خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۶؍اگست ۲۰۲۲ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے

سوال نمبر1:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شام کی طرف روانہ ہونے والے چوتھے لشکرکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:چوتھا لشکر حضرت عمرو بن عاصؓ کا تھا۔حضرت ابوبکرؓ نے ایک لشکر حضرت عمروبن عاصؓ کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کیا تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ شام جانے سے قبل قضاعہ کے ایک حصہ کے صدقات کی تحصیل کے لیے مقرر تھے۔جبکہ قضاعہ کے دوسرے نصف حصہ کی صدقات کی تحصیل کے لیے حضرت ولید بن عقبہ ؓمقرر کیے گئے تھے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی خواہش تھی کہ حضرت عمرو بن عاصؓ کو شام کی طرف بھیجیں لیکن ان کے کارناموں کی وجہ سے، حضرت عمروؓ کے کارناموں کی وجہ سے جو انہوں نے فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کے لیے انجام دیے تھے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں یہ اختیار دیا کہ خواہ وہ قضاعہ میں ہی مقیم رہیں یا شام جا کر وہاں کے مسلمانوں کی تقویت کا باعث بنیں۔چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا کہ اے ابوعبداللہ! میں تم کو ایک ایسے کام میں مصروف کرنا چاہتا ہوں جو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہترین ہے سوائے اس کے کہ تمہیں وہ کام زیادہ پسند ہو جو تم انجام دے رہے ہو۔ اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو یہ لکھا کہ میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپؓ ہی ایک ایسے شخص ہیں جو ان تیروں کو چلانے اور جمع کرنے والے ہیں۔ آپؓ دیکھیں کہ ان میں سے جو تیر نہایت سخت، زیادہ خوفناک اور بہترین ہو اسے اس طرف چلا دیجیے جس طرف آپؓ کوکوئی خطرہ نظر آئے۔یعنی کہ میں تو ہر قسم کے خطرے میں جانے کے لیے ہر طرح تیار ہوں۔

سوال نمبر2:حضرت ابوبکرؓ نےلشکرکی روانگی سے قبل حضرت عمروبن عاصؓ کوکیانصائح فرمائیں؟

جواب: فرمایا: جب حضرت عمرو بن عاصؓ مدینہ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں حکم دیا کہ مدینہ سے باہر جا کر خیمہ زن ہو جائیں تا کہ لوگ آپؓ کے ساتھ جمع ہوں۔…جب آپؓ نے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ آپؓ کو رخصت کرنے نکلے۔ فرمایا: اے عمرو! تم رائے اور تجربہ کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو۔ تم اپنی قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء کے ساتھ جا رہے ہو اور اپنے بھائیوں سے ملوگے۔ لہٰذا ان کی خیر خواہی میں کوتاہی نہ کرنا اور ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا کیونکہ تمہاری رائے جنگ میں قابلِ تعریف اور انجام کار بابرکت ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی مشورہ دے تو ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا، اگر تمہارے پاس کوئی تجویز ہے تو اس کو بےشک استعمال کرنا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے عرض کیا کتنا بہتر ہے میرے لیے کہ میں آپؓ کے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپؓ کی رائے میرے بارے میں خطا نہ کرے۔

سوال نمبر3: رومی افواج نے شام کے کن مقامات پراپنے فوجی مراکزقائم کیے ہوئے تھے؟

جواب: فرمایا:روم کی شام میں دو افواج تھیں۔ ایک فلسطین میں اور دوسری انطاکیہ میں اور ان دونوں افواج نے درج ذیل مقامات پر اپنے مراکز بنا رکھے تھے۔ نمبر ایک انطاکیہ: یہ رومی سلطنت کے دور میں شام کا دارالسلطنت تھا۔ دوسرا قِنَّسْرِین: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مغرب میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ تیسرا حِمْص: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مشرق میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ چوتھا۔ عمان: بَلْقَاءکا صدر مقام یہاں مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا۔پانچواں اجنادین: یہ فلسطین کے جنوب میں روم کا عسکری مرکز تھا جو بلادِ عرب کی مشرقی اور مغربی سرحدوں اور حدود مصر سے ملتا تھا۔ چھٹا قَیسَارِیہ:یہ فلسطین کے شمال میں حیفاسے تیرہ کلو میٹر پر واقع ہے اور اس کے کھنڈر ابھی تک باقی ہیں۔ رومی ہائی کمان کا مرکز انطاکیہ یا حمص تھا۔

سوال نمبر4 حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوعبیدہ بن جرّاحؓ کےخط اور حضرت ابوبکرؓ کے جواب کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاح ؓجب جَابِیہ کے قریب تھے تو ان کے پاس ایک آدمی خبر لے کر آیا کہ ہِرَقل انطاکیہ میں ہے اور اس نے تمہارے مقابلے کے لیے اتنا بڑا لشکر تیار کیا ہے کہ اس سے قبل ایسا لشکر اس کے آباؤ اجداد میں سے بھی کسی نے تم سے پہلی قوموں کے مقابلے کے لیے تیار نہیں کیا تھا۔ اس پر حضرت ابوعُبَیدہ ؓنے حضرت ابوبکرؓ کو خط لکھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ شاہ روم ہرقل شام کی ایک بستی جسے انطاکیہ کہتے ہیں وہاں آ کر قیام پذیر ہوا ہے اور اپنی سلطنت کے لوگوں کی طرف آدمی بھیجے کہ انہیں جمع کر کے لائیں۔ چنانچہ لوگ ہر مشکل اور آسان راستوں سے ہوتے ہوئے ہرقل کی طرف آئے۔ لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو اس کی اطلاع بھیج دوں تا کہ اس بارے میں آپ فیصلہ کرسکیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعُبَیدہؓ کی طرف جواباً لکھا کہ تمہارا خط مجھے ملا میں نے اس کو سمجھا جو تم نے شاہِ روم ہرقل کے متعلق تحریر کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ انطاکیہ میں اس کا قیام کرنا اس کی اور اس کے ساتھیوں کی شکست اور اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اور مسلمانوں کی فتح ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تم نے جو ہرقل کے اپنے مملکت کے لوگوں کو جمع کرنے اور کثیر تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے متعلق تحریر کیا ہے تو یہ ہم اور تم پہلے سے جانتے ہیں کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ کوئی قوم بغیر قتال کے اپنے بادشاہ کو نہ چھوڑ سکتی ہے اور نہ اپنی مملکت سے نکل سکتی ہے۔ پھر آپ نے لکھا کہ الحمد للہ! مجھے یہ معلوم ہے کہ ان سےلڑنے والے بہت سے مسلمان موت سے اسی قدر محبت رکھتے ہیں جس قدر دشمن زندگی سے محبت رکھتا ہے اور اپنے قتال میں اللہ سے اجر عظیم کی امید رکھتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اس سے زیادہ محبت رکھتے ہیں جتنی انہیں کنواری عورتوں اور قیمتی مال سے ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک مسلمان جنگ کے وقت ہزار مشرکین سے بہتر ہے۔ تم اپنی فوج کے ساتھ ان سے ٹکراؤ اور جو مسلمان تم سے غائب ہیں اس کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔یقیناًً اللہ جس کا ذکر بہت بلند ہے وہ تمہارے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں تمہاری مدد کے لیے لوگوں کو بھیج رہا ہوں یعنی اَور فوج بھی بھیج رہا ہوں جو تمہارے لیے کافی ہو گی اور مزید کی ان شاء اللہ خواہش نہ رہے گی۔ والسلام۔

سوال نمبر5: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف سے لکھے گئے خط کاکیاجواب تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت عمرو بن عاصؓ کا بھی خط حضرت ابوبکرؓ کو ملا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ تمہارا خط مجھے موصول ہوا جس میں تم نے رومیوں کے فوج اکٹھی کرنے کا ذکر کیا ہے تویاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ساتھ کثرت فوج کی بنا پر ہمیں فتح و نصرت نہیں عطا کی۔ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے۔ احد کے دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ ﷺ سوار تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرماتا اور ہماری مدد کرتا تھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ عَمرو! یاد رکھو اللہ کا سب سے بڑا مطیع وہ ہے جو معصیت سے سب سے زیادہ بغض رکھے۔ خود بھی اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے ساتھیوں کو بھی اطاعتِ الٰہی کا حکم دو۔

سوال نمبر6: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن سفیانؓ کی طرف سے لکھے گئے خط کاکیاجواب تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت یزید بن ابو سفیانؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ کو خط میں وہاں کے حالات لکھتے ہوئے مدد طلب کی جس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے لکھا کہ جب ان سے تمہارا مقابلہ ہو تو اپنے ساتھیوں کو لے کر ان پر ٹوٹ پڑو اور ان سے قتال کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اللہ کے حکم سے چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر غالب آ جاتا ہے اور اس کے باوجود میں تمہاری مدد کے لیے مجاہدین پر مجاہدین بھیج رہا ہوں یہاں تک کہ تمہارے لیے کافی ہو جائیں گے اور مزید کی حاجت نہ محسوس کرو گے۔ ان شاء اللہ۔ والسلام۔ حضرت ابوبکرؓ نے دستخط فرمائے۔

سوال نمبر7:حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جرّاحؓ کے خطوط کےجواب میں کیا تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوعُبَیدہؓ کے پے در پے خطوط کے نتیجہ میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:اللہ کی قَسم! میں ضرور خالد بن ولیدؓ کے ذریعہ رومیوں کو ان کے شیطانی وسوسے بھلا دوں گا۔ حضرت خالدؓ اس وقت عراق میں تھے جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد ؓکو شام جانے اور وہاں اسلامی افواج کی امارت سنبھالنے کا حکم دیا تو حضرت ابوعُبَیدہؓ کو لکھا: اما بعد! میں نے شام میں دشمنوں سے جنگ کی قیادت خالد کو سونپ دی ہے۔ تم اس کی مخالفت نہ کرنا۔ ان کی بات سننا اور ان کے حکم کی تعمیل کرنا۔ میں نے ان کو تمہارے اوپر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ تم میرے نزدیک ان سے افضل نہیں ہو لیکن میرے خیال میں جو جنگی مہارت انہیں حاصل ہے تمہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے لیے خیر کا ہی ارادہ کرے۔ والسلام۔

سوال نمبر8: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ اجنادین میں رومی سپہ سالارکی پیشکش اورحضرت خالدبن ولیدؓ کے جواب کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:بُصریٰ کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ،حضرت ابوعُبَیدہؓ، حضرت شرحبیلؓ اور حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو ساتھ لے کر حضرت عمرو بن عاصؓ کی مدد کے لیے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓو اس وقت فلسطین کے نشیبی علاقوں میں مقیم تھے۔ آپ اسلامی لشکروں سے آ کر ملنا چاہتے تھے مگر رومی لشکر ان کے تعاقب میں تھا اور اس کوشش میں تھا کہ انہیں جنگ پر مجبور کر دے۔ رومیوں نے جب مسلمانوں کی آمد کے متعلق سنا تو وہ اجنادین کی طرف ہٹ گئے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے جب اسلامی لشکروں کے متعلق سنا تو وہ وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ اسلامی لشکروں سے جا ملے اور پھر سب اجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے اور رومیوں کے سامنے صف آرا ہو گئے…رومی سپہ سالار نے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر واپس بھیجنا چاہا کیونکہ ایرانیوں کی طرح اس کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ بھوکے ننگے لوگ ہیں۔ اپنے غریب ملک سے لوٹ مار کے لیے نکلے ہیں۔ وہ صدیوں کے غیر متمدن جاہل مفلس اور بے سروسامان صحرا نشین عربوں سے کسی اعلیٰ مقصد کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت خالدؓ کو ایک پیشکش کی کہ اگر وہ اور ان کی فوج واپس چلے جائیں تو ہر سپاہی کو ایک دستار ایک جوڑا کپڑا اور ایک طلائی دینار دیا جائے گا۔ سپہ سالار کو دس جوڑے کپڑے اور ایک سو طلائی دینار اور خلیفہ کو ایک سو جوڑے کپڑے اور ایک ہزار دینار۔ تو یہ انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکو لٹیرے ہیں۔ ان کو اتنا دو اور رخصت کر دو۔ حضرت خالدؓ نے یہ سنا تو یہ پیشکش بڑی حقارت سے ٹھکرا دی اور انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ رومیو! ہم تمہاری خیرات کو حقارت سے ٹھکراتے ہیں کیونکہ جلد ہی ہم تمہارے مال ودولت،تمہارے کنبوں اور تمہاری ذاتوں کے مالک بن جائیں گے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button