سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

(گذشتہ سے پیوستہ )’’جب مولوی صاحب غزنوی ہماری مذکورہ بالا خواب کے مطابق فوت ہو گئے تو جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے تھوڑے دنوں کے بعد میں نے ان کو خواب میں دیکھا کہ میں اپنا ایک خواب ان کے آگے بیان کر رہا ہوں اور وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں آ گیا ہوں اور ان کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں اور انہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں۔ وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے تب میں نے مولوی عبداللہ صاحب کو اپنا ایک خواب سنایا میں نے انہیں کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک نہایت چمکیلی اور روشن تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کی نوک آسمان میں ہے اور قبضہ میرے پنجہ میں اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوں اور ہر ایک وار سے ہزارہا آدمی کٹ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لمبائی کی وجہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتی جاتی ہے۔ یہ خواب تھی جو میں نے مولوی عبداللہ کے پاس بیان کی اور جب میں خواب کو بیان کرچکا اور ان سے تعبیر پوچھی تب مولوی عبداللہ نے اس کی تعبیر یہ بتلائی کہ تلوار سے مراد اتمام حجت اور تکمیل تبلیغ ہے اور میرے دلائل قاطعہ کی تلوار ہے اور یہ جو دیکھا کہ وہ تلوار دائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے اس سے مراد دلائل روحانیہ ہیں جو از قسم خوارق اورآسمانی نشانوں کے ہوں گے۔ اور یہ جو دیکھا کہ وہ بائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے اس سے مراد دلائل عقلیہ وغیرہ ہیں جن سے ہر ایک فرقہ پر اتمام حجت ہو گا۔ پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو امیدوار تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے ایک حصہ کے حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بھی تصدیق کی ہے شائد میں نے اس خواب کو سو سے زیادہ لوگوں کو سنایا ہو گا۔ چنانچہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو رہی ہے اور روحانی تلوار نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو فتح کر لیا ہے اور کرتی جاتی ہے۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ614 – 618)

’’وہ میرے خیال میں ایک صالح آدمی تھا یعنی مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی اور اگر میرے زمانہ کو وہ پاتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ وہ مجھے میرے دعوے کے ساتھ قبول کرتا اورردّ نہ کرتا مگروہ مرد صالح میری دعوت سے پہلے ہی وفات پاگیا اور جو کچھ عقیدہ میں غلطی تھی وہ قابل مؤاخذہ نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی معاف ہے۔ مؤاخذہ دعوت اور اتمام حجت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ وہ متقی اورراستباز تھا اور تبتل اور انقطاع اس پر غالب تھا اور عباد صالحین میں سے تھا۔ میں نے اُس کی وفات کے بعد ایک دفعہ اُس کو خواب میں دیکھا اور میں نے اُس کو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے ہاتھ میں اور نوک آسمان میں ہے اور میں یمین ویسار میں اُس تلوار کو چلاتاہوں اور ہر ایک ضرب سے ہزارہا مخالف مرتے ہیں اِس کی تعبیر کیا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے ایسی حجت کہ جو زمین سے آسمان تک پہنچے گی اور کوئی اُس کو روک نہیں سکے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ کبھی دہنی طرف تلوار چلائی جاتی ہے اور کبھی بائیں طرف اِس سے مراد دونوں قسم کے دلائل ہیں جو آپ کو دئے جائیں گے یعنی ایک عقل اور نقل کے دلائل دوسرے خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں کے دلائل۔ سو اِن دونوں طریق سے دنیا پر حجت پوری ہوگی اور مخالف لوگ ان دلائل کے سامنے انجام کار ساکت ہو جائیں گے گویا مر جائیں گے۔‘‘(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 250تا251)

’’جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیردی میں اور دوسری دفعہ مقام امرت سر میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اس کے لئے آپ دعا کرو۔ مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤں گا کہ کیا مدعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درپوشیدہ داشتن برکت است ومن انشاء اللہ دعا خواہم کر دو الہام امر اختیاری نیست۔ اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوٰة والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اس کا مددگار ہو۔ بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھے ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ ’’ایں عاجز برائے شما دعا کردہ بود القاشد۔ وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔ فقیر راکم اتفاق مے افتد کہ بدیں جلدی القا شود ایں از اخلاص شما مے بینم۔‘‘ (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22 صفحہ 251)

محمدحسین بٹالوی صاحب سے مناظرہ

محمدحسین بٹالوی صاحب ابھی نئے نئے فارغ التحصیل ہوکرآئے تھے۔ جوانی تھی اور سیدنذیرحسین دہلوی جیسے عالم سے جوکہ شیخ الکل کہلاتے تھے،سندحدیث لے کر دستار بندی کروائی تھی۔بٹالوی صاحب کی بعدکی زندگی شاہدہے کہ اپنے اس علم کا گھمنڈانہیں کچھ زیادہ ہی تھا۔ادھرپنجاب میں بھی اہل حدیث اور اہل سنت جیسے دیگرفرقوں کے باہمی مناظرے جن کی نوبت بحث ومباحثہ سے نکل کرفسادوجدال تک بھی جاپہنچتی اب عام ہورہے تھے۔اور یہ فرقہ یعنی جوغیرمقلدین یاوہابی کے نام سے بھی معروف تھاان کابھی زوروشوراب طوفانی صورت اختیار کررہاتھا۔مولوی صاحب کے بٹالہ میں آنے سے بٹالہ اور ساتھ کے شہروں اوربستیوں میں بھی ایک جوش اورولولہ پیداہونے لگا۔اور اس میں اب نمایاں کردارمولوی صاحب کاتھا۔

اہالیان بٹالہ نے جب یہ شوروشردیکھاتو ان کی نظر حضرت اقدس علیہ السلام پرپڑی کہ آپ علیہ السلام کوان کے مدمقابل کیاجائے اور ان لوگوں کویقین تھا کہ ایک آپؑ ہی ہیں جواس نوجوان مولوی کاناطقہ بندکرسکتاہے۔حضرت اقدسؑ کوبمشکل اس مباحثہ کے لیےراضی کیاگیااور آپؑ کومباحثہ کے لیے لایاگیا۔طرفین کی طرف سے حامیان کی ایک خاصی تعداد جمع تھی۔ اور آج تو خاص طورپر مقلدین کاگروہ بجاطورپراپنی پیشگی فتح کے لئے پُر یقین تھااورہونابھی چاہیے تھا کہ آج اس بزرگ عالم کوبحث کے لیے بلایا گیا تھاکہ جس کی گرفت ایسی ہوتی تھی کہ مدمقابل زیردام عصفورکی مانند بے کس و بےبس ہو جاتاتھا۔بہرحال آپؑ جب مقام بحث پرپہنچے تو مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کے نظریات وخیالات اور عقائد کیاہیں وہ بتائیں تاکہ ان کی تردیدکی جائے۔ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے کہاکہ میرے نزدیک قرآن کریم مقدم اور پھرحدیث اورقول رسولﷺ ہے جس کے مطابق فیصلہ کیاجائے گا۔

حضرت اقدس ؑنے مولوی صاحب سے ان کایہ عقیدہ سنا تو فرمایاکہ میرے نزدیک آپ کے عقائدونظریات میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جوقابل اعتراض ہواور اس کو ردّ کیاجائے۔جو لوگ آپ کولے کرگئے تھے ان کاخیال تھا کہ اس طرح توہماری شکست متصورہوگی اور فریق مخالف اپنی فتح کانقارہ بجادے گا اس لیے کچھ بھی ہومولوی صاحب کو اس میدان مباحثہ میں کچھ تو ندامت وشرمندگی کاقشقہ لگاناچاہیے لیکن حضرت اقدسؑ فتح و شکست کے فخرورسوائی سے بے نیاز وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔

حضرت اقدس علیہ السلام براہین احمدیہ میں اس واقعہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’1868ء یا 1869ء میں بھی ایک عجیب الہام اردومیں ہواتھا جس کواسی جگہ لکھنا مناسب ہے۔اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔جب نئے نئے مولوی ہو کربٹالہ میں آئے۔اور بٹالیوں کوان کے خیالات گراں گزرےتو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا۔چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیااور مولوی صاحب کو معہ ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہواس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا۔رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئےجو گھوڑوں پر سوار تھے۔چونکہ خالصاً خدااوراس کے رسول کے لئے انکساروتذلل اختیار کیاگیا اس لئےاس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اس کوبغیر اجرکے چھوڑے۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 621-622بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button