سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

(گذشتہ سے پیوستہ )یہ چندایک مثالیں تھیں جن سے واضح ہوتاہے کہ حضرت اقدسؑ کی اپنی تحریرات کے مطابق اور اس زمانہ میں مسجداقصیٰ کانام موجودنہیں تھا بلکہ اس کوجامع مسجدیابڑی مسجدہی کہاجاتاتھااور اسی مناسبت سے مسجدمبارک کو چھوٹی مسجدکہاجاتاتھا۔

جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ خاکسارکی نظرمیں ابھی تک کوئی ایسی تحریریاحوالہ یا کوئی مضمون سامنے نہیں آیا کہ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضرت اقدسؑ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانۂ مبارک میں اس کومسجداقصیٰ کہاجاتاتھا۔یہ نام اس مسجدکوکب دیاگیامعین طورپرتوکہناقدرے مشکل ہوگا البتہ یہ عرض کرتاچلوں کہ بعدمیں یہ علمی بحث ضرورہوئی کہ مسجداقصیٰ کایہ نام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاہی عطاکردہ ہے جوکہ الہامی نام ہے۔گوکہ یہ بحث حضرت اقدسؑ کے زمانہ مبارک میں نہیں ہوئی یاکم ازکم اس کا کوئی حوالہ خاکسارکے سامنے نہیں بعدمیں تحریرات سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق استدلال ہیں۔

اوراس کے لیے عام طورپرخطبہ الہامیہ میں ایک اعلان سے اقتباس پیش کیاجاتاہے جوکہ یہ ہے۔جس میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:’’ ایسا ہی مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصٰی ہے کیونکہ وہ صدر اسلام سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے۔ اور ایک روایت میں خدا تعالیٰ کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا نزول مسجد اقصٰی کے شرقی منارہ کے قریب ہوگا۔‘‘(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 19)اور اس جگہ حاشیہ میں رقم فرماتے ہیں :’’بعض احادیث میں یہ پایا جاتا ہے کہ دمشق کے مشرقی طرف کوئی منارہ ہے جس کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔ سو یہ حدیث ہمارے مطلب سے کچھ منافی نہیں ہے کیونکہ ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ہمارا یہ گاؤں جس کا نام قادیان ہے اور ہماری یہ مسجد جس کے قریب منارہ طیار ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہی واقع ہیں۔ حدیث میں اس بات کی تصریح نہیں کہ وہ منارہ دمشق سے ملحق اور اُس کی ایک جزو ہوگا بلکہ اس کے شرقی طرف واقع ہوگا۔ پھر دوسری حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ منارہ بھی مسجد اقصیٰ کا منارہ ہے اوردمشق کا ذکر اُس غرض کے لئے ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں۔ اور مسجد اقصٰی سے مراد اس جگہ یروشلم کی مسجد نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کی مسجد ہے جو باعتبار بُعد زمانہ کے خدا کے نزدیک مسجد اقصیٰ ہے۔ اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ جس مسجد کی مسیح موعود بنا کرے وہ اس لائق ہے کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہا جائے جس کے معنے ہیں مسجد اَبْعد۔ کیونکہ جب کہ مسیح موعود کا وجود اسلام کے لئے ایک انتہائی دیوار ہے اورمقرر ہے کہ وہ آخری زمانہ میں اور بعید تر حصۂ دنیا میں آسمانی برکات کے ساتھ نازل ہوگا۔ اس لئے ہرایک مسلمان کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی مسجد مسجد اقصٰی ہے کیونکہ اسلامی زمانہ کاخط ممتد جو ہے اس کے انتہائی نقطہ پر مسیح موعود کا وجود ہے لہٰذا مسیح موعود کی مسجد پہلے زمانہ سے جو صدر اسلام ہے بہت ہی بعید ہے۔ سو اس وجہ سے مسجد اقصٰی کہلانے کے لائق ہے اور اس مسجد اقصٰی کا منارہ اس لائق ہے کہ تمام میناروں سے اونچا ہو کیونکہ یہ منارہ مسیح موعود کے احقاق حق اور صَرفِ ہمت اور اتمامِ حجّت اور اعلاء ملّت کی جسمانی طور پر تصویرہے پس جیسا کہ اسلامی سچائی مسیح موعودکے ہاتھ سے اعلیٰ درجہ کے ارتفاع تک پہنچ گئی ہے اور مسیح کی ہمت ثریّا سے ایمان گم گشتہ کو واپس لارہی ہے اسی کے مطابق یہ مینار بھی روحانی امور کی عظمت ظاہر کررہا ہے۔ وہ آواز جو دنیا کے ہر چہار گوشہ میں پہنچائی جائے گی وہ روحانی طور پربڑے اونچے مینار کوچاہتی ہے۔ قریبًا بیس برس ہوئے کہ مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ کلام جومیری زبان پر جاری کیا گیا لکھا تھا۔ یعنی یہ کہ انا انزلناہ قریبًا من القادیان۔ و بالحق انزلناہ و بالحق نزل صدق اللّٰہ ورسولہ وکان امر اللّٰہ مفعولا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ498۔ یعنی ہم نے اس مسیح موعود کو قادیان میں اتارا ہے اور وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اُتارا گیا اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا۔ خدا نے قرآن میں اور رسول نے حدیث میں جو کچھ فرمایاتھا وہ اُس کے آنے سے پورا ہوا۔ ‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ث،ج حاشیہ، روحانی خزائن جلد 16صفحہ19-20حاشیہ)

خاکسارکے نزدیک اس مذکورہ بالااقتباس میں موجودبعض فقرات پر غور کیا جائے تو صاف نظرآتاہے کہ اس مسجداقصیٰ سے مراد جس کوخدانے اپنے الہام میں مسجداقصیٰ قراردیاہے وہ یہ مسجدہے جومسیح موعودکی مسجد ہے۔اور ظاہرہے کہ بڑی مسجدمسیح موعودؑکے والدمحترم کی بنائی ہوئی مسجدتھی۔لیکن اسی اقتباس سے آگے پڑھیں تو مزیدواضح ہوجاتاہے کہ الہام میں موجودمسجداقصیٰ سے مرادوہ مسجدہے جس کوخدانے مسجدمبارک کےنام سے بھی یادکیاہے۔چنانچہ حضورؑانہیں سطورسے معاً آگے تحریر فرماتے ہیں:’’معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جومسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے مسجد اقصٰی سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔ مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ۔ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے۔ مگرکچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہواور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا روپ ہے۔ اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت ﷺ مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصٰی یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے۔ یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے۔‘‘ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص، ج-ح حاشیہ،روحانی خزائن جلد16صفحہ21-22حاشیہ)

اس اقتباس میں وہ فقرات جوخاکسارنے بولڈکیے ہیں وہ صاف دلالت کررہے ہیں کہ اس الہامی مسجداقصیٰ سے مرادمسجدمبارک ہی ہے۔واللہ اعلم

مسجداقصیٰ کے نام پرایک اعتراض اور اس نام کی اَور مساجد

یہاں ضمناًایک امرکاذکردلچسپی سے خالی نہ ہوگااوروہ یہ کہ ایک زمانہ میں یہ اعتراض بھی اٹھایاگیا کہ مسجدکانام اقصیٰ نہیں رکھاجاسکتاکیونکہ قرآن کریم میں جس مسجد کومسجداقصیٰ کانا م دیاگیاہے وہ شعائراللہ میں سے ہے اور اب کسی اور مسجدکواس نام سے پکاراجاناشعائراللہ کی توہین ہے۔اوریہ شوشہ اس وقت چھوڑاگیاجب ربوہ میں ایک جامع مسجدکی تعمیرشروع ہوئی جس کانام مسجداقصیٰ رکھاگیاتھا۔ ظاہرہے کہ یہ ایک بچگانہ سا اعتراض تھا جوبہت ہی کم فہمی اور کم علمی پردلالت کرتاتھا۔البتہ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ اعتراض غیرازجماعت مخالفین کی بجائے غیرمبائعین کی طرف سے اٹھایاگیاحالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قادیان میں اسی نام کی ایک جامع مسجدموجودہے جہاں ان کے اکابرین کی زندگیوں کاایک حصہ گزرچکاتھا۔بہرحال نوائے وقت میں ان احباب کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑاگیااور غیرازجماعت علماء نے بھی مخالفت برائے مخالفت کے متعصبانہ رویہ کی بناء پرانکی تائیدکی اور اپنی علمی پردہ دری کرواکے ہی دم لیا۔کیونکہ اس کاعالمانہ اور محققانہ جواب ماہنامہ الفرقان میں بڑی تفصیل سے دیاگیا۔ جس میں فاضل مضمون نگار نے ثابت کیاکہ شعائراللہ کے نام پرتبرکاً نام رکھاجاتاہے۔اوراس سے توہین کاقطعاً کوئی شائبہ تک نہیں پایاجاتا۔ اور ساتھ ہی کوئی دودرجن کے قریب دنیابھرکی مساجدکے نام اور ایڈریس اور بعض کی تصاویردے کرثابت کیا کہ ان کے نام مسجداقصیٰ رکھے گئے ہیں۔جو پاکستان، ہندوستان سمیت دنیابھرکے دوسرے ملکوں میں موجودہیں۔یہ تفصیلی مضمون ماہنامہ الفرقان جلد 18 شمارہ7 1968ء صفحہ 41تا 45 میں پڑھا جاسکتا ہے۔

ویسے خاکسارکی رائے میں قرآن مجید میں سورۃ بنی اسرائیل کی وہ آیت کہ جس میں مسجداقصیٰ کانام لے کرذکرکیاگیاہے اس کو ہی بغورپڑھ لیاجائے تومضمون بہت کھل کرسامنے آجاتاہے۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيَاتِنَا إِنَّهٗ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اب جب کہ یہ آیات نازل ہوئی تھیں توتب مسجداقصیٰ نام کی کوئی مسجدروئے زمین پرموجودہی نہ تھی۔توصاف سی بات ہے کہ یہ کوئی معنوی اورباطنی لطیف مضمون تھا جیساکہ یہ معراج ایک روحانی اور لطیف کشفی واقعہ تھاوہی لطافت اسی مسجداقصیٰ کے نام میں بھی موجودتھی اوروہ وہی مفہوم ومضمون تھا کہ جس کوحضرت اقدس علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ کے ابتدائی صفحات میں بیان فرمایاہے۔جس کاکچھ ذکرابھی چندصفحات پہلے بیان ہوچکاہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button