پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

جنوری2022ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

پاکستان میں احمدیوں کے بارے میں بی بی سی کی ایک رپورٹ

(گذشتہ سی پیوستہ)

پشاور میں احمدیہ جماعت کے راہنما فوج سے کرنل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں

اُن کا کہنا ہے کہ فوج میں ملازمت کے دوران ان کے ساتھ ایک دو بار امتیازی سلوک ہوا جس میں کچھ افسران کا کہنا تھا کہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے اس شخص کے برتن الگ ہونے چاہییں۔ لیکن دیگر افسران، جو اکثریت میں تھے، نے مزاحمت کی اور کہا کہ آپ لوگ اپنے برتن الگ کر لیں لیکن ہم ان کے ساتھ ان ہی برتنوں میں کھائیں گے۔وہ بتاتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد امتیازی سلوک کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ جس کمپنی میں کام کرتا ہوں اس میں ماتحت ملازمین نے یہ کہہ کر ساتھ میں کام کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ احمدی ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد سے میرے باس پشاور آئے اور انھوں نے مفتی سے کیے گئے ایک مشورے کے متعلق ملازمین کو بتایا کہ مفتی کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے پروفیشن میں مہارت رکھتا ہے اور کام سے کام رکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بعد ماتحت مزید کام کرنے پر راضی ہوئے۔

احمدیہ جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں کوہاٹ، ڈی آئی خان، بنوں، پارہ چنار، سرائے نورنگ میں احمدی آبادی تھی جو بہت کم رہ گئی ہے اور پشاور میں بھی کم ہو گئے ہیں۔

اب ربوہ بھی محفوظ نہیں ہے

پنجاب میں ضلع چنیوٹ کے علاقے ربوہ میں جماعت احمدیہ کا مرکز واقع ہے جس کو اب انتظامی طور پر چناب نگرکہا جاتا ہے۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق سنہ 1948ء میں غیر آباد اور ویران اراضی میں یہ مرکز بنایا گیا تھا جس کی موجودہ 70 ہزار کے قریب آبادی ہے جن میں سے نوے فیصد احمدی ہیں۔

ربوہ میں سکیورٹی کا کوئی غیر معمولی انتظام نظر نہیں آتا۔ احمدیہ مرکز کے قریب سیمنٹ کے کچھ بلاک رکھے گئے ہیں جبکہ صرف ایک پولیس موبائل کونے پر کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ داخلی راستے پر احمدیہ جماعت کے غیر مسلح رضاکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی سے متعلق معاون حافظ طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا کہ قادیانیوں کا جو علاقہ ہے وہاں کوئی مسلمان بھی ان كى اجازت كے بغير نہیں جا سکتا اور حتیٰ کہ پولیس بھی داخل ہونے کے لیے ان سے پوچھتی ہے۔

پاکستان میں ہلاکتوں اور حملوں سے متاثرہ احمدی کمیونٹی کے افراد کی عارضی پناہ گاہ ربوہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب ربوہ بھی محفوظ نہیں ہے۔

یہاں شہری سہولیات نہیں ہیں۔ ترقیاتی کام نہیں ہوتے کیونکہ ہم سیاسی جماعتوں کے ووٹرز نہیں ہیں حالانکہ یہ ضلع میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا ٹاؤن ہو گا۔ یہاں کوئی صنعت نہیں ہے۔ ملازمتوں کے لیے باہر جانا پڑتا ہے اور جب پتہ چلتا ہے کہ احمدی ہے تو نوکری نہیں دیتے۔

ربوہ میں احمدی کمیونٹی کے اپنے دو ہسپتال ہیں جبکہ آٹھ کے قریب سکول، ایک کالج اور یونیورسٹی ہے۔ ترجمان کے مطابق پروفیشنل تعلیم کے لیے باہر جانا ہوتا ہے، جہاں شناخت دینی پڑتی ہے۔ ربوہ میں ہاسٹل کی طرح کے فلیٹس بنے ہوئے ہیں جہاں عارضی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ شہر میں کرائے کے محدود مکانات دستیاب ہوتے ہیں۔

علی مراد ( فرضی نام) لالہ موسیٰ میں کاروبار کرتے تھے۔ گذشتہ سال اگست میں ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا جس کے بعد وہ ربوہ منتقل ہو گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ان کا کاروبار ختم ہو گیا اور زندگی جیسے تھم سی گئی۔

گھر بند ہے۔ بچے سکول جا نہیں سکتے۔ لگتا ہے جیسے وہ بند گلی میں ہیں اور آگے اندھیرا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں۔ چاہے کوئی بھی کہیں پیدا ہوا ہو، پلا بڑھا ہو، اب وہاں واپس نہیں جا سکتا۔ حتی کہ یہاں ربوہ میں بھی کرائے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔

’’شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں‘‘تاہم دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی کے معاون حافظ طاہر اشرفی کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ چھ ماہ سے کسی احمدی پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ پشاور اور ننکانہ میں ہونے والے دونوں واقعات کے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ علمائے دین نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی اور جو آئين و قانون ان كو حق ديتا ہے وہ ملے گا۔پاکستان کا آئین اور قانون جو ہر شہری کو حق دیتا ہے وہ حقوق قادیانیوں کو بھی حاصل ہیں۔ شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں اور اس کی پیروی کریں۔ قادیانی اعلانیہ اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں، وہ آئین اور قانون كو جو ان كے متعلق نہیں مانتے خود کو رجسٹرڈ نہیں کراتے۔

پشاور میں احمدی کمیونٹی کے امیر کا کہنا ہے کہ قتل کے مقدمات کی پیروی میں بھی دشواری ہوتی ہے کیونکہ مدعی خوف میں آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے سماعت ملتوی ہو جاتی ہے اس طرح سے جو ملزم ہے اس کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔

لمز یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کا کہنا ہے کہ جہاں احمدیوں کا معاملہ آتا ہے وہاں پر حکومت مشینری نظر آتی ہی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ قانون، اس کی زبان اور اس ضمن میں عدالتی فیصلے اس طرح کے ہیں کہ کوئی بھی احمدی اگر اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے تو اس کو سلمان رشدی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو اگر کوئی مارنا چاہے تو ہمارا قانون اس کو نہ صرف فطری عمل قرار دیتا ہے بلکہ اس کی ستائش کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر قانونی کارروائی کی بھی جائے تو میڈیا یا کورٹ میں ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ ملزم کے حمایتی جمع ہو جاتے ہیں، علما آجاتے ہیں یا وکلا کا گروہ جمع ہو جاتا۔وہ کہتے ہیں کہ پورا انصاف کا نظام اس طرح کام کرتا ہے کہ اگر اس میں حکومت چاہے بھی اس نفرت انگیزی کی روک تھام نہیں کر پاتی۔یہ حقیقت ہے کہ اگر میں فوج میں نہ ہوتا تو آج یہاں سروائیو نہیں کرتا۔پشاور میں احمدی کمیونٹی کے امیر ریٹائرڈ کرنل کے خاندان کے دو درجن کے قریبی رشتے دار بیرون ملک جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کی فکر ہے کہ وہ یہاں کسی شعبے میں جائیں گے، وہ اس صورتحال کا سامنے کیسے کریں گے اور کیا وہ یہ دباؤ برداشت کر سکیں گے یا ٹوٹ جائیں۔

(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button