سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

[گذشتہ قسط کے لیے ملاحظہ کریںالفضل انٹرنیشنل ۲۳؍دسمبر۲۰۲۲ء]

مخالفت اوردکھوں کاسفر

قند ہار کےقاضی اورعالم آپ کو دیکھ کر نہایت خوش ہوا کرتے مگر ملاکٹہ کہ عداوت اورمخالفت کے درپے ……قندہار کے قاضی غلام نے ملا کٹہ کی شکایت ملّا سعد الدین مقری کی طرف لکھی کہ ملاکٹہ حقائق ومعارف آگاہ الموافق من عند اللہ قائد الخلق میاں محمد اعظم صاحبزادہ ……نے سیر اور سلوک باطن میں نسبت اویسی کے حاصل کرنے کے بعد محض اللہ پاک کی عنایت سے طریقہ نقش بندیہ میں قدم ٹکایا ہے اور اس طریق کے سیر وسلوک کو پورے طور پر حاصل کیا ہےاور اس طریقہ میں مجاز ہوگیا اور اس کے بعد سیّد آدم بنوری قدس اللہ سرہ کے طریق کو بھی حاصل کیا ہے اور اس طریق میں بھی مجاز ہوگئے ہیں۔ القصہ میاں محمد اعظم صاحب کا ظاہر تقویٰ کے زیوراور حضرت ﷺ کی شریعت کی موافقت کے ساتھ آراستہ ہے اس کا باطن اہل صفا کے احوالات اور مقامات کے ساتھ پیراستہ لیکن صرف اسی قدر نقصان ہے کہ یہ صاحبزادہ اپنے آپ کو ان کے مخلصوں اوردوستوں سے شمارنہیں کرتا۔ملاکٹہ اس بزرگ صاحبزادہ کو کبھی وہابی کہتاہے اورکبھی مبتدع کہہ کر پکارتاہے بلکہ معتبر لوگوں سے سنا گیا ہے کہ ملاکٹہ نے غلجائی کے اطراف و اکناف میں اس مضمون کے نامے بھی ارسال کیے ہیں کہ فلاں و فلاں (میاں محمداعظم)کےساتھ ایساایسا معاملہ کرو۔

القصہ جب دوسری بار قندہار سے مراجعت کرکے اپنے ملک میں پہنچے تو لوگوں کو توحیداوراتباع سنت کی طرف بلانا اورشرک اور بدعت اور مروج رسموں کا رد کرنا شروع کیا زمانے کے لوگ خاص و عام اور عالم اورحاکم جو سب آپ کے فرمانبردارتھے آپ کی اس کارروائی پر آپ کے مخالف ہوگئے اورایذا رسانی کے درپہ اس نواح کے عالم اس مسئلہ میں کہ مذہب کے خلاف حدیث پر عمل کرنا چاہئے بحث کرنے کے لئے جمع ہوگئے اور انہوں نے اقرار کیا کہ حق آپ کی طرف ہے اوریہ بھی آپ کی ایک کرامت تھی کہ سب نے اپنا خطاپر ہونا مان لیا اور پھر آنجناب کا حق پر ہونا قبول کرلیا حالانکہ مقابلہ کے وقت ایسا اقرار کرنا نہایت بعید ہے۔دور دور کے عالموں نے یہ ماجرا سنا تو وہ بھی گفتگو اورمباحثہ سے ڈرگئے اورلشکروں کو جمع کیا اور لڑائی کا ارادہ کیا مگر چونکہ آپ کے تابعدار اور دوست اور معتقد بھی بہت تھے مخالفوں سے کچھ نہ بن سکا ناچار وقت کے حاکموں کےپاس انہوں نے شکایت کی اورقسم قسم کے بہتان اورجھوٹ آپ پر باندھے اور بعض رئیسوں کی وساطت سے امیر کے گوش مدہوش میں یہ بات ڈلوادی کہ اس شخص کو اگرایک سال تک ایساہی چھوڑدو گے تو تمہارے ملک اوربادشاہی کو خراب کر دے گا اور سلطنت میں ایک خلل عظیم ڈالےگا دولت کے تمام امیر اور وزیر اور عہدہ دار اس شخص کے معتقداورمرید ہیں پس اس وقت بعض آپ کے دوستوں نے یہی مصلحت دی کہ امیرِ وقت کو طلب کرئیے۔پہلے ہم کابل میں جاویں اور امیر کے سامنے مخالفین کے ساتھ بحث کریں۔ آنجناب کی مرضی تو نہ تھی مگر دوستوں کی رعایت کے لیے شہر کابل میں امیر دوست محمد خان کے پاس جو اس وقت کابل کا امیر تھا چلے گئے اور علماء مخالفین بھی حاضر ہوئے ان کے سرپرست خان ملا درانی وملامشکی انڈری اور ملا نصراللہ لوہانی تھے اوران کے سوا سینکڑوں ملا جمع تھے سب نے پوشیدہ یہی اتفاق کیا کہ مباحثہ میں کبھی ہم اس شخص پر غالب نہ ہوں گے جھوٹی گواہی اس پر دینی چاہیے ورنہ اگر بحث تک نوبت پہنچے گی تو ہم سب شرمندہ اوررسوا ہوں گے……الغرض دونوں فریق امیر کی مجلس میں حاضر ہوئے مخالفین بولے اس شخص کے ساتھ ہماری کچھ گفتگو اور مناظرہ نہیں ہے کیونکہ پختہ گواہوں کے ساتھ ہم ثابت کردیتے ہیں کہ یہ شخص ایسے کلمات بولتاہے جن سے اس کا کافر اورمرتدہونا لازم آتا ہے۔جھوٹے گواہ مانگے گئے سبحان اللہ تعصب اور نفسانیت اور مرتبہ اورعزت کی محبت کیسی بری بلا ہے کہ اچھے اچھے لوگوں کو اندھا اور بہرا کردیتی ہے اور وہ ایمان اور آخرت کو اس کے مقابلہ میں نَسْیًا مَّنْسِیًّا کردیتے ہیں۔ جھوٹے گواہوں نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص حضرتؐ کا منکر ہے اور شفاعت کا منکر اور نبوت کا دعویٰ کرنے والا۔ اسی طرح اور بہت باتیں سنائیں اور اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پناہ دیوے اور امیروقت نے سمجھ لیا کہ یہ سب جھوٹ ہے مگر اس ڈر کے مارے کہ سلطنت میں ان لوگوں کے شور و شغب سے تزلزل پڑ جاوےگا بولا مصلحت یہی معلوم ہوتی ہے کہ تم اس ملک سے چلے جاؤ اور شہر کابل سے آپ کو نکال دیا سب تابعدار اور دوست آپ کی جدائی پر نالاں اورگریاں تھے لیکن آپ کو کچھ تردد اور اضطراب نہیں ہوا اورفرمایا جب یہ جلا وطنی اوراہل و احباب کی جدائی مالک کے راہ اور رب الارباب کی رضا ڈھونڈنے میں ہے تو پھر کیا پرواہ۔زبان پشتومیں آپ نے ایک عجیب قصیدہ کہا ہےان میں سے چار اشعار کا ترجمہ کچھ یوں ہے:…یعنی میری عزت اورآبرو اے مالک تجھ پر سے قربان ہے اگر تیری رضامندی ہاتھ آجاوے تو عزت اور آبرو کو میں ایک جو کے مقدارکے برابر بھی نہیں سمجھتا اور اگر میری سو جانیں ہوں تو بھی تجھ پر فداہیں میں تو تیری خوشی کا طالب ہوں یہاں تک کہ میرا سر بدن سے جدا کیا جاوے۔

جب وہ علماء کابل سے غزنی میں واپس آئے تو لوگوں نے پوچھا کیا فیصلہ کرآئے ؟بعض انصاف پسند عالموں نے صاف کہہ دیا کہ ایمان کو کابل چھوڑآئےہیں۔ لوگوں نےکہا کیوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم جھوٹی گواہی نہ دیتے تو خان ملاخان ہماری سالیانہ تنخواہیں موقوف کرتاتھا ۔ان عالموں میں سے بعض عالموں نے نزع کے وقت اس جھوٹی گواہی کا اقرار بھی کیا اور اپنے مالک سے بخشش طلب کی ان میں سے ہیں ملا عبدالخالق انڈری شلگر کے رہنےوالے اور قاضی امیر افضل ازبکی مقر کے رہنے والے۔

کابل سے ہجرت اور دہلی پنجاب میں ورود

حاصل کلام آپ امیر دوست محمد خان کےحکم سے سواد بنیر (ملک کا نام) میں پہنچےاور وہاں سے کوٹہہ میں اور وہاں سے ہزارہ میں ولایت کے عالموں کے ساتھ آپ کا مشاہدہ عظیمہ مشہور و معروف ہے ایک جہان اس سفر میں آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوا آپ کسی مباحثہ میں مغلوب نہیں ہوئے اور فتح اور مدد آپ ہی کی طرف ہوتی حدیث کی کتابوں کی سند حاصل کرنے کے لئے آپ ملک ہزارہ سے دہلی میں سید محمد نذیر حسین صاحب کی خدمت میں گئے اور حدیث کی کتابوں کی وہاں سند حاصل کرکے واپس آئے اورآ پ کے واپس آنے کے وقت دہلی کا غدر جو مشہور ہے ظہورمیں آیا۔ جب آپ پنجاب میں پہنچے تواللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کیاپھر آپ پنجاب کے ملک سے ڈیرہ اسماعیل خان میں گئے پھر اس جگہ سے بدیں امید کہ اب امیر دوست محمد خان کا خیال بدل گیا ہو گا اپنے وطن مالوف میں پہنچے۔ ایک ماہ کی اقامت کے بعد یکایک امیر دوست محمد خان کے سوار آپ کے اخراج کا پروانہ لے کر پہنچے۔آپ نے وہاں سے نکل کر بالآخر یاغستان کے پہاڑوں کے ایک درے میں آبادی کی۔ جب امیر دوست محمد خان نے شہر ہرات میں وفات پائی تو آپ نے وہاں اپنے وطن کی طرف کہ وہاں کے باشندے آپ کے عقیدت مند تھےمراجعت کی۔ امیر شیر علی خان ملک کا امیر ہوا انہیں برے عالموں نے امیر شیر علی خان کو آپ کی ایذا دینے پر ترغیب دی آپ امیروں کی ملاقات سے نہایت نفرت رکھتے تھے اس قدر امتحانوں میں کبھی آپ کسی امیر کے پاس نہ گئے۔ امیر وقت کے نام ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ میں مظلوم ہوں اور حاسدوں کے افتراء اور تہمت کے ساتھ تمہارے باپ نے مجھ کو اپنے ملک سے بدر کردیا تھا تم اس کام میں اپنے باپ کی تابعداری نہ کرو۔ امیر نے جواب میں لکھا کہ میں ایک شخص کی تمام رعایا کے خلاف رعایت نہیں کر سکتا۔ تم کو لازم ہے کہ ہماری ولایت سے باہر ہو جاؤ۔ آپ حیران ہوئے کہ اب کس طرف جاؤں اور کوئی جگہ بھاگنے کی نہ دیکھی جنگل کی کسی غار میں اکیلے جا کر چھپ گئے اور کچھ مدت پوشیدہ رہے ان دنوں میں یہ الہام ہوا فقُطِعَ دابِرُ القومِ الذینَ ظلمُوا والحمدُ للّٰہِ رب العالمینَ۔ اور یہ شعر بھی الہام ہوا ؂

ای مدعی مپیچ کہ سرپیچ میشوے

من سبزہ دمیدہ زبستان کیستم

انہیں دنوں میں اس کی سلطنت الٹ پلٹ گئی اور اس کا اقبال ادبار کے ساتھ بدل گیا اور وہ اپنی سلطنت سے جدا ہو کر ہرات چلا گیا پھر محمد افضل خان اور محمد اعظم خان کی سلطنت کی نوبت پہنچی، برے مولویوں، دین فروش جاہ و عزت کے طالبوں اور دین و آخرت کے تارکوں نے پھر وہی تہمتیں اور جھوٹ محمد افضل خان اور محمد اعظم خان کے کانوں تک پہنچائیں اور طرح طرح کے وسواس اور وہم ان کے دلوںمیں ڈال دئیے اور آپ تو کسی حاکم کے پاس جاتے ہی نہ تھے۔ وقت کے امیر محمدافضل خان نے مقر کے حاکم کے نام پروانہ لکھا کہ فلاں شخص کو بےخبر پکڑو! خبردار ہاتھ سے نہ جاوے۔ سردار محمد عمر نے اسی وقت ایک سلحدار سواروں کا رسالہ رات رات بھیج دیا جنہوں نے آدھی رات کے قریب مکان کا آکر احاطہ کر لیا۔ انہوں نے آپ کو پکڑ لیا اور آپ کو اور آپ کے تمام اسباب اور کتابوں کو ملک کے صوبہ سردار محمد عمر خان پسر امیر دوست محمد خان کے پاس لا کر حاضر کیا اور آپ کے فرزندوں میں سے مولوی محمد صاحب مرحوم اور مولوی عبداللہ صاحب مرحوم اور مولوی عبد الجبار صاحب اس وقت آپ کے ہمراہ تھے سب لوگوں کو یہی یقین تھا کہ وہاں پہنچتے ہی سخت سزا دئیے جاویں گے جب آپ وہاں پہنچے تو صوبہ دار صرف آپ کا مبارک چہرہ دیکھ کر نرم ہو گیا ادب کے ساتھ بولا کہ آپ کیوں اس اپنے راستے کو نہیں چھوڑتے جو کچھ وقت کے مولوی کرتے ہیں آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ سردار محمد عمر کے جرنیل نے کہا کہ اس شخص کو میرے ہاتھ میں دو میں اس کو توپ سے اڑا دوں، آپ نے جواب میں فرمایا، مجھ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کتاب و سنت کو جاری کروں بارہا مجھ کو الہام ہوا ہے۔ یا عبدی ھذا کتابی وھذا عبادی فاقرء کتابی علٰی عبادی۔ یعنی اے میرے بندے یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے بندے ہیں پس پڑھ میری کتاب میرے بندوں پر اور یہ بھی الہام ہوتا ہے۔ ولئن اتبعت اھواءھم بعد الذی جاءک من العلم ما لک من اللّٰہ من ولی ولا نصیرٍ۔ میں محکم قصد اور مصمم ارادہ رکھتا ہوں کہ جب تک جان بدن میں ہےاور سر تن پر۔ کتاب و سنت کی خدمت میں نہایت سرگرمی سے کوشش کروں یہ مصیبتیں کیا ہیں جو مجھ پر آتی ہیں۔ میں تو اپنے مالک سے یہی چاہتا ہوں کہ اس راہ میں پارہ پارہ کیا جاؤں اور میری انتنیاں اور رودے جنگل کے درختوں اور کانٹوں پر ڈالے جاویں اور پھر ان کو کوے اپنی چونچیں ماریں اور دل کے جوش کے ساتھ اور بھی ایسی باتیں کیں کہ اس مجلس کے لوگ کیا صوبہ دار اور کیا دوسرے سب رورہے تھے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button