سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسو س کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے،
روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سن کر بول رہی تھی

خطبہ الہامیہ کی بابت بعض روایات

(گذشتہ سے پیوستہ)’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات الہام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی بندہ کی اپنی زبان پر بلند آواز سے ایک دفعہ یا بار بار جاری ہو جاتا ہے اور اس وقت زبان پر بندے کا تصرف نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کا تصرّف ہوتا ہے اور کبھی الہام اس طرح ہوتا ہے کہ لکھا ہوا فقرہ یا عبارت دکھائی دیتی ہے اور کبھی کلام لفظی طور پر باہر سے آتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ کلام الٰہی تین موٹی قسموں میں منقسم ہے۔ اوّل وحی۔یعنی خدا کا براہِ راست کلام خواہ وہ جلی ہو یا خفی۔ دوسرے مِنْ وَّرَاءِ حِجَاب والی تصویری زبان کا الہام مثلاً خواب یا کشف وغیرہ۔ تیسرے فرشتہ کے ذریعہ کلام۔ یعنی خدا فرشتہ سے کہے اور فرشتہ آگے پہنچائے اور پھر یہ تینوں قِسمیں آگے بہت سی ماتحت اقسام میں منقسم ہیں۔ میر صاحب والی روایت میں آخری قسم،وحی میں داخل ہے اور شاید پہلی قسم بھی ایک رنگ وحی کا رکھتی ہے مگر درمیانی قسم مِنْ وَّرَآءِ حِجَاب سے تعلق رکھتی ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 595)

’’حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ 1900ء میں یا اس کے قریب عیدالاضحی سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو لکھا کہ جتنے دوست یہاں موجود ہیں ان کے نام لکھ کر بھیج دو تا مَیں ان کے لئے دُعا کروں۔ حضرت مولوی صاحب نے سب کو ایک جگہ جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ ہے اور اُس وقت ہائی سکول تھا جمع کیا اور ایک کاغذ پر سب کے نام لکھوائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سارا دن اپنے کمرہ میں دروازے بند کرکے دُعا فرماتے رہے۔ صبح عید کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا مجھے الہام ہوا ہے کہ اس موقعہ پر عربی میں کچھ کلمات کہو۔ اس لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اس وقت قلم دوات لے کر موجود ہوں اور جو کچھ مَیں عربی میں کہوں لکھتے جائیں۔ آپ نے نمازِ عید کے بعد خطبہ خود پہلے اردو میں پڑھا۔ مسجد اقصیٰ کے پُرانے صحن میں دروازے سے کچھ فاصلہ پر ایک کُرسی پر تشریف رکھتے تھے۔

حضور کے اُردو خطبہ کے بعد حضرت مولوی صاحبان حسبِ ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے بائیں طرف کچھ فاصلہ پر کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور حضور نے عربی میں خطبہ پڑھنا شروع فرمایا۔ اس عربی خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز بہت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی۔ تقریر کے وقت آپ کی آنکھیں بند ہوتی تھیں۔ تقریر کے دوران میں ایک دفعہ حضور نے حضرت مولوی صاحبان کو فرمایا کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں ممکن ہے کہ بعد میں مَیں خود بھی نہ بتا سکوں اس وقت ایک عجیب عالم تھا۔ جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ خطبہ حضور کی کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدا میں چھپا ہوا ہے۔ آپ نے نہایت اہتمام سے اس کو کاتب سے لکھوایا اور فارسی اور اُردو میں ترجمہ بھی خود کیا۔ اس خطبہ پر اعراب بھی لگوائے اور آپ نے فرمایا کہ جیسا جیسا کلام اُترتا گیا۔ مَیں بولتا گیا۔ جب یہ سلسلہ بند ہو گیا تو مَیں نے بھی تقریر کو ختم کر دیا۔ آپؑ فرماتے تھے کہ تقریر کے دَوران میں بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے نظر آجاتے تھے۔ آپ نے تحریک فرمائی کہ بعض لوگ اس خطبہ کو حفظ کر کے سُنائیں۔ چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس خطبہ کو یاد کیا اور مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں اس کو پڑھ کر سُنایا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب کی یہ روایت مختصر طور پر حصہ اول طبع دوم کی روایت نمبر 156 میں بھی درج ہو چکی ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر نے بعض اصحاب سے چند عدد روایات لکھ کر ایک کاپی میں محفوظ کی ہوئی ہیں۔ یہ روایت اسی کاپی میں سے لی گئی ہے۔ آگے چل کر بھی اس کاپی کی روایات آئیں گی۔ اس لئے مَیں نے ایسی روایات میں مولوی عبدالرحمٰن صاحب کے واسطے کو ظاہر کر دیا ہے۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب خود صحابی نہیں ہیں۔ مگر انہوں نے یہ شوق ظاہر کیا ہے کہ ان کا نام بھی اس مجموعہ میں آ جائے۔ اس کاپی میں جملہ روایات اصحاب جو بوجہ نابینائی یا ناخواندگی معذور تھے ان کی روایات مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشّر نے اپنے ہاتھ سے خود لکھی ہیں۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 623)

’’بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یاکسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلاً الف اور عین۔ صاد وسین یا ثا اور ط و ت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوں بتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسو س کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سن کر بول رہی تھی۔ زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی۔ مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہوکر کسی کے چلائے چلتی ہو۔ یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے۔انقطاع، تبتل، ربودگی یاحالت مجذوبیت وبے خودی ووارفتگی اور محویت تامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہوسکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم ازکم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف وقابویافتہ ہو۔ لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پُر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور دہرادہرا کر بتاتے رہے۔ خطبہ الہامیہ کے نام سے جو کتاب حضور نے شائع فرمائی وہ بہت بڑی ہے۔1900ء کی عید قربان کا وہ خاص خطبہ مطبوعہ کتاب کے اڑتیس صفحات تک ہے۔ باقی حصہ حضور نے بعد میں شامل فرمایا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد دوم تتمہ صفحہ 369-370)

مکرم سید محمود عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت مولوی نور الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے عربی میں خطبہ عید الاضحی پڑھا (جو کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدا میں درج ہے) تو بعد میں جب اس کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ فرشتے میرے سامنے موٹے موٹے حروف میں لکھی ہوئی تختی لاتے جاتے تھےجسے میں دیکھ دیکھ کر پڑھتا جاتا تھا۔ ایک تختی آتی۔ جب میں وہ سنا چکتا تو دوسری تختی آتی اور پہلی چلی جاتی۔ اس طرح تختیوں کا سلسلہ رہا۔ جب کوئی لکھنے والا پوچھتا تو گئی ہوئی تختی بھی واپس آجاتی جسے دیکھ کر میں بتادیتا۔‘‘( رجسٹرروایات صحابہ ؓ (غیر مطبوعہ ) رجسٹرنمبر4صفحہ38)

مکرم امیر الدین احمدی صاحب بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت صاحب جب خطبہ الہامیہ سنا کر نکلے تو راستے میں فرمایا کہ ’’جب میں ایک فقرہ کہہ رہا ہوتا تھا تو مجھے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا فقرہ کیا ہو گا۔ لکھا ہوا سامنے آجاتا تھا اور میں پڑھ دیتا تھا۔ ‘‘حضور بہت ٹھہر ٹھہر کر اور آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے۔‘‘( رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر10صفحہ62)

حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:’’اس دن صبح کو حضرت مسیح موعود عید کے لئے نکلے مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے تو آپ نے فرمایا کہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے کہ کچھ کلمات عربی میں کہو۔ اس لئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب دونوں کو پیغام بھیجا کہ وہ کاغذ اور قلم دوات لے کر آویں۔ کیونکہ عربی میں کچھ کلمات پڑھنے کا الہام ہوا ہے۔ نماز مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھائی اور مسیح موعود نے پھر اردو میں خطبہ فرمایا غالباً کرسی پر بیٹھ کر۔ اردو خطبے کے بعد آپ نے عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا کرسی پر بیٹھ کر۔ اس وقت آپ پر ایک خاص حالت طاری تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ہر جملے میں پہلے آواز اونچی تھی پھر دھیمی ہو جاتی تھی۔ سامنے بائیں طرف حضرت مولوی صاحبان لکھ رہے تھے۔ ایک لفظ دونوں میں سے ایک نے نہ سنا۔ اس لئے پوچھا تو حضرت صاحب نے وہ لفظ بتایا اور پھر فرمایا کہ جو لفظ سنائی نہ دے وہ ابھی پوچھ لینا چاہئے کیونکہ ممکن ہے مجھے بھی یاد نہ رہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک اوپر سے سلسلہ جاری رہا میں بولتا رہا اور جب ختم ہو گیا بس کر دی۔ پھر حضرت صاحب نے اس کے لکھوانے کا خاص اہتمام کیا اور خود ہی اس کا دو زبانوں فارسی اور اردو میں ترجمہ کیا اور یہ بھی تحریک فرمائی کہ اس کو لوگ یاد کر لیں جس طرح قرآن مجید یاد کیا جاتا ہے۔چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس کو یاد کر کے مسجد مبارک میں باقاعدہ حضرت صاحب کو سنایا۔اس کے بعد میرے بھائی حافظ عبدالعلی صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے اس کے متعلق پوچھا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ حضرت صاحب کی طاقت سے بالا ہے۔ ان کے اس جواب سے یہ مطلب تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کا نہیں۔‘‘(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)رجسٹرنمبر10صفحہ303-304)

حضرت میاں محمد یٰسین صاحب احمدیؓ بیان فرماتے ہیں:’’خطبہ الہامیہ حضور نے عید ذوالحجہ کے دن فرمایا۔ خطبہ کے دوران میں حضور کی آواز خلاف معمول بالکل باریک تھی اور نماز کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں جب ایک فقرہ کہہ لیتا تھا تو آگے مجھے علم نہیں ہوتا تھا کہ میں کیا کہوں گا۔ آگے مجھے لکھا ہوا دکھایا جاتا تھا اور پھر میں بولتا تھا۔ یہ خطبہ حضور نے بالکل آہستہ آہستہ پڑھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی حضور کو پڑھاتا ہے اور پھر آگے حضور بول رہے ہیں۔ اس وقت حضور کی حالت معمول سے بالکل مختلف نظر آتی تھی۔ یہ خطبہ حضور نے مسجد اقصیٰ میں جبکہ ابھی بہت چھوٹی تھی پڑھا تھا۔ اس وقت حاضرین کی تعداد ایک سو کے قریب ہو گی اور خطبہ پڑھنے سے ایک دن پیشتر یعنی9؍تاریخ ہجری کے 12بجے تک آنے والے مہمانوں کی نسبت حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو فرمایا تھا کہ جو مہمان12بجے تک آجائیں۔ ان کے نام لکھ کر مجھے دے دیں تا کہ میں ان کے لئے دعا کروں۔ مولوی امیر الدین صاحب نے فرمایا کہ میں بھی وقت مقررہ سے چند منٹ پیشتر پہنچ گیا تھا اور میرا نام بھی ان لوگوں میں لکھا گیا تھا۔ اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں کہ آپ کا نام حضور کے سامنے دعا کے لئے پیش کیا گیا ہے۔‘‘( رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر12صفحہ102-103)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button