ادبیات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 130)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

قصرنماز

فرمایا:’’حکام کا دورہ سفر نہیں ہوسکتا۔وہ ایسا ہی ہے جیسے کو ئی اپنے باغ کی سیر کرتاہے۔ خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کوئی وجود نہیں۔اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کرنے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔حکام کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں۔ سعدیؒ نے بھی کہا ہے۔؂

مُنعم بکوہ ودشت وبیاباں غریب نیست

ہرجاکہ رفت خیمہ زد وخوابگاہ ساخت

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 311 ایڈیشن1984ء)

تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعر شیخ سعدی کا ہے جو کہ گلستان سعدی کے تیسرے باب میں ایک طویل حکایت میں آیاہے۔حکایت مع شعر ذیل میں درج ہے۔

حکایت:ایک پہلوان کا قصہ بیان کیا جاتاہےکہ وہ تنگدستی کی وجہ سے پریشان تھااس لیے اپنے والد سے سفر کی اجازت چاہی کہ شاید قوت بازو سے کسی مقصد کا دامن پکڑ لے۔باپ نے کہا اے بیٹے !ناممکن خیال کو دل سے نکال دے۔اور قناعت کرکے سلامتی کے گوشہ میں بیٹھ جا۔اس لیےکہ عقلمندوں نے کہا ہے۔دولت کوشش سے حاصل نہیں ہوتی۔اور اس کی تدبیر صبر کرنا ہے۔بیٹا نہ مانا اور سفر کےفائدے بیان کرنےلگا۔باپ نے کہا بیٹا !جیسا کہ تو نے کہا سفر کے منافع بے شما رہیں۔ لیکن سفر پانچ قسم کے آدمیوں کے لیے مناسب ہے۔اولاً تو اس تاجر کےلیے جو باوجود دولت اور قدرت کے غلام اور لونڈیاں رکھتا ہے۔وہ ہر روز ایک شہر میں اور ہر شب ایک نئی جگہ قیام کرتاہے۔اور ہر لحظہ دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔(ازاں بعد مذکورہ شعر)

مُنْعَمْ بِکُوْہ ودَشْت وبِیَابَاںْ غَرِیْب نِیْست

ہَرْجَاکِہْ رَفْت خَیْمِہْ زَدْ وبَارْگَاہْ سَاخَت

(ترجمہ: دولتمند پہاڑ،جنگل اور بیابان میں مسافر نہیں ہے۔ جہاں بھی گیا خیمہ لگا یا اور دربا ر سجا لیا۔)

جبکہ وہ شخص جس کو دنیا کی مراد پر قدرت نہیں ہےوہ اپنے وطن میں بھی مسافراور اجنبی ہے۔دوسرا عالم ہے کہ وہ جہاں بھی پہنچتاہے لوگ اس کی خدمت میں پیش قدمی کرتے اور عزت کرتے ہیں۔تیسراوہ خوبصورت کہ صاحبدلوں کا دل اس کے میل جول کی طرف جھکےکیونکہ بزرگوں نےکہا ہے تھوڑا سا حسن بہت سےمال سےبہترہے۔لوگ اس کی صحبت کو غنیمت سمجھتے ہیں او راس کی خدمتگاری اپنے اوپر احسان سمجھتے ہیں۔چوتھا وہ خوش آواز کہ داؤدی گلے کے ذریعہ پانی کو بہنے اور پرند کو اُڑنے سے روک دے۔اس فضیلت کے باعث لوگ مشتاق ہوتے ہیں کہ اس کی خدمت کریں۔پانچواں وہ پیشہ ور جو بازو کی کمائی سے گزارے کے موافق حاصل کرےتاکہ لقمہ کے لیے آبرو برباد نہ ہو۔

یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں اے بیٹا ! سفر میں دل جمعی اور زندگی کے لطف کا سبب ہیں اور وہ شخص جو ان سب سے خالی ہےوہ باطل خیال لےکر جہان میں جاتاہے اور پھر کوئی شخص اس کا نام ونشان نہیں سنتا۔بیٹے نےباپ کی ایک نہ سنی اور اجازت لے کر سفر پر روانہ ہوگیا۔سفر کے آغاز میں ہی ان مشکلات اور مصائب کا سامنا ہونا شروع ہوگیا جن کا با پ نے ذکر کیا تھا …بالآخر لمبے عرصہ کی تکالیف اٹھا کر زندگی اور موت کی کشمش میں مبتلا بڑی مشکل سے واپس گھر پہنچا…

ملفوظات اور گلستان کے شعر کے دوسرے مصرع میں صرف ایک لفظ کا فرق ہے ملفوظات کے شعر میں ’’خوابگاہ‘‘’’سونے کی جگہ ‘‘جبکہ گلستان کے شعر میں ’’بارگاہ‘‘ ’’دربار‘‘کے الفاظ ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button