خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب ۲۶؍اگست ۲۰۲۲ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کے شام کی طرف بھیجے ہوئے لشکروں کا ذکرہو رہا تھا جو دشمن کو جارحیت سے روکنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔

سوال نمبر2:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شام کی طرف روانہ ہونے والے چوتھے لشکرکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:چوتھا لشکر حضرت عمرو بن عاصؓ کا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک لشکر حضرت عمروبن عاصؓ کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کیا تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ شام جانے سے قبل قضاعہ کے ایک حصہ کے صدقات کی تحصیل کے لیے مقرر تھے۔جبکہ قضاعہ کے دوسرے نصف حصہ کی صدقات کی تحصیل کے لیے حضرت ولید بن عقبہ ؓمقرر کیے گئے تھے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی خواہش تھی کہ حضرت عمرو بن عاصؓ کو شام کی طرف بھیجیں لیکن ان کے کارناموں کی وجہ سے، حضرت عمروؓ کے کارناموں کی وجہ سے جو انہوں نے فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کے لیے انجام دیے تھے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں یہ اختیار دیا کہ خواہ وہ قضاعہ میں ہی مقیم رہیں یا شام جا کر وہاں کے مسلمانوں کی تقویت کا باعث بنیں۔چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا کہ اے ابوعبداللہ! میں تم کو ایک ایسے کام میں مصروف کرنا چاہتا ہوں جو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہترین ہے سوائے اس کے کہ تمہیں وہ کام زیادہ پسند ہو جو تم انجام دے رہے ہو۔ اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو یہ لکھا کہ میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپؓ ہی ایک ایسے شخص ہیں جو ان تیروں کو چلانے اور جمع کرنے والے ہیں۔ آپؓ دیکھیں کہ ان میں سے جو تیر نہایت سخت، زیادہ خوفناک اور بہترین ہو اسے اس طرف چلا دیجیے جس طرف آپؓ کوکوئی خطرہ نظر آئے۔یعنی کہ میں تو ہر قسم کے خطرے میں جانے کے لیے ہر طرح تیار ہوں۔

سوال نمبر3:حضرت ابوبکرؓ نےلشکرکی روانگی سے قبل حضرت عمروبن عاصؓ کوکیانصائح فرمائیں؟

جواب: فرمایا: جب حضرت عمرو بن عاصؓ مدینہ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں حکم دیا کہ مدینہ سے باہر جا کر خیمہ زن ہو جائیں تا کہ لوگ آپؓ کے ساتھ جمع ہوں۔…جب آپؓ نے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ آپؓ کو رخصت کرنے نکلے۔ فرمایا: اے عمرو! تم رائے اور تجربہ کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو۔ تم اپنی قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء کے ساتھ جا رہے ہو اور اپنے بھائیوں سے ملوگے۔ لہٰذا ان کی خیر خواہی میں کوتاہی نہ کرنا اور ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا کیونکہ تمہاری رائے جنگ میں قابلِ تعریف اور انجام کار بابرکت ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی مشورہ دے تو ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا، اگر تمہارے پاس کوئی تجویز ہے تو اس کو بےشک استعمال کرنا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے عرض کیا کتنا بہتر ہے میرے لیے کہ میں آپؓ کے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپؓ کی رائے میرے بارے میں خطا نہ کرے۔

سوال نمبر4: رومی افواج نے شام کے کن مقامات پراپنے فوجی مراکزقائم کیے ہوئے تھے؟

جواب: فرمایا:روم کی شام میں دو افواج تھیں۔ ایک فلسطین میں اور دوسری انطاکیہ میں اور ان دونوں افواج نے درج ذیل مقامات پر اپنے مراکز بنا رکھے تھے۔ نمبر ایک انطاکیہ: یہ رومی سلطنت کے دور میں شام کا دارالسلطنت تھا۔ دوسرا قِنَّسْرِین: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مغرب میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ تیسرا حِمْص: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مشرق میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ چوتھا۔ عمان: بَلْقَاءکا صدر مقام یہاں مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا۔پانچواں اجنادین: یہ فلسطین کے جنوب میں روم کا عسکری مرکز تھا جو بلادِ عرب کی مشرقی اور مغربی سرحدوں اور حدود مصر سے ملتا تھا۔ چھٹا قَیسَارِیہ:یہ فلسطین کے شمال میں حیفاسے تیرہ کلو میٹر پر واقع ہے اور اس کے کھنڈر ابھی تک باقی ہیں۔ رومی ہائی کمان کا مرکز انطاکیہ یا حمص تھا۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوعبیدہ بن جرّاحؓ کےخط اور حضرت ابوبکرؓ کے جواب کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاح ؓجب جَابِیہ کے قریب تھے تو ان کے پاس ایک آدمی خبر لے کر آیا کہ ہِرَقل انطاکیہ میں ہے اور اس نے تمہارے مقابلے کے لیے اتنا بڑا لشکر تیار کیا ہے کہ اس سے قبل ایسا لشکر اس کے آباؤ اجداد میں سے بھی کسی نے تم سے پہلی قوموں کے مقابلے کے لیے تیار نہیں کیا تھا۔ اس پر حضرت ابوعُبَیدہ ؓنے حضرت ابوبکرؓ کو خط لکھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ شاہ روم ہرقل شام کی ایک بستی جسے انطاکیہ کہتے ہیں وہاں آ کر قیام پذیر ہوا ہے اور اپنی سلطنت کے لوگوں کی طرف آدمی بھیجے کہ انہیں جمع کر کے لائیں۔ چنانچہ لوگ ہر مشکل اور آسان راستوں سے ہوتے ہوئے ہرقل کی طرف آئے۔ لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو اس کی اطلاع بھیج دوں تا کہ اس بارے میں آپ فیصلہ کرسکیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعُبَیدہؓ کی طرف جواباً لکھا کہ تمہارا خط مجھے ملا میں نے اس کو سمجھا جو تم نے شاہِ روم ہرقل کے متعلق تحریر کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ انطاکیہ میں اس کا قیام کرنا اس کی اور اس کے ساتھیوں کی شکست اور اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اور مسلمانوں کی فتح ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تم نے جو ہرقل کے اپنے مملکت کے لوگوں کو جمع کرنے اور کثیر تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے متعلق تحریر کیا ہے تو یہ ہم اور تم پہلے سے جانتے ہیں کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ کوئی قوم بغیر قتال کے اپنے بادشاہ کو نہ چھوڑ سکتی ہے اور نہ اپنی مملکت سے نکل سکتی ہے۔ پھر آپ نے لکھا کہ الحمد للہ! مجھے یہ معلوم ہے کہ ان سےلڑنے والے بہت سے مسلمان موت سے اسی قدر محبت رکھتے ہیں جس قدر دشمن زندگی سے محبت رکھتا ہے اور اپنے قتال میں اللہ سے اجر عظیم کی امید رکھتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اس سے زیادہ محبت رکھتے ہیں جتنی انہیں کنواری عورتوں اور قیمتی مال سے ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک مسلمان جنگ کے وقت ہزار مشرکین سے بہتر ہے۔ تم اپنی فوج کے ساتھ ان سے ٹکراؤ اور جو مسلمان تم سے غائب ہیں اس کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔یقیناًً اللہ جس کا ذکر بہت بلند ہے وہ تمہارے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں تمہاری مدد کے لیے لوگوں کو بھیج رہا ہوں یعنی اَور فوج بھی بھیج رہا ہوں جو تمہارے لیے کافی ہو گی اور مزید کی انشاءاللہ خواہش نہ رہے گی۔ والسلام۔

سوال نمبر6: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف سے لکھے گئے خط کاکیاجواب تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت عمرو بن عاصؓ کا بھی خط حضرت ابوبکرؓ کو ملا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ تمہارا خط مجھے موصول ہوا جس میں تم نے رومیوں کے فوج اکٹھی کرنے کا ذکر کیا ہے تویاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ساتھ کثرت فوج کی بنا پر ہمیں فتح و نصرت نہیں عطا کی۔ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے۔ احد کے دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ ﷺ سوار تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرماتا اور ہماری مدد کرتا تھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ عَمرو! یاد رکھو اللہ کا سب سے بڑا مطیع وہ ہے جو معصیت سے سب سے زیادہ بغض رکھے۔ خود بھی اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے ساتھیوں کو بھی اطاعتِ الٰہی کا حکم دو۔

سوال نمبر7: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن سفیانؓ کی طرف سے لکھے گئے خط کاکیاجواب تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت یزید بن ابو سفیانؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ کو خط میں وہاں کے حالات لکھتے ہوئے مدد طلب کی جس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے لکھا کہ جب ان سے تمہارا مقابلہ ہو تو اپنے ساتھیوں کو لے کر ان پر ٹوٹ پڑو اور ان سے قتال کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اللہ کے حکم سے چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر غالب آ جاتا ہے اور اس کے باوجود میں تمہاری مدد کے لیے مجاہدین پر مجاہدین بھیج رہا ہوں یہاں تک کہ تمہارے لیے کافی ہو جائیں گے اور مزید کی حاجت نہ محسوس کرو گے۔ ان شاءاللہ۔ والسلام۔ حضرت ابوبکرؓ نے دستخط فرمائے۔

سوال نمبر8:حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جرّاحؓ کے خطوط کےجواب میں کیا تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوعُبَیدہؓ کے پے در پے خطوط کے نتیجہ میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:اللہ کی قَسم! میں ضرور خالد بن ولیدؓ کے ذریعہ رومیوں کو ان کے شیطانی وسوسے بھلا دوں گا۔ حضرت خالدؓ اس وقت عراق میں تھے جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد ؓکو شام جانے اور وہاں اسلامی افواج کی امارت سنبھالنے کا حکم دیا تو حضرت ابوعُبَیدہؓ کو لکھا: اما بعد! میں نے شام میں دشمنوں سے جنگ کی قیادت خالد کو سونپ دی ہے۔ تم اس کی مخالفت نہ کرنا۔ ان کی بات سننا اور ان کے حکم کی تعمیل کرنا۔ میں نے ان کو تمہارے اوپر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ تم میرے نزدیک ان سے افضل نہیں ہو لیکن میرے خیال میں جو جنگی مہارت انہیں حاصل ہے تمہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے لیے خیر کا ہی ارادہ کرے۔ والسلام۔

سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ اجنادین میں رومی سپہ سالارکی پیشکش اورحضرت خالدبن ولیدؓ کے جواب کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:بُصریٰ کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ، حضرت ابوعُبَیدہؓ، حضرت شرحبیلؓ اور حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو ساتھ لے کر حضرت عمرو بن عاصؓ کی مدد کے لیے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓو اس وقت فلسطین کے نشیبی علاقوں میں مقیم تھے۔ آپ اسلامی لشکروں سے آ کر ملنا چاہتے تھے مگر رومی لشکر ان کے تعاقب میں تھا اور اس کوشش میں تھا کہ انہیں جنگ پر مجبور کر دے۔ رومیوں نے جب مسلمانوں کی آمد کے متعلق سنا تو وہ اجنادین کی طرف ہٹ گئے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے جب اسلامی لشکروں کے متعلق سنا تو وہ وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ اسلامی لشکروں سے جا ملے اور پھر سب اجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے اور رومیوں کے سامنے صف آرا ہو گئے…رومی سپہ سالار نے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر واپس بھیجنا چاہا کیونکہ ایرانیوں کی طرح اس کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ بھوکے ننگے لوگ ہیں۔ اپنے غریب ملک سے لوٹ مار کے لیے نکلے ہیں۔ وہ صدیوں کے غیر متمدن جاہل مفلس اور بےسروسامان صحرا نشین عربوں سے کسی اعلیٰ مقصد کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت خالدؓ کو ایک پیشکش کی کہ اگر وہ اور ان کی فوج واپس چلے جائیں تو ہر سپاہی کو ایک دستار ایک جوڑا کپڑا اور ایک طلائی دینار دیا جائے گا۔ سپہ سالار کو دس جوڑے کپڑے اور ایک سو طلائی دینار اور خلیفہ کو ایک سو جوڑے کپڑے اور ایک ہزار دینار۔ تو یہ انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکو لٹیرے ہیں۔ ان کو اتنا دو اور رخصت کر دو۔ حضرت خالدؓ نے یہ سنا تو یہ پیشکش بڑی حقارت سے ٹھکرا دی اور انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ رومیو! ہم تمہاری خیرات کو حقارت سے ٹھکراتے ہیں کیونکہ جلد ہی ہم تمہارے مال ودولت،تمہارے کنبوں اور تمہاری ذاتوں کے مالک بن جائیں گے۔

سوال نمبر10: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجنگ اجنادین میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی مسلمانوں کو ہدایات دینے کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: صبح کے وقت لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو حضرت خالدؓ نکلے اور لشکر کو ترتیب دیا۔ حضرت خالدؓ لوگوں کے درمیان انہیں جہاد کی ترغیب دلاتے ہوئے چلتے جاتے تھے اور ایک جگہ نہ رکتے تھے اور آپ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مضبوطی سے ڈٹی رہیں اور لوگوں کے پیچھےکھڑی ہو جائیں۔ اللہ کو پکاریں اور اسی سے فریاد کرتی رہیں اور جب کبھی مسلمانوں میں سے کوئی آدمی ان کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے بچوں کو ان کی طرف بلند کریں اور ان سے کہیں کہ اپنی اولاد اور عورتوں کو بچانے کے لیے جنگ کرو۔ حضرت خالدؓ ہر دستے کے پاس ٹھہرتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کے راستے میں اور ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے اللہ کا انکار کیا ہے اور اپنی ایڑیوں کے بل پھر نہ جانا اور تم اپنے دشمن سے مرعوب نہ ہونا بلکہ شیروں کی طرح پیش قدمی کرو یہاں تک کہ رعب چھٹ جائے اور تم آزاد معزز لوگ ہو۔ تمہیں دنیا بھی دی گئی ہے اور آخرت کا بدلہ بھی تمہارے لیے اللہ کے ذمہ واجب قرار دیا گیا ہے۔ دشمن کی کثرت جو تم دیکھ رہے ہو تمہیں خوف میں مبتلا نہ کرے۔ یقیناً اللہ اپنا عذاب اور سزا نازل کرنے والاہے۔ حضرت خالدؓ نے لوگوں سے فرمایا کہ جب میں حملہ کروں تو تم بھی حملہ کر دینا۔

سوال نمبر11:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجنگ اجنادین میں دشمن کی چال کے مقابل پرحضرت خالدبن ولیدؓ کی حکمت عملی کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:جب جنگ ہوئی اور سخت جنگ ہوئی تو رومیوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ جب اپنے مقام پر پہنچ گئے تو وَرْدَان نے اپنی قوم کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ اگر یہی حالت رہی تو یہ ملک و دولت تم سے چلی جائے گی۔ بہتر ہے کہ اب بھی اپنے دلوں کے زنگ کو دھو ڈالو۔ ہمارے دلوں میں خیال تک نہیں گزرا تھا کہ یہ چرواہے اور یہ بھوکے ننگے غلام عرب ہم سے لڑیں گے۔ ان کو قحط و خشک سالی نے ہماری طرف روانہ کیا اور اب انہوں نے یہاں آ کر پھل کھائے، میوے کھائے، جَو کی جگہ گندم کی روٹی مل گئی۔ سرکہ کی جگہ شہد کھا رہے ہیں۔ انجیر، انگور اور عمدہ اشیاء سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ پھر اس نے کچھ سرداروں سے رائے طلب کی تو ایک سردار نے یہ مشورہ دیا کہ اگر مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو ان کے امیر کو کسی حیلے اور بہانے سے دھوکے سے بلا کر قتل کر دو تو باقی سب لوگ بھاگ جائیں گے۔ تم پہلے قوم کے دس سپاہیوں کو بھیجو کہ وہ گھات لگا کر بیٹھ جائیں اور پھر مسلمانوں کے امیر کو اکیلے گفتگو اور مذاکرات کے لیے بلاؤ۔ جب وہ بات چیت کی غرض سے آئے تو گھات لگائے ہوئے سپاہی دھاوا بول کر اسے قتل کر دیں۔ چنانچہ رومیوں کے امیر نے ایک فصیح و بلیغ شخص کو حضرت خالدؓ کے پاس بھیجا۔ قاصد جب مسلمانوں کے پاس پہنچا تو زور سے آواز دی کہ اے عرب! کیا خونریزی اور اس قتل پر بس نہیں کرتے ہو۔ ہم نے صلح کی ایک تجویز سوچی ہے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ تمہارا سردار مجھ سے گفتگو کے لیے آگے آ جائے۔ حضرت خالدؓآگے آئے اور اسے کہا کہ تُو جو پیغام لایا ہے اسے بیان کر مگر سچائی کو مدنظر رکھنا۔ اس نے کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ ہمارا امیر خونریزی کو پسند نہیں کرتا۔ اب تک جو لوگ قتل ہوئے ہیں ان کو اس پر غم ہے۔ اس لیے ان کی یہ رائے ہے کہ تم لوگوں کو کچھ مال دے کر ایک معاہدہ کریں تا کہ جنگ بندی ہو جائے۔ دورانِ گفتگو اللہ تعالیٰ نے جو قاصد آیا تھا اس کے دل میں ایسا رعب ڈالا کہ اس نے حضرت خالدؓ سے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے بدلے اپنے سردار کا پورا منصوبہ حضرت خالدؓ کے سامنے بیان کر دیا۔ سارا منصوبہ جو اس کو پتہ تھا کہ کس طرح چھپ کر حضرت خالدؓ پہ حملہ کرنا ہے۔حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے غداری نہیں کی تو میں تجھے اور تیرے اہل و عیال کو امان دیتا ہوں۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اپنے سردار کو جا کر بتایا کہ حضرت خالدؓ ان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ وہ بہت خوش ہوا اور جو جگہ بات چیت کے لیے معین کی گئی تھی وہاں اپنے دس سپاہیوں کو ایک ٹیلے کے پیچھے چھپا کر گھات لگانے کا حکم دیا۔ حضرت خالدؓ جیسا کہ اس نے بتا دیا تھا اس کے منصوبے کو جان چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے حضرت ضرار ؓسمیت دس مسلمانوں کو اس مقام کی طرف بھیجا جہاں دشمن گھات لگائے ہوئے تھا۔ مسلمانوں نے اس جگہ پہنچ کر رومی سپاہیوں کو جا لیا اور سب کو قتل کر کے خود ان کی جگہ بیٹھ گئے۔ حضرت خالدؓ رومیوں کے امیر سے بات چیت کے لیے چلے گئے۔ دونوں طرف کی فوجیں بالکل ایک دوسرے کے مقابل تیار کھڑی تھیں۔ رومی امیر بھی وہاں پہنچ گیا۔ حضرت خالدؓ نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر تم اسلام قبول کر لو تو تم ہمارے بھائی بن جاؤ گے ورنہ جزیہ دو یا لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ رومی امیر کو گھات لگائے ہوئے سپاہیوں پر بھروسا تھا۔ چنانچہ وہ ایک دم حضرت خالدؓ پر تلوار سے حملہ آور ہوا اور آپ کے دونوں بازوؤں کو پکڑ لیا۔ حضرت خالدؓ نے بھی اس پر حملہ کیا۔ رومی امیر نے اپنے آدمیوں کو آواز دی کہ جلدی دوڑو، مَیں نے مسلمانوں کے امیر کو پکڑ لیا ہے۔ ٹیلے کے پیچھے سے صحابہ کرامؓ نے یہ آوازسنی تو تلواریں سونت کر اس کی طرف لپکے۔ وَرْدَان پہلے تو یہ سمجھا کہ یہ میرے آدمی ہیں مگر جب حضرت ضِرارؓ پر نظر پڑی تو بدحواس ہو گیا اس کے بعد حضرت ضِرارؓ اور دوسرے سپاہیوں نے مل کر اس کا کام تمام کر دیا۔ جب رومیوں کو اپنے امیر کی موت کی خبر ہوئی تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔

سوال نمبر12: جنگ اجنادین میں فتح کے بعدحضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں کیاخط تحریرفرمایا؟

جواب: فرمایا:اَجْنَادَین کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو ایک خط کے ذریعہ یہ خوشخبری سنائی۔ اس کا متن اس طرح ہے کہ السلام علیکم۔ میں آپ کو خبر دے رہا ہوں کہ ہماری اور مشرکین کی جنگ ہوئی اور انہوں نے ہمارے مقابلے میں بڑے بڑے لشکر اجنادین میں جمع کر رکھے تھے۔ انہوں نے اپنی صلیبیں بلند کی ہوئی تھیں اور کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا رکھی تھی کہ وہ فرار اختیار نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہمیں فنا کر دیں یا ہمیں اپنے شہروں سے نکال باہر کریں اور ہم بھی اللہ پر پختہ یقین اور اس پر توکّل کرتے ہوئے نکلے۔ پھر ہم نے کسی قدر ان پر نیزوں سے وار کیا پھر ہم نے تلواریں نکالیں اور ان کے ذریعہ دشمن پر اتنی دیر تک ضربیں لگائیں جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے تیار کیا جاتا ہے۔ پھر اللہ نے اپنی مدد نازل کی اور اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کافروں کو شکست دی اور ہم نے انہیں ہر کشادہ راستے، ہر گھاٹی اور ہر نشیبی جگہ پر موت کے گھاٹ اتارا۔اپنے دین کو غلبہ عطا کرنے اور اپنے دشمن کو ذلیل کرنے اور اپنے دوستوں سے عمدہ سلوک کرنے پر تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ جب یہ خط حضرت ابوبکرؓ کے سامنے پڑھا گیا تو اس وقت آپ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ آپؓ کو اس فتح نے خوش کر دیا اور آپؓ نے فرمایا الحمدللہ! تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور اس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دیا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button