خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب ۵؍اگست ۲۰۲۲ء بمقام حدیقۃ المہدی آلٹن
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: خداتعالیٰ کےفضل سےاس سال جلسہ سالانہ برطانیہ 2019ء کے بعد دوبارہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہا ہے۔گذشتہ سال بھی جلسہ ہوا تھا لیکن محدود تعداد کے ساتھ۔ گو اس سال بھی یہ جلسہ سالانہ صرف برطانیہ جماعت کا ہے اور باہر کے مہمان بہت محدود تعداد میں شامل ہو رہے ہیں لیکن تینوں دن ان شاء اللہ تعالیٰ برطانیہ کی سب جماعتوں کو شامل ہونے کی اجازت ہے اور ان شاء اللہ ہوں گی۔
سوال نمبر2:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کوروناوبااوراس سے بچاؤکے لیےکیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کووِڈ وبا کی وجہ سے باقاعدہ جلسہ سالانہ کا تسلسل ایک سال تو بالکل ہی توڑنا پڑا اور جلسہ کی برکات سے ہم باقاعدہ فیضیاب نہیں ہو سکے۔ اس سال بھی اس وبا کا زور کم زیادہ ہوتا رہا ہے اور آجکل بھی یہ پوری طرح ختم نہیں ہوئی بلکہ بعض جگہوں پر، یہاں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی،گذشتہ دنوں میں یہ بڑھی ہے لیکن حکومت کی طرف سے جو اکٹھے ہونے پر پابندیاں تھیں وہ اب اتنی نہیں رہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سب احتیاطی تدبیروں کو ختم کر دیں۔سب احتیاطی پہلوؤں کو سب شاملین کو بہرحال سامنے رکھنا چاہیےاور ان کی پابندی کرنی چاہیے۔احتیاطی تدبیروں میں سے ایک تو یہ ہے کہ سب شاملین بھی جب جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوں اس وقت اور ڈیوٹی والے بھی جب ڈیوٹیاں دے رہے ہوں اس وقت یا پھر باہر پھر رہے ہوں تب بھی ماسک پہن کر رکھنےکی پابندی کریں۔ اسی طرح انتظامیہ نے بھی اس سال یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ صبح آتے ہوئے اور واپس جاتے ہوئے ہومیو پیتھی دوائی جو اُن کے خیال میں اس بیماری کے لیے بہتر ہے، دینے کا انتظام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں شفا بھی رکھے۔ دوائی میں شفا رکھنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن ہمیں ظاہری کوشش کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں مَیں تمام شاملین سے کہوں گا کہ انتظامیہ سے تعاون کریں۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رضاکارانہ کام کرنے والوں کے اخلاص کاتذکرہ کرتے ہوئے انتظامیہ کوکیاتوجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:دنیا یہ کوشش کرتی ہے کہ ہمیں رضاکارانہ کام کرنے کے لیے لوگ ملیں لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ اس کے بالکل برعکس مثال پیش کرتی ہے کہ اتنے کام کرنے والے آجاتے ہیں کہ انتظامیہ کو مشکل پیش آ تی ہے کہ انہیں سنبھالیں کس طرح۔ جو جلسہ کی باقاعدہ ڈیوٹیاں ہیں ان میں تو پہلے چارٹ بن جاتے ہیں، پروگرام بن جاتے ہیں، ہر شعبہ کو اس کی ضرورت کے مطابق کارکن مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کر دیے جاتے ہیں لیکن جلسہ سے پہلے کا جو وقار عمل ہے یا بعد کا جو وقار عمل کا کام ہے اس میں بسا اوقات توقع سے زیادہ افراد آ جاتے ہیں کیونکہ عمومی تحریک کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں جب گذشتہ جمعہ کو میں نے آخر میں جلسہ کے حوالے سے دعا کے لیے کہا اور جو کام کرنے والے ہیں ان کے لیے بھی دعا کے لیے کہا تو فوراً ایک جذبہ کے ساتھ اَور لوگوں نے بھی اپنی خدمات پیش کیں لیکن بہرحال انتظامیہ کو چاہیے کہ خاص طور پر جو weekends ہیں ان پہ خاص انتظام رکھا کرے۔ ضیافت کے شعبہ کو آئندہ کے لیے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے۔
سوال نمبر4: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کارکنوں کوجلسہ میں شامل مہمانوں کی خدمت کی بابت کیا نصیحت فرمائی ؟
جواب: فرمایا:جلسہ کے ان تین دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی اس جذبہ سے خدمت کریں کہ انہیں ہمیشہ یہ احساس رہے اور دل میں یہ رہے کہ ہم نے اپنے افسروں سے یا کسی مہمان کی طرف سے اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں لینااور نہ ہمیں صلہ ملنا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور اس صحابی کے اسوہ کو اوراس کی بیوی کے اسوہ کو سامنے رکھنا ہے جس نے بچوں کو بھی بھوکا سلا دیا تھا اور خود بھی بھوکے رہے اور مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا۔ مہمان پر یہی ظاہر کیا روشنی بجھا کر کہ جس طرح وہ بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو اتنا سراہا کہ آنحضرت ﷺ کو بھی اس کی خبر دی اور اگلے دن آنحضرت ﷺ نے اس صحابی سے فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے یعنی اس مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے جو مسلمان کی تدبیر تھی اس پر اللہ تعالیٰ بھی ہنسا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر بڑا خوش ہوا اور ہنسا اور قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قربانی کرنے والوں کا ذکر فرمایا ہے۔یہ قربانی کرنے والے ہیں جو بے نفس ہو کر قربانی کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ پس یہ تھے صحابہ کے طریق مہمان نوازی کرنے کے، مہمان کی خدمت کرنے کے۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر مہمان بھی وہ جو زمانے کے امام کے بلانے پر آئے ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی باتیں سننے کے لیے آئے ہیں،جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش لے کر آئے ہیں۔ پس بہت خوش قسمت ہیں وہ سب رضا کار جو دین کی خاطر آنے والے مہمانوں کی خدمت اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔جب بڑی تعداد میں لوگ ہوں تو مختلف مزاج کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔بعض زیادہ گرم طبیعت کے بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ سختی سے کارکن سے مخاطب ہو جاتے ہیں یا سختی سے کسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کارکن کا کام ہے، مرد کارکنان کا بھی، لجنہ کی کارکنات کا بھی کہ کسی سے سختی نہیں کرنی۔ کسی سختی سے بولنے والے کا سختی سے جواب نہیں دینا بلکہ مسکراتے ہوئے جواب دینا ہے۔ اگر ضرورت پوری کر سکتے ہیں تو ضرورت پوری کریں ورنہ نرمی سے، پیار سے معذرت کر دیں یا اپنے بالا افسر کے پاس لے جائیں جو مہمان کا مسئلہ حل کر دے۔ بعض دفعہ یہ کام بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے یہ کام کرنا چاہیے۔ اپنے جذبات کو، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آپس میں بھی کارکنان جو ہیں اپنی زبان کو ایک دوسرے کے لیے نرم رکھیں۔ افسران اور نگران بھی اپنے معاونین کے ساتھ نرم زبان میں گفتگو کریں۔ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو پیار سے سمجھائیں۔ افسران کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ رضا کار اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں اور باوجود اس کے کہ کسی خاص شعبہ کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں خدمت کے جذبہ سے بے نفس ہو کر خدمت کر رہے ہیں تو ان کی عزت افزائی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آپس میں بھی سب کو مل جل کر کام کرنے کی توفیق دے اور یہ جذبہ اس وقت پیدا ہو گا جب افسروں کو بھی اور معاونین کو بھی اس بات کا ادراک ہو گا کہ ہم نے یہ خدمت قربانی کے جذبہ سے کرنی ہے۔
سوال نمبر5: حضرت مسیح موعودؑنے مہمانوں سے حسن سلوک کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مہمانوں سے حسن سلوک کے بارے میں بہت سے مواقع پر نصائح فرمائی ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا’’دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم جانتے ہو۔ بعض کو تم شناخت کرتے ہو بعض کو نہیں۔ اس لیے مناسب ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔‘‘پس یہ اصول ہمیشہ ہر کارکن کو اور خصوصاً ان کارکنان کو جن کا براہ راست لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے سامنے رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر شعبہ مہمان نوازی اور طعام وغیرہ کی جو خدمت ہے وہ اس پر بہت پابندی سے عمل کریں۔
سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مہمانوں کو توقعات وابستہ رکھنے کے حوالہ سے کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا:اگر مہمان اس بات کو سمجھ جائیں اور اس کی پابندی کر لیں جو اسلام کی تعلیم ہے کہ مہمان اپنے میزبان پر غیر معمولی، غیر ضروری بوجھ نہ ڈالے تو پھر محبت اور پیار والی فضا قائم رہتی ہے۔مہمان اگر میزبان سے غلط توقعات یا ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کریں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پس مہمانوں کو بھی چاہیے کہ ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں۔ اگر یہ صورت ہوگی تو پھر گھر والے بھی سہولت میں رہیں گے اور جن کے سپرد مہمانوں کا انتظام ہے وہ بھی اور مہمان بھی سہولت میں رہیں گے۔ پس اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ جماعتی نظام کے تحت بھی جو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ ان کارکنان کے شکر گزار ہوں کہ ان کے احمدی بھائی بہنوں نے باوجود اپنی اچھی پوزیشنوں کے اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کیا ہوا ہے۔ بعض دفعہ کھانا مہمان کے مزاج کے مطابق نہیں بنتا حالانکہ اس جماعتی روایت کا ہر احمدی کو پتا ہے کہ جلسہ کے دنوں میں ہمارے ہاں عموماً آلو گوشت اور دال پکتی ہے تو مہمانوں کو ان کے مزاج کے مطابق کھانا نہ بھی ملے تو خوشی سے کھا لینا چاہیے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مہمان کو میزبان کی طرف سے جو بھی کھانا پیش کیا جائے اسے خوشی سے کھا لینا چاہیے۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ میں آنے والوں کو کیا دعاپڑھنے کی تحریک فرمائی؟
جواب: فرمایا:آنحضرت ﷺ نے تو ہمیں ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ بعض لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جلسہ کی برکات سے مستفیض ہونے کے لیے آئے ہیں۔ انہیں پیچھے اپنے گھر والوں کی فکر بھی ہو گی تو آپؐ نے فرمایا یہ دعا کیا کرو’’اے ہمارے خدا! مَیں پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، ناپسندیدہ اور بے چین کر نے والے مناظر سے، مال اور اہل و عیال میں بُرے نتیجہ سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے۔‘‘بڑی جامع دعا ہے۔سفر میں اپنے آپ کو بھی ہر طرح سے محفوظ رکھنے کے لیے دعا ہے اور گھر والوں کے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہنے کی بھی دعا ہے۔ ایسی سوچ اور ایسی دعاؤں سے زبانوں کو تر کرتے ہوئے جب یہاں ہر مرد،عورت پھر رہا ہو گا تو پھر جہاں ماحول پُرسکون ہو گا، دلوں کی تسکین کے سامان ہو رہے ہوں گے وہاں اللہ تعالیٰ ہر برے منظر سے بھی بچا کے رکھے گا۔
سوال نمبر8:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ میں شامل ہونےوالوں کو نمازوں اور تقاریر سننے کی بابت کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: نمازوں کے اوقات میں نمازوں کے لیے آئیں۔ باہر باتوں میں وقت ضائع نہ کریں۔ اسی طرح کارکنان بھی نمازوں کے اوقات میں جن کی ڈیوٹی نہیں ہے، باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح سب شاملین یہ کوشش کریں کہ جلسہ کے پروگراموں کے دوران جلسہ گاہ میں بیٹھ کر تقریریں سنیں۔مقررین نے بڑی محنت سے تقریریں تیار کی ہوتی ہیں۔ ان سے علمی اور روحانی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے صرف یہ نہ دیکھیں کہ کون اچھی تقریر کر رہا ہے،کون اچھا مقرر ہے۔ یہ دیکھیں کہ نفس مضمون کیا ہے اور اس کا کتنا فائدہ ہے۔ عموماً تقریریں ایسے موضوعات پر ہوتی ہیں جن کی اس وقت ضرورت ہے اور اگر غور سے سنی جائیں تو بہت سے سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں جو دلوں میں پیدا ہو رہے ہوتے ہیں۔پس تقریروں کو بہت غور سے بیٹھ کر سنیں۔
سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کو کن اہم امورکاخیال رکھنےکی طرف توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:اسی طرح جیسا کہ میں ہر سال کہتا ہوں ٹائلٹس استعمال کرنے والے،غسل خانے استعمال کرنے والے جو ہیں وہ صفائی کا بھی خیال رکھیں اور اس سال خاص طور پہ پانی کو بھی ضائع نہ کریں۔ کم بارشوں کی وجہ سے حکومت نے بھی کم پانی استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ احتیاط سے پانی استعمال کریں۔ اسی طرح خشک گھاس کو بڑی آسانی سے یہاں آگ لگ جاتی ہے۔ اس بارے میں بھی خاص احتیاط کریں۔کسی بھی قسم کی بے احتیاطی مشکل پیدا کر سکتی ہے۔ اپنوں کو یا ہمسایوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حفاظتی نقطۂ نظر سے بھی ہر ایک کو محتاط ہونا چاہیے۔ ماحول پر گہری نظر رکھیں۔ کوئی بیگ یا کوئی ایسی چیز پڑی نظر آئےجس پہ شک ہو تو فوراً انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ انتظامیہ بھی اور سکیننگ والے بھی کارڈ چیک کرتے ہوئے ماسک اتار کر ہر ایک کا چہرہ دیکھیں کہ کارڈ کی تصویر کے مطابق ہے کہ نہیں۔
سوال نمبر10: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آخرپر جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کے کونسےدعائیہ کلمات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:’’ہر یک صاحب جو اس للّٰہی جلسہ کے لیے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرِ عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرماوے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرےاور ان کی مرادات کی راہیں ا ن پر کھول دیوے اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تااختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو۔ اے خدا اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین۔‘‘