سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قدیم قادیان کی مساجد

قارئین کرام! احمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام سیرت و سوانح کی گذشتہ اقساط میںقادیان کے تعارف پرمشتمل ایک باب میں اس مقدس بستی کے بارےبیان ہوچکاہے کہ شرع وور کے اعتبار سے یہ بستی مکہ کے نام سے مشہورتھی کہ یہاں کی عورتیں بھی دینداری اور پرہیزگاری میں معروف تھیں۔ اورمساجدکی تعدادکے اعتبارسے تو اس کو اگرمسجدوں کاشہرکہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ہرچندکہ خاکسارابھی تک قادیان کی اس قدیم بستی میں موجودمساجدکی تعدادمعین کرنے سے قاصررہا ہے۔لیکن اگراس زمانے کے کاغذات دستیاب ہوجائیں تو اس ایک چھوٹی سی قلعہ نمابستی میں درجن دو درجن سے زائد مساجد تو ضرورہوں گی۔ سکھوں کے قبضہ میں جانے پرجوتباہی اورویرانی قادیان کی بستی پرآئی اس کے بیان میں حضرت اقدسؑ کی ایک تحریرسے خاکسارکایہ اندازہ ہے کہ اتنی مساجداس وقت قادیان میں ہوں گی۔چنانچہ آپؑ اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں :’’بالآخرسکھوں نے قادیان پربھی قبضہ کرلیااورداداصاحب مرحوم معہ اپنے تمام لواحقین کے جلاوطن کئے گئے۔اُس روز سکھوں نے پانچ سو کے قریب قرآن شریف آگ سے جلادیااور بہت سی کتابیں چاک کردیں اور مساجدمیں سے بعض مساجد مسمار کیں بعض میں اپنے گھربنائے اور بعض کودھرم سالہ بناکرقائم رکھاجواب تک موجودہیں۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ165،حاشیہ)مندرجہ بالا اقتباس سے مسجدوں کی تعدادکاکچھ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جن میں سے بعض مسماراور بعض میں گھربنائےگئے۔ان میں سے ایک گھرتوخاکسارنے خود دیکھاہواہے کہ ان کے گھرکے ایک کمرے میں محراب بعینہٖ موجودتھا۔یہ گھرمسجداقصیٰ کے پہلو میں غربی جانب،غالباً جنوب مغرب میں بنتاہے اور خاکسارکاخیال ہے کہ شایدیہ وہی مسجدہوکہ جس میں مسجداقصیٰ کی تعمیرسے پہلے حضرت اقدس علیہ السلام نمازیں پڑھا کرتے تھے۔بہرحال اس چھوٹی سی بستی میں اتنی تعدادمیں مساجدضرورتھیں کہ جب ایک اورمسجدیعنی اس مسجداقصیٰ کی تعمیرکے بارہ میں سنا تو کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’اتنی بڑی مسجدکی کیا ضرورت تھی۔کس نے نمازپڑھنی ہے۔ اس مسجدمیں چمگادڑ ہی رہاکریں گے۔‘‘(حیات احمد جلد اول صفحہ 66)اس وقت کی مساجد کی کثرت ہو یامسجداقصیٰ کا نسبتاً وسیع یابڑاہوناہوبہرحال یہ تبصرہ کرنے والے کاایک تبصرہ تھا لیکن بعدکے واقعات نے بتادیاکہ یہ اس کی کوتاہ نظری تھی اس کوکیامعلوم تھا کہ رحمت باری بہانہ می جوئیدکے مصداق اپنے خداسے ایک امیدرکھنے والے دل کی دلنوازی مقصودتھی ایسی ذرہ نوازی کہ اس ایک چھوٹی سی مسجدکو اس رحمٰن خدانے اپنے محبت بھرے ہاتھوں سے لیا اوراس کوبڑھایا ایسابڑھایاکہ ابھی تک بڑھاتاہی چلاجارہاہے۔ اپنے رقبہ کے اعتبارسے یہ مسجدوہ مسجدنہ رہی،اس کوبنانے والے اگرآج واپس آکرایک باردیکھ لیں تو مسجدمیں جانے کاراستہ تک بھول جائیں۔اس کے نمازیوں کودیکھیں تو کہاں صرف ایک ’قادیں‘ نام کی بستی کے لوگ نمازپڑھنے آتے تھے کہ جن میں آداب مساجدسے نابلد کچھ ایسے گنواربھی ہوتے کہ کیچڑسے لت پت اندر چلے آتے لیکن اب یورپ اورامریکہ وآسٹریلیا کے لوگ اس مسجدمیں دورکعات نمازپڑھنے کی تمنادلوں میں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب خداتوفیق دے اورہم وہاں ایک نظراس ’’دور کی مسجد‘‘کودیکھ آئیں۔اب اس میں بڑے بڑے علماء وفلاسفراپنے سروں کوجھکانا سعادت سمجھتے ہیںکہ خداکے رسول اور فرستادہ کی تخت گاہ یہ بستی بن چکی ہے۔

خریدزمین برائے تعمیرمسجد

بہرحال حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ جوکہ قادیان کی کھوئی ہوئی ریاست کوواگذارکرنے کے لیے انتھک کوشش میں مصروف رہے لیکن بجزناکامی وناکامیابی کی حسرتوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔قادیان کی اسی بستی میں جس مسجدکودھرم سالہ بنایاگیاتھااس غیورانسان نے قانونی جدوجہدکے ذریعہ اس مسجدکوبحال کرانے کی بھی کوشش کی لیکن مقامی باشندوں کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ کوشش بھی بارآورنہ ہوئی تاتاریخ کے اس دورکی کوئی نشانی باقی رہ جائے۔ لیکن خداکی محبت جوایک چنگاری کی صورت میں اس دل ناکام میں موجودتھی اس نے ہمت نہ ہاری اور وہ محبت ایک شعلہ کی صورت میں بھڑک اٹھی اور اس نے یہ پختہ ارادہ کرلیاکہ کچھ بھی ہو قادیان کے کئی دیہات اور 50کوس طول رکھنے والی ریاست قربان لیکن خدائے عزوجل کاایک گھربناکے رہوں گا کہ جہاں سے پانچ وقت خدائے واحدوأحد کی آواز صنم کدوں پرلرزہ طاری کرتی رہے گی۔اور خوداس مسجدکے صحن کے کونے میں ابدی نیندسونے کافیصلہ کیاکہ خدائے غفورو رحیم کی آواز ان کانوں میں پڑتی رہے۔خداکے پیارمیں ڈوباہوا یہ دل کیاجانتاتھا کہ اس کی یہ مرادکیسے بَرآئے گی کہ اس کی تمام ترناکامیوں اورحسرتوں کے داغ کودھوکر اس کے نام اور اس کے کام کوسورج کی طرح روشن کردے گی۔اور اس خانۂ خداسے بلندہونے والی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر،اشہدان لاالٰہ الااللّٰہ،اشہدان محمدرسول اللّٰہ کی آواز نفخ صوربن کر دنیامیں ایک حشربپاکردے گی۔اوردنیاکے کونے کونے سے آنے والے زائرین جب اس مسجدمیں آئیں گے تو جاتے ہوئے اس کے صحن کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر اس ابدی نیندسونے والے کے لیے ہاتھ اٹھاکریہ دعاکریں گے : اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّۃ

بہرکیف حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒنے اس جگہ نئی زمین خرید کر مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجودہے۔یہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی۔ (کاردار: جن کافرض تھا کہ زمینداروں سے لگان وصول کریں اورعدالت وانصاف کاقیام کریں)یہ جگہ جب نیلام ہونے لگی تو اہالیان قادیان کو چونکہ معلوم ہوچکاتھا کہ میرزا صاحب اس جگہ مسجد بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اس لیےان لوگوں نے حضرت مرزا صاحب کا خوب مقابلہ کیا۔معمولی سی قیمت والی جگہ کی سینکڑوں روپے تک بولی پہنچ گئی۔ایسی صورت حال کو دیکھ کر اس اولوالعزم دل نے عہد کیا کہ مجھے اگراپنی ساری جائیداد بھی فروخت کرناپڑی تو میں وہ فروخت کردوں گا لیکن خداکے گھر کی تعمیرکرنے کے لیے یہ جگہ خرید کے رہوں گا۔چنانچہ معمولی سی قیمت کا یہ قطعہ نیلامی میں سات سوروپے تک گیا جسے بالآخر حضرت مرزاصاحب نے خریدلیا۔

اس مسجدکی تعمیرکے متعلق مزیدیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ کو جب انگریزحکومت نے نیلام کرناچاہاتو یہاں کے مقامی ہندوؤں نے اس جگہ ٹھاکردوارہ بنانے کامنصوبہ بنایا۔حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی غیرت دینی نے یہ گوارانہ کیااور میاں جان محمدصاحب جوکہ مسجداقصیٰ کے مؤذن اورامام وغیرہ بھی تھے ان کوحضرت مرزاصاحب نے فرمایاکہ تم بولی میں کھڑے ہوگے اوریادرکھناکہ آخری بولی ہماری ہی ہونی چاہیے۔

میاں جان محمدصاحب ؓ کی ایک روایت الحکم میں شائع ہوئی اس کے مطابق ’’ایک مجلس میں…میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا۔ کہ میاں جان محمد صاحب رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا تھا کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے یہ جگہ پہلے سکھوں کے قبضہ میں تھی۔ اور خالصہ حکومت کی طرف سے یہاں کوئی حاکم رہتا تھا۔ انگریزی حکومت آنے پر اس جگہ کی نیلامی کا اعلان ہوا۔ اس پر ہندو لوگ مشورہ کررہے تھے کہ اس جگہ کو خرید کر ٹھاکر دوارہ بنایا جائے۔ اس بات کا علم جب حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ مرحوم کو ہوا تو انہوں نے مجھے بلاکر کہا کہ ہماری طرف سے تم نیلامی میں بولی دو۔ میں نے عرض کیا کہ مقابلہ ہوگا۔ کہانتک بولی دیتا جاؤں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس جگہ مسجد بنائی جائے گی۔ آخری بولی ہماری ہو۔ چنانچہ میں نیلامی کے وقت حاضر ہوگیا۔ اور بولی دیتا رہا۔ حتٰی کہ 700 روپیہ تک بولی چڑھ گئی۔ اور یہی بولی ہماری طرف سے آخری تھی۔‘‘ (الحکم قادیان، جلد 40نمبر 10-11-12، مورخہ 7؍اپریل 1937ء صفحہ 3کالم 1)

گویاتمام ترمخالفت اور مقابلے کے باوجود دینی غیرت رکھنے والایہ مردمومن اپنے عزم کاپکارہااور خانۂ خداکے لیے اس جگہ کوحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسجد کی تعمیر کے تعلق سے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے :’’ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے۔ یہ دیکھ کر میں چشم پُرآب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔‘‘ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے۔ اور فرمایاکرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گذرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر ناکامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرع راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ’’جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے۔‘‘ اور یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے۔ اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّۃ۔ آمین۔ قریباً اسی ۸۰یا پچاسی ۸۵برس کی عمر پائی۔‘‘(کتاب البریہ، صفحہ 157- 159روحانی خزائن،جلد 13 صفحہ 189۔- 191، حاشیہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button