خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍فروری 2023ء
’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قرآن کریم کی اشاعت کے لیے بھیجا ہے، قرآن کریم کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے۔ آپؑ کو وہ معارف سکھائے ہیں جو لوگوں سے پوشیدہ تھے۔ آپؑ کے ذریعے قرآن کریم کے فیض کا ایک چشمہ جاری فرمایا ہے۔ آپؑ تو آئے ہی قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہیں
پاکستان میں وقتاً فوقتاً ان علماء کو ابال اٹھتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ پھر بعض سستی شہرت حاصل کرنے والے سیاستدان اور سرکاری اہلکار بھی مل جاتے ہیں اور احمدیوں کو مختلف بہانوں سے ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔گذشتہ کچھ عرصےسے پھریہ لوگ احمدیوںپر تحریف اور توہینِ قرآن کے من گھڑت مقدمے بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائےاور جو احمدی اس غلط اور ظالمانہ الزام میں انہوں نے پکڑے ہوئے ہیں ان کی جلد رہائی کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم کی روشنی ہی ہے جس سے قرآن کریم کے علوم و معارف کا پتہ چلتا ہے اور جماعت احمدیہ ہی ہے جواس کام کو دنیا میں سرانجام دے رہی ہے
’’میں علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کاکوئی امر پیش کریں۔ وہ اپنی جگہ پر ایک نشان اور معجزہ ہے۔‘‘
’’قرآن شریف کا مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے‘‘
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کے بارے میں بصیرت افروز بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍فروری 2023ءبمطابق 03؍تبلیغ 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام
قرآن کریم کے فیوض
بیان فرماتے ہوئےایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے۔ اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ 57 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں : ’’یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت اسی ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے۔ کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن شریف) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ116-117 ایڈیشن 1984ء)
پس
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قرآن کریم کی اشاعت کے لیے بھیجا ہے، قرآن کریم کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے۔ آپؑ کو وہ معارف سکھائے ہیں جو لوگوں سے پوشیدہ تھے۔ آپؑ کے ذریعے قرآن کریم کے فیض کا ایک چشمہ جاری فرمایا ہے۔ آپؑ تو آئے ہی قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے نام نہاد علماء نے آپؑ کے دعوے کی ابتدا سے ہی آپؑ کی مخالفت اپنا مقصد بنایا ہوا ہے اور کوئی دلیل اور عقل کی بات سننا نہیں چاہتے اور عوام الناس کو بھی گمراہ کر رہے ہیں ۔ خود تو علم و معرفت سے نابلد ہیں لیکن جس کو خدا تعالیٰ نے اس کام کے لیے بھیجا ہے اس کے راستے میں روکیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اسے یہ لوگ قرآن کریم کی خدمت سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں وقتاً فوقتاً ان علماء کو ابال اٹھتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ پھر بعض سستی شہرت حاصل کرنے والے سیاستدان اور سرکاری اہلکار بھی مل جاتے ہیں اور احمدیوں کو مختلف بہانوں سے ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصےسے پھر یہ لوگ احمدیوں پر تحریف اور توہینِ قرآن کےمن گھڑت مقدمے بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائے اور جو احمدی اس غلط اور ظالمانہ الزام میں انہوں نے پکڑے ہوئے ہیں ان کی جلد رہائی کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔
بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم کی روشنی ہی ہے جس سے قرآن کریم کے علوم و معارف کا پتہ چلتا ہے اور جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس کام کو دنیا میں سرانجام دے رہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں قرآن کریم کی عظمت و اہمیت، مقام و مرتبہ کے متعلق اپنے ارشادات اور تصنیفات میں جو عرفان بیان فرمایا ہے اور عطا فرمایا ہے وہ میں آج بیان کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ
قرآن کریم کی تعلیم کامل اور مکمل ہونے کے بارے میں
ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل: 90) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام: 39) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اس کے‘‘ فرماتے ہیں کہ ساتھ اس کے ’’یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الٰہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں۔‘‘ ہر ایک کو اس کا ملکہ نہیں دیا گیا کہ اس کی تفصیل اور تفسیر بیان کرے اور گہرائی میں جا کر اس کے علم و عرفان کے موتیوں کو نکال کے لائے۔ فرمایا ’’بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الٰہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمیٰ مدد دیئے گئے ہوں ۔ سو ایسے لوگوں کے لئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بَعِلَّت غَیر مُلْہَم ہونے کے قادر نہیں ہوسکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں بلاتامل و توقف قبول کر لیں ۔‘‘
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے صلاحیت ہی نہیں دی ،علم ہی نہیں دیا ،عرفان ہی نہیں دیا، ان کا یہ کام ہے کہ جو پرانے سابقہ مفسرین ہیں ، ہمارے پرانے امام ہیں ،بزرگ ہیں ،جو تقویٰ پر چلنے والے لوگ تھے ، جنہوں نے تفاسیر لکھی ہیں، ان کو سامنے رکھیں، ان پہ عمل کریں ۔اور قرآن کریم کا ظاہری علم جتنا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ،بجائے اس کے کہ اپنے طور پہ غلط قسم کے نقطے نکالتے رہیں ۔
فرمایا:’’اور جو لوگ وحی ولایت عظمیٰ کی روشنی سے منور ہیں اور اِلَّاالْمُطَہَّرُوْنکے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر قرآن کریم کے گہرے علم کھولتا رہتا ہے۔ ’’اور یہ بات ان پر ثابت کردیتا ہے کہ کوئی زائد تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہرگز نہیں دی۔‘‘ بعض لوگ کہتے ہیں حدیث جو ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب قرآن کریم کا علم اور عرفان عطا فرماتا ہے تو اس سے پتا لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم سے باہر کوئی بات نہیں کی۔ فرمایا: ’’بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات و اشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے۔‘‘ حدیثیں ہیں ان میں بعض اشارے ایسے ملتے ہیں جس سے بعض آیتوں کی تفسیر ملتی ہے،تفصیل ملتی ہے اور قرآن کریم کا مضمون ان پر مزید کھلتا ہے۔ فرمایا:’’اور نیز ان آیاتِ بیّنات کی سچائی ان پر روشن ہوجاتی ہے جو اللہ جلّ شانہ ٗفرماتا ہے جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 80-81)
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علم و معرفت کو عطا فرمانے کے لیے بھیجا ہے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ
ہدایت کا اوّل ذریعہ قرآن ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں ۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے جیساکہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسیٰ بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا۔‘‘ یعنی یہودیوں کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اپنے قرب سے نہیں نوازا لیکن فرمایا ’’اسی طرح قرآن میں منع کیا گیاہے کہ بجز خدا کے۔‘‘ ایک تو اس کی یہ نفی کر دی کہ حضرت عیسیٰ پہ جو الزام ہے وہ غلط ہے۔دوسرا فرمایا قرآن میں منع کیا گیا ہے کہ بجز خدا کے ’’تم کسی چیز کی عبادت کرو، نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اَور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی۔‘‘ ہر قسم کے شرک سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مناہی فرمائی، اس کی تلقین فرمائی اور بڑا کھل کر فرمایا ’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور
قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو(700) حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو‘‘
قرآن کو تدبر سے پڑھو ’’اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیساکہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا‘‘ ہے۔ فرماتے ہیں کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے الہاماً فرمایا ہے ’’کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اَور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں
تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اَور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔‘‘
جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ ہدایت کے لیے، دینی ہدایت کے لیے قرآن کا واسطہ بہرحال ضروری ہے۔
جس کی یہ تعلیم اور خیال ہوں، جو اپنے ماننے والوں کو اس طرح نصیحت کرے، کیا وہ قرآن کریم میں کسی بھی قسم کی تحریف کر سکتا ہے؟ ان کوکچھ تو عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔
پھر آپؑ نے فرمایا:
’’خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔‘‘ ایک خون کے لوتھڑے کی طرح تھی۔ ’’قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ انجیل کے لانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایک ضعیف اور کمزور جانور ہے‘‘ یہی کہا جاتا ہے ناں کہ کبوتر کی شکل میںحضرت جبرئیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آئے۔ فرمایا یہ تو کمزور پرندہ ہے ’’جس کو بلی بھی پکڑ سکتی ہے۔ اسی لئے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور روحانیت ان میں باقی نہ رہی‘‘ اور اب تو یہ حال ہے کہ جو اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں کہ عیسائیوں کی اکثریت ہے جو عیسائیت سے ہی انکاری ہو رہے ہیں اور عیسائیت کو چھوڑ رہے ہیں اس لیے کہ ان کو روحانیت نہیں مل رہی۔ اور مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ باوجود قرآن ہونے کے اس پر عمل نہ کر کے اس کی روحانیت سے فائدہ نہیں اٹھا رہے اور جس شخص کو اس علم و معرفت کے پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کو ماننے سے انکاری ہیں۔فرماتے ہیں’’کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا مگر قرآن کا روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سما کو بھر دیا تھا۔ پس کجا وہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے
قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے۔‘‘
اگر صحیح طرح اس پہ، اس کے حکموں پر عمل کیا جائے تو ایک ہفتے میں انسان کو پاک کر سکتا ہے۔’’اگر صُورِی یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔‘‘ یعنی
اگر مکمل طور پر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل ہو اور اس کے ہر حکم کی پابندی ہو تو نبیوں کے رنگ میں انسان رنگین ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی مقام ہے جس سے انسان قرآن کریم کی برکات سے فیض پا سکتا ہے۔
فرمایا :’’بجز قرآن کس کتاب نے اپنی ابتدا میں ہی اپنے پڑھنے والوں کو یہ دعا سکھلائی اور یہ امید دی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ(الفاتحہ: 7،6) یعنی ہمیں اپنی اُن نعمتوں کی راہ دکھلا جو پہلوں کو دکھلائی گئی جو نبی اور رسول اور صدیق اور شہید اور صالح تھے‘‘ فرماتے ہیں: ’’پس اپنی ہمتیں بلند کر لو اور قرآن کی دعوت کو ردّ مت کرو کہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلوں کو دی تھیں ۔‘‘
(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27)
اسی طرح قرآن کے بعد دوسری ہدایت کا ذریعہ آپؑ نے فرمایا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور تیسرا ذریعہ حدیث ہے کیونکہ وہ بہت عرصے کے بعد، کئی سال کے بعد بلکہ سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد آئیں۔ بشرطیکہ یہ حدیثیں قرآن اور سنت کے منافی نہ ہوں ۔
قرآن کریم کی عزت و تکریم کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔
اس کی تفصیل میں آپؑ نے فرمایا:
’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو
مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے
جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘
قرآن کریم سے بالکل کنارہ کشی نہ کر لو۔ اس پہ عمل کرنا بالکل چھوڑ نہ دو۔ یہ نہ ہو کہ بالکل عمل ہی نہ کرو۔ اس کو پڑھو، باقاعدگی سے پڑھو۔ اس کی نصائح پر عمل کرو ۔کیونکہ ’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔‘‘
ایمان میں ایسی مضبوطی ہوتی ہے کہ اس دنیا میں انسان پر اس کی روشنی ظاہر ہو جاتی ہے۔ ہر ظلمت کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان تیار ہو جاتا ہے۔ جس کی تازہ مثال ہمیں گذشتہ دنوں ہمارے برکینا فاسو کے شہید بھائیوں میں ملتی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اَور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اَور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13-14)
ایک اَور الزام جو ہے اس کا بھی اس میں ردّ کر دیا کہ ہم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں۔
پھر
قرآن شریف کے خاتَم الکتب ہونے کے بارے میں
آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتَم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتَم الکتب۔اب کوئی اَور کلمہ یا کوئی اَور نماز نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا کرکے دکھایااور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اُس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس امّت کے لئے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے، مخاطب ہوتا ہے۔ یہ دروازہ کھلا ہے،بند نہیں ہو گیا۔ ’’اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ(الفاتحۃ: 7،6)‘‘ فرمایا کہ ’’اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی راہ کے لئے جو دعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے اوریہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الٰہی ہی کا کمال تھا اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی، اسی کے تم بھی خواہاں رہو۔ پس اس نعمت کے لئے یہ خیال کرو کہ قرآن شریف اس دعا کی تو ہدایت کرتا ہے مگر اس کا ثمرہ کچھ بھی نہیں یا اس امت کے کسی فرد کو بھی یہ شرف نہیں مل سکتا۔‘‘ایک تو یہ دعا کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سب دعا کرو اور جو اس مقام تک پہنچے ہیں ان کو یہ مقام مل سکتے ہیں لیکن آپؑ فرماتے ہیں کہ عجیب حالت ہے مسلمانوں کی کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ دعا سکھلائی ہے اور پھر یہ کہتے ہیں کسی ایک شخص کو بھی کجا یہ کہ بہت ساروں کو ملے، ایک شخص کو بھی یہ مقام نہیں مل سکتا ۔ایک شخص بھی امّت میں ایسا نہیں جس کو یہ مقام مل سکے۔ فرمایا: ’’اور قیامت تک یہ دروازہ بند ہوگیا ہے۔‘‘ ان لوگوں کے نزدیک۔ ’’بتاؤ اس سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ثابت ہوگی یا کوئی خوبی ثابت ہوگی؟‘‘ الزام تو ہمیں دیتے ہو۔ اب تم بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعا ہے اس کے باوجود تم جو دروازے بند کر رہے ہو تو اس کی ہتک کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ تم یا ہم؟ فرمایا: ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے اور اس نے مغز شریعت کو سمجھا ہی نہیں ۔ اسلام کے مقاصد میں سے تو یہ امر تھا کہ انسان صرف زبان ہی سے وحدہٗ لاشریک نہ کہے بلکہ درحقیقت سمجھ لے اور بہشت دوزخ پر خیالی ایمان نہ ہو بلکہ فی الحقیقت اسی زندگی میں وہ بہشتی کیفیات پر اطلاع پالے۔‘‘ ایسی نیکیاں ہوں کہ یہ زندگی بھی جنت بن جائے ’’اور ان گناہوں سے جن میں وحشی انسان مبتلا ہیں نجات پالے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ عظیم الشان مقصد اسلام کا تھا اور ہے اور یہ ایسا پاک مطہر مقصد ہے کہ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہیں کر سکتی اور نہ اس کا نمونہ دکھا سکتی ہے۔ کہنے کو تو ہر ایک کہہ سکتا ہے مگر وہ کون ہے جو دکھا سکتا ہو؟‘‘
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 285-286 ایڈیشن2021ء)
پس آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو اس معیار کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے،ہم پر کفر کے فتوے لگانے والوں کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ احمدی صرف پرانے قصوں ہی کو بیان نہیں کرتے بلکہ آج بھی زندہ کتاب اور زندہ رسول کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اترنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آج بھی بولتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبیؐ دیا جو خاتَم المؤمنینؐ، خاتَم العارفینؐ اور خاتَم النبیینؐ ہے اور اسی طرح پر وہ کتاب اُس پرنازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتَم النبیین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہو گئی۔ تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کردے۔ ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپؐ پر کمالات نبوت ختم ہو گئے۔ یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدمؑ سے لے کر مسیحؑ ابن مریمؑ تک نبیوں کو دئیے گئے تھے کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دئیے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپؐ خاتم النبیین ٹھہرے۔ اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں وہ قرآن شریف پر آ کر ختم ہو گئے اور قرآن شریف خاتَم الکتب ٹھہرا۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ341-342 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں ۔
کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قدر قوت اور شوکت اس کلا م کی ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔‘‘ ایسا اعلیٰ درجہ کا کمال ہےکہ نہ کبھی ہوا نہ آئندہ ہو گا۔ ہم پہ نعوذ باللہ الزام کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؐ سے بڑا سمجھتے ہیں اور ہم توہینِ رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ نعوذ باللہ۔ ان الفاظ کے بعد کوئی عقلمند اور انصاف پسند یہ نہیں کہہ سکتا کہ احمدی کسی بھی طرح توہین رسالت کے مرتکب ہیں ۔ فرمایا ’’اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اُس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات ِکمال آپؐ پر ختم ہوچکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور
جیسے نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے۔ آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔‘‘
فرمایا ’’جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں۔ ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔‘‘جو بھی مرتبہ ہو، جو بھی وجوہات کسی کلام کی بڑائی کی اور اعجاز کی ہو سکتی ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں ۔
’’یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبارات ثمرا ت تعلیم، غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی۔ بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے۔ یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو۔ خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت ۔‘‘ خاص پہلو کو نہیں مانگا۔ کسی طرح آؤ قرآن شریف سے مقابلہ کر لو۔ قرآن شریف میں ہر قسم کے مضامین موجود ہیں ۔ ’’خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں ۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو، یہ معجزہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 36-37 ایڈیشن 1984ء)
پھر ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا:
’’یہ بات ہرگز ہرگز بھول جانے کے قابل نہیں ہے کہ قرآن شریف جو خاتم الکتب ہے در اصل قصوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اپنی غلط فہمی اور حق پوشی کی بناء پرقرآن شریف کو قصوں کا مجموعہ کہا ہے انہوں نے حقائق شناس فطرت سے حصہ نہیں پایا۔ ورنہ اس پاک کتاب نے تو پہلے قصوں کو بھی ایک فلسفہ بنا دیا ہے‘‘ جو قصے بیان ہوئے ہیں وہ بھی اس طرح بیان کیے ہیں کہ وہ ایک فلسفہ ہے۔ ان میں ایک سبق ہے۔ ایک گہرائی ہے۔ فرمایا :’’اور یہ اس کا احسانِ عظیم ہے ساری کتابوں اور نبیوں پر‘‘ کہ ان قصوں کو بھی اس نے فلسفہ بنا دیا ’’ورنہ آج ان باتوں پر ہنسی کی جاتی اور
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علمی زمانہ میں جبکہ موجوداتِ عالم کے حقائق اور خواص الاشیاء کے علوم ترقی کر رہے ہیں اس نے آسمانی علوم اور کشفِ حقائق کے لئے ایک سلسلہ کو قائم کیا‘‘ ہے۔
بڑے بڑے علوم کے ماہرین پیدا ہو رہے ہیں، مختلف قسم کی سائنس کے مضامین ہیں۔ دوسرے مضامین ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے ۔مزید تحقیقیں ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے سلسلہ قائم کر دیا اور اس سلسلہ میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تفسیر قرآن کریم کے علم سے ہی علم حاصل کر کے، اس کی تعلیم سے ہی علم حاصل کر کے بیان فرمائی ہے کہ کس طرح سائنس اور مذہب میں ایک یکجائی ہے۔ فرمایا ’’جس نے ان تمام باتوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں ایک معمولی قصوں سے بڑھ کر وقعت نہ رکھتی تھیں اور اس سائنس کے زمانہ میں ان پر ہنسی ہورہی تھی۔‘‘ فرمایا کہ ’’علمی پیرایہ میں ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا۔‘‘ جو اندھیرا زمانہ تھا ،ایک جہالت کا زمانہ تھا۔ اسلام میں اکا دکا علماء نظر آتے تھے ۔ اس وقت کی یہ باتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ لوگ ہنستے تھے،سائنسدان ہنستے تھے کہ یہ کیا ہے؟لیکن آپؑ کو بھیج کر اور اس کی تفسیر جو آپؑ نے بیان کی، جو تشریح بیان فرمائی اور جس طرح اس کا عرفان بیان فرمایا۔
(ملفوظات جلد3صفحہ153 ایڈیشن 1984ء)
مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو بیان کرنے کے لیے اپنے فرستادے کو بھیجا جس نے اسلام کی تعلیم کے اوپر جو جہالت کے الزامات تھے ان سب کو دُور کر دیا۔
پھر
قرآن کریم پر ایمان اور اس کی پیروی کو آپؑ کس قدر ضروری خیال فرماتے تھے اور اس کو ایمان کا حصہ یقین رکھتے تھے
اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ذرا اِدھر اُدھر ہونا بے ایمانی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو اس کو ذرا بھی چھوڑے گا وہ جہنمی ہے۔‘‘ فرمایا کہ میں نے’’پھر اس عقیدہ کو نہ صرف تقریروں میں بلکہ ساٹھ کے قریب اپنی تصنیفات میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہےاور دن رات مجھے یہی فکر اور خیال رہتا ہے۔‘‘
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 259)
آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے مخالفین جھٹ کفر کا فتویٰ ہم پر لگا دیتے ہیں۔ اگر ہماری طرف سے کوئی بات سنتے ہیں تو انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہم سے پوچھتے کہ یہ بات تم نے کی ہے یا نہیں کی اور اگر کی ہے تو یہ تو اسلام کے مطابق نہیں ہے اس کی وضاحت کرو ۔لیکن نہیں۔ فرمایا کہ ان کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ صرف کفر کے فتوے لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔
(ماخوذ از لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 259)
پس ہم نے تو جو بیان کیا اسلام کی اور قرآن کی تعلیم کی روشنی میں کیا ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے اور اسی کے مطابق ہم عمل کرتے ہیں ۔
قرآن شریف اور قانون قدرت کی ہم آہنگی
کو بیان فرماتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں:
’’پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرینِ مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے۔‘‘ کبھی معاف کرنے کی طرف فرماتا ہے اور کبھی سزا دینے کی طرف۔ ’’پس درحقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظرکے سامنے ہے۔ یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے۔‘‘ عام قانون قدرت ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف فرماتا ہے۔کہیں سزا دیتا ہے ۔کبھی چھوڑ رہا ہوتا ہے اور وہی جو اصول ہے وہ دینی تعلیم میں بھی ہونا چاہیے۔ اپنی اس مذہبی کتاب میں بھی ہونا چاہیے اور قرآن شریف میں ہے۔ فرمایا :’’نہ یہ کہ فعل سے کچھ اَور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اَور ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگزر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزایاب بھی کرتا ہے ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے۔ ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے۔ سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچا قولِ الٰہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں ۔ ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اور درگزر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو۔ اب بھی ناپاک طبع لوگوں کے لئے خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک عظیم الشان اور ہیبت ناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو ان کو ہلاک کرے گا۔‘‘
(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 346-347)
یہ اس وقت تھا جب زلزلے کی آپؑ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’دنیا میں ایک قرآن ہی ہے جس نے خدا کی ذات اور صفات کو خدا کے اس قانون قدرت کے مطابق ظاہر فرمایا ہے جو خدا کے فعل سے دنیا میں پایا جاتا ہے اور جو انسانی فطرت اور انسانی ضمیر میں منقوش ہے۔
عیسائی صاحبوں کا خدا صرف انجیل کے ورقوں میں محبوس ہے اور جس تک انجیل نہیں پہنچی وہ اس خدا سے بےخبر ہے لیکن جس خدا کو قرآن پیش کرتا ہے اس سے کوئی شخص ذوی العقول میں سے بے خبر نہیں۔ اس لئے سچا خدا وہی خدا ہے جس کو قرآن نے پیش کیا ہے۔‘‘ جو دنیا میں کہیں بھی رہنے والے ہیں، کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہیں ،دہریہ بھی ہیں ،وہ بھی دنیا کی بناوٹ دیکھ کے کچھ نہ کچھ حد تک یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہے اور اکثریت تو اپنے اپنے قبائلی مذہب کے لحاظ سے بھی یقین رکھتی ہے۔ بہرحال آپؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا خدا تو یہ ہے جو اپنے آپ کو خود ظاہر کرتا ہے۔ ’’جس کی شہادت انسانی فطرت اور قانونِ قدرت دے رہا ہے۔‘‘ عیسائیوں کی طرح نہیں ہے۔
(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 350 حاشیہ)
فرماتے ہیں:
’’سچا وہی مذہب ہے کہ جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے۔ غرض سچے مذہب میں خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے۔ خدا شناسی ایک نہایت مشکل کام ہے دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتہ لگاویں کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے۔ اور ہونا چاہئے اور ہے میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ پس اس وجود کا واقعی طور پر پتہ دینے والا صرف قرآن شریف ہے جو صرف خدا شناسی کی تاکید نہیں کرتا بلکہ آپ دکھلا دیتا ہے۔ اور کوئی کتاب آسمان کے نیچے ایسی نہیں ہے کہ اس پوشیدہ وجودکا پتہ دے۔‘‘
(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 352)
اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں قرآن شریف میں ثبوت موجود ہیں ۔
قرآن کریم کی انجیل اور دوسری مذہبی کتب پر برتری
ثابت کرتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف ایک کامل اور زندہ اعجاز ہے اور کلام کا معجزہ ایسا معجزہ ہوتا ہے کہ کبھی اور کسی زمانہ میں وہ پرانا نہیں ہو سکتا اور نہ فنا کا ہاتھ اس پر چل سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اگر آج نشان دیکھنا چاہیں تو کہاں ہے؟ کیا یہودیوں کے پاس وہ عصا ہے اور اس میں کوئی قدرت اس وقت بھی سانپ بننے کی موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض جس قدر معجزات کل نبیوں سے صادر ہوئے ان کے ساتھ ہی ان معجزات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود ہیں ۔ ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں۔ اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپؑ کو عطا ہوئی ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملی۔ آپؐ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ویسے ہی موجود ہیں جو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے۔ دوسری کوئی تعلیم ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنےوالا یہ دعویٰ کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے دیا گیا ہے اور میں ایک آیۃ اللہ ہو گیا ہوں۔ لیکن
ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے ملتے ہیں اب بھی پاتے ہیں ۔
چنانچہ
خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لئے قائم کیا ہے تاوہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کرے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں جو تیرہ سو برس پہلے ظاہر ہوتے تھے ۔
چنانچہ صدہا نشان اس وقت تک ظاہر ہو چکے ہیں اور’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعض کتب میں یہ نشانات ظاہر بھی فرمائے ہیں، لکھ کر بیان فرمائے ہیں اور
جماعت پر چڑھنے والا ہر دن بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ جو پیشگوئیاں آپؑ نے فرمائیں وہ کس طرح پوری ہو رہی ہیں ۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگے فرماتے ہیں:‘‘ہر قوم اور ہر مذہب کے سرگروہوں کو ہم نے دعو ت کی ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں آکر اپنی صداقت کا نشان دکھائیں۔ مگرایک بھی ایسا نہیں کہ جن سے اپنے مذہب کی سچائی کا کوئی نمونہ عملی طور پر دکھائے۔
ہم خدا تعالیٰ کے کلام کو کامل اعجاز مانتے ہیں اور ہمارا یقین اور دعویٰ ہے کہ کوئی دوسری کتاب اس کے مقابل نہیں ہے۔
میں علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کاکوئی امر پیش کریں۔ وہ اپنی جگہ پر ایک نشان اور معجزہ ہے۔
مثلاً تعلیم ہی کو دیکھیں تو وہ عظیم الشان معجزہ نظر آتی ہے او ر فی الواقع معجزہ ہے۔ ایسے حکیمانہ نظام اور فطری تقاضوں کے موافق واقع ہوئی ہے کہ دوسری تعلیم اس کے ساتھ ہرگز ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن شریف کی تعلیم پہلی ساری تعلیموں کی متمم اور مکمل ہے۔ اس وقت صرف ایک پہلو تعلیم کا دکھا کر مَیں ثابت کر تا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم اعلیٰ درجہ پر واقع ہوئی ہے اور معجزہ ہے۔ مثلاً توریت کی تعلیم‘‘ فرمایا کہ ’’(حالات موجودہ کے لحاظ سے کہو یا ضروریات وقت کے موافق)‘‘ جو توریت کی تعلیم ہے اس ’’کا سارا زور قصاص اور بدلہ پر ہے۔ جیسے آنکھ کے بدلہ آنکھ اور دانت کے بدلہ دانت اور بالمقابل انجیل کی تعلیم‘‘ ہے جس ’’کا سارا زور عفو، صبر اور درگزر پر تھا اور یہاں تک اس میں تاکید کی کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی اس کی طرف پھیر دو۔ کوئی ایک کوس بیگار لے جاوے تو دو کوس چلے جاؤ۔ کُرتہ مانگے تو چُغہ بھی دے دو۔ اسی طرح پر ہر باب میں توریت اور انجیل کی تعلیم میں یہ بات نظر آئے گی کہ توریت افراط کا پہلولیتی ہے اور انجیل تفریط کا۔ مگر قرآن شریف ہر موقع اورمحل پرحکمت اور وسط کی تعلیم دیتا ہے۔ جہاں دیکھو، جس بارہ میں قرآن کی تعلیم پر نگاہ کرو تو معلوم ہو گا کہ وہ محل اور موقع کا سبق دیتا ہے۔ اگرچہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نفسِ تعلیم سب کا ایک ہی ہے۔ لیکن اس میں کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ توریت اور انجیل میں سے ہر ایک کتاب نے ایک ایک پہلو پر زور دیا ہے مگر فطرت انسانی کے تقاضے کے موافق صرف قرآن شریف نے تعلیم دی ہے۔ یہ کہنا کہ توریت کی تعلیم افراط کے مقام پر ہے۔ اس لئے وہ خد اکی طرف سے نہیں یہ صحیح نہیں ہے ۔‘‘ یہ بھی غلط ہے کہ ہم کہیں کہ یہ تعلیم خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ وہ تعلیم توریت کی بھی خدا کی طرف سے ہے۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ اس وقت کی ضرورتوں کے لحاظ سے ایسی تعلیم بےکار تھی اور چونکہ توریت یا انجیل قانون مختص المقام کی طرح تھیں ۔‘‘ یعنی جو balancedتعلیم تھی اب ملی ہے وہ اس وقت بیکار تھی ۔اس زمانے میں ضرورت تھی اس تعلیم کی جو توریت میں دی گئی۔ اور چونکہ توریت یا انجیل قانون مختص المقام کی طرح تھیں ۔ جو انجیل اور توریت کی تعلیم ہے وہ اس جگہ کے لیے تھیں، وہیں کے لیے مخصوص تھیں ’’اس لئے ان تعلیموں میں دوسرے پہلوؤں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ لیکن قرآن شریف چو نکہ تمام دنیا اور تمام نوع انسان کے واسطے تھا اس لئے اس تعلیم کو ایسے مقام پر رکھا جو فطرت انسانی کے صحیح تقاضوں کے موافق تھی اور یہی حکمت ہے کیونکہ حکمت کے معنی ہیں وَضْعُ الشَّیءِٔ فِیْ مَحَلِّہٖ یعنی کسی چیز کو اس کے اپنے محل پر رکھنا۔ پس یہ حکمت قرآن شریف نے ہی سکھلائی ہے۔
توریت جیساکہ بیان کیا ہے ایک بے جا سختی پر زور دے رہی تھی اور انتقامی قوت کو بڑھاتی تھی اور انجیل بالمقابل بیہودہ عفو پر زور مارتی تھی۔ قرآن شریف نے ان دونوں کو چھوڑ کر حقیقی تعلیم دی۔جَزَآؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ(الشوریٰ:41)یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس معاف کرنے میں اصلاح مقصود ہو۔ اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ37تا40 ایڈیشن 1984ء)
یہ جرأت اور نشانات کے ساتھ آپؑ کا قرآن کریم کی تمام ادیان پر برتری ثابت کرنا اُس وقت تھا جب اس ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ چرچ کا زور تھا۔ پھر بھی آپؑ نے قرآن کریم کی برتری کا کھلا کھلا چیلنج دیا اور کسی خوف کو قریب بھی نہ آنے دیا کیونکہ
آپؑ اللہ تعالیٰ کے وہ فرستادے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں بھیجا ہے اور اس مقصد کے لیے بھیجا تھا کہ وہ تعلیم کو پھیلائیں۔
اور یہی چیز ہم آپؑ کے لٹریچر میں اور تعلیم میں دیکھتے ہیں اور اسی چیز کو آج ہم، جماعت احمدیہ بھی آگے پھیلا رہی ہے۔ اور جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے یہ کہتے ہیں کہ احمدی قرآن کریم کی تحریف اور توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔
قرآن کریم کی ضرورت اور اہمیت
بیان فرماتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتی ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں۔ مگر
قرآن شریف کا مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے۔
سو بلحاظ مخاطبین کے توریت کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً توریت کہتی ہے کہ خون مت کر اور قرآن بھی کہتا ہے کہ خون مت کر اور بظاہر قرآن میں اسی حکم کا اعادہ معلوم ہوتا ہے جو توریت میں آ چکا ہے۔ مگر دراصل اعادہ نہیں بلکہ توریت کا یہ حکم صرف بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا ہے اور صرف بنی اسرائیل کو خون سے منع فرماتا ہے دوسرے سے توریت کو کچھ غرض نہیں۔ لیکن قرآن شریف کا یہ حکم تمام دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور تمام نوع انسان کو ناحق کی خون ریزی سے منع فرماتا ہے۔ اسی طرح تمام احکام میں قرآن شریف کی اصل غرض عامہ خلائق کی اصلاح ہے اور توریت کی غرض صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے۔‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 85)
پھر فرمایا: ’’یہ دعویٰ پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ ’’قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی‘‘۔ بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھوکہ میں پڑے گا کہ توریت میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق عباد کا بھی ذکر ہے۔ پھر کونسی نئی چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ سے بیان کی گئی۔ مگر یہ دھوکہ اسی کو لگے گا جس نے کلام الٰہی میں کبھی تدبر نہیں کیا۔ واضح ہو کہ الٰہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام و نشان نہیں ۔ چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں ۔ قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے درجہ اوّل عوام کے لئے یعنی ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں ۔ دوسرا درجہ خواص کے لئے یعنی ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الٰہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں ۔ اور تیسرا درجہ خواص الخواص کے لئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ اوّل مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے۔ دوسرا مرتبہ توحید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں مؤثرِ حقیقی خداتعالیٰ کو سمجھا جائے اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خداتعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں ۔ مثلاً یہ کہنا کہ زید نہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا۔‘‘ لوگوں پریہ انحصار بھی شرک ہے۔ یہ توحید کے خلاف ہے۔ ’’اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے۔ تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا۔ یہ توحید توریت میں کہاں ہے۔ ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں ۔ ایسا ہی توریت میں خداتعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں ۔ اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیساکہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۔ (الاخلاص:2تا5) ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے۔ ایسا ہی توریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا۔ لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا ہے۔ مثلاً وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى (النحل:91) یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے۔ یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیساکہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے۔ ایسا ہی توریت میں خدا کی ہستی اور اس کی واحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا۔ لیکن قرآن شریف نے ان تمام عقائد اور نیز ضرورت الہام اور نبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے اورہر ایک بحث کو فلسفہ کے رنگ میں بیان کر کے حق کے طالبوں پر اس کا سمجھنا آسان کر دیا ہے اور یہ تمام دلائل ایسے کمال سے قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں کہ کسی کی مقدور میں نہیں کہ مثلاً ہستی باری پر کوئی ایسی دلیل پیدا کر سکے کہ جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو۔
ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتی ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں ۔ مگر قرآن شریف کا مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے۔‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 83-85)
قرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور برتری پر اَور بھی مختلف حوالے ہیں جو ان شاء اللہ آئندہ کبھی بیان ہوں گے۔