنٹوں بعد ختم ہونے والا ہے۔

جمعہ کا دن وہ بابرکت دن ہے جس میں ایسی گھڑی آتی ہے جب دعا کی قبولیت کا خاص وقت ہوتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ حدیث 935)

پس اگر ہمارے رمضان کے دن اس طرح نہیں بھی گزرے جس طرح ہماری خواہش تھی یا جس طرح ایک مومن کے گزرنے چاہیے تھے تو پھر بھی ہمیں آج اس بقیہ وقت میں

یہ عہد کرنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے، ہم پر رحمت فرماتے ہوئے ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مستقل اُس طریق پر چلانے والے بن جائیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تو بڑا مہربان ہے۔ اس نے ہماری دعاؤں کی قبولیت کے لیے یہ نہیں فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں بلکہ یہ جمعہ کے دن کی عمومی خصوصیت بیان فرمائی ہے۔ پس اگر آج ہم اپنی دعاؤں میں یہ عہد کریں کہ ہم اس رمضان کے بعد بھی اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے رہیں گے، اس کے لیے کوشش کریں گے، اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے، آئندہ جمعہ تک اپنی عبادتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرتے رہیں گے، پھر ہر جمعہ کے درمیانی عرصہ کو اپنی عبادات اور نیک اعمال سے سجانے کی کوشش کرتے رہیں گے، دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، اگلے رمضان تک ہم اس پروگرام کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے جو ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لیے رمضان کے مہینے کے لیے بنایا تھا اور کسی وجہ سے اس پر عمل نہیں کر سکے تو

یہ وہ عمل ہے جو حقیقی تقویٰ پیدا کرتا ہے۔

اور جب ہم خالص ہو کر اپنی عبادات اور اپنے اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لا رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ جو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے، رحمان ہے، رحیم ہے وہ ہمیں ان برکات سے نوازتا رہے گا جن پر ہم نے اس رمضان میں بھی کچھ حد تک عمل کیا۔ پس

اصل چیز تقویٰ ہے۔ اصل چیز مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل ہے۔ اصل چیز خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کی رضا کا حصول ہے۔

اگر یہ ہے اور ہم واپس اس دنیاداری کی زندگی میں نہیں چلے گئے جہاں دین دنیا پر مقدم ہونے کو ہم بھول جائیں تو جو بھی اور جیسی بھی ہم نے عبادتیں اور اپنی اصلاح کی کوشش اس رمضان میں کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرماتے ہوئے ہمیں نوازتا رہے گا۔ پس یہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمیں ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے۔ اس مقصد کا حصول ہر احمدی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور

جب ہم خود اپنی زندگیوں کو تقویٰ پر چلانے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے گزار رہے ہوں گے تو ہم اپنے بچوں اور اپنی نسلوں کے سامنے بھی وہ نمونے پیش کر رہے ہوں گے جن سے نیکیوں کی جاگ ایک نسل سے دوسری نسل کو لگتی چلی جاتی ہے۔

ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی بیعت کی ہے اور جن شرائط پر بیعت کی ہے ان کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ہمیشہ تقویٰ پیش نظر رہے گا اور اس کی بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تلقین فرمائی ہے تاکہ ہماری زندگیوں میں وہ انقلاب پیدا ہو جائے جو ہر سال صرف ایک مہینے کا انقلاب نہ ہو یا سال میں صرف ایک مہینہ اس انقلاب کو پیدا کرنے کی کوشش نہ ہو۔ بےشک

رمضان کے مہینے میں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک تربیتی ماحول اور انتظام ہمارے لیے مہیا فرمایا ہے لیکن وہ اس لیے کہ ہر رمضان کے بعد ہم تقویٰ کے اگلے اور بلند معیاروں کو حاصل کرتے چلے جائیں۔ نہ اس لیے کہ رمضان کے بعد ہم واپس اپنے نچلے معیار پر چلے جائیں۔

پس جیساکہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرنے اور ہماری اصلاح کے لیے بھیجے گئے ہیں اور اس کی بار بار آپؑ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں۔‘‘ یہی میرے آنے کا مقصد ہے۔ فرمایا ’’مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 293-294 حاشیہ)

پس یہ وہ باتیں ہیں جنہیں ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ آپؑ کا زمانہ جو خلافت علیٰ منہاج نبوت پر قائم ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تا قیامت رہنے والا زمانہ ہے آپؑ کے ماننے والے ہی ہیں جنہوں نے سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے اونچے معیار حاصل کرنے ہیں اور یہ صرف ایک مہینے کی نیکیوں یا نیکیاں کرنے کی خواہش یا ایک مہینے کی عبادتوں اور عبادتوں میں خاص شغف یا مسجدوں کو ایک مہینے کے لیے خاص طور پر آباد کرنے سے حاصل نہیں ہوگا بلکہ

جب سچائی کو مانا ہے، جب آپ علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی معہود مان کر بیعت کی ہے تو ایمان کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ہمیں خاص کوشش کرنی چاہیے۔

اور جب ہم ایسے ہو جائیں گے تو ان لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص تعلق ہے، جنہوں نے بیعت کے مقصد کو سمجھا ہے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ ’’میں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں۔‘‘(تذکرہ صفحہ 630 ایڈیشن چہارم)کسی کا پیارا ہونے کے لیے بنیادی شرط تو یہی ہے اور ہونی چاہیے کہ اس کی باتوں پر عمل کیا جائے اور اس کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگی گزاری جائے۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیاروں کے ساتھ ہونے کا اعلان فرما دیا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ہو جائے تو پھر اسے اَور کسی چیز کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔

پس ہم میں سے وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کے اس معیار کو حاصل کر لیا جہاں ہمیشہ کے لیے ان کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ مل گیا اور اس کی تو دنیا و عاقبت سنور گئی جس کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ مل جائے۔

پس ہمیں اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد کو پورا کرنا ہے اور یہ اسی صورت میں ہو گا جب ہم مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپؑ نے اس اقتباس میں یہ بھی فرمایا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا۔ اور آسمان زمین سے نزدیک اس وقت ہو گا جب ہمیں اس کا فیض پہنچے گا۔ خد اتعالیٰ اس وقت ہمارے قریب آئے گا جب قرآن و سنت کی روشنی میں ہم اس طریق پر چلنے والے ہوں گے جس کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے۔ ہم ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے۔ جن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنتا ہے۔

جب یہ نظارے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے تو دوسروں کو بھی اعتماد کے ساتھ یہ دعوت دیں گے کہ آؤ! اگر تم خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو، اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہو تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قبول کرو اور یہ صرف تقویٰ کے معیار حاصل کرنے سے ہو گا

اور یہ اسی وقت ہو گا جب یہ معیار حاصل ہونے کے بعد ہم اس پر مستقل قائم ہوں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے بھی دیکھیں گے۔ پس ہم میں سے ایسے لوگ جو اس اصول کو سمجھ گئے ہیں ا ور زندگی کو نیکی اور تقویٰ کے معیار تک لے جا نے والے بن گئے ہیں یا بننے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھتے رہیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک یہ نظارہ دیکھ سکتا ہے اگر اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تقویٰ کی راہوں پر چلنے والی بنا لے۔

حقیقی تقویٰ کیا ہے اور اس پر چلنے والا کیسا ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا سلوک ہوتا ہے،

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘ پس یہ بنیادی بات ہے کہ متقی جاہل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی متقی عبادت گزار ہو گا اور ساتھ ہی بندوں کے بھی حق ادا کرنے والا ہو گا۔ پس یہ وہ بنیادی بات ہے جو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے۔ پھر فرمایا ’’حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیساکہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ يُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (الانفال: 30) وَ يَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ (الحدید: 29) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لیے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ترجمہ تفسیری فرما رہے ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ کے لیے اتقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177-178)

پس یہ وہ مقام ہے جو ایک مومن کو ایک متقی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

رمضان گزر بھی گیا تو تب بھی ہم اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس مقام کو حاصل کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہمارے ہر قول وفعل پر ہو۔ ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہو۔ ہمارا چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا غرضیکہ ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو۔ جب یہ ہوگا تو پھر ہی ہم اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ لینے والے ہوں گے۔ دنیا کی چکا چوند کے بجائے ہمارا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو گا تب ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ ہم ایک کوشش کے ساتھ اپنا عہد نبھانے والے ہوں گے۔ اگر یہ پاک تبدیلی ہم اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی خواہش نہیں رکھتے اور اس کے لیے کوشش نہیں کرتے تو ہمارے دعوے غلط ہیں۔ ہمیں رمضان میں عارضی طور پر کی گئی نیکیاں بھی پھر کوئی فائدہ نہیں دیں گی۔ پس ہمیں ہر وقت اس سوچ کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا ہم اس تقویٰ کے حصول کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں جس کا قرآن کریم کی آیت کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یقیناً ہم شیطان سے مقابلے کے لیے بھی تیار ہیں اور شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ پھر ہماری مدد بھی فرمائے گا اور شیطان کے ہر حملے کو ناکام و نامراد کرے گا۔ شیطان نے تو فی زمانہ ہمیں ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اس کے چنگل سے نکلنا ممکن نہیں اور خدا تعالیٰ کی مدد تقویٰ پر چلنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ تو خاص طور پر شیطان کے حملوں کا زمانہ ہے۔ اپنے تمام تر حیلوں اور مکروں اور ہتھیاروں سے شیطان حملے کر رہا ہے۔ ایسے خوفناک حملے ہیں کہ جس کی مثال پہلے نہیں ملتی تھی۔ پس ایسے حالات میں خداتعالیٰ کی طرف خاص طور پر جھکنے کی ضرورت ہے۔

ٹی وی ہو یا سوشل میڈیا ہو یا دوسرے پروگرام ہوں یا بچوں کے سکول ہوں یا ان کے پروگرام ہوں ہر جگہ شیطان نے دجال کے ذریعہ سے ایک ایسا خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہے جس سے خداتعالیٰ کی مدد کے بغیر نکلنا ممکن ہی نہیں ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ فکر تو اپنے بچوں اور اگلی نسلوں کو دجال اور شیطان کے حملوں سے بچانے کی ہے اور اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے اور اس کے لیے ہر احمدی والدین کو، تمام احمدی والدین کو کوشش بھی کرنی چاہیے اور جماعتی نظام کو بھی کوشش کرنی چاہیے۔

اس لیے ہر احمدی عاقل بالغ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اس طرح دجال کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کر سکیں۔ رمضان کے بعد بھی ہمیں relaxنہیں ہو جانا چاہیے آرام سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے بلکہ اپنے قرآن کریم کے علم کو، دین کے علم کو بڑھانے کی خاص کوشش کرنی چاہیے تا کہ ایک خاص ماحول ہمارے گھروں میں مستقل قائم رہے۔

اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ شیطان اور دجال کے حملوں سے بچنے کے لیے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

شیطان کے حیلوں اور مکروں کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھنا چاہئے کہ دجال اصل میں شیطان کے مظہر کو کہتے ہیں۔جس کے معنی ہیں راہ ہدایت سے گمراہ کرنے والا۔ لیکن آخری زمانہ کی نسبت پہلی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شیطان کے ساتھ بہت جنگ ہوں گے لیکن آخر کار شیطان مغلوب ہو جائے گا۔‘‘ یہ امید بھی دلا دی۔ تقویٰ پر چلتے رہیں گے، مقابلہ کریں گے تو شیطان مغلوب ہو جائے گا۔ فرمایا ’’گو ہر نبی کے زمانہ میں شیطان مغلوب ہوتا رہا ہے مگر وہ صرف فرضی طور پر تھا۔ حقیقی طور پر اس کا مغلوب ہونا مسیح کے ہاتھوں سے مقدر تھا اور خدا تعالیٰ نے یہاں تک غلبہ کا وعدہ دیا ہے کہ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ(آل عمران: 56) فرمایا ہے کہ تیرے حقیقی تابعداروں کو بھی دوسروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔‘‘

پس حقیقی تابعدار بننے کے لیے آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ہو گا۔ پس فرمایا: ’’غرض شیطان اس آخری زمانہ میں پورے زور سے جنگ کر رہا ہے مگر آخری فتح ہماری ہی ہو گی۔‘‘(ملفوظات جلد 10 صفحہ 60 ایڈیشن 1984ء)ان شاء اللہ۔

پس شیطان اور دجال کے حملوں سے بچانے اور فتح دینے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی فرمایا ہے۔ آپؑ کو بھی دو تین مرتبہ یہ الہام ہوا لیکن اس کا حقیقی فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہوں گے جو آپؑ کی حقیقی اطاعت کرنے والے ہیں اور آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اس بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو‘‘ قیامت تک ’’میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہےکہ متبعین میں ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا۔ جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا۔ ‘‘ فرمایا کہ ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 299 ایڈیشن 1984ء)

اللہ تعالیٰ ایسی جماعت تو دے گا۔ وہ ہم ہوں یا دوسرے لوگ ہوں۔ آج ہوں یا کل ہوں یا پہلے گزر چکے ہیں یا ہم میں سے کچھ ہوں یا اکثریت ہو۔ یہ جماعت تو آپؑ کو ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ پس یہ الفاظ ہمارے لیے بہت ہلا دینے والے ہیں۔

ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہماری اتباع کے معیار کیا ہیں۔ کیا ہم ان دعاؤں کے بھی وارث بن رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت اور اپنے حقیقی ماننے والوں کے لیے کی ہیں۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے بن رہے ہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے ماننے والوں کے لیے آپ علیہ السلام سے کیا ہے۔ کیاہم تقویٰ کے ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے افراد میں دیکھنا چاہتے ہیں؟

اگرنہیں تو پھر چند دن کی دعائیں ہیں۔ صرف رمضان کی دعائیں ہیں اور چند دن کی عبادت اور رونا ہمیں ان انعامات کا مستحق نہیں بنا دیتا جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا ہے۔

پھر اس سلسلہ میں آپؑ کشتی نوح میں مزید فرماتے ہیں کہ ’’واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت‘‘ یعنی ارادہ اور دعا بھی اس کے ساتھ شامل ہو۔ عزیمت ’’سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو۔‘‘ ارادہ بھی ہو اور دعا بھی ہو اس کے ساتھ پھر پورا عمل ہو۔ فرمایا ’’پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 10)

پس

ہر مشکل سے اور ہر بلا اور مصیبت سے بچنے کا یہ نسخہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے کہ میری تعلیم کے مطابق خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو اور پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہیں کس طرح شیطان اور دجال کے حملوں سے بچاتا ہے

بلکہ ہمیں اُن ہتھیاروں سے بھی اللہ تعالیٰ لیس کر دے گا جن کے استعمال سے ہم شیطان پر غلبہ پانے والے ہوں گے۔ نہ صرف بچنے والے ہوں گے بلکہ اس کو مارنے والے بھی ہوں گے اور شیطان کو ہمیشہ کے لیے دور کرنے والے اور دجال کے حملوں سے بچنے والے ہوں گے۔ اسے تباہ کرنے والے ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا:’’مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا مارنا‘‘ یعنی شیطان کا مرنا ’’صرف اسی قدر نہیں ہے کہ صرف زبان سے ہی کہہ دیا جائے کہ شیطان مر گیا ہے اور وہ مر جاوے بلکہ تم لوگوں کو عملی طور پر دکھانا چاہئے کہ شیطان مر گیا ہے۔ شیطان کی موت قال سے نہیں بلکہ حال سے ظاہر کرنی چاہیے۔‘‘ شیطان کی موت کا صرف منہ سے اعلان نہ کرتے رہو بلکہ ہمارا ہر فعل، ہمارا ہر عمل، ہماری ہر حالت سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہو کہ ہم اپنے شیطان کو مار رہے ہیں۔ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری مسیح کے زمانہ میں شیطان بالکل مر جائے گا۔‘‘ فرماتے ہیں ’’گو شیطان ہر ایک انسان کے ساتھ ہوتا ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطان مسلمان ہو گیا تھا۔‘‘ ایک مثال ہے۔ سنت ہمارے سامنے بیان فرمائی اور اگر شیطان پہ قابو پانا ہے تو اس سنت پر چلنا ہمارا فرض ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’اسی طرح خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس زمانہ میں شیطان کی بالکل بیخ کنی کر دی جائے گی۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ شیطان لَا حَوْل سے بھاگتا ہے۔‘‘ لَا حَوْل پڑھو شیطان بھاگتا ہے ’’مگر وہ ایسا سادہ لوح نہیں کہ صرف زبانی طور پر لَا حَوْل‘‘پڑھنے سے ’’کہنے سے بھاگ جائے۔‘‘ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِکہہ دیا تو شیطان دوڑ جائے گا۔ ’’اس طرح سے تو خواہ سو دفعہ لَا حَوْلپڑھا جاوے وہ نہیں بھاگے گا بلکہ

اصل بات یہ ہے کہ جس کے ذرہ ذرہ میں لَاحَوْلسرایت کر جاتا ہے اور جو ہر وقت خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور استعانت طلب کرتے رہتے ہیں اور اس سے ہی فیض حاصل کرتے رہتے ہیں وہ شیطان سے بچائے جاتے ہیں۔‘‘

دل سے آواز نکلنی چاہیے۔ مطلب پتا ہونا چاہیے۔ صرف زبانی جمع خرچ نہیں۔ ’’اور وہی لوگ ہوتے ہیں جو فلاح پانے والے ہوتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 61 ایڈیشن 1984ء)

پھر اپنی ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا کہ ’’یا د رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتداء بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پر ہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ مجلس میں یہ ذکر کیا تھا۔ اس کی رپورٹ میں دوسری جگہ اس طرح بھی آگے فقرہ ہے کہ ’’تم اپنے تئیں پاک مت ٹھہراؤ کیونکہ کوئی پاک نہیں جب تک خدا پاک نہ کرے۔‘‘ بہرحال پھر آگے فرمایا ’’اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا۔‘‘ نیکی میں ترقی کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی مدد چاہیے۔ ’’ایک

حدیث میں آیا ہے کہ سب مردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے۔

غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے اور وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کا فیض بھی دعا سے ہی شروع ہوتا ہے۔‘‘ اللہ کا فیض پانا ہے تو اس کے لیے بھی دعا ہی کرنی پڑے گی۔ ’’لیکن یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بک بک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہے

جو منگے سو مر رہے

مرے سو منگن جا‘‘

یعنی مانگنے والے کو تو اپنے اوپر موت وارد کرنی پڑتی ہے۔ پس اگر موت وارد کرنے کا حوصلہ ہے تو پھر مانگنے والے بنو۔ اگر یہ کر سکتے ہو اور کرو گے تو پھر مانگنے والے بنو۔ فرمایا

’’دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

یہ کیا دعا ہے‘‘ یہ تو کوئی دعا نہیں ہے ’’کہ منہ سے تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے۔‘‘ زبان کسی اَور طرف چل رہی ہے۔ دماغ اور دل کہیں اَور طرف جا رہا ہے۔ ’’فلاں چیز رہ گئی۔ یہ کام یوں چاہئے تھا اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے۔‘‘ دنیاوی باتیں زیادہ دماغ میں چل رہی ہیں اور زبان پہ بظاہر دعا نکل رہی ہو۔ فرمایا ’’یہ تو صرف عمر کا ضائع کرنا ہے۔ جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عمل درآمد نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں جو احکام دیے ہیں ان کو پڑھو۔ رمضان میں ہم پڑھتے بھی رہے۔ درس بھی سنتے رہے۔ ان پر عمل کرو، دیکھو اور پھر جو زندگی گزارو گے وہ اصل زندگی ہے وہ وہ زندگی ہے، ان لوگوں کی زندگی ہے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ (المؤمنون۔ 2-3)یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے اور آستانہ الوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رقّت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے۔‘‘ فلاح پانے والے وہی مومن ہیں جن کی نمازیں خشیت سے بھری پڑی ہیں۔ تب فلاح کے دروازے کھلتے ہیں جب دل بالکل ہی گداز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فیض اور اس کی استعانت تب آتی ہے جب خالصةً اللہ تعالیٰ کے لیے ہو کے انسان دعائیں کر رہا ہو۔ فرمایا تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے ’’جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں جیسے لکھا ہے

ہم خدا خَواہی وَ ہَم دنیائے دُوں

اِیں خیال است و مَحال است و جُنُوں‘‘

یعنی تُو خدا کا طالب بھی بنتا ہے اور اس حقیر دنیا کا بھی۔ یہ محض وہم ہے۔ یہ تو خیالات ہی ہیں۔ ناممکن باتیں ہیں یہ تو۔ یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ یہ دیوانگی والی باتیں ہیں۔ پاگل پن ہے۔ فرمایا ’’اسی لیے اس کے بعد ہی خدا فرماتا ہے۔ وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المؤمنون: 4) یہاں لغو سے مراد دنیا ہے یعنی جب انسان کو نمازوں میں خشوع اور خضوع حاصل ہونے لگ جاتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ پھر وہ کاشت کاری، تجارت ، نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعراض کرنے لگ جاتا ہے۔‘‘ دنیا کے ایسے کاموں سے پھر بچتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں۔ اس کی مزید وضاحت میں آگے ایک جگہ اس طرح بھی لکھا ہے۔ کیونکہ یہ ایک مجلس کا ذکر ہے۔ تو فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ(النور: 38) یعنی ہمارے ایسے بندے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارخانہ تجارت میں ایک دم کے لئے بھی ہمیں نہیں بھولتے۔‘‘ کام بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں بھولتے۔ فرمایا کہ ’’خدا سے تعلق رکھنے والا دنیادار نہیں کہلاتا بلکہ دنیا دار وہ ہے جسے خدا یاد نہ ہو۔‘‘

بہرحال پھر خدا کے بندوں کی تعریف کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ ’’اور ایسے لوگوں کی گریہ و زاری‘‘ یعنی خدا کے بندوں کی گریہ و زاری ’’اور تضرع اور ابتہال اور خدا کے حضور عاجزی کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص دین کی محبت کو دنیا کی محبت، حرص، لالچ اور عیش و عشرت سب پر مقدم کر لیتا ہے۔‘‘ یہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تعریف ہے ’’کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک نیک فعل دوسرے نیک فعل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ایک بد فعل دوسرے بد فعل کی ترغیب دیتا ہے۔ جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبعاً وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں اور اس گندی دنیا سے نجات پا جاتے ہیں اور اس دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو کر خدا کی محبت ان میں پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 10 صفحہ62 تا 64 مع حاشیہ)نمازیں انہیں نیکیوں کی طرف ہی لے جاتی ہیں۔ دنیاکے کاروباروں کے باوجود دنیا ان کامقصود نہیں ہوتی جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی وضاحت کی تھی۔ مقصود مطلوب محبوب اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔

پس یہ ہے وہ معیار جسے ہمیں اپنے شیطان کو مارنے کے لیے اپنانا ہو گا۔ شیطان کو بھگانے کے لیے اگر لَاحَوْلپڑھ رہے ہیں تو پھر ہر لمحہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ رہنی چاہیے کہ سب قوتوں اور طاقتوں کا مالک خدا تعالیٰ ہے۔ ایک پتہ بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں گر سکتا۔ کہنے کو تو ہم میں سے اکثر کہہ دیتے ہیں کہ یہی ہمارا ایمان ہے۔ ہم تو مانتے ہیں لیکن جب عملی مظاہرے کا وقت آئے تو پھر دوسرے خوف جو ہیں، دنیاوی خوف جو ہیں اور محبتیں جو ہیں اور خواہشات جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب آ جاتی ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان اوراللہ تعالیٰ کی حقیقی عبادت تو ایسی ہونی چاہیے کہ اس کا اثر ہمارے جسم وروح دونوں پر پڑے

اور جب عبادت کے یہ معیار ہوں تو ظاہری بنیادی اخلاق بھی بلندیوں کی طرف جاتے ہیں۔ دل و دماغ اور روح پاک ہوتی ہے۔ شیطان کے ہر حملے اور ہر قسم کے دجل سے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی وجہ سے بچتا ہے۔ عبادت کے وہ معیار انسان حاصل کرتا ہے جس کے دوران کسی قسم کے غیراللہ کا دخل نہیں ہو سکتا۔ نماز اور عبادت کا حق ادا کرنے کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ حق ادا کرنے کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ نماز عبادت کا مغز ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 367 ایڈیشن 1984ء)

جب ہم اس مغز کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو نماز کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں گے اور عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے والے بنیں گے۔ اپنی روح اور جسم پر بھی ایک انقلاب پیدا کرنے والے بنیں گے

ورنہ ظاہری نمازیں کچھ فائدہ نہیں دیتیں۔ بےشمار نمازی ہیں جو مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھ کر پھر ظلم و تعدی کی انتہا کیے ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں جو ہیں، نام نہاد ملاں جو ہیں یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر کیا کچھ ظلم نہیں کر رہیں۔ ان لوگوں نے دنیا کا امن برباد کیا ہوا ہے۔ یہ ان دنیا داروں سے زیادہ ظالم ہیں جو دنیاوی مقاصد کے لیے ظلم کر رہے ہیں۔ وہ تو دنیا کے مقاصد کے لیے ظلم کر رہے ہیں لیکن یہ تو رحمان اور رحیم خدا اور رحمة للعالمین رسولؐ کے نام پر ظلم کر رہے ہیں۔ پس ان کے بد نمونے ایک احمدی کو اسلامی تعلیم کے اعلیٰ نمونوں کو قائم کرنے والا بنانے والے ہونے چاہئیں۔ ہماری نمازیں اور ہماری عبادتیں اور ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی ہونی چاہئیں۔ اگر ہم نے اس مقصد کو پا لیا تو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا بھی حق ادا کر دیا اور رمضان کی برکات سے بھی فیض پا لیا۔

ہماری نمازیں کس قسم کی ہونی چاہئیں اور کس طرح ان کا حق ادا ہوتا ہے

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شئے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں۔‘‘ نماز ہی وہ شئے ہے جس سے تمام مشکلات آسان ہو جاتی ہیں ’’اور سب بلائیں دُور ہوتی ہیں۔ مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے‘‘ پگھل جاتا ہے ’’اور آستانۂ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جا تا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے۔ اور پھر

یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ نماز کی حفاظت اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا کو ضرورت ہے۔‘‘

ہم نماز پڑھتے ہیں یا اس کی حفاظت کر رہے ہیں تو اس لیے نہیں کہ خدا کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے۔ ’’خدا تعالیٰ کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ فرمایاخدا کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’وہ تو غنی عن العالمین ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ انسان خود اپنی بھلائی چاہتا ہے۔‘‘انسان چاہتا ہے اپنی بھلائی۔ یہی حقیقت ہے۔ ’’اور اسی لیے وہ خدا سے مدد طلب کر تا ہے۔‘‘ اپنی بھلائی کے لیے خدا سے مدد طلب کرتا ہے ’’کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو جانا حقیقی بھلائی کا حا صل کر لینا ہے۔ ایسے شخص کی اگر تمام دنیا دشمن ہو جائے اور اس کی ہلا کت کے در پے رہے تو اس کا کچھ بگا ڑ نہیں سکتی اور خدا تعالیٰ کو ایسے شخص کی خا طر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھی ہلاک کرنے پڑیں تو کر دیتا ہے اور اس ایک کی بجائے لاکھوں کو فنا کر دیتا ہے۔ ‘‘

فرمایا

’’یاد رکھو! یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی۔‘‘

دونوں چیزیں اس سے ملتی ہیں اگرانسان اللہ کی خاطر نمازیں پڑھ رہا ہے۔ حقیقت میں اس کا حق ادا کرتے ہوئے نمازیں پڑھنے والا ہے۔ فرمایا ’’لیکن اکثر لو گ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز ان پر لعنت بھیجتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 66 ایڈیشن 1984ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ کبھی ایسی نمازیں نہ ہوں جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑتے ہوئے ان وعدوں سے حصہ لینے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمائے ہیں۔ ہم اپنی نسلوں کو بھی ایسی عبادت کی عادت ڈالنے والے بنیں جو اُن کی بقا اور آئندہ نسلوں کی بقا کی ضامن بن جائے۔

جب یہ ہو گا تو پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دنیا کا کوئی دجل، شیطان کا کوئی حملہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ دنیا ہزار ہماری تباہی اور بربادی کے منصوبے باندھے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خاطر لاکھوں کروڑوں کو بھی ہلاک کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار کو بہت بلند کرنا ہو گا۔ دجال نے تو اس زمانے میں تباہ ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہم اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرتے ہوئے، اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمولیت کا حق ادا کرنے والے ہیں

اور یہ حق ادا کرنے کے لیے جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نسخہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ گریہ و زاری اور تضرع اور ابتہال (یعنی رونا اور بڑی بے انتہا زاری کرنا۔) خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ پس یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو اور کس طرح حاصل کرو۔ فرماتے ہیں:

’’چاہیئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو‘‘۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 67 ایڈیشن 1984ء)

پس جب یہ حالت ہو گی تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے۔ ہر شیطانی حملہ اور دجالی حملہ ناکام و نامراد ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق گزارنے والے ہوں اور آپ علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارا مقصود ہو۔ ہم یہ عہد کرنے والے ہوں کہ ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم اپنے اندر ایسی پاک تبدیلیاں پیدا نہ کر لیں جو ہماری حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے والی ہوں۔ کبھی ہم اپنے اندر اور اپنی اولادوں اور نسلوں کے اندر شیطان کو داخل ہونے نہیں دیں گے۔ اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کے لیے ہر وہ کوشش کریں گے جس کی تعلیم ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ بلکہ دنیا کو بھی شیطان اور دجال سے پاک کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں

اللہ تعالیٰ انہیں مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ شریروں کے شر ان پر الٹائے۔

خود پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے لیے خاص گریہ و زاری سے دعائیں کریں۔

تین دن یا چار دن یا ہفتے کی دعائیں نہیں، مستقل دعائیں کریں اور اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کریں۔

برکینا فاسو کے احمدیوں، بنگلہ دیش کے احمدیوں، الجزائر اور دنیا کے ہر ملک کے احمدیوں کے لیے دعا کریں

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو دشمن کے شر سے بچائے اور ان کے ایمان اور ایقان میں مضبوطی پیدا کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی اور پھر دعائیں کرنے کی توفیق دے اور انہیں قبول بھی فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button