خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب ۱۹؍ اگست ۲۰۲۲ء

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ کا ذکرچل رہا تھا اور آپؓ کے دور میں جو واقعات ہوئے ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ آپؓ کے عہدِخلافت میں شام کی طرف جو پیش قدمی ہوئی۔اس بارے میں آج ذکر ہو گا۔

سوال نمبر2:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےشام پرلشکرکشی کےحوالہ سے حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کی کیاخواب بیان فرمائی اورحضرت ابوبکرؓ نےاس خواب کی کیاتعبیربیان کی؟

جواب: فرمایا: حضرت شُرَحْبِیل بن حَسَنہ ؓآپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؓ کے پاس بیٹھ گئے اور عرض کیا، اے رسول اللہ ﷺکے خلیفہ! کیا آپؓ شام پر لشکر کشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ ہاں ارادہ تو ہے لیکن ابھی کسی کو مطلع نہیں کیا۔ تم نے کس وجہ سے یہ سوال کیا ہے؟ حضرت شرحبیلؓ نے عرض کیا کہ جی ہاں اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ! مَیں نے خواب دیکھا ہے کہ آپؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشوار گزار پہاڑی راستے پر چل رہے ہیں۔ پھر آپؓ ایک بلند چوٹی پر چڑھ گئے اور لوگوں کی طرف دیکھا اور آپؓ کے ساتھ آپؓ کے ساتھی بھی ہیں۔ پھر آپؓ اس چوٹی سے اتر کر ایک نرم زرخیز زمین میں آ گئے جس میں فصلیں، چشمے، بستیاں اور قلعے موجو دہیں اور آپؓ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ مشرکین پر حملہ کر دو۔ مَیں تمہیں فتح اور مالِ غنیمت کے حصول کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس پر مسلمانوں نے حملہ کر دیا اور مَیں بھی جھنڈے کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھا۔ میں ایک بستی کی طرف گیا تو اس کے رہنے والوں نے مجھ سے امان طلب کی۔ میں نے انہیں امان دے دی۔ پھر میں آپؓ کے پاس واپس پہنچا تو آپ ایک عظیم قلعہ تک پہنچ چکے تھے۔ آپؓ کو فتح عطا کی گئی۔ انہوں نے آپؓ سے صلح کی درخواست کی۔ پھر آپؓ کے لیے ایک تخت رکھا گیا۔ آپؓ اس پر تشریف فرما ہو گئے۔ پھر آپؓ سے ایک کہنے والے نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو فتح سے نوازا ہے اور آپؓ کی مدد کی ہے لہٰذا آپؓ اپنے رب کا شکر ادا کریں اور اس کی اطاعت کرتے رہیں۔ پھر اس شخص نے ان آیات کی تلاوت کی کہ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ۔ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَاسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور تُو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ۔ یقیناًً وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ لمبی خواب تھی۔اس پر حضرت ابوبکرؓنے یہ خواب سن کے فرمایا کہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے اور اچھا ہی ہو گا ان شاء اللہ۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اس خواب میں تم نے فتح کی خوشخبری اور میری موت کی اطلاع بھی دی ہے۔یہ بات کہتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپؓ نے فرمایا، رہا وہ پتھریلا علاقہ جس پر چلتے ہوئے ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے اور وہاں سے نیچے جھانک کر لوگوں کو دیکھا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس لشکر کے معاملہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان لشکر والوں کو بھی مصیبت جھیلنی پڑے گی۔ اس کے بعد پھر ہمیں غلبہ اور استحکام حاصل ہو جائے گا اور جہاں تک ہمارا پہاڑ کی چوٹی سے اتر کر زرخیز زمین کی طرف جانے کا تعلق ہے جس میں سرسبز و شاداب فصلیں، چشمے، بستیاں اور قلعے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ آسانی پائیں گے جس میں خوشحالی اور فراخی ہو گی اور ہمیں پہلے سے زیادہ زرخیز زمین میسر آئے گی۔ جہاں تک میرا مسلمانوں کو یہ حکم دینے کا تعلق ہے کہ دشمن پر حملہ کرو، مَیں فتح اور مالِ غنیمت کی ضمانت دیتا ہوں تو اس سے مراد میرا مسلمانوں کو مشرکین کے ممالک کی طرف بھیجنا اور انہیں جہاد پر ابھارنا ہے۔ اور جہاں تک اس جھنڈے کا تعلق ہے جو تمہارے پاس تھا جس کو تم لے کر ان بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف گئے اور اس میں داخل ہوئے اور وہاں کے لوگوں نے تم سے امان طلب کی اور تم نے انہیں امان دے دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس علاقے کو فتح کرنے والے امرا میں سے ایک ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فتح دے گا اور رہا وہ قلعہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے فتح کرایا تو اس سے مراد وہ علاقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ میرے لیے فتحیاب کرے گا اور جہاں تک اس تخت کا تعلق ہے جس پر تُو نے مجھے بیٹھا ہوا دیکھا تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عزت و رفعت سے نوازے گا اور مشرکین کو ذلیل و رسوا کرے گا۔اور جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس نے مجھے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیا اور میرے سامنے سورۂ نصر کی تلاوت کی تو اس طرح اس نے مجھے میری موت کی خبر دی ہے۔

سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے شام کی طرف لشکرکشی سے قبل حضرت ابوبکرؓ کی صحابہ سے مشورہ کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی فتح کے لیے لشکر تیار کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مشورے کے لیے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اہلِ بدر میں سے کبار مہاجرین و انصار نیز دیگر صحابہؓ کو طلب کیا۔ جب یہ اصحاب آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے فرمایا…آج عرب ایک امّت ہیں جوایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ میں ان کو رومیوں سے جنگ کے لیے شام بھجواؤں۔ جو ان میں سے مارا گیا وہ شہید ہے۔اللہ تعالیٰ نے نیک کام کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ تیار کر رکھا ہے۔ اور ان میں سے جو زندہ رہا وہ دینِ اسلام کا دفاع کرتے ہوئے زندہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ سے مجاہدین کے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔ یہ میری رائے ہے۔ اب آپ لوگوں میں سے ہر شخص اپنی رائے کے مطابق مشورہ دے۔حضرت ابوبکرؓ نے ان سے مشورہ مانگا۔اس پر حضرت عمر بن خطابؓ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا: سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے خیروبرکت سے نوازتا ہے۔اللہ کی قسم! بھلائی کے جس معاملے میں بھی ہم نے آپؓ سے آگے بڑھنا چاہا آپؓ اس میں ہمیشہ ہم پر سبقت لے گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔اللہ کی قسم! میں آپؓ سے اسی مقصد کے لیے ملاقات کرنا چاہتا تھا جو آپؓ نے ابھی بیان کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ میں یہ بات آپؓ سے کر نہ سکا حتی کہ آپ نے خود ہی اس کا تذکرہ کر دیا۔ یقیناًآپؓ کی رائے صحیح ہے۔ اللہ نے آپ کو صحیح راہ کا ادراک عطا فرمایا ہے۔پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ،حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت علیؓ اور دیگر تمام حاضرینِ مجلس مہاجرین اور انصار نے آپ کی رائے کی تائید کرتے ہوئے عرض کیا ہم آپؓ کی بات بھی سنیں گے اور اطاعت بھی کریں گے۔ ہم آپؓ کی حکم عدولی نہیں کریں گے اورآپؓ کی تحریک پر لبیک کہیں گے…حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا تو انہوں نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ اے لوگو! اپنے رومی دشمن سے جنگ کے لیے شام کی طرف نکلو اور مسلمانوں کے امیر حضرت خالد بن سعیدؓ ہوں گے۔

سوال نمبر4: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کی طرف سے شام بھجوائے جانے والے پہلے لشکرکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکر صديقؓ نے اس سلسلہ ميں چار بڑے لشکر تيار کيے جنہيں شام کے مختلف علاقوں کی جانب روانہ کيا۔ایک لشکر جو پہلا تھا یزید بن ابوسفیان کا تھا۔ یہ حضرت معاویہؓ کے بھائی تھے اور ابوسفیان کے خاندان میں بہترین آدمی تھے۔ ان کے ذمہ دمشق پہنچ کر اس کو فتح کرنا اور دیگر تین لشکروں کی بوقتِ ضرورت مدد کرنا تھا۔ اس لشکر کی تعداد ابتدا میں تین ہزار تھی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے مزید امداد بھیجی جس سے ان کی تعداد تقریباً سات ہزار ہو گئی… جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کے لیے جھنڈا باندھا تو ربیعہ بن عامر کو بلایا اور ان کے لیے بھی ایک جھنڈا باندھا اور انہیں فرمایا کہ تم یزید بن ابوسفیان کے ساتھ جاؤ گے۔ ان کی نافرمانی اور مخالفت نہ کرنا۔ پھر آپؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ سے فرمایا اگر تم اپنے مقدمۃالجیش کی نگرانی ربیعہ بن عامر کے سپرد کرنا مناسب سمجھو تو ضرور ایسا کرنا۔ ان کا شمار عرب کے بہترین شہسواروں اور تمہاری قوم کے صلحاء میں سے ہوتا ہے اور میں بھی امید رکھتا ہوں کہ یہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں۔ اس پر حضرت یزیدؓ نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں آپؓ کے حسن ظن اور ان کے متعلق آپؓ کی امید نے میرے دل میں ان کی محبت کو اَور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ ان کے ساتھ پیدل چلنے لگے تو حضرت یزیدؓ نے کہا کہ اے خلیفة الرسول ﷺ! یا تو آپؓ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں کہ میں بھی آپؓ کے ساتھ پیدل چلنا شروع کر دوں کیونکہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ خود تو سوار ہوں اور آپؓ پیدل چلیں۔ اس پرحضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نہ تو میں سوار ہوں گا اور نہ ہی تم سواری سے نیچے اترو گے۔ میں اپنے ان قدموں کو اللہ کی راہ میں اٹھتے ہوئے سمجھتا ہوں۔پھر آپؓ نے حضرت یزید کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے یزید! میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، اس کی اطاعت کرنے، اس کی خاطر ایثار کرنے اور اس سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جب دشمن سے تمہاری مڈھ بھیڑ ہو اور اللہ تمہیں فتح نصیب کرے تو تم خیانت نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا یعنی لوگوں کی، مقتولوں کی شکلیں نہ بگاڑنا اور تم بدعہدی نہ کرنا اور نہ ہی بزدلی دکھانا اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کو جلانا اور نہ ہی انہیں تباہ و برباد کرنا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ تم کسی جانور کو ذبح نہ کرنا سوائے کھانے کے لیے۔ بلاوجہ جانوروں کو بھی ذبح نہیں کرنا یا مارنا نہیں۔ اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہو گا،پس تم انہیں اور اس چیزکو جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہو گا چھوڑ دینا۔ یعنی جو راہب ہیں، گرجوں کے پادری ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا اور تم کچھ ایسے لوگوں کو بھی پاؤ گے کہ شیطان نے ان کے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے۔ ان کے سروں کا درمیانی حصہ اس طرح ہو گا جیسے تیتر نے انڈے دینے کے لیے زمین میں گڑھا کھودا ہو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف سے پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے۔ پس تم ان کے سروں کے صاف کیے ہوئے حصوں پر تلوار سے ضرب لگانا…کیونکہ یہ لوگ جنگ کرنے والے بھی ہیں اور جنگ کے لیے بھڑکانے والے بھی ہیں۔ فرمایا کہ ان سے جنگ کرنی ہے یہاں تک کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں یا بے بس ہو کر جزیہ دیں۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد کرتا ہے۔اور میں تمہیں سلام کہتا ہوں اور اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

سوال نمبر5: حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت یزید بن سفیانؓ کوجنگ کی بابت کیاعمومی نصائح فرمائیں؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو فرمایا میں نے تمہیں والی مقرر کیا تا کہ تمہیں آزماؤں، تمہارا تجربہ کروں اور تمہیں باہر نکال کر تمہاری تربیت کروں۔ اگر تم نے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کیے تو تمہیں دوبارہ تمہارے کام پر مقرر کروں گا اور تمہیں مزید ترقی دوں گا۔ اگر تم نے کوتاہی کی توتمہیں معزول کر دوں گا۔ اللہ کے تقویٰ کو تم لازم پکڑو۔ وہ تمہارے باطن کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح ظاہر کو دیکھتا ہے۔ فرمایا کہ لوگوں میں خدا کے زیادہ قریب وہ ہے جو اللہ سے دوستی کا سب سے بڑھ کر حق ادا کرنے والا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعہ سب سے زیادہ اس سے قربت حاصل کرے۔ میں نے خالد بن سعید کی جگہ تم کو مقرر کیا ہے۔ جاہلی تعصّب سے بچنا۔ اللہ کو یہ باتیں اور ایسا کرنے والا انتہائی ناپسند ہیں۔ جب تم اپنے لشکر کے پاس پہنچو تو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔ ان کے ساتھ خیر سے پیش آنا اور ان کو خیر کا وعدہ دلانا اور جب انہیں وعظ و نصیحت کرنا تو مختصر کرنا کیونکہ بہت زیادہ گفتگو بہت سی باتوں کو بھلا دیتی ہے۔ تم اپنے نفس کو درست رکھو، لوگ تمہارے لیے درست ہو جائیں گے۔ اور نمازوں کو ان کے اوقات پر رکوع و سجود کو مکمل کرتے ہوئے ادا کرنا، ان میں خشوع و خضوع کا مکمل اہتمام کرنا اور جب دشمن کے سفیر تمہارے پاس آئیں تو ان کا اکرام کرنا۔انہیں بہت کم ٹھہرانا اور تمہارے لشکر سے جلد نکل جائیں تا کہ وہ اس لشکر کے بارے میں کچھ جان نہ سکیں۔اور اپنے امورپر ان کو مطلع نہ ہونے دینا کہ انہیں تمہاری خرابی کا پتہ چل جائے اور وہ تمہاری معلومات حاصل کر لیں۔ انہیں اپنے لشکر کے جمگھٹے میں رکھنا۔ اپنے لوگوں کو ان سے بات کرنے سے روک دینا۔ جب تم خود ان سے بات کرو تو اپنے بھید کو ظاہر نہ کرنا ورنہ تمہارا معاملہ خلط ملط ہو جائے گا۔ جب تم کسی سے مشورہ لینا تو بات سچ کہنا، صحیح مشورہ ملے گا۔ مشیر سے اپنی خبر مت چھپانا ورنہ تمہاری وجہ سے تمہیں نقصان پہنچے گا۔رات کے وقت اپنے دوستوں سے باتیں کرو تمہیں بہت سی خبریں مل جائیں گی اور رات کو معلومات اکٹھی کرو تو پوشیدہ باتیں تم پر ظاہر ہو جائیں گی۔حفاظتی دستہ میں زیادہ افراد کو رکھنا اور انہیں اپنی فوج میں پھیلا دینا اور اکثر بغیر اطلاع دیے اچانک ان کی چوکیوں کا معائنہ کرنا۔ جسے اپنی حفاظت گاہ سے غافل پاؤ اس کی اچھی طرح تادیب کرنا اور سزا دیتے ہوئے افراط سے کام نہ لینا۔ رات میں ان کی باریاں مقرر کرنا۔ اول شب کی باری آخری شب سے لمبی رکھنا کیونکہ دن سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ باری آسان ہوتی ہے۔ شروع رات کی جو ڈیوٹی ہے وہ لمبی رکھو کیونکہ اس میں جاگنا آسان ہے اور آخری رات کی جو ڈیوٹی ہے وہ ذرا کم ہو۔ سزا کے مستحق کو سزا دینے سے مت ڈرنا۔ اس میں نرمی نہ کرنا۔سزا دینے میں جلدی نہ کرنا اور نہ بالکل نظر انداز کرنا۔ پھر فرمایا کہ اپنی فوج سے غافل نہ رہنا کہ وہ خراب ہو جائیں اور ان کی جاسوسی کر کے ان کو رسوا نہ کرنا۔ ان کی راز کی باتیں لوگوں سے نہ بیان کرنا۔ان کے ظاہر پر اکتفا کرنا۔ بیکار قسم کے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھنا۔ سچے اور وفادار لوگوں کے ساتھ بیٹھنا۔ دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت ڈٹ جانا۔ بزدل نہ بننا ورنہ لوگ بھی بزدل ہو جائیں گے۔ مالِ غنیمت میں خیانت سے بچنایہ محتاجی سے قریب کرتی ہے اور فتح و نصرت کو روکتی ہے۔تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہو گا۔ پس تم انہیں اور جس کام میں انہوں نے اپنے آپ کو مشغول رکھا ہوگا اسے چھوڑ دینا۔

سوال نمبر6: حضرت ابوبکرصدیقؓ شام کی طرف لشکروں کی روانگی کے بعدصبح وشام کیادعاکیاکرتے تھے؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ ہر صبح شام نمازِ فجر اور عصر کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ !تُو نے ہمیں پیدا کیا ہم کچھ بھی نہ تھے۔ پھر تُو نے اپنی جناب سے رحمت اور فضل نازل کرتے ہوئے ہماری طرف ایک رسولؐ بھیجا۔ پھر تُو نے ہمیں ہدایت دی جبکہ ہم گمراہ تھے اور تُو نے ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی جبکہ ہم کافر تھے۔ ہم تعداد میں تھوڑے تھے اور تُو نے ہمیں زیادہ کیا۔ ہم پراگندہ تھے، تُو نے ہمیں اکٹھا کر دیا۔ ہم کمزور تھے،تُو نے ہمیں طاقت بخشی۔ پھر تُو نے ہم پر جہاد فرض کیا اور ہمیں مشرکین سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں اور وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور وہ بے بس ہو چکے ہوں۔یا تو مسلمان ہو جائیں یا اگر مسلمان نہیں ہوتے تو پھر جزیہ ادا کریں۔ اے اللہ! ہم تیرے اس دشمن سے جہاد کے بدلے تیری خوشنودی کے خواہاں ہیں جس نے تیرے ساتھ شریک ٹھہرایا اور تیرے سوا اَور معبودوں کی عبادت کی۔ اے اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ ظالم جو کہتے ہیں تیری شان اس سے بہت بلند ہے۔ اے اللہ! اپنے مشرک دشمنوں کے مقابلے میں اپنے مسلمان بندوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! انہیں آسان فتح نصیب فرما اور ان کی بھرپور مدد کر۔ ان میں سے جو کم ہمت ہیں انہیں بہادر بنا دے اور ان کے قدموں کو ثبات بخش اور ان کے دشمنوں کو لڑکھڑا دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان کو تباہ و برباد کر دے اور انہیں جڑ سے کاٹ ڈال اور ان کی کھیتیوں کو تباہ کر دے اور ہمیں ان کی زمینوں، ان کے گھروں، ان کے اموال اور ان کے نشانات کا وارث بنا اور تُو ہمارا ولی اور ہم پر مہربان ہو جا۔ اور ہمارے معاملات کو درست کر دے۔ تیری نعمتوں سے حصہ پانے کے لیے ہمیں شکر گزار لوگوں میں سے بنا دے۔ تُو ہمیں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بھی بخش دے۔ ان میں سے جو زندہ ہیں ان کو بھی اور جو وفات پا چکے ہیں ان کو بھی۔ اللہ ہمیں اور تمہیں دنیا اور آخرت میں قول ثابت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہنے والا بنائے۔ یقیناً وہ مومنوں کے ساتھ بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

سوال نمبر7:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شام کی طرف روانہ ہونے والے دوسرےلشکرکی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کی روانگی کے لیے حضرت ابوبکرؓنے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کی روانگی کے تین دن بعد کی تاریخ مقرر فرمائی۔جب تیسرا دن گزر گیا تو آپ نے حضرت شرحبیل کو الوداع کہا اور فرمایا، اے شرحبیل! کیا تم نے یزید بن ابوسفیان کو جو وصیت میں نے کی اس کو نہیں سنا۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پہلے میں نے سنی ہیں(جو نصیحتیں مَیں نے پڑھی ہیں )۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا، میں تمہیں اسی کی مانندوصیت کرتا ہوں اور ان باتوں کی بھی وصیت کرتا ہوں جن کا ذکر یزید کو کرنا بھول گیا تھا۔ میں تمہیں نماز وقت پر ادا کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور جنگ کے روز ثابت قدم رہنے کی یہاں تک کہ تم فتح حاصل کر لو یا شہید ہو جاؤ اور مریضوں کی عیادت کرنے اور جنازوں میں شامل ہونےاور ہر حال میں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ابوسفیان نے آپؓ سے عرض کیا کہ یزید ان صفات پر پہلے ہی کاربند ہے اور شام جانے سے قبل ہی اس پر دوام اختیار کیے ہوئے تھا۔ اب وہ اس کو زیادہ لازم کر لے گا ان شاء اللہ۔ حضرت شرحبیلؓ نے جواب دیا: اللہ سے مدد مانگتے ہیں جو اللہ چاہے گا وہی ہو گا۔پھر حضرت ابوبکرؓ کو الوداع کہا اور اپنے لشکر کے ساتھ جانبِ شام روانہ ہو گئے۔ حضرت شرحبیلؓ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی۔آپ کو یہ حکم فرمایا کہ تبوک اور بَلْقَاء جائیں اور پھربُصْریٰ کا رخ کریں اور یہ آخری منزل ہو۔ حضرت شرحبیلؓ بَلْقَاء کی طرف روانہ ہو گئے۔کوئی قابل ذکر مقابلہ نہ ہوا۔ بَلْقَاء بھی شام کے علاقہ میں واقع ہے آپ کا لشکر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے بائیں اور لشکر عمرو بن عاص کے دائیں جانب چلتے ہوئے بَلْقَاء پہنچا اور اندر گھس گیا اوربُصریٰ پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا لیکن فتح حاصل نہ ہو سکی کیونکہ یہ رومیوں کے محفوظ اور مضبوط مراکز میں سے تھا۔

سوال نمبر8: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے شام روانہ ہونے والےتیسرےلشکرکی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:تیسرا لشکر جو حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب روانہ کیا اس کے امیر حضرت ابوعبیدہ ؓتھے۔ ان کو حِمص کی جانب روانہ فرمایا۔حضرت ابوعبیدہؓ کے لشکر کی تعداد سات ہزار تھی جبکہ ایک روایت کے مطابق آپ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ راستے میں گزرتے ہوئے بلقاء کی ایک بستی مَآبْ کے پاس سےگزرے۔ یہ کوئی شہر نہیں تھا بلکہ خیموں کی ایک بستی تھی۔ وہاں کے لوگوں سے آپ کی جنگ ہوئی مگر پھر ان لوگوں نے آپ سے صلح کی درخواست کی جس پرآپ نے ان کے ساتھ صلح کر لی۔ یہ سب سے پہلی صلح تھی جو شام کے علاقے میں ہوئی۔حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کے ساتھ قیس بن ھُبَیرَہ کو بھی روانہ فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کے متعلق ابوعبیدہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: تمہارے ساتھ عرب کے شہسواروں میں سے ایک عظیم شرف و منزلت کا شخص ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ جہاد کے معاملے میں اس سے بڑھ کر کوئی نیک نیت ہو۔ اس کی رائے اور مشورے سے اور جنگی قوت سے مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ اس کو اپنے سے قریب رکھنا اور اس کے ساتھ لطف و کرم کا برتاؤ کرنا اور اسے یہ محسوس کرانا کہ تم اس سے بےنیاز نہیں ہو۔ اس سے تمہیں اس کی خیر خواہی حاصل رہے گی اور دشمن کے مقابلے میں اس کی کوششیں تمہارے ساتھ ہوں گی۔ حضرت ابوعبیدہؓ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے قَیس بن ھُبَیرَہ کو بلایا اور فرمایا تمہیں ابوعبیدہ امینِ امت کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ ان پر اگر ظلم کیا جائے تو وہ اس کے بدلے میں ظلم نہیں کرتے اور اگر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو معاف کر دیتے ہیں اور ان سے تعلق توڑا جائے تو اس کو جوڑنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ مومنوں کے ساتھ بڑے رحیم ہیں اور کفار کے مقابلے میں سخت ہیں۔ تم ان کی حکم عدولی نہ کرنا اور یہ تمہیں خیر ہی کا حکم دیں گے۔ میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہاری بات سنیں۔ لہٰذا تم انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے مشورہ دینا۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ تم شرک اور دور جاہلیت میں جنگ کے تجربہ کار سردار ہو جبکہ جاہلیت میں گناہ اور کفر پایا جاتا تھا۔ لہٰذا تم اپنی قوت اور بہادری کو اسلام کی حالت میں کافروں اور ان لوگوں کے خلاف استعمال میں لاؤ جنہوں نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اجر عظیم اور مسلمانوں کے لیے عزت و غلبہ رکھا ہے۔ یہ نصیحت سن کر قیس بن ھُبَیرَہ نے عرض کیا، اگر آپ زندہ رہے اور میں بھی زندہ رہا تو آپ کو میرے بارے میں مسلمانوں کی حفاظت اور مشرکوں کے خلاف جہاد کی ایسی خبریں پہنچیں گی جو آپ کو پسندیدہ ہوں گی اور آپ کو خوش کر دیں گی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم جیسا شخص ہی ایسا کر سکتا ہے اور جب ابوبکرؓ کو جَابِیہ میں (رومیوں کے) دو کمانڈروں کے ساتھ ان کی مبارزت اور ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا قیس نے سچ کر دکھایا اور اپنا وعدہ پورا کر دیا۔

سوال نمبر9: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے آخرپر کس شہید کاذکرخیرفرمایا؟

جواب: فرمایا:ایک ہمارے شہید نصیر احمد صاحب ہیں جو عبدالغنی صاحب کے بیٹے تھے۔ ربوہ میں دارالرحمت شرقی میں رہتے تھے۔ بارہ اگست کو ایک معاندِ احمدیت نے خنجروں کے وار کر کے ان کو شہید کر دیا۔ انَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ شہید مرحوم کے دادا مکرم فیروز دین صاحب آف رائے پور،ضلع سیالکوٹ،کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1935ء میں خلافت ثانیہ میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button