سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

محمد حسین بٹالوی صاحب سے مناظرہ

(گذشتہ سے پیوستہ) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اس واقعہ کواپنی تصنیف حیات احمدؑ میں بیان کرنے کے بعد اس پرایک نوٹ لکھاہے۔خاکسار خوداس پرکچھ لکھنے کی بجائے حضرت عرفانی صاحب ؓ کانوٹ من وعن یہاں درج کررہاہے اور اس میں ایک مقصدیہ بھی ہے کہ تا سلسلہ احمدیہ کے اس اولین مؤرخ، حضرت احمدعلیہ السلام کے عاشق صادق اور آپؑ کے سیرت نگار کی تحریراور تبصرہ اس سلسلۂ مضامین کابھی حصہ بنے اور حضرت عرفانی صاحب ؓکانام اور عشق ومحبت کایہ مقام اگلی نسل تک پہنچانے کے لیےخاکساربھی نیت کے اس ثواب سے محروم نہ رہے۔

حضرت عرفانی صاحبؓ تحریرکرتے ہیں:’’لوگ مباحثات کے عام طرز اور مناظرہ کنندگان کی حالت سے خوب واقف ہیں۔اپنے فریق مخالف یا مقابل کی بات کو جو حق ہو قبول کر لینا اور پبلک کے سامنے تسلیم کر لینا بہت ہی مشکل ہے۔میں علماء کی تحقیر نہیں کرتا۔مگر علماء کے لئے توجان دے دینا آسان مگر اپنی غلطی تو درکنارفریق ثانی کی صحیح اور معقول بات کو مان لینے کی عادت بھی نہیں رہی۔مگر حضرت مسیح موعودؑ کی حالت محض اخلاص اور مرضاة اللہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالطبع اس کو پسند نہیں کرتے تھےکہ مسلمانوں میں اندرونی طور پر خانہ جنگی ہو اور وہ باہم مسائل کے اختلاف پر حق پژوہی اور حق گوئی کو چھوڑ دیں۔اور پھر یہ کس قدر جرأت اور دلیری ہے کہ جس شخص سے مناظرہ کرنے جاتے ہیں اس کے گھر پر پہنچتے ہیں۔کوئی روک اور جھجک طبیعت میں اس کے علم اور اثر سے نہیں لیکن اس کے منہ سے ایک حق بات سن کر اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کی جاتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔وہ اس کو گریز قرار دیں گے یا فریق ثانی سے مرعوب ہونے سے تعبیر کریں گے۔جو بات حق تھی اسے تسلیم کر لیا اور اس کی صحت پر اپنے اقرار سے مہر کر دی۔یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی نظیر انبیاء علیہم السلام اور ان کے خاص متبعین کی زندگیوں کے سوا کہیں نہیں ملتی۔اخلاص فی الدین اور اپنی ہوا و ہوس کو کچل دینے کا زور دار جذبہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے مل سکتا ہے۔پھر اس فعل کی قبولیت کے آثار اسی وقت ظاہر ہو گئے۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بشارت دی اور رضی اللہ عنہ کا گویا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا۔انسان دنیا میں چاہتا ہے کہ اس کی قبولیت بڑھے اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔اللہ تعالیٰ نے اس فعل کے ثمرہ میں بتایاہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔یہ وہ زمانہ ہے کہ براہین احمدیہ کی تالیف و ترتیب کا بھی ابھی تک خیال پیدا نہیں ہوا۔چہ جائیکہ کوئی دعویٰ ہوتا۔دنیا سے قریباً بے تعلقی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ملازمت کے سلسلہ کو بھی ترک کر چکے ہیں۔ آئندہ زندگی کے گزارہ کے خیالات گو آپؑ کے دل و دماغ پر متاثر نہیں۔مگر گھر والوں کو اس کا خیال ضرور ہوتا ہے کہ یہ کیا کریں گے۔ حضرت والد صاحب قبلہ ابھی زندہ ہیں۔

غرض زندگی کی اس منزل میں ہیںجہاں ایک دنیا دار کے لئے بڑی امیدیں ہوتی ہیں۔اور عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ہر قسم کے خیالات اور خودداری اور خودنمائی کے جذبات پورے جوش اور زور میں ہوتے ہیں۔اپنی بات کی پچ اور ضد ہوتی ہے۔ان تمام حالات میں حضرت مرزا صاحب ایک مشہور مولوی سے مباحثہ کےلئےجاتے ہیں۔ اور اس کی تقریر سن کر اسے صحیح پاکر اس کی تصدیق کر دیتے ہیں۔نہ تو خیال آتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔اور نہ اس بات کی پرواہ کی جاتی ہے کہ اس شخص کی عام مخالفت اس کے بعض عقائد کی وجہ سے ہو رہی ہے۔اور میں اپنے بیان سے اس کی تائید کر رہا ہوں۔میرے خلاف بھی ایک طوفان بے تمیزی پیدا ہو جائے گا۔

پس آپ غورکریں کہ ان حالات میں جبکہ حنفیوں اور غیرمقلدوں میں سخت معرکہ کی جنگ جاری تھی۔اور کسی اہلحدیث کی تائید سے بے انتہا بلاؤں کو خرید لینا ہوتا تھا۔حضرت مرزا صاحب مولوی محمد حسین صاحب کی تائید کر دیتے ہیں۔بحالیکہ ان سے مباحثہ کے لئے بلائے گئے تھے۔یہ خیال اور وہم نری حماقت ہو گی کہ مولوی ابو سعید صاحب کا علم یا زور یہاں آپ کے خاموش کرادینے کا موجب ہو سکا ہو گا۔ممکن تھا کہ یہ وہم کوئی وقعت رکھتا اور بعد میں آنے والے واقعات نے اسے مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثات بالمشافہ اور بذریعہ تحریروں کے نہ کرائے ہوتے اور اس کے خطرناک مقابلہ میں یہ جوانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ آیا ہوتا۔

اور کبھی اور کسی حال میں اس پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کی علمیت اور اثر کا خوف مؤثر نہیں ہو سکا۔یہ واقعات ہیں اور کوئی ان کی تکذیب نہیں کر سکتا۔پس ایسی حالت میں یہ خیال محض نادانی ہے۔بلکہ اس کی تہہ میں ایک اور صرف ایک ہی بات تھی اور وہ اِخلاص فی الدین تھا۔واقعات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔اور خدا تعالیٰ کی وحی نے بھی اس پر صاد کیا ہے۔اور پھر اب اس زمانہ میں تو اس وحی الٰہی کے واقعات نے پھر تائید اور تصدیق کی ہے۔جبکہ دیکھا گیا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے عملی رنگ میں برکت ڈھونڈرہے ہیں۔

یہ امر بھی قارئین کرام کی زیر نظر رہنا چاہئے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی تائید آپؑ نے محض رضاء الٰہی کے لئے اس وقت کی جبکہ ایک عالم ان سے بیزار اور ان کا مخالف تھا۔اور پھر محض خدا کی رضا ہی کے لئے علیحدگی اس وقت اختیار کی جبکہ ایک دنیا ہندوستان کی مولوی محمد حسین صاحب کی مداح اور گرویدہ ہو رہی تھی۔اور اس کو اپنی تحریروں اور اثر پر اس قدر ناز تھا کہ وہ نہایت نخوت کے ساتھ یہ دعویٰ شائع کرتا ہے کہ میں نے ہی اس کو اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر مادی اسباب کا نتیجہ حضرت مسیح موعودؑ کی کامیابی ہوتی اور وہ کسی شخص کی تائید یا انکار پر مبنی ہوتی تو مولوی محمد حسین صاحب کو اپنے اس دعویٰ میں ضرور کامیابی ہو جاتی۔ کیونکہ اس کا اثر اور رسوخ بہت بڑھ کر تھا۔علماء ہندو پنجاب پر وہ اپنی قابلیت اور علمیت کا سکہ بٹھا چکا تھا۔جو شہرت اور عزت اسے حاصل تھی وہ ایسے دعویٰ کی محرک ہو سکتی تھی۔مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کو کون روک سکتا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کی مخا لفت اور عداوت نے اس کے تمام اثراور رسوخ کو باطل کر دیا۔آج جب ان پرانے واقعات کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔اور یہ حالات ایک مستقل تالیف کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔اور مولوی محمد حسین صاحب بھی ابھی تک زندہ ہیں۔اس کے پہلے حالات اور موجودہ حالات کو دیکھنے والے بھی زندہ ہیں۔وہ دیکھتے اور جانتے ہیں کہ کون گرا اور کون اونچا ہوا ؟

میرا مقصد اس بیان سے صرف یہ دکھانا ہے کہ کسی رواداری اور پاس خاطر یا علمی رعب و وقعت نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس وقت مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ کرنے سے نہیں روکا ورنہ وہ وقت تو ایسا تھا کہ اگر یہ کوئی با ت بھی منہ سے نکالتے توکُل بٹالہ بالاتفاق ان کی تائید کرتا۔پوری مخالفت کے ایام میں اس کی تائید کرنا اور پوری شہرت اور اثر کے ایام میں میدان مقابلہ میں نکلنا یہ دونوں فعل صرف اخلاص فی الدین کا نتیجہ تھے!!!‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 291تا293)

محمدحسین صاحب بٹالوی ایک تعارف

محمدحسین بٹالوی صاحب کے ساتھ یہ پہلامقابلہ یامناظرہ تھا۔لیکن یہ پہلاتعارف بہرحال نہ تھا۔مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے والد رحیم بخش صاحب جوشیخ نومسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ان کاحضرت اقدسؑ کے والدمحترم کی خدمت میں آنا جانا تھااورایک فدویانہ اور خادمانہ تعلق تھا۔حضرت اقدسؑ کے خاندان کے ریاستی اور جائیدادی مقدمات میں عدالتوں میں بھی ساتھ ہوتے اور ان کی خواہش تھی کہ مستقل طورپر بطور منشی مختارکے انہیں خدمت پررکھ لیاجائے لیکن شایدعلمی وعقلی استعداد اس معیارکی نہ تھی کہ اس کام کے لئے رکھاجاتا۔

مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے أَبٰی وَاسْتَکْبَرَ کاعملی مظاہرہ کرتے ہوئے اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ کانعرہ لگاتے ہوئے حضورعلیہ السلام کی مخالفت پرجب کمرکس لی توکچھ اشتہاری خط حضورعلیہ السلام کی ذات بابرکات پرالزامات لگاتے ہوئے لکھے۔آپؑ نے ان خطوں کواپنی تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں درج کرتے ہوئے جواب بھی دیا۔اسی طرح کے ایک الزام کاجواب دیتے ہوئے آپؑ نے مولوی صاحب کومخاطب کرتے ہوئے لکھا:’’ہاں مقدمہ بازی آپ کے والد صاحب کی جائے حرج ہو توکچھ تعجب نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزی عملداری میں اکثر سود خواروں کی مختار کاری میں ان کی عمر بسر ہوئی اور جس طرح بن پڑا انہوں نے بعض لوگوں کے مقدمے محنتانہ پر لئے۔ گو وہ قانونی طور پر نہ مختارنہ وکیل بلکہ فیل شدہ (بھی )نہیں تھے مگر پیٹ بھرنے کےلئےسب کچھ کیا لیکن یہ عاجز تو بجز اپنی زمینداری کے مقدمات کے جن میں اکثر آپ کے والد صاحب جیسے بلکہ عزت اور لیاقت میں ان سے بڑھ کر مختار بھی کئے ہوئے تھے۔ دوسروں کے مقدمات سے کبھی کچھ غرض نہیں رکھتا تھا۔ اور مجھ کو یاد ہے بلکہ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے بھی مقام بٹالہ میں حضرت مرزا صاحب مرحوم کی خدمت میں اپنی تمنا ظاہر کی تھی کہ مجھ کو بعض مقدمات کےلئے نوکر رکھا جاوے تا بطور مختار عدالتوں میں جاؤں مگر چونکہ زمینداری مقدمات کی پیروی کی ان میں لیاقت نہیں تھی اس لئے عذر کر دیا گیا تھا۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 303تا 304) ایک اور جگہ انہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ یہ شخص میری ابتدائی عمر میں میرا ہم مکتب بھی رہا ہے اور وہ اور اس کا بھائی حیدر بخش دونوں میرے مکان پر آتے تھے۔ ایک دفعہ ایک کتاب بھی مستعار طور پر لے گئے تھے جس کو اب تک واپس نہیں کیا۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 283)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button