سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

عبدالجبار غزنوی

عبداللہ غزنویؒ کے بعد ان کابڑابیٹا عبداللہ بن عبداللہ ان کا خلیفہ مقرر ہوا۔ وہ تھوڑا عرصہ زندہ رہا۔ اس کی وفات کے بعد غزنوی صاحب کادوسرابیٹا عبدالجبار غزنوی جانشین مقررہوا۔یہ ان بدنصیب مخالفین کی صف میں شامل ہواجنہوں نے خداکے مرسل اور مامور کی مخالفت کی اور کفرکے فتاویٰ پرمہرلگائی۔ حضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کتاب البریہ میں ان بدنصیب مخالفین کی غلیظ گالیوں اور بدتہذیبی پرمشتمل کچھ مثالیں بطورنمونہ درج فرمائی ہیں۔جووہ آپؑ کے بارےمیں استعمال کیاکرتے تھے۔ صفحہ ۱۴۸پر غزنوی گروہ کے عنوان سے حضرت عبداللہ غزنوی صاحب کے تین بیٹوں کا ذکر موجود ہے۔ جبارغزنوی نے رمضان کے مہینہ ۱۳۳۱ھ ستمبر ۱۹۱۳ء میں وفات پائی۔ (حضرت مولانا داؤد غزنویؒ مرتبہ سید ابوبکر غزنوی صفحہ۲۳۴-۲۳۵)

عبداللہ غزنوی صاحب کے متعلق

نواب صدیق حسن خانؒ نے اپنی تصنیف ’’تقصار من تذکار جیود والاحرار‘‘ میں لکھا:’’چرخ اگر ہزار چرخ زند مشکل کہ چنیں ذات جامع کمالات برروئے ظہور آرد ہم محدث بود و ہم محدث۔‘‘(حضرت مولانا داؤد غزنویؒ مرتبہ سید ابوبکر غزنوی صفحہ۲۱۸) یعنی آسمان اگر ہزار بار بھی گردش کرے، تو مشکل ہے کہ اب ایسی جامع کمالات ہستی معرضِ وجود میں آئے۔ وہ محدث بھی تھے اور اللہ سے ہمکلامی کا شرف بھی انہیں حاصل تھا۔

مولانا عبد الحئیؒ نے ’’نزھۃ الخواطر‘‘ میں حضرت عبد اللہ غزنویؒ کے حالات قلمبند کرتے ہوئے افتتاحیہ جملہ یہ لکھا ہے:’’الشیخ الامام العالم المحدث عبد اللّٰہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی الشیخ محمد اعظم الزاھد المجاھد الساعی فی مرضاۃ اللّٰہ المؤثر لرضوانہ علی نفسہ و اھلہ ومالہ و اوطانہ صاحب المقامات الشھیرۃ و المعارف العظیمۃ الکبیرۃ‘‘(الاعلام المسمّی بنزھۃ الخواطر …المجلد الثالث صفحہ1030مکتبہ دار ابن حزم بیروت 1999ء)حضرت عبد اللہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی شیخ تھے، امام تھے، عالم تھے، زاہد تھے، مجاہد تھے۔ رضائے الٰہی کے حصول میں کوشاں تھے۔ اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان، اپنا گھربار، اپنا مال، اپنا وطن سب کچھ لٹا دینے والے تھے۔ علماءسوء کے خلاف ان کے معرکے مشہور ہیں۔

شیخ شمس الحق دیانویؒ نے ’’غایۃ المقصود‘‘ کے مقدمے میں حضرت عبداللہ غزنویؒ کی مدح و توصیف میں لکھا:’’انہ کان فی جمیع احوالہ مستغرقًا فی ذکر اللّٰہ عزوجل حتی ان لحمہ و عظامہ و اعصابہ و اشعارہ و جمیع بدنہ کان متوجھًا الی اللّٰہ تعالٰی فانیًا فی ذکرہ عزوجل۔‘‘(الاعلام المسمّی بنزھۃ الخواطر ……المجلد الثالث صفحہ1031مکتبہ دار ابن حزم بیروت 1999ء)وہ ہروقت اور ہر حالت میں خدائے بزرگ و برتر کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ حتی کہ ان کا گوشت، ان کی ہڈیاں، ان کے پٹھے اور ان کا ہر ہر بُنِ مُو اللہ کی طرف متوجہ تھا۔ اللہ عزوجل کے ذکر میں فنا ہو گئے تھے۔

سیدنذیرحسین دہلوی صاحب نے حضرت غزنوی صاحب کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جہاں ان کے فضائل کااقرارکیاوہاں یہ بھی کہا کہ اس نے ہم سے حدیث پڑھی اوروہ مجھے نمازپڑھناسکھاگیا۔ جس کی وجہ ایک معروف واقعہ ہے کہ ایک دفعہ دلی میں نماز کے دوران مسجد میں اچانک آپ پر چھت آن گری، مگر اس وقت بھی آپ کی نماز میں خلل واقعہ نہ ہوا۔ بعدازاں جب آپ سے اس واقعہ کے بارےمیں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا کوئی علم نہیں ہے۔

حضرت امام الزمان مہدی معہودومسیح موعودحضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی متعدد تحریرات میں حضرت عبداللہ غزنوی صاحبؒ کا ذکرخیربہت محبت سے فرمایاہے۔ایک جگہ آپؑ بیان فرماتے ہیں :’’ایک بزرگ غایت درجہ کے صالح جومردان خدا میں سے تھے اور مکالمہ الٰہیّہ کے شرف سے بھی مشرّف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سُنّت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے اور اُن صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدائے تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچاہواہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الٰہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے جن کانام نامی عبد اللہ غزنوی تھا۔

ایک دفعہ میں نے اُس بزرگ با صفا کو خواب میں اُن کی وفات کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت پر بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلّح ہونے کی حالت میں کھڑے ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کر کے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے اس کی تعبیر فرمائیے۔ مَیں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان تک پہنچی ہوئی ہے جب میں اس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اس سے قتل ہوجاتے ہیں اور جب بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اس سے مارے جاتے ہیں تب حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میری خواب کو سُن کر بہت خوش ہوئے اوربشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات وامارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتاہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار وبرکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کر ہزارہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدائے تعالیٰ الزام و اسکات خصم کرے گا اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کر دے گا۔پھر بعد اس کے انہوں نے فرمایا کہ جب مَیں دنیا میں تھا تو میں اُمیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی لیکن سب کے سب مسلّح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہے پھر اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ143-146حاشیہ)’’اب یہ بھی یاد رہے کہ عادت اللہ ہر یک کا مل مُلہم کے ساتھ یہی رہی ہے کہ عجائباتِ مخفیہ فرقان اس پر ظاہر ہو تے رہے ہیں بلکہ بسا اوقات ایک ملہم کے دل پر قرآن شریف کی آیت الہام کے طورپر القا ہوتی ہے اور اصل معنی سے پھیر کر کوئی اور مقصود اس سے ہو تا ہے۔جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ الہام ہوا قلنا یا نار کونی بردًا وَّ سلامًا۔مگر میں اس کے معنے نہ سمجھا پھر الہا م ہوا قلنا یا صبر کونی بردا و سلاما تب میں سمجھ گیا کہ نار سے مراد اس جگہ صبر ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے الہام ہوا رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق اور اس سے مراد اصلی معنی نہیں تھے بلکہ یہ مراد تھی کہ مولوی صاحب کو ہستان ریاست کابل سے پنجاب کے ملک میں بزیر سایہ سلطنت برطانیہ آجائیں گے۔اسی طرح انہوں نے اپنے الہامات میں کئی آیات فرقانی لکھی ہیں اور اُن کے اصلی معنے چھوڑ کر کوئی اور معنے مراد لئے ہیں۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 318- 321،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 261- 262) ’’از انجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں۔چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ ۱۷؍جون ۱۸۹۱ءسے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی۔ فقط ایک صاحب غلام نبی نارو والے نام اپنے اشتہارمرقومہ دوم ذیقعدہ میں لکھتے ہیں کہ یہ افتراء ہے اگر افتراء نہیں تو اُس راوی کا نام لینا چاہیے جس کے روبرو مولوی صاحب مرحوم نے بیان کیا۔ سو اب ہم نے بیان کر دیا کہ وہ راوی کون ہے اور کس درجہ کا آدمی ہے۔ چاہیے کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ افتراء ہے یا سچی بات ہے۔ و من اظلم ممن افترٰی او کذّب و ابٰی۔

ایسا ہی فروری ۱۸۸۶ءمیں بمقام ہوشیارپور منشی محمدیعقوب صاحب برادر حافظ محمد یوسف نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم سے ایک دن میں نے سُنا کہ وہ آپ کی نسبت یعنی اس عاجز کی نسبت کہتے تھے کہ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے وہ مامور کئے جائیں گے۔ مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ منشی محمد یعقوب صاحب کے منہ سے یہی الفاظ نکلے تھے یا انہیں کے ہم معنے اور الفاظ تھے۔ بہرحال انہوں نے بعض آدمیوں کے روبرو جن میں سے ایک میاں عبداللہ سنوری پٹیالہ کی ریاست کے رہنے والے ہیں اس مطلب کو انہیں الفاظ یا اور لفظوں میں بیان کیا تھا۔ مجھے یا د ہے کہ اس وقت منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور کئی اَور صاحب میرے مکان پرجو شیخ مہر علی صاحب رئیس کامکان تھا موجود تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس جلسہ میں کون کون موجود تھا جب یہ ذکر کیاگیا۔مگر میاں عبد اللہ سنوری نے میرے پاس بیان کیا کہ میں اس تذکرہ کے وقت موجودتھا اورمیں نے اپنے کانوں سے سُنا۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ479.- 480)(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button