ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 133)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

احیاءِموتٰے

احیاء موتٰی کے بارے میں سوال ہونے پرفرمایا کہ

’’اس میں ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ اعجازی طور پر بھی احیاء موتیٰ نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ ہے کہ وہ شخص دوبارہ دنیا کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ مبارک احمد کی حیات اعجازی ہے۔ اس میں کوئی بحث نہیں کہ جس شخص کی باقاعدہ طور پر فرشتہ جان قبض کرلے اور زمین میں بھی دفن کیا جاوے وہ پھر کبھی زندہ نہیں ہوتا۔ شیخ سعدی نے خوب کہا ہے ؂

واہ کہ گر مردہ باز گردیدے

درمیان قبیلہ و پیوند

ردّمیراث سخت تر بودے

وارثاں را زمرگِ خویشاوند

خداتعالیٰ نے بھی فرمایا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضیٰ عَلَیْھَا الْمَوْتَ (زمر:۴۳) (ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر361۔ ایڈیشن 1984ء)

تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی قطعہ شیخ سعدی کاہے، جس کا ذکر گلستان سعدی کے تیسرے باب میں موجود ایک حکایت میں اس طرح ملتا ہے۔

حکایت :ایک مالدار کے متعلق میں نے سنا ہے کہ وہ بخل میں ایسا ہی مشہو رتھا جیسا کہ حاتم طائی سخاوت میں۔ وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا کہ جان کے بدلے ایک روٹی ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔اور حضرت ابوہریرہؓ کی بلی کو ایک لقمہ سے نہ نوازتا۔ اور اصحاب کہف کے کتے کو ایک ہڈی نہ ڈالتا۔خلاصہ یہ کہ اُس کے گھر کے دروازہ اور دسترخوان کو کوئی نہ دیکھتا۔ فقیرصرف اس کے کھانے کی بو سونگھتا۔ پرندہ اس کے کھاناکھانےکے بعد ذرہ نہ چگتا۔میں نے سنا کہ ایک مرتبہ خلیج مصر کے راستہ سے مصر جانا اس کے پیش نظر تھا اور فرعونی خیال (یعنی وہی غرور اور بخل اور کمینگی) دماغ میں۔یہاں تک کہ ڈوبنے نے اسے آدبوچا۔ ایک مخالف ہوا کشتی پر چلی۔اُس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور بے فائدہ چیخنا شروع کردیا۔ محتاج بندہ کو عاجزی کا ہاتھ اُٹھانے سے کیا فائدہ جبکہ مانگنےکے وقت ہاتھ خدا کی طرف اور دینےکے وقت بغل میں ہوں۔

بیان کیا ہے کہ اس کے غریب رشتہ دار مصر میں تھے جو اس کے مرنے کے بعد اس کےچھوڑے ہوئے مال سے مالدار ہوگئے۔ اُسی ہفتہ میں نے ان میں سے ایک کو دیکھا کہ ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوار جارہا ہےاور ایک پری جیسے جسم کا غلام اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔؂

وَاہْ کِہْ گَرْمُرْدِے بَازْ گَرْدِیْدِے

بِہْ سَرَائے قَبِیْلِہْ و پَیْوَنْد

ترجمہ:غضب ہوجاتا اگر مردہ اپنے خاندان اور برادری کے گھر واپس آجاتا۔

رَدِّمِیْرَاثْ سَخْت تَرْ بُوْدِے وَارِثَاںْ رَا زِمَرْگِ خِویْشَاوَنْد

ترجمہ:میراث کا واپس کرنا زیادہ سخت ہوتا وارثوں کےلیے اپنوں کی موت سے۔(یعنی عزیزوں کو اپنے عزیز کے مرنے کا اتنا رنج نہ ہوتا جتنا کہ میراث اور ترکہ کا واپس کرنا گراں گزرتا)

پہلی جان پہچان کی وجہ سے میں نے اس کی آستین پکڑ لی اور کہا۔ اے نیک طبیعت،کھرے آدمی، خوب کھا کیونکہ اس کمینہ نے تو جمع کیا اور کھایا نہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button