خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍جنوری 2023ء

اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کو اس حد تک اہمیت دی ہے کہ حقیقی نیکی جس سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے بشرطیکہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جائے اس وقت نیکی شمار ہو گی جب اپنی محبوب چیز خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہمدردیٔ خلق میں خرچ کی جائے

تحریکِ وقفِ جدید کے پینسٹھ ویں سال کے دوران جماعتہائے احمدیہ کی طرف سے ایک کروڑ بائیس لاکھ پندرہ ہزار پاؤنڈزکی بے مثال قربانی

اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ مال قبول ہوتا ہے جو کسی کا محبوب مال ہو

یہ جو کاروبار ہے بِٹ کوائن (Bitcoin)وغیرہ کا میرے نزدیک تو یہ ایک قسم کا جوا بھی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری نظامِ خلافت میں بھی اللہ تعالیٰ ہر دَور میں قربانی کرنے والے عطا فرماتا چلا جا رہا ہے جو قربانیاں کر کے اپنی ترجیحات کوپس پشت ڈال کر بڑھ بڑھ کر قربانیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں پرانے احمدی بھی شامل ہیں ا ور نومبائعین بھی شامل ہیں

پس اللہ تعالیٰ کے راستے میں کی گئی قربانی نہ صرف اس دنیا میں فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ آئندہ زندگی میں مرنے کے بعد بھی فائدہ دے گی

سوچ کی بات ہے، دنیا دار کچھ اور سوچتا ہے لیکن ایک دیندار انسان یہی سوچتا ہے کہ اللہ کے فضل اس کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے ہو رہے ہیں

وقفِ جدید کے چھیاسٹھ ویں سال کے آغاز کا اعلان، دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کی قربانی کے واقعات کا عمومی تذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍جنوری 2023ءبمطابق 06؍صلح 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (آل عمران:93)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناًً اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ ’’تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہرگز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3صفحہ38)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’تم حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ358)

پس اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کو اس حد تک اہمیت دی ہے کہ حقیقی نیکی جس سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے بشرطیکہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جائے اس وقت نیکی شمار ہو گی جب اپنی محبوب چیز خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہمدردیٔ خلق میں خرچ کی جائے

اور پھر یہ چیز نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تو کوئی نیکی نہیں کہ کسی کی گائے بیمار ہو جائے اور بچنے کی کوئی امید نہ ہو تو کہہ دے کہ اسے خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں یا کوئی فقیر آئے اور اسے گھر کی باسی روٹیاں دے دی جائیں، پرانی روٹیاں جن کو گھر میں کوئی کھاتا نہیں۔ تو یہ چیزیں تو ویسے ہی اس کے کام کی نہیں رہیں۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال وہ قبول ہوتا ہے جو کسی کا محبوب مال ہو
اور پھر وہ قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دے۔

یہی حقیقی نیکی ہے۔ یہی بات ہمدردیٔ خلق کا صحیح پتہ دیتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دل میں دوسروں کے لیے کتنا درد ہے۔ ہمارے اندر دین کی خدمت کے لیے کیا شوق ہے اور اس بارے میں ہمارے جذبات کیا ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد8صفحہ19 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں ’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علم تعبیر الرؤیاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اُس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آلِ عمران:۹۳) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جبتک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے۔ جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شئے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔

پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ95-96 ایڈیشن 1984ء)

پس قربانی کے اور پسندیدہ مال کے پیش کرنے کے یہ وہ معیا ر ہیں جن کی اعلیٰ ترین مثال جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم فرمائی اور پھر صحابہؓ نے اپنی بساط کے مطابق حفظِ مراتب کے لحاظ سے قربانیوں کے یہ معیار قائم کیے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں تو آپؑ کے مشن کو پورا کرنے کے لیے جو اشاعتِ لٹریچر ہے اور اشاعتِ اسلام کے لیے ہے، اعلیٰ ترین مثال حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفةالمسیح الاولؓ نے قائم فرمائی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؓ نے لکھا جس کا ذکر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپؑ کا ہے۔ حضرت پیر و مرشد مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔‘‘ پھر لکھا کہ ’’…مجھے آپ سے نسبتِ فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیّار ہوں۔ دعا فرماویں کہ میری موت صدّیقوں کی موت ہو۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3صفحہ36)

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے صحابہؓ تھے جنہوں نے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں دیں اور ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے ان کی قربانیاں دیکھ کے حیرت ہوتی ہے۔ یہ قربانیاں کیوں دیں؟ اس لیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن جو اشاعتِ اسلام کا مشن ہے اس میں آپ کے مددگار بنیں۔ اس لیے کہ مخلوق سے ہمدردی کا درد رکھتے ہوئے انہیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی جماعت میں شامل کرنے کے لیے قربانی پیش کریں۔ تکمیلِ ہدایت کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور یہ قربانیوں کی جاگ افراد جماعت کو ایسی لگی کہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری نظامِ خلافت میں بھی اللہ تعالیٰ ہر دَور میں قربانی کرنے والے عطا فرماتا چلا جا رہا ہے جو قربانیاں کر کے اپنی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر بڑھ بڑھ کر قربانیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں پرانے احمدی بھی شامل ہیں ا ور نومبائعین بھی شامل ہیں

جن کی قربانیوں کی مثالیں بھی مَیں پیش کروں گا۔

بہرحال آج کا جو خطبہ ہے،

جنوری کا جو پہلا خطبہ ہے
عموماً وقفِ جدید کے نئے سال کے اعلان کے بارے میں ہوتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1957ء میں اس تحریک کو شروع فرمایا جو دیہاتوں میں تربیت و تبلیغ کے لیے آپؓ نے شروع فرمائی جو پہلے صرف پاکستان تک ہی محدود تھی۔ پھر خلافتِ رابعہ میں اس کو وسعت دے کر تمام ممالک تک پھیلا دیا گیا اور جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی اس چندے کی رقم افریقہ کے ممالک میں تربیت و تبلیغ پہ خرچ کرنے کا ارشاد حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا اور عموماً یہی سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ اس چندے کی آمد کو افریقہ میں اور دوسرے غریب ممالک میں خرچ کیا جاتا ہے۔ احبابِ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ افریقہ کے اور دوسرے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کے احمدی اس میں حصہ نہیں لے رہے۔ ان لوگوں کی قربانیاں بھی ان کی آمد اور حالات کے مطابق قابلِ تعریف ہیں لیکن زائد اخراجات بہرحال امیر ملکوں کے چندوں سے پورے کیے جاتے ہیں، ترقی یافتہ ملکوں کے چندوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ ہر جگہ یہ قربانیاں کرنے والے اس بات کا کامل ادراک رکھتے ہیں جو بات ایک حدیثِ قدسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! تُو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا۔ نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا خزانہ مَیں پورا تجھے دوں گا اُس دن جب تُو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا۔

(کنز العمال جلد 6 صفحہ 352 حدیث نمبر 16021 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

پس اللہ تعالیٰ کے راستے میں کی گئی قربانی نہ صرف اس دنیا میں فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ آئندہ زندگی میں مرنے کے بعد بھی فائدہ دے گی۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (البقرۃ:273)اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گا اور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ جب وعدہ کرتا ہے تو پورا بھی کرتا ہے۔ اس کے نمونے اس دنیا میں بھی ہمیں دکھا دیتا ہے تا کہ اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنو گے۔ دنیاوی اداروں کی طرح نہیں ہے کہ کاروباروں میں رقم لگاؤ اور نقصان ہو جائے یا کچھ عرصہ فائدہ ہو اور پھر صرف دنیاوی فائدہ ہو، آگے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے تو بعض ایسے کاروبار ہیں جو کچھ عرصہ تک تو فائدہ دیتے ہیں پھر ان کو چلانے والے ہی سب کچھ کھا جاتے ہیں اور وہ غریب لوگ جنہوں نے انویسٹمنٹ کی ہوتی ہے ان کا پیسہ ڈوب جاتا ہے جیسے آج کل بڑا شور مچا ہوا ہے کہ کئی بلین ڈالر لوگوں کے ڈوب گئے جنہوں نے بِٹ کوائن (Bitcoin)یا کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency)میں اپنی رقمیں لگائی ہوئی تھیں۔ ان کے چلانے والے کھا گئے۔ ختم ہو گیا سب کچھ۔ بہرحال

یہ جو کاروبار ہے بِٹ کوائن وغیرہ کا میرے نزدیک تو یہ ایک قسم کا جوا بھی ہے۔

لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی خاطر قربانی کرنے والوں کو نوازتا ہے اس کے عجیب نظارے ہیں۔ جیساکہ میں نے کہا تھا کہ میں کچھ مثالیں پیش کروں گا۔ ایسی مثالیں ہیں کہ جہاں قربانی کرنے والے دنیاوی فائدہ اٹھا رہے ہیں وہاں ان کے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً

لائبیریا کی ایک مثال

ہے۔ وہاں بومی کاؤنٹی ہے۔ معلم کہتے ہیں کہ وقفِ جدید کی وصولی کے لیے نومبائعین کی ایک جماعت فومبا (Fomba) ہے۔ میں وہاں گیا۔ مقامی امام سے ملاقات کے بعد ایک اجتماعی پروگرام منعقد کیا جس میں گاؤں کی اکثریت شامل ہوئی۔ احباب کو وقفِ جدید کی اہمیت اور برکات کے حوالے سے بتایا گیا۔ پروگرام کے بعد احباب سے انفرادی طور پر اُن کے گھروں میں جا کر بھی وصولی کی۔ ایک خادم اس دوران میں گھر گیا۔ اس کے گھر پہ کچھ نہیں تھا۔ اس کی والدہ نے معذرت کی کہ ابھی چندے کے پیسے نہیں ہیں بعد میں کسی وقت دے دیں گے۔ کہتے ہیں ہم واپس آ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خادم دوڑتا ہوا آیا اور کہا یہ دو سو پچاس لائبیرین ڈالر ہیں جو مجھے میرے والد نے سکول کی فیس کے لیے دیے تھے یہ میں چندے میں دے دیتا ہوں تا کہ ہمارا گھر اس تحریک سے محروم نہ ہو جائے۔ کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد وہی خادم میرے سینٹر میں آیا اور بتایا کہ آپ کے جانے کے دو دن بعد ہی مجھے پیغام ملا کہ میرے کسی رشتہ دار نے میری سکول کی ضروریات کے لیے پچیس سو لائبیرین ڈالر کی رقم بھیجی ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے اپنی فیس بھی ادا کر دی اور دوسری ضرورت کی اشیاء بھی خریدیں۔ کہنے لگا کہ

اللہ تعالیٰ نے تومجھے میری قربانی سے دس گنا بڑھ کے نوازا ہے۔

تو اس طرح اللہ تعالیٰ دلوں میں ایمان اور یقین پیدا کرتا ہے اور

اللہ تعالیٰ جو یہاں نوازتا ہے تو اگلے جہان کے جو وعدے ہیں
وہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ پورا کرے گا جہاں یہ حساب جمع ہو رہا ہے۔

پھر

گنی کناکری کی ایک مثال

ہے۔ وہاں کے ایک ریجن کی جماعت ہے منسایا (Mansaya)۔ وہاں کے مشنری کہتے ہیں کہ عشرۂ وقفِ جدید منا رہے تھے۔ احباب جماعت کو مسجد میں اور انفرادی طور پر چندہ وقفِ جدید کی اہمیت اور برکت بتاتے ہوئے اس بابرکت تحریک میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلا رہے تھے کہ گاؤں کے، مسجد کے امام ابوبکر کمارا صاحب جو حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ

پہلے میں چندہ ادا کروں گا کیونکہ ہمیں دوسروں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔

اب یہ حالت بھی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ خود تو تحریک میں حصہ نہ لیں اور دوسروں کو کہیں بلکہ خود بھی کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں تحریک کرنی چاہیے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی جیب میں موجود دس ہزار فرانک گنی چندے میں ادا کر دیا اور بعد میں یہ ملنے آئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ چندہ تو مَیں نے دے دیا تھا لیکن کچھ دیر کے بعد ہی میرے ایک دوست نے مجھے پندرہ لاکھ فرانک تحفةً بھجوائے اور کہتے ہیں جو مَیں سمجھتا ہوں میری اس قربانی کے نتیجے میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ مجھے عطا فرمایا۔ کہتے ہیں اب میں پہلے سے اَور بڑھ کر اور باقاعدگی سے چندوں میں حصہ لیا کروں گا۔ یہ ہے سلوک اللہ تعالیٰ کا نومبائعین کے ساتھ کہ

میرے رستے میں خرچ کرو گے تو یہاں بھی نوازوں گا
اور آئندہ کے وعدے تو پھر ان شاء اللہ پورے ہوں گے۔

پھر

کیمرون

کے معلم لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان میرے ساتھ تحریک جدید کے چندے کے لیے دیہاتوں میں جاتے رہے۔ بے روزگار تھے اس لیے خود تحریک جدید کے چندے میں صرف انہوں نے ایک ہزار سیفا چندہ دیا اور کہا کہ دعا کریں مجھے ملازمت مل جائے تو میں اَور دوں گا۔ معلم نے کہا ٹھیک ہے میں بھی دعا کرتا ہوں۔ تم بھی اپنی ملازمت کے لیے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ بعد اُس کی دعا سنی۔ ایک ماہ کے بعد یواین او کی ایک تنظیم میں بطور ڈرائیور ان کو کام مل گیا اس طرح اُس نے وقفِ جدید کے وعدے میں دس ہزار سیفاچندہ ادا کر دیا کہ جب مَیں نے مشکل حالات میں دیا تھا تو اس کے بدلے میں یہ اللہ تعالیٰ نے میری آمدمیں اضافہ کیا ہے۔

تنزانیہ

کے امیر صاحب لکھتے ہیں۔ ایک جماعت کی ایک خاتون نے بتایا کہ ایک دن وہ گھر کی خریداری کے لیے بازار جا رہی تھیں۔ رستے میں معلم سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے چندہ وقفِ جدید کے بارے میں بتایا اور اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تو کہتی ہیں میں نے اسے کہا کہ میرے پاس اس وقت دو ہزار شلنگ ہے۔ بازار سے میں سودا لینے جا رہی ہوں تو ایک ہزار شلنگ چندہ ادا کر دیا اور باقی ایک ہزار کا اپنا سامان خرید لوں گی۔ کہتی ہیں وہاں مجھے ایک خاتون نے پیچھے سے آواز دی جس نے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے پانچ ہزار شلنگ لیے ہوئے تھے اور لمبا عرصہ گزر گیا تھا جس کی واپسی کی مجھے اب امید بھی نہیں تھی۔ اس خاتون نے آواز دے کر وہ پانچ ہزار شلنگ مجھے دیے کہ یہ تمہارا قرض تھا جو میں نے واپس کرنا تھا۔ پھر وہ دوبارہ معلم کے پاس واپس آئیں اور کہا کہ یہ تو چندے کی برکت سے مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا اس لیے مزید ایک ہزار شلنگ چندہ ادا کر دیا۔

لائبیریا

کے معلم بیان کرتے ہیں کہ وہاں ایک گانٹا (Ganta) جماعت ہے۔ وہاں ایک ممبر عائشہ صاحبہ ہیں۔ وہ ان کے گھر گئے۔ وقفِ جدید کی تحریک میں شمولیت کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا اس وقت تو میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن آپ ذرا ٹھہریں میں کچھ انتظام کرتی ہوں تا کہ میرے گھر سے خالی ہاتھ نہ جائیں۔ یہ بھی فکر ہے کہ کوئی خالی ہاتھ نہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے جلدی سے کسی سے ادھار لے کر سو لائبیرین ڈالر چندہ ادا کر دیا۔ معلم کہتے ہیں کہ ابھی میں ان کے گھر میں ہی تھا کہ اس خاتون کے فون پر میسج آیا کہ کسی نے ان کے اکاؤنٹ میں آن لائن کچھ پیسے ٹرانسفر کیے ہیں اور خاتون کہتی ہیں کہ یہ تو ابھی جو میں نے سو لائبیرین ڈالر چندہ دیا تھا اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر مجھے نواز دیا۔

پھر

گنی کناکری

کے مبلغ لکھتے ہیں کہ جماعت کے ایک ممبر سعیدوبا (Saeedouba) صاحب ہیں۔ بے روز گار تھے اور مائننگ کمپنیزمیں انہوں نے درخواستیں دی ہوئی تھیں لیکن کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ عشرۂ وقفِ جدید کے دوران انہیں جب چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے کہا مَیں تو بےروز گار ہوں کچھ زیادہ تو نہیں دے سکتا۔ بہرحال جیب میں ہاتھ ڈالا انہوں نے اور پانچ ہزار فرانک نکال کر چندہ ادا کر دیا کہ اس وقت کُل رقم یہی میرے پاس ہے۔ کہتے ہیں چندے کی ادائیگی کے پانچ دن بعد انہیں ایک اَور مائننگ کمپنی کی طرف سے ملازمت کی آفر ہوئی جہاں انہوں نے درخواست بھی نہیں دی ہوئی تھی اور اللہ کے فضل سے پانچ لاکھ فرانک ماہانہ تنخواہ پر ان کو ملازمت مل گئی۔ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مَیں نے معمولی قربانی دی تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق کئی گنا بڑھا کے مجھے یہ عطا فرما دیا ہے۔

پھر

نائیجیریا

کے مبلغ ہیں انہوں نے بھی لکھا۔ کہتے ہیں کانو سٹیٹ کے ایک احمدی دوست ناصر صاحب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین سال سے بغیر جاب(job) کے پریشان تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنی استطاعت کے مطابق دوبارہ چندہ دینا شروع کر دوں۔ جاب نہیں تھا تو چندہ بھی بند کیا ہوا تھا۔ کہتے ہیں جو کچھ ہے اس کے مطابق چندہ تو دینا شروع کروں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ پچھلے سال جون کے مہینے سے چندہ دینا شروع کیا اور وہ مربی صاحب کو بتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں ابھی تین مہینے نہیں گزرے تھے کہ مجھ سے ایک دوست نے رابطہ کیا کہ ایک کمپنی کو مارکیٹنگ کے لیے ایک آسامی درکار ہے اور اس طرح اس کمپنی نے مجھے ہائر کر لیا اور اس کمپنی کا یہ اپنی طرز کا پہلا کانٹریکٹ تھا۔ کہتے ہیں مجھے یقین ہوگیا کہ یہ جو اتنے عرصہ کے بعد مجھے ملازمت ملی یا مجھے کاروبار یا کام ملا یہ اس چندے کی برکت ہے۔

پھر

سینٹرل افریقہ

کے مبلغ لکھتے ہیں جبریل صاحب ایک نومبائع ہیں انہوں نے کہا پچھلے سال جب میں جماعت میں داخل ہوا تو میری اخلاقی اور روحانی حالت میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ یہ بھی قابلِ غور چیز ہے کہ صرف جماعت میں شامل نہیں ہوئے بلکہ دعا یقیناً انہوں نے کی ہوگی اور اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش بھی کی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا فضل بھی اس پر ہوا کہ انہوں نے خود محسوس کیا کہ میری روحانی اور اخلاقی حالت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک دن جب مبلغ نے وقفِ جدید چندے کی تحریک کی کہ سال ختم ہونے والا ہے اور چندہ دینا چاہیے، بےشک تھوڑا دیں تو کہتے ہیں مَیں نے چندے کی رسید کٹوا دی اور اس وقت سے لے کر آج تک میرے کام میں بہت برکت پڑی۔ خدا کا خاص فضل ہوا۔ اب میں کام سے فارغ نہیں بیٹھتا۔ پہلے کئی کئی دن گاہک نہیں آتے تھے اب روزانہ کی بنیاد پر آتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اتنی اچھی رقم کما لیتا ہوں کہ جس کا مَیں پہلے تصور نہیں کرتا تھا۔

پھر

ٹوگو

سے مبلغ عارف صاحب لکھتے ہیں کہ کارا ریجن میں آباکاجی (Abagagi) کے ایک صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں میرے مالی حالات کوئی اچھے نہیں تھے۔ وقفِ جدید کا آخری مہینہ چل رہا تھا۔ فکر تھی کہ وعدہ کیسے پورا کروں گا۔ پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ گھر میں ایک چھوٹا سا بکرا ہے جو میں نے کسی اَور مقصد کے لیے رکھا ہوا ہے وہ بیچ کر چندہ ادا کر دیتا ہوں۔ ایک ہی چیز ہے گھر میں اَور کچھ ہے نہیں۔ وہی بیچ کے ادا کر دیتا ہوں۔ کہتے ہیں میں نے نیت ہی کی تھی کہ ایک دن مشنری صاحب چندہ لینے آگئے۔ اسی روز ایک شخص نے مجھ سے ادھار پیسے لیے ہوئے تھے اس کی واپسی کی بھی کوئی امیدنہیں تھی وہ بھی اسی وقت پیسے واپس کرنے آگیا۔ چنانچہ وہ سارے پیسے کہتے ہیں میں نے وقفِ جدید میں ادا کر دیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے غیب سے میری مدد فرما دی۔

نیکی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے انتظام بھی فرما دیا۔

محبوب چیز قربان کرنے کی طرف توجہ کی تو اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے نواز دیا کیونکہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے۔

مارشل آئی لینڈ

کے ساجد اقبال صاحب کہتے ہیں یہاں ایک خاتون لورین (Loreen) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ مالی قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر بہت فضل فرمایا ہے۔ پہلے مالی قربانی میں حصہ نہیں لیتے تھے کیونکہ یقین نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے بدلے میں کتنی برکت فرماتا ہے اور اس وقت پیسوں کی کمی بھی تھی۔ کھانے پینے کا سامان لینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور گھر کے اخراجات پورے کرنے میں بہت پریشانیاں ہوتی تھیں لیکن جب مسجد سے مالی قربانی کی برکات کے بارے میں خطبات سنے تو سوچا کہ قربانی میں حصہ لینا چاہیے۔ چنانچہ کہتی ہیں ہم نے قربانی کرنی شروع کر دی، چندہ دینا شروع کر دیا اب اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ گھر کے اخراجات بھی پورے ہو جاتے ہیں۔ کھانے پینے میں بھی کوئی تنگی نہیں ہوتی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایسی ایسی جگہوں سے ہمارے پاس رقمیں آ جاتی ہیں جن کا ہمیں تصور بھی نہیں ہوتا اور جتنا بھی ہم دیں اللہ تعالیٰ اتنا بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ نومبائعین کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اس طرح یہ سلوک فرماتا ہے۔

انڈیا

سے انسپکٹر صاحب وقفِ جدید کہتے ہیں جماعت میلا پالم تامل ناڈو میں وقفِ جدید کے بجٹ اور وصولی کی غرض سے گیا تو وہاں ایک مخلص احمدی سے ملاقات ہوئی۔ موصوف نے انہیںکہا کہ 2014ء میں مَیں نے بیعت کی تھی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی مجھے توفیق ملی تھی۔ اس وقت یہ نومبائع یا اب تو نومبائع نہیں رہے بہرحال وہ احمدی کہتے ہیں کہ اس وقت جب میں نے بیعت کی تھی مَیں نے اپنا وقفِ جدید کا وعدہ چار ہزار روپے لکھوا کر ادائیگی کی تھی کیونکہ میرے پاس اتنی ہی گنجائش تھی اور ہر سال مَیں پھر اس کے بعد حسب توفیق بڑھاتا بھی چلا گیا اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے کاروبار میں بھی نمایاں ترقی دیتا چلا گیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد باقی گھر کے افراد نے بھی بیعت کر لی اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج میرا وقفِ جدید کا چندہ پانچ لاکھ روپے ہو گیا ہے اور اس گذشتہ سال انہوں نے رمضان کے مہینے میں اپنے پانچ لاکھ کی مکمل ادائیگی بھی کر دی تھی۔ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باوجود میرے چندوں کی برکت کی وجہ سے کاروبار میں مجھے کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ مزید بڑھتا چلاگیا اور اللہ کے فضل سے اب کاروبار انڈیا سے نکل کے تھائی لینڈ میں بھی پھیلا دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سب چندے کی برکات ہیں۔ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل۔ جوئے کی قسم کا کاروبار نہیں ہے۔ روپیہ لگایا، محنت کی، کاروبار کیا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ نے کئی گنا اضافہ بھی فرما دیا۔

پھر

انڈیا کی ایک اَور مثال ہے۔

وہاں کے مبلغ انچارج نے لکھا ہے کہ ناظم صاحب مال، انسپکٹر صاحب وقفِ جدید مالی سال کے اختتام کے پیش نظر مالاپورم کیرالہ کے دورے پر تھے۔ ہمارے علاقے میں بھی آئے تو وہاں ایک مخلص احمدی رحمان صاحب کا فون آیا جو بزنس کرتے ہیں کہ آپ پہلے میری کمپنی میں آ جائیں۔ میں نے کمپنی اپنی بنائی ہے اس میں ایک نیا حصہ بنایا ہے وہاں دعا کروانی ہے۔ اور جب ہم وہاں گئے تو بغیر پوچھے دس لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔ نیز دورے کے لیے اپنی بڑی گاڑی پٹرول وغیرہ ڈلوا کردی۔ انہوں نے کہا بھی کہ ہمیں چھوٹی گاڑی ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ مرکزی نمائندوں کے لیے اچھی قابلِ اعتبار گاڑی ہونی چاہیے تاکہ آپ آرام سے سفر کر سکیں۔ کہتے ہیں یہ رقم میں نے اپنی ایک پراپرٹی کی رجسٹری کے لیے رکھی ہوئی تھی مگر آپ کے آنے کی وجہ سے وقفِ جدید میں ادائیگی کر دی ہے اور رجسٹری کی تاریخ آگے کروا لی ہے۔ چند دن کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ ایک بڑی رقم ان کو بغیر کسی خاص کوشش کے مل گئی جو موصوف کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔ دس لاکھ سے بھی کہیں زیادہ رقم تھی۔

ماریشس

سے ایک خاتون مس شبریز صاحبہ ہیں ۔کہتی ہیں مجھے اپنے والدین کی طرف سے سالگرہ کے تحفہ کے طور پر رقم ملی۔ میں نے وقفِ جدید اور تحریکِ جدید میں پانچ پانچ سو روپیہ دینے کا فیصلہ کیا جو مَیں نے ایک لفافے میں رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت بیماری کے دور سے گزر رہی تھی۔ اس دوران میرے ایک چچا اور میری کزن مجھے ملنے آئے، دونوں نے مجھے لفافے دیے اور ہر ایک میں پانچ پانچ ہزار تھے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے دس گنا زیادہ انعام دیا ہے۔

پھر

جارجیا

کے صدر جماعت کہتے ہیں کہ ایک ممبر محمد ابو حماد صاحب ہیں فلسطین سے ان کا تعلق ہے۔ جارجیا میں بطور میڈیکل سٹوڈنٹ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تین سال قبل انہوں نے بیعت کی تھی۔ جماعت نے عشرہ وقفِ جدید پر سیمینار منعقد کیا کہ اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کرنا چاہیے۔ تو کہتے ہیں اس وقت میرے پاس تقریباً تین سو ڈالر تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس میں سے نصف وقفِ جدید میں دے دوں گا کیونکہ مجھے وہ آیت یاد آ رہی ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشمس: 10) یعنی یقیناً وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہوا۔ چنانچہ چندے کی ادائیگی اور معمول کے اخراجات کے بعد میرے بینک اکاؤنٹ میں مہینے کے آخر میں صرف دو ڈالر رہ گئے۔ یہ سٹوڈنٹ ہی ہیں۔ دسمبر کے آخر پہ فلسطین سے میرے رشتہ دار جارجیا آ رہے تھے مجھے اس بات کی فکر تھی کہ ان کی مہمان نوازی کس طرح کر پاؤں گا لیکن جس دن مہمان آئے اسی دن اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے بینک اکاؤنٹ میں کسی ذریعہ سے ایک ہزار ڈالر ٹرانسفر کروا دیے۔ کہتے ہیں اس پر میں اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں اور اس کو بھی چندے کی برکات سمجھتا ہوں۔

سوچ کی بات ہے، دنیا دار کچھ اور سوچتا ہے لیکن ایک دیندار انسان یہی سوچتا ہے کہ اللہ کے فضل اس کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔

کینیا

کے معلم لکھتے ہیں ان کی جماعت میں ایک نومبائعہ خاتون خدیجہ صاحبہ نرسری سکول میں ٹیچر ہیں۔ وقفِ جدید کا وعدہ سال کے شروع میں انہوں نے پانچ سو شلنگ لکھوایا۔ ادائیگی بھی کر دی۔ کہتے ہیں میں ان کو رسید دینے کے لیے سکول گیا تو اگلے دن وہ میرے گھر آئیں اور اہلیہ کو بتایا کہ مزید پانچ سو چندہ اس مدّ میں ادا کرنا چاہتی ہوں۔ اورکہتی ہیں کُل ادائیگی ایک ہزار شلنگ ہو جائے۔ کہتی ہیں کہ اس سوچ کے ساتھ یہ کر رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مزید برکت عطا فرمائے۔ جب گھر آیا تو اہلیہ نے مجھے بتایا اور پھر مَیں نے رسید کاٹی۔ کہتے ہیں ان کو رسید دینے گیا تو انہوں نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا ہے کالج میں پڑھتا ہےاس کے اخراجات کے لیے میں نے درخواست دی ہوئی تھی اور وہ منظور نہیں ہو رہی تھی لیکن آج ہی مجھے کالج سے فون آیا کہ اس کے اخراجات جو تیس ہزار شلنگ تھے حکومت کی طرف سے سکول کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے ہیں۔ کہتی ہیں اس بات پر مجھے بڑا سکون ملا ہے۔

انڈونیشیا

کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ عبدالرحیم صاحب ایک جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو چھوٹی سی جماعت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال وقفِ جدید کے وعدے کی ادائیگی کرتا ہوں۔ انیس اور بیس میرے لیے بہت مشکل سال تھے کیونکہ اس سال میں مجھے نوکری نہیں ملی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے کہتے ہیں مَیں نے کام سے استعفیٰ دے دیا اور کاروبار کرنے کی کوشش کی۔ اس میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ جو بچت تھی وہ آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔ وقفِ جدید کا سال ختم ہو رہا تھا۔ چندے کا وعدہ میں نے کیا ہوا تھا۔ ادائیگی کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی۔ ملازمت ملنی بھی مشکل ہو رہی تھی کیونکہ میری عمر اکاون۵۱ سال ہے۔ اس عمر میں ملازمت مشکل سے ملتی ہے۔ کہتے ہیں ہر روز تہجد میں مَیں دعا کرتا تھا۔ اور یہاں مجھے بھی یہ خط لکھا کرتے تھے کہ وقفِ جدید کا چندہ میں نے ادا کرنا ہے اس کی مجھے سعادت مل جائے۔ کہتے ہیں چنانچہ وقفِ جدید کے سال کے اختتام تک اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی طرح مجھے وعدہ کے مطابق ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرما دی۔ بہرحال میں نے کسی طرح ادا کر دیا۔ کہتے ہیں ادائیگی کے چند دن بعد مجھے ایک سابق افسر جہاںمیں کام کرتا تھا اس کا فون آیا کہ مجھے انٹرویو کے لیے آنے کا کہا گیا ہے۔ تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے نوکری مل گئی۔ میں حیران تھا کیونکہ جس شخص نے مجھے بلایا تھا وہ میرا ڈائریکٹ سپروائزر نہیں تھا۔ میرے دوست بھی اس الجھن میں ہیں کہ مجھے ہی کیوں بلایا گیا کیونکہ میں نے تو تقریباً سات سال پہلے وہاں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ میری مستقل آمدنی اس عمر میں شروع ہو گئی۔

سینیگال میں

تامبا کُنڈا (Tambacounda) جگہ ہے، وہاں کے مبلغ کہتے ہیں کہ میرے دورے کے دوران ایک جگہ جب چندے کی تحریک کی گئی اور میں نے جو پچھلے خطبے میں لوگوں کے واقعات سنائے تھے ان کو وہاں سنایا گیا تو ایک احمدی عثمان صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے بیعت کی تو ان کی مالی حالت نہایت کمزور تھی اور بیعت کے بعد اپنے بیگانے سب مخالف ہو گئے۔ چار مرتبہ مخالفین نے ان کے گھر کو جلانے کی کوشش کی۔ ہر مرتبہ گھر کا ایک حصہ جل جاتا مگر جب سے کہتے ہیں جماعتی چندوں میں حصہ لینا شروع کیا ان کے دن پھر گئے ہیں۔ کہتے ہیں چندہ جات کی برکت سے اب انہوں نے اپنا پکا گھر تعمیر کر لیا ہے۔ پہلے تو کچھ تھوڑی بہت گھاس پھونس کا تھا جو جل جاتا تھا لیکن اب پکا تعمیر کر لیا ہے۔ بچے بھی شہر میں اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہر سال دیگر چندوں کی طرح وقفِ جدید میں بھی قابلِ ذکر اضافہ کر کے ادائیگی کرتے ہیں اور کہتے ہیں جو میرے مخالفین تھے وہ یا تو سب فوت ہو چکے ہیں اور اگر زندہ بھی ہیں تو انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہیں۔

تنزانیہ

کے امیر صاحب ایک کسان کا واقعہ لکھتے ہیں۔ ان کے ٹماٹر کے کھیت ہیں اور لیک وکٹوریہ سے پانی لفٹ کر کے آبپاشی کی جاتی ہے اور اس کے لیے کرائے پہ مشینیں لینی پڑتی ہیں، پمپ لینے پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں بارشیں اس سال کم ہوئیں۔ کھیتوں کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ قریبی کھیت والے جو تھے جو اپنے کھیتوں کو پانی لگاتے تھے ان پہ ہنستے تھے کہ تمہاری فصل کا یہ حال ہو رہا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں معلم نے مجھے چندوں کی طرف توجہ دلائی تو ایک ہزار شلنگ تھا میرے پاس وہ مَیں نے ادا کر دیا۔ پھر معلم نے رسید کاٹ دی اور کہتے ہیں اگلے دن عاملہ کی میٹنگ میں یہ آئے تو انہوں نے معلم صاحب کو بتایا کہ جو سودا کیا تھا مجھے اس کا اجر مل گیا ہے کیونکہ اس موسم کی پہلی بارش میرے کھیت پر برسی ہے اور پانی بھر گیا ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح مجھے نوازا۔

سیرالیون

سے مبلغ لکھتے ہیں، کہ ایلکس ٹامو (Alextamu)صاحب ٹیچر اور ریسرچر ہیں۔ سیرالیونی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے چندہ وصیت اور دیگر چندہ جات میں کچھ بقایا ہوگیا تھا کیونکہ گذشتہ سال بعض سرکاری مسائل کی وجہ سے ادارے نے تنخواہوں کی ادائیگی میں بہت تاخیر کی اور کچھ عرصہ کے لیے زندگی انتہائی مشکل ہو گئی۔ بہرحال انہوں نے کہیں سے رقم لے کر فوری بندوبست کیا اور اس تنگی کے دَور میں بھی چندہ وصیت اور دوسرے چندے ادا کر دیے۔ کہتے ہیں کہ چندوں کی ادائیگی کے بعد پہلے مجھے چاول کے ایک تحقیقی منصوبے کے لیے گنی کناکری کے وفد میں منتخب کیا گیا۔ پھر ایک بڑا فرنشڈ گھر بھی مل گیا۔ پھر یوکے کے جلسہ 2022ء سے پہلے مجھے گھر میں ٹی وی اور ایم ٹی اے لگانے کی بھی توفیق مل گئی۔ پھر سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا فضل یہ ہواکہ جاپان کی کاگو شیما (Kagoshima) یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے سکالر شپ آئیں تو کہتے ہیں مَیں نے بھی اپلائی کر دیا تو ادارے کی جانب سے مجھے فوقیت دی گئی اور وہاں مجھے سلیکٹ کر لیا گیا اور کہتے ہیں کہ گذشتہ سال سے مَیں جاپان میں بیٹھا ہوں۔ جاپان میں بھی اللہ کے فضل سے جماعت کے ساتھ رابطہ ہے اور خدا کا یہ فضل ہوا کہ ادارے نے میری فیملی کو نہ صرف گھر دیا ہے بلکہ تنخواہ کا ایک حصہ بھی وہیں سیرالیون میں فیملی کے لیے جاری رکھا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں یہ بات میرے لیے ایمان میں زیادتی کا باعث بنی ہوئی ہے کہ چندے کی برکات سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل فرمایا۔

احمدیوں بلکہ نومبائعین میں اَور بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر مال کی محبت سے بے رغبتی کی مثالیں

ہمیں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ سیرالیون کے میامبا (Moyamba) ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ خطبہ کے دوران وقفِ جدید کے حوالے سے توجہ دلائی گئی کہ ایک بار ایک صحابی کلہاڑا لے کر جنگل میں چلے گئے اور لکڑیاں کاٹ کر بیچیں اور کمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دی۔ کہتے ہیں قریب ایک گاؤں ڈوڈو (Dodo) ہے۔ وہاں سے احمدی نماز جمعہ کے لیے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک مخلص احمدی قاسم صاحب ایک دن تپتی دوپہر میں آئے اور ایک بڑی رقم پیش کی کہ یہ میری ساری کمائی ہے جو وقفِ جدید میں پیش کرتا ہوں۔ ان سے کہا گیا کہ اس میں سے اپنے ماہانہ اخراجات کے لیے کچھ رقم رکھ لیں تو بڑے جوشیلے انداز میں کہنے لگے کہ جس دن آپ نے صحابی کا واقعہ سنایا تھا میں نے اسی روز تہیہ کر لیا تھا کہ اس واقعہ پر عمل کرنا ہے اس لیے آپ ساری رقم رکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے خود ہی نوازے گا۔

پھر

تنزانیہ

کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ شیانگا ریجن کے معلم نے بتایا کہ وہاں ایک گاؤں سنباچائی (Simbachai) ہے۔ یہ نئی جگہ ہے۔ جماعت کا نیا پودا وہاں لگا ہے۔ نئی جماعت قائم ہوئی ہے۔ دسمبر تک انتالیس افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ پچھلے مہینے ہی یہ جماعت قائم ہوئی ہے۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ دسمبر میں اپنے حلقے کی جماعتوں کے دورے پر تھا۔ اس نئی جماعت سے بھی گزر ہوا۔ یہاں بیعت کرنے و الے زیادہ تر لوگ پہلے لادین تھے۔ مذہب سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اس لیے ان کی تربیت کے لیے نماز اور قرآن کی طرف توجہ کی جا رہی ہے۔ نماز ِظہر کی ادائیگی کے بعد تربیتی کلاس ہوئی۔ اس میں معلم صاحب نے نماز پڑھنے کا طریق اور دیگر فقہی مسائل بتائے۔ ایک بزرگ احمدی نے معلم صاحب کے بیگ میں رسید بُک دیکھی تو اس بارے میں سوال کیا۔ معلم صاحب نے بتایا کہ یہ چندہ وقفِ جدید کے سال کا آخری مہینہ ہے اور ہم نے اپنے وعدہ جات کے مطابق وصولی کر کے مرکز میں رپورٹ دینی ہے تاکہ خلیفةالمسیح کے پاس ہماری رپورٹ پہنچے۔ جو احمدی بھی اس چندے میں شامل ہوتا ہے ان کو چندہ کی یہ رسیدکاٹ کے دی جاتی ہے۔ اس پر ایک اَور احمدی نے پوچھا کہ ہمارا چندہ کب لینا ہے؟ معلم نے کہا کہ مَیں نے ان کو بتایا کہ میرا خیال تھا کہ آپ کے حالات تنگ ہیں اور نئے نئے ابھی احمدی ہوئے ہیں۔ تربیت کی ضرورت ہے۔ اگلے سال سے آپ کو چندے میں شامل کیا جائے گا جس پر تمام نومبائعین نے کہا کہ اس سال پھر ہمارا نام خلیفة المسیح تک نہیں جائے گا؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر وہاں موجود تمام افراد نے جو کچھ ان کے پاس تھا ادا کر دیا۔ جب جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ معلم صاحب۔ ہمارے اگلے سال کے وعدہ جات بھی ابھی لے کر جائیں جس پر انہوں نے نئے سال کے چندہ وقفِ جدید کے وعدہ جات بھی لکھوائے۔تو نومبائعین میں بھی اللہ تعالیٰ اس طرح ایمان پیدا کر رہا ہے۔ اس طرح ان کو ایمان سے بھر رہا ہے۔

گیمبیا

کے امیر صاحب لکھتے ہیں۔ نارتھ بینک کی ایک جماعت دُوتَا بالُو (Dutabulu) میں ایک احمدی دوست جالو (Jallow) صاحب ہیں۔ ان کے والد احمدی نہیں ہیں۔ وہ گاؤں کے چیف ہیں۔ بہت بوڑھے اور بیمار رہتے ہیں۔ اس لیے ان کی جگہ ان کے بیٹے گاؤں کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو احمدی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن ایک اسلامی این جی او ان کے گاؤں آئی ان کے مطابق وہ مسلمانوں کی مدد صرف پندرہ ہزار ڈلاسی کی رقم سے کرتے تھے۔ کہتے ہیں انہوں نے مجھے فون کر کے کہا کہ ہم نے آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ بہت شریف اور اچھے آدمی ہیں۔ ہم آپ کو اور آپ کے والد کو مدد کے طور پر تیس ہزار ڈلاسی دینا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ احمدی ہیں۔ اگر آپ جماعت چھوڑ دیں تو آپ کو یہ رقم مل جائے گی۔ اس پر جالو صاحب نے این جی او کو جواب دیا

مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جماعت نے ہمیں سکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے

اور میں تو ہر سال جماعت کو پندرہ ہزار ڈلاسی سے زائد چندہ ادا کرتا ہوں۔ یہ سن کے وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ اتنی بڑی رقم جماعت کو کیوں دیتے ہو جبکہ تم خود ایک غریب آدمی ہو۔ اس پر وہ احمدی کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں اور خوشنودی میں حاصل کر رہا ہوں اگر ان کا آپ کو علم ہو جائے تو آپ بھی امام مہدی علیہ السلام کی امت کا حصہ بن جائیں۔

تو یہ ایمانی حالت ہے جو اللہ تعالیٰ ان دور دراز رہنے والے لوگوں کے دلوں میں پیدا فرما رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو ماننے کے بعد ایمان میں مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔
کانگو کنشاسا

کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ جمعہ کے خطبہ کے دوران چندہ وقت جدید کے حوالے سے تحریک کی گئی۔ اسی روز ایک مخلص احمدی نورالدین صاحب جو کہ پولیس میں ملازم ہیں، انہوں نے ہمارے معلم کو فون کر کے بلایا اور کہا کہ میں کچھ عرصہ سے کچھ رقم اپنی ایمر جنسی ضرورت کے لیے اکٹھی کر رہا تھا مگر آج خطبہ جمعہ میں مربی صاحب نے چندہ وقفِ جدید کی طرف جو توجہ دلائی ہے تو اس لیے یہ رقم چندہ میں رکھ لیں۔ اور چندہ وقفِ جدید میں دو لاکھ دس ہزار فرانک کی ادائیگی کی جو ان کے لحاظ سے بہت غیرمعمولی قربانی تھی۔ تو یہ ہے محبت کرنے والے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال۔

میسیڈونیا

کے مبلغ لکھتے ہیں کہ احمدیوں کی اکثریت تو یہاں تقریباً بہت غریبوں پر ہی مشتمل ہے لیکن پھر بھی وہ مالی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ایک احمدی دوست فیصل صاحب ہیں جنہوں نے 1995ء میں جرمنی میں بیعت کی تھی۔ مختلف ممالک میں رہتے رہے۔ بعد میں میسیڈونیا واپس آ گئے۔ شروع میں ان کا جماعت سے رابطہ بھی کم تھا پھر ان سے رابطہ ہوا۔ گذشتہ عیدالاضحی کے موقع پر ان کا مشن میں دو تین دن قیام رہا۔ اس دوران انہیں جماعت کے مالی نظام کے بارے میں بتایا گیا۔ لازمی چندہ جات کے علاوہ دیگر مالی قربانیوں، تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے بارے میں بتایا گیا۔ کہتے ہیں کہ دس بارہ دن کے بعد میں ان سے ملنے شہر گیا تو واپسی پر انہوں نے مجھے دس ہزار دینار کی رقم چندہ میں دی جو اس لحاظ سے معمولی رقم ہے کہ تقریباً تریسٹھ یورو بنتی ہے۔ یہ دوست بیروز گار ہیں۔ کافی عرصہ سے کام نہیں کر رہے۔ مَیں نے کہا آپ اپنے حالات جانتے ہیں آپ اپنے حالات کے مطابق کچھ اپنے لیے رکھ لیں اور فیملی پر خرچ کریں کیونکہ میسیڈونیا کے حالات کے لحاظ سے یہ کافی بڑی رقم تھی۔ انہوں نے اصرار کے ساتھ اور خوشی کے ساتھ یہ رقم اپنی اور اپنی فیملی کی طرف سے وقفِ جدید کے چندہ میں ادا کر دی کہ اللہ تعالیٰ ان کا انتظام کر دے گا۔

توبہرحال یہ لوگ ہیں جو قربانیاں کرنے والے ہیں۔ مال کی ان کو ضرورت ہے لیکن جو اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے والے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کرسکتے ہو۔پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس راہ میں مال خرچ کرے گا تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خودبخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس

جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ323نظارت نشر واشاعت قادیان 2019ء)

پس ہر قربانی کرنے والا احمدی اس بات کی سچائی پر گواہ ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ آپؑ نے جو کچھ فرمایا وہ حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کے معیار کو بھی ان کو بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے اور جو زیادہ بہتر حالات میں لوگ ہیں، جن کے معیار قربانی کے اعلیٰ نہیں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی اس بات کو سمجھنے والے ہوں کہ جہاں آپؑ نے فرمایا کہ ’’مَیں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں۔ ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ324نظارت نشر واشاعت قادیان 2019ء)وہ لوگ جو کنجوسی دکھاتے ہیں ان کو اس بارے میں غور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے امراء کو بھی اس بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب اس کے بعد میں

گذشتہ سال کے چندہ وقفِ جدید کے اعداد و شمار

بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ جدید کا پینسٹھواں سال 31؍دسمبر کو ختم ہوا اور نیا سال یکم جنوری سے شروع ہو گیا ہے اور جماعت نے 12.2ملین سے زیادہ یعنی ایک کروڑ بائیس لاکھ اور پندرہ ہزار (1,22,15,000)پاؤنڈز کی قربانی پیش کی۔ باوجود دنیا کے معاشی حالات کے بہتر نہ ہونے کے گذشتہ سال سے یہ قربانی نولاکھ اٹھائیس ہزار (9,28,000) پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمدللہ۔

برطانیہ اس سال بھی دنیا کی جماعتوں میں وصولی کے لحاظ سے پہلے نمبر پہ ہے

اور برطانیہ کے بعد پھر نمبر دو پہ کینیڈا۔ پھر جرمنی نمبر تین پہ چلا گیا ہے۔ پھر امریکہ ہے نمبر چار پہ۔ نمبر پانچ پہ بھارت ہے۔ پھر چھ پہ آسٹریلیا۔ پھر ساتویں نمبر پہ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر آٹھویں پہ انڈونیشیا ہے۔ نویں پہ پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ دسویں پہ بیلجیم ہے۔

فی کس ادائیگی کے لحاظ سے

امریکہ نمبر ایک ہے۔ سوئٹزرلینڈ نمبر دو ہے۔ برطانیہ نمبر تین ہے۔ آسٹریلیا نمبر چار ہے اور کینیڈا نمبر پانچ ہے۔

افریقہ کی جماعتوں میں نمایاں وصولی کرنے والے

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ گھانا ہے۔ نمبر دو پہ ماریشس ہے۔ نمبر تین پہ نائیجیریا ہے۔ نمبر چار برکینا فاسو۔ پانچ تنزانیہ۔ چھ لائبیریا۔ سات گیمبیا۔ آٹھ یوگنڈا۔ نو سیرالیون۔ دس بینن۔

شاملین کی تعداد

کے لحاظ سے اس سال مخلصین میں 61؍ہزار کا اضافہ ہوا ہے مجموعی تعداد 15 لاکھ 6 ہزار ہو گئی اور شاملین میں اضافہ کے لحاظ سے جن ممالک نے کام کیا ان میں یوگنڈا نمبر ایک پہ ہے۔ گنی بساؤ۔ پھر کیمرون۔ پھر کانگو برازاویل۔ پھر نائیجر۔ کانگو کنشاسا اور پھر آخر میں بنگلہ دیش، یہ قابل ذکر ہیں۔

وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی جو دس بڑی جماعتیں

ہیں ان میں فارنہم (Farnham) نمبر ایک۔ووسٹر پارک (Worcester Park) نمبر دو۔ والسال(Walsall) تین۔ اسلام آباد چار۔ جلنگھم(Gillingham) پانچ۔ ساؤتھ چیم (South Cheam)چھ۔ آلڈر شاٹ ساؤتھ (Aldershot south) سات۔ بریڈ فورڈ آٹھ۔ چیم نو۔ یول (Ewell) دس۔

اور

ریجنز

جو ہیں ان میں بیت الفتوح ریجن نمبر ایک پہ ہے۔ اسلام آباد نمبر دو پہ۔ مسجد فضل تین پہ۔ مڈلینڈز (Midlands) چار اور بیت الاحسان پانچ۔

دفتر اطفال کے لحاظ سے دس جماعتیں

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ آلڈر شاٹ ساؤتھ(Aldershot South)۔ پھر اسلام آباد۔ پھر والسال (Walsall)۔ پھر فارنہم (Farnham)۔ پھر روہیمپٹن ویل( Roehampton Vale)۔ آلڈرشاٹ نارتھ۔ پھر مچم پارک( Mitcham Park)۔ بورڈن۔ ساؤتھ چیم۔ بیت الفتوح (Baitul Futuh)۔

چھوٹی جماعتوں میں وصولی کے لحاظ سے پانچ جماعتیں

ہیں سپن ویلی۔ کیتھلی۔ نارتھ ویلز(North Wales)۔ نارتھ ہیمپٹن اور سوانزی

کینیڈا کی امارتیں

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ وان۔ پھر وینکوور(Vancouver)۔ پھر کیلگری (Calgary)۔ پھر پیس ولیج(Peace Village)۔ پھر ٹورانٹو۔ بریمپٹن ویسٹ(Brampton-West)۔

اور کینیڈا کی دس بڑی جماعتیں

جو ہیں۔ پہلے جو تھیں امارتیں تھیں۔ یہ جماعتیں ہیں۔ ملٹن ویسٹ(Milton-West) نمبر ایک۔حدیقہ احمد نمبر دو۔ ملٹن ایسٹ(Milton East)تین۔ ونی پیگ(Winnipeg) چار۔ سسکا ٹون بیت الرحمت پانچ۔ ڈرہم ویسٹ(Durham West) چھ۔ آٹوا ویسٹ(Ottawa-West) سات۔ اِنس فِل(Innisfil) آٹھ۔ رجائنا(Regina) نو اور ایبٹس فورڈ(Abbotsford)دس۔

اطفال میں

وان (Vaughan)نمبر ایک پہ۔ پھر پیس ولیج (Peace Village)۔ پھر ٹورانٹو ویسٹ (Toronto-West)۔ پھر کیلگری(Calgary)۔ بریمپٹن ایسٹ (Brampton-East)۔

دفتر اطفال کی پانچ نمایاں جماعتیں

جو ہیں، پہلے امارتیں تھیں اب جماعتیں ہیں۔ ایرڈری (Airdrie)۔ سینٹ کیتھرینز (Saint Catharines)۔ حدیقہ احمد۔ اِنس فِل (Innisfil)۔ بریڈفورڈ ایسٹ(Bradford East)۔

جرمنی کی پانچ امارات

جو ہیں، نمبر ایک پہ ہیمبرگ (Hamburg)۔ نمبردو فرینکفرٹ (Frankfurt)۔ نمبر تین ویزبادن (Wiesbaden)۔ پھر گروس گیراؤ (Gros Gerau) اورریڈ سٹڈ(Riedstadt)۔

اور دس جماعتیں

جو ہیں ان میں رویڈرمارک(Rödermark)۔ روڈگاؤ(Rodgau)۔ پھر مائنز(Mainz)۔ حلقہ بیت الرشید۔ نوئس (Neuss)۔ فلورس ہائم(Flörsheim)۔ نیدا(Nidda)۔ مہدی آباد۔ فریڈبرگ (Friedberg)۔ اور کوبلنز(Koblenz)۔

اطفال میں پانچ ریجنز

ہیسن مٹے(Hessen-Mitte)۔ ہیسن ساؤتھ ویسٹ(Hessen South West)۔ ہیمبرگ (Hamburg)۔ تاؤنس(Taunus) اور ویزبادن (Wiesbaden)۔

امریکہ کی دس جماعتیں

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ میری لینڈ(Maryland)۔ پھر نارتھ ورجینیا۔ پھر لاس اینجلس (Los Angeles)۔ پھر ڈیٹرائٹ(Detroit)۔ سیلیکون ویلی(Silicon Valley)۔ پھر بوسٹن (Boston)۔ پھر آسٹن(Aston)۔ پھر اوش کوش۔ پھر روچسٹر۔ پھر فینکس(Phoenix)۔

اطفال کی دس جماعتیں

جو ہیں ان میں ساؤتھ ورجینیا۔ نارتھ ورجینیا۔ میری لینڈ (Maryland)۔ سیئٹل (Seattle)۔ اورلینڈو (Orlando)۔ آسٹن(Aston)۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ اوش کوش۔ پورٹ لینڈ۔ زائن(Zion)۔

پاکستان کی پہلی تین جماعتیں

پاکستان میں باوجود نامساعد معاشی حالات کے مقامی کرنسی میں انہوں نے اللہ کے فضل سے کافی اضافہ کیا ہے۔ پاؤنڈ کے مقابلے میں بھی ان کی کرنسی کی ویلیو بالکل ختم ہو گئی ہے اس کے باوجود ان کی اچھی آمد ہے۔

جماعتوں میں اوّل لاہور ہے۔ پھر ربوہ ہے۔ پھر سوم کراچی ہے اور

اضلاع میں

اسلام آباد نمبر ایک پہ ہے۔ پھر سیالکوٹ ہے۔ پھر فیصل آباد۔ گجرات۔گوجرانوالہ۔ سرگودھا۔ عمرکوٹ اور ملتان۔ میر پورخاص اور ڈیرہ غازی خان۔

اور

وصولی کے لحاظ سے دس جماعتیں

اسلام آباد شہر۔ ڈیفنس لاہور۔ ٹاؤن شپ لاہور۔ دارالذکر لاہور۔ ماڈل ٹاؤن لاہور۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔ راولپنڈی شہر۔ عزیز آباد کراچی۔ سمن آباد لاہور۔ مغل پورہ لاہور ہیں۔

دفتر اطفال میں جو تین بڑی جماعتیں ہیں

ان میں اوّل لاہور ہے۔ دوئم ربوہ۔ سوئم کراچی۔

اضلاع کی پوزیشن دفترا طفال میں

اسلام آباد نمبر ایک پہ۔ پھر سیالکوٹ۔ پھر فیصل آباد ۔ سرگودھا۔ عمر کوٹ۔ میر پور خاص۔ نارووال۔ ننکانہ صاحب اور جہلم۔ پھر کوئٹہ۔

غیر معمولی مساعی کرنے والی چھوٹی جماعتیں

بھی ہیں یہ۔ چھوٹی تو نہیں ان میں بڑے شہر بھی شامل ہیں۔ گوجرانوالہ شہر ہے۔ گلشن جامی کراچی۔ صدر کراچی۔ راولپنڈی کینٹ۔ بیت الفضل فیصل آباد۔ کریم نگر فیصل آباد۔ سیالکوٹ شہر۔ پشاور۔ سرگودھا۔ اوکاڑہ۔

بھارت کے پہلے دس صوبہ جات

جو ہیں اس میں کیرالہ۔ تامل ناڈو۔ کرناٹکا۔ جموں کشمیر۔ تلنگانہ۔ اڑیشہ۔ پنجاب۔ ویسٹ بنگال۔ مہاراشٹرا۔دہلی۔

پہلی دس جماعتیں

جو ہیں ان میں کوئمباٹور۔ پھر حیدر آباد۔ پھر قادیان۔ پھر کیرولائی۔ پھر پاٹھا پریام۔ پھر بنگلور۔ پھرمَیلے پلایام (Melepalayam)۔ پھر کلکتہ۔ پھر کالی کٹ۔ پھر کیرنگ۔

آسٹریلیا کی دس جماعتیں

جو ہیں ان میں پہلے نمبر پر کاسل ہل (Castle Hill)۔ پھر ملبرن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)۔ پھر لوگن ایسٹ(Logan East)۔ پھر میلبورن بیروک(Melbourne Berwick)۔ پینرتھ (Penrith)۔ پرتھ(Perth)۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ ملبرن کلائیڈ۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West)۔

بالغان میں ان کی جماعتیں جو

ہیں۔ وہ کاسل ہل (Castle Hill)۔ میلبورن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)۔ میلبورن بیروک(Melbourne Berwick)۔ لوگن ایسٹ(Logan East)۔ پینرتھ (Penrith)۔ پرتھ(Perth)۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West)۔ میلبورن کلائیڈ۔

اطفال میں

نمبر ایک پہ میلبورن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin)۔ پھر لوگن ایسٹ(Logan East)۔ پھر پینرِتھ(Penrith)۔ پھر پرتھ(Perth)۔ پھر کاسل ہل(Castle Hill)۔ پھر ملبرن کلائڈ (Clyde)۔ پھر ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ پھر ملبرن بیروک(Melbourne Berwick)۔ پھرماؤنٹ ڈروئٹ(Mount Druitt)۔ پھر ملبرن ویسٹ (Melbourne West)۔

اللہ تعالیٰ سب شاملین کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button