سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

لیکن ان کے مقابل وہ عمارتیں اور میناربھی ہیں کہ جوتعمیرہونے سے بھی پہلے اپنے نام ومقام سے پکارے جاتے ہیں اورپھر کبھی وہ صفحۂ ہستی سے نابودنہیں ہونے پاتے کیونکہ خداکے ہاتھ سے ان کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں

منارۃ المسیح

کبھی کبھی اونچے اونچے منار اور ٹاورTower بھی قوموں اورملکوں کاایک نمایاں امتیازاور وجہ شہرت بن جایاکرتے ہیں۔ کسی زمانے میں پیرس فرانس کا ۱۰۶۳؍ فٹ اونچا ایفل ٹاور Eiffel Tower اپنی بلندی کی وجہ سے شہرۂ عالم بناہواتھا۔لیکن اس کے بعد ایک نہیں دونہیں ۲۶؍ایسے ٹاور تعمیرہوئے کہ جوایفل ٹاورکوبلندی اور شہرت میں کہیں پیچھے چھوڑ گئے۔اب جاپان،جرمنی،امریکہ،نیوزی لینڈ،چین، کینیڈا، قزاقستان، ازبکستان، یوکرائن، ملائیشیا، ایران، دبئی وغیرہ کئی ایسے ممالک سامنے آگئے کہ جن کے نام دنیاکے نقشہ میں بلندترین مناروں کے باعث نمایاں اورمشہورہیں۔ اب ایران کا۱۴۲۷؍ فٹ اونچا میلاد ٹاوردنیاکے چھٹے نمبرپرسب سے اونچامنارشمار ہوتا ہے۔کینیڈاکا CN Tower اگر دنیاکاتیسرے نمبرپرہے تو چین کا Canton Tower جوکہ ۲۰۰۰؍ فٹ بلندہے دوسرے نمبرپرہے اورٹوکیو جاپان کا ۲۰۸۰؍ فٹ بلندTokyo Skytree دنیاکابلندترین منارہے۔ دوسری طرف برج خلیفہ Burj Khalifa کی ۲۷۲۲؍ فٹ دنیا کی بلندترین عمارت زمین سے اونچی ہونی شروع ہوئی تواس نے دنیابھرکی نگاہوں کو آسمانوں کی طرف اٹھادیا۔لیکن تدبر وتفکر کرنے والی نظرنے چشم تصورمیں دیکھا کہ اس سے بہت پہلے بھی اس دھرتی پر بلندوبالا عمارتیں اور مناربنتے رہے ہیں۔ اس وقت کی دنیاکے ایک آمرمطلق نے اپنے وزیرکواتنی بلندوبالا عمارت تعمیرکرنے کاحکم دیا تھا کہ جوآسمانوں سے باتیں کرنے والی ہو تا کہ وہ اس خداکودیکھ سکے جس کاتصور اس وقت کے خداکے ایک پیغمبرنے دیاتھا جس کوموسیٰ کہاجاتاتھا۔علیہ الصلوٰۃ والسلام۔وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ۔اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی اور فرعون نے کہا اے ہامان میرے لیے محل بنا تاکہ میں ان راستوں تک جا پہنچوں جو آسمان کے راستے ہیں تاکہ موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں(المومن:۳۷-۳۸)دوسری طرف ایسی قوم بھی نظرآئی جس کوأرم کہاجاتاتھا جواتنی بلندوبالاعمارتیں اور مناراور Towersبنایاکرتی تھی کہ اس کانام ہی ذاتُ الْعِماد یعنی ستونوں والی قوم مشہورہوگیا۔لیکن آج ان قوموں کے نام باقی رہے نہ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور منار!……رہے نام اللہ کا!!!

لیکن ان کے مقابل وہ عمارتیں اور مناربھی ہیں کہ جوتعمیرہونے سے بھی پہلے اپنے نام ومقام سے پکارے جاتے ہیں اورپھر کبھی وہ صفحۂ ہستی سے نابودنہیں ہونے پاتے کیونکہ خداکے ہاتھ سے ان کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ وہ عمارتیں اگر مرورزمانہ اور آفات وحوادث سے اپنے نشان کھوناشروع کربھی دیں تو تقدیر خدا وندی سینکڑوں میل دورسے شہزادیوں کواپنے معصوم بیٹوں کے ساتھ ان بے آب وگیاہ وادیوں میں آباد کردیتی ہے کہ تا یہ اس کے مٹتے ہوئے آثارو نشانات سے اس عمارت کوپھر سے تعمیرکریں کہ جوکبھی نہ مٹنے کے لیے بنائی گئی تھی۔وہ بیت العتیق ہویامسجداقصیٰ یامنارۃ البیضاء منارۃ المسیح ہو۔یہ چند ایک ایسی ہی عمارتیں ہیں کہ جواسی لیے زمین سے اوپراٹھائی گئیں کہ اب یہ کبھی معدوم و منہدم نہیں ہوں گی۔

منارتو بہت سے تعمیرہوئے اور ہورہے ہیں۔بلندیوں میں بھی ایک دوسرے سے بلندترتعمیرہوئے اور اتنے اونچے بنائے گئے کہ بلندترین قراردیے گئے۔لیکن جس ایک منارکی بات ہم اب کرنے جارہے ہیں اس کی سب سے منفرداور نمایاں امتیازی شان جوتمام مناروں کی بلندیوں کواپنے پاؤں کے نیچے رکھے ہوئے ہے۔اور وہ یہ کہ یہ منارخداکے حکم اور منشائے مبارک سے تعمیرکیاگیا۔اور اس منارکی اطلاع پندرہ سوسال قبل خداکے محبوب رسول حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی زبان مبارک سے دی گئی تھی کہ میرابروزاورظل کامل جواپنے نام ومقام میں گویامیراہی ہم نام اور میری ہی بعثت اخریٰ کامصداق رسول ہو گا۔ جوامام مہدی اور مسیح محمدی اور ابن مریم ہوگا اس کاظہور ایک سفیدمنارہ کے پاس ہوگا۔ فرمایا:بَعَثث اللّٰہُ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَاءِ شَرْقِیَّ دِمَشْقَ۔ ( مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ حدیث نمبر ۷۳۷۳) یعنی جب اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا تو وہ ایک سفید منارہ کے پاس جوملک دمشق کے مشرقی جانب کسی جگہ ہوگا وہاں اترے گا۔ اوریہاں اس تفصیل کاموقع نہیں کہ یہ ایک خوبصورت جامع تمثیلی کلام تھا کہ وہ آنے والاایسے روشن نشانات و تائیدات سماوی اپنے ساتھ لائے گا کہ جس کی روشنی اور شہرت دوردورتک پھیل جائے گی۔لیکن خداتعالیٰ کی خاص تائیداور منشاء سے۱۹۰۰ء میں حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ نے آنحضرتﷺ کے دہن مبارک سے نکلنے والے ان الفاظ کوظاہری رنگ میں بھی پوراکرنے کے لیے ایک منارہ بنانے کی تجویزفرمائی تاکہ آنحضرتﷺ کاارشاد مبارک ہر دو لحاظ سے پورا ہوجائے۔ اس منارہ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپناگھرپیش کردیاکہ اس جگہ اس کوبنالیاجائے۔ لیکن آپؑ نے اس کی بنیاد کے لیے اپنے رہائشی مکانوں کے مغربی جانب مسجد اقصیٰ میں جگہ منتخب فرمائی۔

ابتدائی تخمینہ اخراجات وغیرہ کالگایاگیاتو وہ دس ہزارروپے (۱۰۰۰۰)کااندازہ کیاگیا۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جانثارجماعت کے سامنے منار بنائے جانے کی اس تجویزکی تفصیلات اور اخراجات کی سکیم رکھتے ہوئے ایک اشتہار دیا۔یہ اشتہار ۱۸؍مئی ۱۹۰۰ء کو ’’اشتہارچندہ منارۃ المسیح‘‘ کے عنوان سے شائع ہواجسے خطبہ الہامیہ کے شروع میں بھی شائع کیاگیا۔ جس کامتن ہدیۂ قارئین کیاجاتاہے:

اشتہار چندۂ مَنَارۃ المسیح

’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘

(یہ وہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو شائع ہوئے بیس برس گذر گئے)

’’خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے قادیاں کی مسجد جو میرے والد صاحب مرحوم نے مختصر طور پر دو بازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی اب شوکتِ اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی اور بعض حصہ عمارات کے اَور بھی بنائے گئے ہیں لہٰذا اب یہ مسجد اور رنگ پکڑ گئی ہے یعنی پہلے اس مسجد کی وسعت صرف اس قدر تھی کہ بمشکل دو سو آدمی اس میں نماز پڑھ سکتا تھا لیکن اب دوہزار کے قریب اس میں نماز پڑھ سکتا ہے اور غالباً آئندہ اور بھی یہ مسجد وسیع ہو جائے گی۔ میرے دعوے کی ابتدائی حالت میں اس مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے زیادہ سے زیادہ پندرہ یا بیس آدمی جمع ہوا کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ تین سو یا چار سو نمازی ایک معمولی اندازہ ہے اور کبھی سات سو یا آٹھ سو تک بھی نمازیوں کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ لوگ دُور دُور سے نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔یہ عجیب خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں نے بہت زور مارا کہ ہمارا سلسلہ ٹوٹ جائے اور درہم برہم ہو جائے لیکن جوں جوں وہ بیخ کنی کے لئے کوشش کرتے گئے اَور بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا۔ سو یہ ایسا امر ہے کہ ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں ایک نشان ہے۔ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو ان مولویوں کی کوششوں سے کب کا نابود ہو جاتا مگر چونکہ یہ خدا کا کاروبار اور اس کے ہاتھ سے تھا اس لئے انسانی مزاحمت اس کو روک نہیں سکی۔

اب اس مسجد کی تکمیل کے لئے ایک اَور تجویز قرار پائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی شرقی طرف جیسا کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء ہے ایک نہایت اونچا منارہ بنایا جائے اور وہ منارہ تین کاموں کے لئے مخصوص ہو:

اوّل یہ کہ تامؤذن اس پر چڑھ کر پنج وقت بانگِ نماز دیا کرے اور تاخدا کے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ دفعہ تبلیغ ہو اور تا مختصر لفظوں میں پنج وقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کی تمام انسانوں کو پرستش کرنی چاہیے صرف وہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے سوا نہ زمین میں نہ آسمان میں اَور کوئی خدا نہیں۔

دوسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی بہت اونچے حصے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے گا جس کی قریباً ایک سو روپیہ یا کچھ زیادہ قیمت ہوگی۔ یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دُور دُور جائے گی۔

تیسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اونچے حصے پر ایک بڑا گھنٹہ جو چار سو یا پانسو روپیہ کی قیمت کا ہوگا نصب کر دیا جائے گا تا انسان اپنے وقت کو پہچانیں اور انسانوں کووقت شناسی کی طرف توجہ ہو۔

یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ سے جاری ہوں گے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں۔ اوّل یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آگیا ہے کہ لا الٰہ الا اللّٰہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنچے یعنی اب وقت خودبولتاہے کہ اس ازلی ابدی زندہ خداکے سوا جس کی طرف پاک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں باطل ہیں۔ کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ اُن کے ماننے والے کوئی برکت اُن سے پا نہیں سکتے۔کوئی نشان دکھا نہیں سکتے۔

دوسرے وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لو گ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کرے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے آسمانی روشنی کو دیکھے اوراُس روشنی کے ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے۔

تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تا لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا۔ اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ صحیح بخاری کو کھولو اور اُس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنی یضع الحربجس کے یہ معنے ہیں کہ جب مسیح آئے گاتو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے۔(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button