پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مہر محمد داؤد)

ایک احمدی خاتون کی تدفین کی اجازت سے انکار

پیرو چک، ضلع سیالکوٹ۲۱ ؍جنوری ۲۰۲۳ء : تحفظ ختم نبوت کے ایک مخالف احمدیت رکن نے تھانہ موترہ میں احمدیوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298-B,298-C کی خلاف ورزی کرنے کی درخواست دی ہے۔پولیس نے یہاں احمدیوں کی ۴۵ قبروں کے کتبے مسمار کر دیے۔قبرستان کی ایک جانب احمدیوں کی قبریں ہیں اور دوسری جانب غیر احمدیوں کی قبریں ہیں اور گذشتہ اکہتر سال سے یہ قبرستان مشترکہ ہے۔

کچھ دن قبل ایک احمدی خاتون بشریٰ بی بی کی وفات ہوگئی۔مذکورہ قبرستان میں ان کی تدفین کے انتظامات مکمل کرلیے گئے۔لیکن انتظامیہ نے مولوی کی شکایت پر احمدیوں کو اس جگہ متوفیہ کی تدفین سے روک دیا اور ان کا جسد خاکی کہیں اور لے جانے کو کہا۔انتظامیہ نے احمدیوں کو ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ اگر انہوں نے تعاون نہ کیا تو ان کے خلاف شیڈیول نمبر4کے تحت فوجداری مقدمات درج کر دیے جائیں گے۔ اس پر انتظامیہ کو بتایا گیا کہ ہر بار احمدی ہی انتظامیہ کےساتھ تعاون کرتے ہیں اور مخالفین ہر بار مسائل پیدا کرتے ہیں اور اپنے ناجائز مطالبات کے باوجود بچ نکلتے ہیں۔ان کے پاس گاؤں میں چار قبرستان ہیں۔جبکہ احمدیوں کے پاس صرف ایک۔

انتظامیہ کے افسران نے تب یہ معاملہ ڈسٹرکٹ کور پیس مینجمنٹ کمیٹی کے پاس بھیجا۔ جس پر انہوں نے رائے دی کہ یہ قبرستان تقسیم کے وقت آئے مسلمان مہاجرین کو دیا گیا تھا جن میں اکثریت قادیانیوں (احمدیوں ) کی تھی۔آئینی ترمیم کے باوجود چھ ماہ قبل تک تدفین کے معاملات پر کوئی بھی تنازعہ نہیں تھا۔بعد میں اختلافات نے جنم لیا اورصورت حال شدت اختیار کر گئی ہے جو کسی بھی خطرناک وقوعہ پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔متنازعہ قبرستان کے علاوہ پیرو چک میں چار اور بھی قبرستان ہیں۔متنازعہ قبرستان میں قادیانی فریق کی زیادہ قبریں ہیں۔انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ و ہ اس مسئلے کا مستقل اور مضبوط حل تلاش کریں تا کہ امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو۔

حیرت انگیز طور پر اسسٹنٹ کمشنر نے احمدیوں کی جانب کا قبرستان والا حصہ سیل کر دیا اور کہا کہ احمدیوں کو کسی اَور سرکاری اراضی سے متبادل جگہ دی جائے گی۔لہٰذا بشریٰ بی بی کے جسدکو تدفین کے لیے کسی اور جگہ لے جایا گیا۔

۲۱؍جنوری کو ایک احمدی خاتون خورشید بی بی کی وفات ہوئی۔مخالفین نے دراندازی کی اور تدفین کو روک دیا۔انتظامیہ نے احمدیوں کو دھمکایا کہ اگر وہ متوفیہ کو تدفین کے لیے گاؤں سے کہیں اور نہ لے کر گئے تو ان کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں گے، چنانچہ احمدیوں کو یہ بات ماننا پڑی۔

ایک وزارتی پریس

۵؍جنوری ۲۰۲۳ء کووزیر داخلہ رانا ثناء اللہ،وزیر مذہبی امورمفتی عبدالشکور،پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک راہنما حنیف عباسی نے ایک پریس کانفرس کی جس کا بنیادی مقصد قرآن کریم کی طباعت کے بابت معاملات کو ایڈریس کرنا تھا۔اس کا ایک پس منظر ہے۔

ختم نبوت وکلاء فورم کے حسن معاویہ نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی کہ جسٹس شجاعت علی خان کاقرآن کےمتعلق ۱۷ نکاتی فیصلے کا نفاذ نہیں کیا جا رہا اور جماعت احمدیہ مسلسل قرآن کی طباعت کر رہی ہے[بالکل جھوٹ]۔اس مقدمہ کی سماعت جسٹس شجاعت علی خان کر رہاہے اور اس نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے پرسنل سیکرٹریوں کی حاضری کابھی حکم دیا تھا۔وزیر اعظم کے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کو عدالت کے فیصلے کے متعلق آگاہ کر دیا گیا ہے اور وزیر اعظم نے فیصلہ کیاہے کہ وہ اس کے متعلق اپنی کیبنٹ میں گفتگو کرے گا۔مزید برآں اس نے کہا کہ ’’اس معاملے پر سیکرٹریوں کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ہم عدالت میں ایک لائحہ عمل پیش کریں گے اور وزیر اعظم نے ہمیں عدالت کو مطلع کرنے کو کہاکہ اس بات پر عمل درآمدکرنا ہمارا فرض ہے‘‘۔

وزیر داخلہ نےکہا کہ وزارت مذہبی امور کی طرف سے ایک معیاری قرآن کا نسخہ اصل تحریر اور ترجمہ کے ساتھ صوبائی قرآن بورڈ کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ نسخہ متفق علیہ، مستند،اور ہر لحاظ سے بہتر ہو گا۔اس کو بعد ازاں تمام تحصیلوں اور ضلعوں میں بھیجا جائے گا۔صوبائی حکومتیں اور وزارت مذہبی امور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہ معیاری نسخہ ہر قسم کےشکوک و شبہات اور تنازعات سے ورا ہو۔اگر کوئی اس کام میں مخل ہوا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وزیر نے کہا کہ چند عناصر اپنی غلطی پر مصر رہتے ہوئے قرآن کا غلط ترجمہ کرتے ہیں۔جن میں سے بعض گمراہ کن ہیں۔ وزار ت مذہبی امور نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو مشترکہ طور پر کام کرنےکو کہا ہے۔

مفتی عبدالشکور نے واشگاف انداز میں احمدیوں کی طرف انگلی اٹھائی۔اس نے کہا کہ جو بھی گستاخی میں ملوث ہیں ان کو سزا دی جائے گی۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عدالتی فیصلے کا نفاذ کریں۔ہم ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر اس حرکت سے باز نہیں آتے۔ان کا رویہ انتہائی گھناؤنا ہے اور ہم ان کو بھی متنبہ کرتے ہیں جو اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔وہ لوگ جو اس میں ملوث ہیں،اور جن کے خلاف یہ عدالتی فیصلہ جا رہا ہے،چناب نگر میں جو اس غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں، قادیانی(احمدی) یا جو کوئی بھی،جن کو عدالت نے قصوروار ٹھہرایا ہے، حکومت ان کو سزا دے گی۔مفتی نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتوں کو اس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ترجمے اور تفاسیر مختلف ہیں اور متفق علیہ تراجم بھی موجود ہیں۔ مفتی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مستند ترجمہ موجود ہے اورسب اس بات پر متفق ہیں۔اس پر رانا ثناء اللہ نے مداخلت کی اور کہا کہ اس موضوع پر اس طرح کھلے عام بات کرنامناسب نہیں ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے جید علماءاکٹھے ہوئے اور وہ ایک ترجمہ پر متفق ہو گئے اور یہ ترجمہ دستیاب ہے۔ اور یہ ترجمہ تمام صوبوں کے قرآن بورڈز کو بھیجا جائے گا۔وہ اس کی جانچ کریں گے اور اس کی توثیق کریں گے۔جب ایک باراس کی توثیق ہو گئی تو پھر کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا۔ایک جگہ[ربوہ میں] غلط ترجمہ کرنے پر ایک مقدمہ درج کیا گیا ہےاور ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے تا کہ مستقبل میں کوئی ایسا عمل نہ ہواور اگر ایسا ہو ا تو اس کا مکمل سد باب کیا جائے گا۔

اس کے بعد پریس کانفرنس میں سیاسی نوعیت کی چند باتوں پر گفتگو کی گئی۔

ہمارا تجزیہ

سو سال قبل ایک مشہور غیر احمدی عالم اور صحافی محمد اسلم نے جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کا دورہ کیا جو انڈیا کا ایک قصبہ ہے۔اور اپنے تاثرات کو اپنی تحریر میں اس طرح قلم بند کیاکہ ’’قرآن کریم کی سچی محبت جو میں نے اس جماعت( احمدیہ جماعت) میں ملاحظہ کی وہ میں نے کہیں اَور نہیں دیکھی۔ احمدی قادیان میں میں نے ہر جگہ قرآن ہی قرآن دیکھا۔‘‘(ہفتہ وار بدر۔۱۳؍مارچ۱۹۱۳ء)

کٹرشر پسندوں کے دباؤ کی وجہ سے سرکاری حکم واپس

ایک احمدی ڈاکٹر کی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سرگودھا میں ایڈیشنل پرنسپل اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر تعیناتی کا حکم چند مذہبی جنونیوں کے دباؤ کی وجہ سے واپس لے لیا گیا۔

ناجائز طور پرسرگودھا کے لوگوں اور مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی انجمن تحفظ حقوق شہریاں سرگودھا نےمختلف پلیٹ فارمز سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں یہ مطالبہ کیا کہ تین دن کے اند ر اس تعیناتی کو ختم کیاجائے۔انہوں نے ناجائز طور پر ڈاکٹر صاحب پر اپنے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا الزام لگایا۔انہوں نے انتظامیہ کو دھمکایا کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ احتجاج کی کال کریں گے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ موصوف نے ۱۹۹۲ء میں گریجوایشن کی اور سلانوالی، AIMC لاہور،اور سوبھاگہ ضلع سرگودھا میں کام کیا۔ان کو AIMC لاہور میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔وہ ایک پیشہ ورانہ مہارت کے حامل ڈاکٹر ہیں اور بطور MS ان کی حالیہ تعیناتی اور بیسویں گریڈ میں ترقی ان کی قابلیت اور استحقاق کا اظہار کرتی ہے۔ بلاشبہ مریض ان کی فرقہ وارانہ شناخت اور مذہبی اعتقادات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

ایسے تبادلے عام نہیں ہیں۔اس سے قبل ۲۰۲۱ء میں بھی ایک قابل احمدی، حکومتی اہلکار کا بھی اپنے مذہب (احمدیت) کی وجہ سے ان مذہبی کٹروں کے دباؤ میں آ کر بار ہا تبادلہ کیا گیا۔۲۰۱۴ء میں ان کا تبادلہ بھکر میں کیا گیا۔لیکن کچھ مخالفت کے باعث ان کاتبادلہ خانیوال میں کر دیا گیا۔اس کےبعد رحیم یار خان،پھرچکوال،بعد ازاں فتح جنگ اور پھرجنڈ پنڈی ضلع اٹک میں تبادلہ کر دیا گیا۔اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کا تبادلہ نور پور تھل میں کر دیا گیا۔اس کے بعد میانوالی اورپھر راولپنڈی اور پھر لاہورہیڈ آفس میں۔ اس کے بعد ان کا تبادلہ خوشاب اور پھر دوبارہ لاہور کر دیا گیا۔

ناقابل یقین مگر سچ ہے۔ یہ سچ ہے۔

احتجاج۔ احتجاج۔ احتجاج

نامنظور۔ نامنظور۔ قادیانی ایم ایس نامنظور

حکومت پنجاب کی جانب سے تعصب پسند قادیانی مربی (…)کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال سرگودھا کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے جانے پرمذہبی حلقوں میں اضطراب پایا جا تا ہے۔(…) قابل ازیں سلانوالی میں قادیانیت کی تبلیغ کرتے پائے گئے تھے جس پر سلانوالی میں شدید احتجاج ہوا تھا، اب سرگودھا میں اسے ایم ایس تعینات کر کےمسلمانوں کے جذبات مجروح کیے جا رہے ہیں، اہالیان سرگودھا کا حکومت پنجاب سے مطالبہ ہےکہ ڈی ایچ کیو کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے قادیانی ایم ایس کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔ ہم تین دن کی وارننگ دیتے ہیں ورنہ ڈی ایچ کیو ہسپتال سمیت پنجاب اسمبلی کے سامنےاحتجاج کی کال دی جائے گی۔

منجانب : انجمن تحفظ حقوق شہریاں سرگودھا

فیصل آباد میں تین احمدیوں کی قبروں کو ہموار کر دیا گیا

۸۹ رتن،فیصل آباد۔ ۲۲؍ جنوری ۲۰۲۳ء :نا معلوم شر پسندوں نے تین احمدیوں کی قبروں کو ہموار کر دیا اور ان کی بے حرمتی کی۔حملہ آوروں نے خار دار تار کاٹ کر قبرستان میں دراندازی کی اور قبروں سے ملحقہ کمرے میں موجود کفن اور دیگر اشیاء کو جلانے کی کوشش کی۔

اسی نوعیت کا ایک حملہ اس قبرستان میں نومبر۲۰۲۰ء میں کیا گیا تھا۔جہاں شرپسندوں نے قبروں کے کتبے توڑے اور کچھ تنصیبات کو چرا کر لے گئے۔

اس پرپاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے کہاتھاکہ ’’گوجرانوالہ میں احمدی عبادت گاہ کی حالیہ بے حرمتی نہ صرف اس جماعت کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہےبلکہ ۲۰۱۴ء کے تصدق جیلانی کے فیصلے کی روح کے بھی منافی ہے‘‘۔

پولیس کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی لیکن پولیس نے FIR درج نہیں کی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button