سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مسجدکانقشہ

یہ مسجد چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھی اور شروع شروع میں اس کے صرف تین در تھے اور اس کی چھت کے چاروں کونوں پر چار مینار بنائے گئے اور درمیان میں ایک بڑا گنبد جبکہ اس کے بڑے گنبدوں کے دونوں جانب دو چھوٹے گنبد بنے ہوئے تھے یہ قدیم تعمیر شدہ حصہ اسی طرح اللہ کے فضل سے ابھی تک موجود ہے۔

اصل مسجدکارقبہ زیرگنبدسواچارسومربع فٹ مسقف اور ساڑھے تیرہ سومربع فٹ بصورت صحن تھا۔(قادیان دارالامان ازعبدالرشیدآرکیٹیکٹ صفحہ52)

مسجدکوجانے کے لیے دوراستے تھے ایک اس کی شمال کی طرف سے اوریہ دروازہ اس گلی میں کھلتاتھا جوکہ بازارکوجاتی ہے۔اوردوسرا راستہ اس کے شرقی جانب سیڑھیوں کی صورت میں۔

مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے صرف مسجدکی شمالی جانب سے دروازہ تھا لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں ہی جب مسجد کی توسیع ہوئی تھی تو اس وقت ایک دوسرا دروازہ مشرقی جانب بھی بنا دیا گیا۔جو کہ خلافت ثانیہ کے دور میں ایک بڑا گیٹ بنا۔ (بحوالہ :مرکزاحمدیت قادیان صفحہ56،55)

اس مسجدکے صحن میں کنواں تھا۔ اور جیساکہ گذشتہ قسط میںکہ مسجدکی تعمیرکم وبیش مکمل ہوئی ہی تھی کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی وفات ہوگئی اور حسب خواہش اور وصیت اسی مسجدکے صحن میں جہاں انہوں نے خودسے جگہ نشان زدکی ہوئی تھی ان کی تدفین ہوئی۔

اسی صحن میں شہتوت کے دودرخت بھی ہواکرتے تھے جوکہ خلافت اولیٰ کے زمانے تک موجودرہنے کاذکرملتاہے۔

(قادیان دار الامان از عبد الرشید آرکیٹیکٹ، نقشہ مسجد اقصیٰ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جن بعض مساجدکودھرم سالہ بنائے جانے کاذکرفرمایاہے جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ اس میں سے ایک ابھی تک موجودہے۔ اس کاذکرایک کتاب میں اس طرح سے ملتاہے کہ’’یہ مسجدہندوبازار کوجاتے وقت احمدیہ بازارسے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اورمنارۃ المسیح سے مشرق کی طرف ہے۔یہ مسجدچھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھی اور اس کے سامنے ایک چھوٹا ساصحن تھا…اس وقت اس میں داخل ہونے کے لئے ایک دروازہ مشرق کی جانب تھاجب کہ اسی طرح دوکھڑکیاں بھی موجودتھیں۔بعدازاں اس میں جنوبی جانب توسیع کی گئی اور مسجدکے برابرہی ایک کمرہ اورتعمیرکیاگیااس کے بعد … اس کی توسیع بھی ہوئی اوراس کودومنزلہ کیاگیااوراس کے نیچے والے دونوں کمروں میں سے ایک پرانی مسجد اور دوسرا بعدمیں تعمیرشدہ کمرہ ان دونوں کمروں کے سامنے برآمدہ تھااس میں اور دوکمرے ایک شمال جنوب اور دوسرا مشرق مغرب جانب تعمیرہوئے اوراوپرجانے کے لئے شمالی جانب پختہ سیڑھیاں تعمیرکی گئی تھیں۔ ایک عرصہ دراز تک یہ اسی حالت میں موجودرہی۔1970ء میں اس گوردوارہ کے مشرق کی جانب ایک اور کمرے کی بنیادرکھی گئی اور..تقریباً تین سال کی مسلسل کوشش کے بعد یہ کمرہ تعمیرہوا۔مسجدکا گوردوارہ بن جانے سے لے کر1979ء تک اس مسجدکی محراب ٹوٹی حالت میں باہرکوابھری ہوئی جوں کی توں رہی۔لیکن 1979ء میں امرجیت سنگھ بیدی صاحب نے مسجدکے سامنے مغربی جانب پڑی ہوئی خالی جگہ کواستعمال میں لاناچاہااسی دوران اس مسجدکی چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی محراب کوتوڑکرختم کردیاگیا۔اور دیوارسیدھی کرکے وہاں کی خالی جگہ پرایک چھوٹا سامکان تعمیر کر دیا۔ 1979ءمیں ہی اس مسجدمیں گوردوارہ کااصل نشان ایک جھنڈے کی طرز کاجسے سکھ مذہب کی اصطلاح میں’’ نشان صاحب‘‘ کہاجاتاہے گاڑدیاگیا…1981ء میں اس مسجدکااصلی دروازہ …بہت خستہ ہوگیاتھاجوکہ مسجدکے صحن میں داخل ہونے کا اصل دروازہ تھا اس کوتبدیل کردیاگیااوراس کی جگہ لوہے کاگیٹ نصب کردیا۔1991ء میں سکھوں نے اس گوردوارہ کی تعمیرنوکی۔اوراصل مسجداوربعدمیںتوسیع شدہ حصہ کو بنیادوں تک اکھاڑکرنئی بنیادیں بھرکرپھرسے گوردوارہ کی تعمیرکی۔‘‘(مرکزاحمدیت قادیان،صفحہ27،26)

مسجداقصیٰ کی تعمیر وتوسیع

اس تاریخی مسجدکی تعمیرکوکم وبیش ڈیڑھ سوسال ہونے کوآئے اور اس دوران یہ مسجدتعمیروتوسیع کے کئی مراحل سے گزری ہے۔اورحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرکے مطابق کہ اورغالباً آئندہ اوربھی یہ مسجد وسیع ہوجائے گی نہ جانے کتنی وسعت اختیارکرجائے ایسے مقامات کی مقدس وبابرکت تاریخ کے متعلق دیکھا جائے تو چشم تصورمیں قادیان ہے اور یہ دومساجد…

بہرکیف ابھی تک کی ہونے والی تعمیروتوسیع کا مختصر ذکر پیش کیاجاتاہے۔

پہلی توسیع:بعہدمبارک حضرت اقدس علیہ السلام…

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے والد صاحب نے جو مسجد بنوائی تھی اس میں صرف دو صد افرادکے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود تھی لیکن جب قادیان کی عظمت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت وجود سے بڑھنے لگی اور لوگ اس جگہ کثرت سے آنے لگے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں ہی 1900ء میں مسجد کا صحن مشرقی جانب سے اس قدر بڑھادیا گیا کہ آپ کے والد محترم کی قبر جو مسجد کے باہر تھی وہ مسجد کے صحن میں آگئی اور قبر چونکہ نیچے تھی مسجد کا صحن اونچا تھا اس لیےقبر کے اوپر چار فٹ اونچا اینٹوں کا تعویذ بنا دیا گیا تاکہ لوگ قبر کے اوپر نہ چلیں اور پھر قبر کی نشاندہی بھی رہے۔ جس جگہ اس وقت منارۃ المسیح ہے وہ جگہ بھی اس توسیع کے وقت مسجد کے صحن میں شامل ہوگئی تھی۔ اس توسیع کے وقت مسجد کے صحن میں سفید پھو ل والی اینٹ استعمال کی گئی تھی جو کہ پہلے توسیع شدہ حصہ کی نشان دہی کرتی ہے وضو کرنے کے لیے پانی کا انتظام شمالی جانب مسجد کے باہر ہی تھا جہاں ایک کنواں بنا ہوا تھا۔مسجد کی توسیع کے ساتھ یہ حصہ بھی مسجد میں شامل ہوگیا ہے۔

مسجدکی اس توسیع کے لیے کوئی باقاعدہ اشتہاریااعلان نہیں کیاگیابلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے حضرت اقدسؑ کی خواہش اورایما پرچندہ اکٹھاکیااور اس سے توسیع کاکام عمل میں لایاگیا۔حضرت عرفانی صاحب ؓ اس کی تفصیل کاذکرکرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :’’جماعت کی روزافزوں ترقی نے جامع مسجد(مسجداقصیٰ) کوتنگ کردیااور صحن کافی نہ تھا۔ حضرت اقدس نے اس کی توسیع کاارادہ فرمایا اور …اس کے لئے کوئی عام تحریک نہیں کی گئی تھی تاہم حضرت مَخْدُوْمُ الْمِلَّۃ کے خطوط کی بناء پربعض دوستوں کواطلاع دی گئی تھی اور مقامی طورپربھی تین سوروپے کے قریب چندہ جمع ہوگیاتھااور حضرت میرناصرنواب صاحب رضی اللہ عنہ کے زیراہتمام یہ کام شروع ہو گیا تھا۔ ابتداءً قادیان کے غیرمسلموں نے مخالفت کی جیساکہ ان کو عام معمول تھا کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں مخالفت کرنا اور تشدد کرنااپنا نصب العین سمجھتے تھے لیکن جب قادیان کے غیراحمدیوں نے بھی کہا کہ یہ مسجدکامعاملہ ہے ہم تمہاراساتھ نہ دیں گے توقضیہ ختم ہوگیا۔اس توسیع کے سلسلہ میں راقم الحروف اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ کے ارشاد کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل کاذکرکرتاہے کہ مسجدکی توسیع میں جس زمین پرعمارت تعمیرہوئی اس کے حاصل کرنے کی سعادت اسے ہی حاصل ہوئی۔وہ سخت مخالفین کے قبضہ میں تھی اور خاکسار کی سعی کواللہ تعالیٰ نے بابرکت فرمایااور وہ زمین خریدی گئی۔فالحمدللہ اس توسیع کے سلسلہ میں الحکم کا ایک نوٹ آج اپنے اندر ایک صداقت کا مظہر ہے۔

جامع مسجد کے صحن کی تنگی اور نمازیوں کی کثرت اور ان کی تکالیف کو دیکھ دیکھ کرہمارے امام ہمام ؑنے جامع مسجد کی توسیع کا ارادہ فرمایا تھا اور ارادہ کے ساتھ ہی کوئی تین سوسے زائد رقم چندہ کی جمع ہوگئی تھی جس پر مسجد کی توسیع کا کام شروع کر دیا گیا۔ اس کام کے لئے کوئی خاص اشتہار حضرت اقدس نے شائع کرنا ضروری نہیں سمجھا لیکن تاہم حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سلّمہ ربّہ نے قریباً کل احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلا دی تھی اور اکثر جگہ سے چندہ آبھی گیا اور مسجد کا کام بہت کچھ ہو بھی گیا اوربہت باقی ہے۔مسجد کے جنوبی پہلو میں ایک اور عمارت بڑھائی گئی ہے جو عندالضرورت عورتوں کے لیے نماز پڑھنے کے کام آئے گی اور صحن قریباً پہلے سے دوچند ہو گیا ہے۔حضرت اقدس اب جبکہ مسجد کو دیکھتے ہیں تو نہایت مسرت اور انبساط ظاہر فرماتے ہیں۔دراصل مسلمانوں کی عظمت مذہبی کا یہی ایک نشان ہے اور اگر اس کی طرف بھی توجہ نہ کی جائے تو بیشک افسوس کی بات ہے۔ اس کے پورے طور پر تیار ہونے میں کوئی تین ہزارروپیہ خرچ آئے گا ۔ہماری جماعت دینی ضرورتوں سے خوب آگاہ ہے اس لئے ضرورت نہیں کہ لمبے چوڑے الفاظ میں ان کو بنائے مسجد کے فضائل اور برکات کا وعظ کرنے بیٹھیں۔صرف اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ مسجد کی وسعت کے کام کے واسطے وہ اپنے ایمانی جوش کے موافق چندہ دیں۔جہاں جہاں سے ابھی تک چندہ نہیں آیا وہ لوگ متوجہ ہوں۔صحابہ کرام میں بھی عندالضرورت چندوں کی فہرستیں کھلتی تھیں اور ان کے چندوں کی انتہا یہ ہوتی تھی کہ جو کچھ جمع جتھا گھر میں ہوتاتھا لا کررسول اللہﷺ کے حضور رکھ دیتے تھے یاکم ازکم نصف تو ضروردیتے تھے۔پس کیا تعجب ہے اگر ہمارے دوست ہمت کریں او ر ایک ایک مہینہ کی تنخواہ یا کم از کم پندرہ دن کی تنخواہ مسجد کی وسعت کے لیے دے دیں۔تاکہ اس خانہ خدا کی عظمت اور اس کی وسعت کے ساتھ بڑھے۔

دوستو!یہ مبارک مسجد جس میں امام الزمان آکر نماز پڑھتا اور کھڑاہوتاہے ایک وقت آئے گا کہ ایک مسجد ہوگی جو خداکی نظرمیں مقبول و منظورہے اورہوگی اس میں خداتعالیٰ کے بڑے بڑے برکات اور فضل نازل ہوئے ہیں اور ہوں گے اور اس کارخیر میں حصہ لینےوالے کے لئے دنیا کے آخرہونے تک بھی ثواب اور برکات کا سلسلہ جاری رہے گا۔آخر میں ہم یہ کہہ کردوستوں کی طرف دیکھتے ہیں۔؂

اے کہ داری مقدرت ہم عزم تائیدات دین

لطف کن مارانظربراندک و بسیارنیست

مسجد کے متعلق زرچندہ حضرت اقدس علیہ السلام یامیرناصرنواب صاحب مہتمم تعمیرات دارالامان کے نام بھیجیں۔‘‘ (حیات احمدؑ جلدپنجم حصہ اول صفحہ367۔369)حضرت اقدسؑ مسجداقصیٰ کی اس پہلی توسیع کا ایک اشتہارمیں ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’خداتعالیٰ کے فضل و کرم سےقادیاں کی مسجدجومیرے والدصاحب مرحوم نے مختصرطورپردوبازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پربنائی تھی اب شوکتِ اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی اوربعض حصہ عمارات کے اوربھی بنائے گئے ہیں لہٰذا اب یہ مسجد اوررنگ پکڑگئی ہےیعنی پہلے اس مسجدکی وسعت صرف اس قدرتھی کہ بمشکل دوسوآدمی اس میں نمازپڑھ سکتاتھا لیکن اب دوہزار کے قریب اس میں نمازپڑھ سکتاہےاورغالباً آئندہ اوربھی یہ مسجد وسیع ہوجائے گی۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ الف،روحانی خزائن جلد16صفحہ15 )

دو بازاروں سے مراد ایک کا نام ہندو بازارہے اور دوسرےکوبڑابازارکہاجاتاتھا۔

اوریہ پہلی توسیع جوحضرت اقدس علیہ السلام کے عہدمبارک میں ہوئی اورجس کاذکرحضورؑ اس اشتہارمیں فرمارہے ہیں مئی 1900ء سے پہلے پہلے ہی ہوئی ہوگی کیونکہ یہ اشتہار 28؍مئی 1900ء کاہے جیساکہ روحانی خزائن کی اسی جلدکے صفحہ30 پردرج ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button