سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

یہ نشان عمل میں آیا۔ یہ نشان آپ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الٰہی سےآپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا

خطبہ الہامیہ اگرالہامی ہے تو تذکرہ میں شامل کیوں نہیں کیاگیا

(گذشتہ سے پیوستہ )خطبہ الہامیہ کی بابت روحانی خزائن جلد۱۶کاتعارفی دیباچہ، اس کتاب کااپناٹائٹل پیج،اس کی بابت حضرت اقدسؑ کی بعض تحریرات اوراس کی بابت الحکم اپریل مئی ۱۹۰۰ء کی رپورٹنگ اور رجسٹرروایات میں موجود اس تقریب کے متعلق روایات اور سیرت المہدی میں مذکور روایات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ کوئی عام پبلک تقریرنہ تھی۔

یہ ایسی خاص تقریر تھی کہ اس کے لیے اول توایک دودن قبل ہی خدائی الہامات اور القا نے توجہ دلادی تھی اور یہی وجہ ہے کہ قریب قریب علاقوں اورشہروں میں اطلاعات بھی بھیج دی گئی تھیں کہ لوگ عید کے موقع پرضرور تشریف لائیں۔اور ایک روزقبل حضوراقدسؑ نے ایک دعائیہ فہرست مرتب کروائی اور حضورؑ سارادن بیت الدعا میں دعاکرتے رہے۔اس سارے دن اور اس کی رات بھرکی دعاؤں کے ثمرہ کے طور پر یہ خطبہ تھا جوعید والے دن مسجداقصیٰ میں دیاگیا۔اس لیے یہ انتہائی اہمیت کاحامل خطبہ قرار پاتا ہے۔

اب خاکسار وہ دلائل عرض کرے گا کہ جواس کوالہام کے مقام تک سمجھنے میں مدددے سکتے ہیں۔اس خطبہ سے قبل صبح کے وقت آپؑ کوالہام ہواکہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی اورنیزیہ الہام ہوا کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ…(تذکرہ صفحہ ۲۹۰)یہ الہام اشارہ فرمارہاہے کہ یہ کلام رب کریم کی طرف سے تھا۔حضورؑ کی اپنی ذات کا یا زورِبیان کاکوئی دخل نہ تھا۔

پھرحقیقۃ الوحی اور نزول المسیح میں حضورعلیہ السلام خود اس خطبہ الہامیہ کی جوتفصیلات بیان فرمارہے ہیں وہ سطرسطر اس طرف راہنمائی فرمارہی ہے کہ یہ خطبہ اپنے آغازکی ’’یا ‘‘ سے لے کر خبیر کی ’’ر‘‘تک سارے کاساراالہام ہی تھا۔کوئی ایک لفظ بھی شایدوبایدہوگاکہ حضورؑ کی اپنی طرف سے ہو۔کیونکہ وہ نظارہ اور کیفیت جوبیان ہورہی ہے جودیکھنے والوں نے بھی بیان کی اورجس پروہ واردہورہی تھی اس نے خودبھی بیان کی وہ دلیل ہے اس کی کہ وہ انسان اپنے ہوش و حواس سے بے خوداوربے گانہ ہوچکاتھا۔ مسجداقصیٰ کایہ درمیانی دَر وہ کوہِ طور تھا جس پرمثیل موسیٰ کاخدااپنے اس بندے سے کلام کررہاتھا اور وہ نہ دکھائی دی جانے والی الواح کودیکھ دیکھ کر ساتھ کے ساتھ حاضرین کوسنا رہا تھا۔حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کیفیت کاذکرکرتے ہوئے اپنی تصنیف نزول المسیح میں فرماتے ہیں : ’’اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریباً ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔‘‘(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۵۸۸)

اسی کاذکراپنی ایک اورکتاب حقیقۃ الوحی میں یوں فرماتے ہیں:’’۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے… تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو۲۰۰کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبات الہامیہ ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۳۷۵-۳۷۶)

ایک صحابی ؓکی روایت کے مطابق’’ حضرت مولوی نور الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے عربی میں خطبہ عید الاضحی پڑھا (جو کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدا میں درج ہے) تو بعد میں جب اس کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ فرشتے میرے سامنے موٹے موٹے حروف میں لکھی ہوئی تختی لاتے جاتے تھے۔جسے میں دیکھ دیکھ کر پڑھتا جاتا تھا۔ ایک تختی آتی۔ جب میں وہ سنا چکتا تو دوسری تختی آتی اور پہلی چلی جاتی۔ اس طرح تختیوں کا سلسلہ رہا۔ جب کوئی لکھنے والا پوچھتا تو گئی ہوئی تختی بھی واپس آجاتی۔ جسے دیکھ کر میں بتادیتا۔‘‘(رجسٹر روایات صحابہؓ(غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر۴صفحہ۳۸)
اب خطبہ الہامیہ کاٹائٹل پیچ ملاحظہ ہو۔اس کے اوپرلکھاہواہے:’’ھٰذَا ھُوَالْکِتَابُ الَّذِیْ اُلْھِمْتُ حِصَّۃً مِّنْہُ مِنْ رَّبِّ الْعِبَادِ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ مِّنَ الْاَعْیَادِ فَقَرَاْتُہٗ عَلَی الْحَاضِرِیْنَ بِاِنْطَاقِ الرُّوْحِ الْاَمِیْنِ۔ مِنْ غَیْرِ مَدَدِ التَّرْقِیْمِ وَالتَّدْوِیْنِ۔ فَلَاشَکَّ اَنَّہٗٓ اٰیَۃٌ مِّنَ الْاٰیَاتِ۔‘‘

(ترجمہ ازمرتب)’’یہ (خطبہ الہامیہ) وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ (طبع اوّل صفحات ۱ تا ۳۸ جو’’یَا عِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُوْا‘‘…سے شروع ہوتا ہے ’’وَسَوْف یُنَبِّئُھُمْ مِثْلَ خَبِیْرٍ‘‘ …پر ختم ہوتا ہے) مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عید (عید الضحٰی۱۳۱۷ھ جو بتاریخ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء تھی)کے دن الہام ہوا تھا۔ اور پہلے سے لکھوانے اور تحریر میں لانے کے بغیر مَیں نے محض روح امین کے بلوانے پر حاضرین کے سامنے پڑھا تھا اس لئے اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا بھاری نشانِ الٰہی ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ ۲۹۱ مع حاشیہ )

اب جس خطبہ کوحضرت اقدس علیہ السلام خود الہام قراردے رہے ہوں اور فرمارہے ہوں کہ اُلْھِمْتُ کہ مجھے الہام ہوا۔اوراسی وجہ سے حضوراقدسؑ خود اس پوری کتاب کانام ہی خطبہ الہامیہ رکھتے ہیں۔توپھر باقی کیاگنجائش رہ جاتی ہے۔

اورجہاں تک یہ سوال ہے کہ حضرت اقدسؑ نے اپنی وحی کے مجموعوں میں کہیں درج کیوں نہیں فرمایا۔تو خاکسارکے نزدیک یہ ایک زائد سوال ہے۔کیونکہ حضرت اقدسؑ نے ۱۹۰۰ء کے بعد سوائے ایک دومقامات کے کوئی مجموعی عبارت بیان بھی تو نہیں فرمائی۔پھرجب بھی کبھی آپؑ نے وہ مجموعات بیان فرمائے ہیں تو کون سی وہاں آپؑ نے ساری وحی بیان فرمائی ہے۔ بلکہ حضورکی اس طرح سے پیش کردہ وحی میں ایک اندازیہ بھی دیکھا جا سکتاہے کہ قدرے پرانے زمانے کے الہامات زیادہ ہوتے ہیں تاکہ یہ بھی نشان رہے کہ اتنے عرصہ سے خدامجھ سے ہمکلام ہورہاہے۔بہرحال ساری وحی تو کبھی بھی اور کہیں بھی حضورؑ نے بیان نہیں فرمائی جوخطبہ الہامیہ کی وحی نہ بیان کرنے سے کوئی جواز نکالا جا سکے۔

ہاں خطبہ الہامیہ کوبطورنشان آپؑ نے نزول المسیح صفحہ ۲۱۰ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۸میں پیشگوئی نمبر۸۱ اورحقیقۃ الوحی صفحہ ۳۶۲روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۷۵-۳۷۶میں نشان نمبر۱۶۵ کے طورپر توبہرحال پیش فرمایاہے۔

مختصریہ کہ خاکسارکی رائے میں خطبہ الہامیہ (کاایک معین حصہ جوکہ معروف ہے)الہام کی ذیل میں ہی آتاہے اور اس کوتذکرہ میں شامل کرناچاہیے۔البتہ بعض بزرگان کا یہ خیال ہوسکتاہے کہ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کی نگرانی اوربعد میں خلفاء کی ہدایات کے تحت تذکرہ کومرتب کیاجاتارہا ہے اوراس میں خطبہ الہامیہ کوشامل نہیں رکھاگیاتواب بھی نہ رکھاجائے۔تواس ضمن میں اول تو یہ کہاجاسکتاہے کہ نہ جانے تب کسی کویہ خیال آیابھی ہوگاکہ نہیں۔یاتویہ ہوناں !کہ کہیں سے یہ روایت یاحوالہ مل جائے کہ تذکرہ کومرتب کرتے وقت حضرت صاحب کی خدمت میں یہ معاملہ رکھاگیا تھا اور حضورؓ نے فیصلہ فرمایاتھا کہ خطبہ الہامیہ کوتذکرہ میں شامل نہ کیاجائے پھرتو یہ امرقابل غورہوبھی سکتاتھا۔قابل غوراس لیے عرض کیاہے کہ اب بھی کون ساہم فیصلہ کرنے جارہے ہیں۔فیصلہ توجب بھی کرے گا خداکاخلیفہ ہی کرے گا۔ مصداق اس مثل کے کہ امورِ خسرواں،خسرواں دانند،پھر بھی اگربہت احتیاط کرناہوتو ایک احتیاط یہ کی جاسکتی ہے کہ ایک نوٹ دے کرتذکرہ میں بطورضمیمہ کے شامل کرلیاجائے۔ اوریہ تو واضح سی بات ہے کہ اس امرکافیصلہ توہمارے امام ہمام کے قلب اطہرنے ہی کرناہے کہ الہام کافیصلہ تو صاحب الہام ہی کرسکتاہے۔

حضرت اقدس بانئ سلسلہ احمدیہ کے پانچویں خلیفہ امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۱؍اپریل ۲۰۱۴ء بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جوکہ اسی خطبہ الہامیہ کی تفصیلات وتوضیحات پرمشتمل تھا۔اس میں آپ نے فرمایا:’’آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ایسے نشان کا ذکر کروں گا جو آج کے دن یعنی ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۰ء میں ظاہر ہوا۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نشان عمل میں آیا۔ یہ نشان آپ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الٰہی سے آپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا جو الہامی تھا اس لئے اس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا۔ اس الہامی خطبہ اور اس الہامی کیفیت کو دو سو کے قریب لوگوں نے اُس وقت سنا اور دیکھا۔ مجھے بھی کسی نے اس طرف توجہ دلائی کہ آج کے دن کی مناسبت سے جبکہ آج جمعہ بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان نشان کو بیان کروں کیونکہ ایسے احمدی بھی ہیں جو شاید خطبہ الہامیہ کانام تو جانتے ہوں جو کتابی صورت میں شائع ہے لیکن اس کی تاریخ اور پس منظر اور مضمون کا علم نہیں رکھتے۔ اور اس بات نے مجھے حیران بھی کیا جب یہ پتا چلا کہ بعض ایسے بھی ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ خطبہ الہامیہ کیا چیز ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نشان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے دکھائے ایسے ہیں جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین احمدیت کا منہ بند کرنے کے لئے ہمیں مواد مہیا کرتے ہیں۔ آپ کی صداقت کی دلیل ہمیں مہیا کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر ایسے نشان جیسے خطبہ الہامیہ ہے یہ تو عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جس نے بڑے بڑے علماء کے منہ بند کر دئیے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ مختصراً اس کا پس منظر اور تاریخ بیان کروں گا اور یہ بھی کہ اس نے اپنوں پر اس وقت کیا اثر کیا، کس کیفیت میں سے وہ گزرے اور غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اسی طرح اس خطبہ کی چند سطریں یا بعض چھوٹے سے اقتباسات پیش کروں گا۔

اس الہامی خطبہ کی حقیقت اور عظمت کا تو اسے پڑھنے سے ہی پتا چلتا ہے لیکن یہ چند فقرے جو میں پیش کروں گا جو میں نے پڑھنے کے لئے چنے ہیں ان میں بھی اس کی عظمت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا پتا چلتا ہے۔ تذکرہ میں یہ خطبہ الہامیہ شاید اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ علیحدہ کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے لیکن بہر حال مجھے اس بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ اس لئے آئندہ جب بھی تذکرہ شائع ہو یا آئندہ کسی زبان میں جو بھی ایڈیشن شائع ہوں تو متعلقہ ادارے اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیں۔‘‘(الفضل انٹر نیشنل مورخہ ۲؍مئی ۲۰۱۴ء تا ۸؍مئی ۲۰۱۴ء جلد ۲۱ شمارہ ۱۸صفحہ ۵خطبہ جمعہ فرمودہ۱۱؍اپریل ۲۰۱۴ء)

[نوٹ: ابتدا میں خطبہ الہامیہ تذکرہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر ۲۰۱۸ء میں شائع ہونے والے تذکرہ کے انگریزی زبان کے تیسرے ایڈیشن میں اس خطبہ کے الہامی حصے کو شامل کردیاگیا تھا۔]

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button