امریکہ (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقاتدورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ء

جماعت احمدیہ امریکہ کے مبلغین کی حضورِ انور کے ساتھ ملاقات

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

٭…تبلیغ اور تربیت میں تو بہر حال آپ کو پوچھنا چاہیے۔ اسی کام کے لیے مربیان مقرر کیے گئے ہیں۔ آپ نے تربیت اور تبلیغ کو ضرور دیکھنا ہے

٭…اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ تہجد کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ نوافل کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں، مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر پڑھنے، کتب پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔

مورخہ15؍اکتوبر2022ء بروز ہفتہ جماعت احمدیہ امریکہ کے مبلغین کی، مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ میں حضورِ انور کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ پروگرام کے مطابق حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ ہال میں تشریف لے آئے جہاں جماعت امریکہ کے مبلغین کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغین کی تعداد کے حوالہ سے استفسارفرمایا جس پر مبلغ انچارج صاحب نے عرض کیاکہ فیلڈ میں 40 مربیان ہیں۔ دومربیان دفتر میں ہیں اور کچھ اُن دیگر ممالک میں ہیں جو جماعت امریکہ کے سپرد ہیں۔

اس کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کے ساتھ میٹنگ کا آغاز فرمایا۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ امریکہ میں مبلغین کی تعداد تو دس سال پہلے کی نسبت دو گنا ہو چکی ہے۔

حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ آ ج سے دس سال پہلے آپ کی بیعتیں کتنی ہوتی تھیں؟

اس پر مبلغ انچارج نے عرض کیا کہ دس سال پہلے ہماری رفتار کافی تیز تھی۔ ہر سال تقریباً 200 کے قریب ہوجاتی تھیں۔ لیکن اب کمی ہوگئی ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دس سال پہلے 200 بیعتیں ہورہی تھیں اور مربیان 20 تھے۔ اب 40 مربیان فیلڈ میں ہیں اور گزشتہ سال صرف 65 بیعتیں ہوئی ہیں۔اس پر مبلغ انچارج نے عرض کیاکہ Covid کی وجہ کام slow ہوا ہے۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اب تو کووِڈ کو ختم ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اب تو کوئی excuse نہیں ہونا چاہیے۔ اور ویسے بھی کووِڈ تو تین سال سے چل رہا ہے۔ آپ کو مختلف طریقے explore کرلینے چاہیے تھے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دس سال پہلے جماعت کی کل تعداد کتنی تھی اور اب کتنی ہے؟ مبلغ انچارج نے عرض کیاکہ اس وقت امریکہ میں احمدیوں کی تعداد 22 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر اب 22 ہزار ہے تو دس سال پہلے پانچ ہزار ہوگی۔ جب میں 2012ء میں آیا ہوں، اس وقت جلسہ کی حاضری پانچ،چھ ہزار تھی۔ باہر سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جماعتوں میں لوگ آگئے ہیں، مربیان کا کام ہے ان لوگوں کو بھی ساتھ Mobilize کریں۔ ان کو بھی تبلیغ کی طرف لے کر آئیں اور خود بھی اپنے پلان بنائیں۔ اب تو کووِڈ کا بہانہ ختم ہو گیا ہے۔ اب کووِڈ ہو بھی جائے تو کہتے ہیں کہ تین دن کے بعد آجاؤ، کچھ نہیں ہوتا ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اب تو مزید excuse نہیں ہونا چاہیے۔ پچھلے تین سال سے کووِڈ چل رہا تھا۔ اگر ہر سال 5، 5 مبلغین آتے ہیں، تو تین سال قبل بھی آپ کے پاس پچیس مبلغین تھے۔ جب تعداد پچیس تھی تو اس وقت بھی اتنی بیعتیں نہیں ہو رہی تھیں جتنی آج سے بیس سال پہلے ہوتی تھیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج سے فرمایا:

اپنے مربیان کو تھوڑا کھینچیں۔ ان سے پوچھیں ان کا تبلیغ کا کیا پلان ہے، تربیت کا کیا پلان ہے؟ ان کے تبلیغ کے اور تربیت کے ٹارگٹ کیا ہیں۔ کیا issues ہیں جو ان کو جماعتوں کی طرف سے face کرنے پڑتے ہیں ؟ ان کو کیسے address کرنا ہے ؟ اور ان کو صحیح tackle کرنے کے کیا طریقے کار ہیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہر ماہ میٹنگ کیاکریں۔ آن لائن میٹنگ کرلیاکریں۔ سارے مبلغین سے پوچھا کریں کہ ان کا کیا ٹارگٹ ہے اور کتنا achieve کیاہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شمشاد ناصرصاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ نے اپنے لیے بیعتوں کا کیا ٹارگٹ رکھاہے؟

اس پر مبلغ نے عرض کیاکہ ٹارگٹ توابھی نہیں رکھا۔ اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ بہتر سال کے ہو گئے ہیں، اب نہیں کرنا تو کب کرنا ہے۔

اس کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مربی سلسلہ فراست احمد صاحب نے عرض کیاکہ ان کے سپرد دو جماعتیں ہیں۔ ایک جماعت کی تجنید 235 اور دوسری کی 212 ہے۔

بعدازاں ظہیرباجوہ صاحب نے عرض کیاکہ ان کے سپرد ڈیلس اور فورٹ ورتھ کی جماعت تھی لیکن اب وہ ہیوسٹن جارہے ہیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیاکہ ڈیلس میں جماعت کی تجنید پانچ سو تھی اور فورٹ ورتھ میں تقریباً تین سو تجنید تھی۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیاکہ ڈیلس میں تو تمام افراد سے رابطہ تھا تاہم فورٹ ورتھ میں پچاس فیصد لوگوں تک رابطہ تھا۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کتنا رابطہ تھا؟ صرف السلام علیکم، و علیکم السلام کی حد تک یا ان کو کچھ نمازوں وغیرہ کے لیے بھی کہتے تھے، ان کو تربیت کے لیے بھی کہتے تھے، قرآن شریف پڑھنے کے لیے کہتے تھے، خطبات سننے کے لیے کہتے تھے۔ اس کا کیا result تھا۔ آپ نے ان کو کوئی تبلیغ پلان دیاتھا ؟

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا:

جہاں جہاں مربیان ہیں، ان کی داعیان الی للہ کی کوئی ٹیم بنی ہوئی ہے ؟ ہاتھ کھڑے کریں۔ بتائیں کہ کہاں کہاں داعی الی اللہ کی باقاعدہ ٹیم بنی ہوئی ہے اور کام کررہی ہے۔

اس پر بعض مبلغین نے ہاتھ کھڑے کیے۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ تقریباً آدھی جگہوں پر ٹیمیں ہیں۔ باقی جگہوں میں بھی داعی الی اللہ بنانے چاہئیں۔ آپ خود کتنا کام کر سکتے ہیں، لوگوں کو motivate کرنا ہو گا کہ وہ بھی اس کام میں آگے آئیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج سے فرمایا کہ آپ کو ایک ہزار بیعتوں کا ٹارگٹ دیاہے۔کیا آپ نے مربیان میں تقسیم کردیاہے۔ مربیان کو بتادیاہے کہ آپ کی جماعت کا یہ ٹارگٹ ہے؟

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مبلغ انچارج صاحب نے عرض کیاکہ گزشتہ سال کے دوران ان کی 65 بیعتیں تھیں۔ اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ میرا تو خیال تھا کہ 165 بیعتیں تھیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو بیعتیں ہوتی ہیں وہ کس ذریعہ سے ہوتی ہیں؟ داعیان کے ذریعہ سے ہوتی ہیں یا ویسے کسی کے personal contact سے ہوتی ہیں۔ شادی کروانے کے لیے ہوتی ہیں یا مربیان کے ذریعہ سے ہوتی ہیں؟

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ جس طرح بھی ہوتی ہیں ان کوآخر کار سنبھالنا مربیان نے ہی ہے۔ اگر کسی دُور کے علاقہ سے ہیں اور مربی ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا تو مربیان کے پاس ایک ٹیم ایسی ہونی چاہیے جو نومبائعین سے رابطہ کریں۔ پھر سیکرٹری تربیت برائے نو مبائعین کو بھی اور صدر جماعت کو بھی تھوڑا push کریں اور پھر نومبائعین سے رابطہ رکھیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مربیان کا جو یہ خیال ہے کہ یہ انتظامی معاملہ ہے، اس لیے صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت برائے نومبائعین خودہی کام کرے گا اور ہم نے کچھ نہیں کرنا، یہ غلط ہے۔ ا ٓپ نے ہی تربیت کے لیے بھی اور تبلیغ کے لیے بھی نگرانی کرنی ہے۔ آپ نے ہی ان کو guide کرنا ہے، آپ نے ہی ان راہنمائی کرنی ہے۔ جہاں تبلیغ اور تربیت کا معاملہ ہے اس میں تو بہر حال آپ کو تھوڑی سی دخل اندازی کرنی ہے۔ مال کے معاملہ میں ٹھیک ہے دخل اندازی نہیں کرنی، امور عامہ کے معاملہ میں دخل اندازی نہیں کرنی۔ یا دوسرے بعض شعبے ہیں وہاں تک تو ٹھیک ہے۔ ہاں اگر کوئی مشورہ مانگے تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔ لیکن تبلیغ اور تربیت میں تو بہر حال آپ کو پوچھنا چاہیے۔ اسی کام کے لیے مربیان مقرر کیے گئے ہیں۔ آپ نے تربیت اور تبلیغ کو ضرور دیکھنا ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق اپنا پلان بنائیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اگر آپ خود active ہو جائیں گے تو صدر جماعت کو خود پتا لگ جائے گا کہ مربی کواپنے کام کا پتا ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغین کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:

جب آپ اپنے سینٹر میں ہیں تو پانچ وقت نمازوں کے لیے اپنا سینٹر کھولیں۔ اگر مسجد ہے تو مسجد کھولیں۔ لوگوں کو پتا ہو کہ مربی صاحب available ہیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

دوسری چیزیہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ تہجد کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ نوافل کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں، مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر پڑھنے، کتب پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر سارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر ہی غور سے پڑھ لیں تو اس سے ہی علم میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے آپ کی grasp ہو جائے گی اورچیزوں کی اچھی طرح سمجھ آ جائے گی۔ پھر باقی کتابیں بھی تفصیل سے پڑھیں۔ اپنے علم کو بڑھائیں، اپنی روحانیت کو بڑھائیں۔ اور اسی کا اثر جماعتوں کی انتظامیہ پر بھی ہو جائے گا۔ اور جب ان پر یہ اثر ہو جائے گا تو آپ کے بہت سارے شکوے خود بخود دور ہو جائیں گے۔ ان کو پتا ہو گا کہ ہمارے مربی کا اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق ہے اور ہمارے ساتھ بھی ہمدردی کا تعلق ہے اور لوگوں کا بھی مربی صاحب کے ساتھ تعلق ہے۔ جب لوگوں کا آپ سے تعلق ہو جائے گا تو انتظامیہ خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے۔ باقی چھوٹے موٹے سوالوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے کہ صدر نے ہمیں یہ کہہ دیا، جنرل سیکرٹری نے ہمیں یہ کہہ دیا، ہمیں فلاں کام سےروک دیا۔آپ نے اپنا کام کرنا ہے اور کرتے چلے جانا ہے۔ آپ کو کوئی نہیں روک سکتا، خود راستے نکالنے ہوں گے۔ باقی بہانے ہوتے ہیں کہ فلاں نے روک دیا۔ جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے وہ ساری روکوں کے باوجود کرتے ہیں اور بڑا اچھا کام کرتے ہیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بعض انتظامی معاملات ہوتے ہیں۔ آپ کا کام ہے کہ اپنا کام کیے جائیں۔ یہ بہانے بالکل غلط ہیں کہ انتظامیہ ہمیں کچھ نہیں کرنے دیتی۔ آپ کے کام سے انتظامیہ کا کوئی تعلق نہیں۔ انتظامیہ آپ کو پانچ نمازیں پڑھانے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو اپنے نوافل پڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو اپنی روحانیت میں بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو لوگوں سے personal contact کرنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو تبلیغ کرنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ چیزیں جب ظاہر ہو جائیں گی۔ کھل کر سامنے آ رہی ہوں گی تو اگر انتظامیہ میں کوئی ایسی بات ہے بھی تو خود بخود ٹھیک ہو جائے گی اور پھر انتظامیہ میں ہی ایسے لوگ ہوں گے جو آپ کا ساتھ دینے والےہوں گے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جب آپ کی یہ حالت ہو جائے گی تو خود بخود صدر جماعت یا جنرل سیکرٹری یا بعض جگہ مسائل پیدا کرنے والے جو بھی ہیں ان کو خود بخود کان ہو جائیں گے کہ ہم نے تعاون کرنا ہے۔ اس لیے پہلا initiative آپ کو لینا ہو گا۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مربی سلسلہ فراست صاحب کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

آپ فیلڈ میں جا رہے ہیں۔آپ نے جذباتی نہیں ہونا کہ فلاں نے یہ کہہ دیا،فلاں نے یہ کہہ دیا۔ جذباتی ہونا مربی کا کام نہیں ہے۔ جب وقف کردیا۔ تو پھر ہر ایک چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ اپنی عزت کو بھی قربان کرنا پڑتاہے۔وہ پنجابی کا شعر ہے کہ؎

جھوٹیاں عزتاں لبدا جیہڑا، عاشق نہیں سودائی اے

بس عاشق بننا ہے تو پھر ان ساری چیزوں کو چھوڑنا ہو گا۔ اس لیے جذباتی نہیں ہونا۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ لوگ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ دعا بھی کرو۔ پیار سے سمجھاتے بھی رہو انتظامیہ میں بعض لوگوں کو رعب ڈالنے کی، یا بلا وجہ دخل اندازی کرنے کی یا یہ اظہار کرنے کی کہ ہم تم سے زیادہ جانتے ہیں کی عادت ہوتی ہے۔ یا یہ بتانے کے لیے کہ آپ لوگ تو ابھی young ہیں، ہم بڑے تجربہ کار ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ حکمت سے کام کرنا ہے۔ لوگ کہہ دیں کہ یہ diplomacy ہے، سیاست ہے۔ یہ سیاست نہیں، حکمت عملی ہے۔ حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور اپنے لیے جو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ خود اپنا maximum potential دیکھ کر اپنے لیے ٹارگٹ مقررکریں۔ لیکن تھکے ہوئے ٹارگٹ نہ ہوں۔ اپنے لیے زور دار اور بڑے ٹارگٹ رکھیں اور پھر ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دو سینئر مبلغین سے دریافت فرمایاکہ ان کو انتظامیہ کی طرف سے کیا مسائل دیکھنے پڑے ہیں۔ اس پر ان مبلغین نے عرض کیاکہ ان کو کبھی مسائل نہیں ہوئے، اگر کبھی کوئی مسئلہ ہوا بھی ہے تو پیار محبت سے حل ہوجاتاہے۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جو نوجوان مبلغین ہیں ان میں بعض دفعہ جوش آجاتاہے۔ لیکن آپ نے اپنے جوش کو دباناہے۔ آپ نے وقف کیاہواہے اور باقی جو عہدیداران ہیں وہ واقفینِ زندگی نہیں ہیں۔ اس لیے واقفِ زندگی کی حیثیت سے بہرحال قربانی دینی پڑتی ہے اور برداشت بھی کرنا پڑتاہے۔ آپ کی برداشت کا threshold باقیوں کی نسبت زیادہ ہونا چاہیے۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں نے جو باتیں کرنی تھیں کرلی ہیں۔ اس کے بعد اگر کسی نے کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لیں۔ ویسے تو اب انتظامی معاملات کے حوالہ سے کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے، لیکن اگر کوئی سوال ہے تو پوچھ لیں۔

ایک مبلغ نے عرض کیاکہ وہ ایک جماعت میں پہلے مربی کے طور پر جارہے ہیں۔ وہاں گزشتہ تیس سال سے کوئی مربی نہیں تھا۔ وہ جماعت بھی کافی سست ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس کا مطلب ہے کہ آپ وہاں کے pioneer مربی بن جائیں گے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آپ چست ہوجائیں گے تو جماعت خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔ ایک چیز دماغ میں رکھیں کہ جماعتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ خاص طور پر جب لمباعرصہ ان کو دیکھنے والا نہ ہو، ان کو پوچھنے والا نہ ہو تو جماعتیں ایسی ہو جاتی ہیں۔ اسلیے ایسی جماعتوں میں وقت لگتاہے۔ اس لیے یہ کہہ دینا کہ میں نے ایک دفعہ کہہ دیاتھا، اس نے میری بات نہیں مانی تو میں نے اب دوبارہ نہیں کہنا، درست نہیں ہے۔ باربار نصیحت کریں۔ قرآن کریم نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے اور نصیحت کے لیے ہی کہاہے۔ فذَکِّر کا ہی حکم ہے۔ تو ہمارا کام کہتے چلے جاناہے اور تھکنا نہیں ہے۔ جہاں تھک گئے،وہاں کام خراب ہوجاناہے۔ مستقل مزاجی سے کہتے چلے جاناہے۔ یہ سوچ رکھنی ہے کہ چاہے جتنی بھی سست جماعت ہے، میں نے اس کو چست بناناہے۔ اس میں چاہے مجھے ایک سال لگے، دوسال لگیں یا تین سال لگیں یا جتنا عرصہ بھی یہاں ہوں، میں نے پوری کوشش کرنی ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

خاص طورپر نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملائیں۔ اگر نوجوان active ہوجائیں گے، اور ان کو برائیوں سے بچالیں گے تو پھر بوڑھوں کو بھی تھوڑا سا احساس پیداہوگاکہ مربی صاحب کام کررہے ہیں۔ اس لیے وہاں جاکر پہلے نوجوانوں کو خاص طور پر دیکھیں، پہلے جائزہ لیں کہ کتنی جماعت ہے، کہاں کہاں ان کی توجہ ہے، تعداد کے لحاظ سے کہاں کہاں زیادہ احمدی ہیں، آپ نے کہاں دورے کرنے ہیں۔ جماعت کے اندر مختلف حلقے ہوں گے، ہرحلقہ کا دیکھ لیں کہ اس کی کتنی تعداد ہے اور پھر ان کو وقت دیں۔ پھر وہاں کے نوجوانوں کو دیکھیں۔ پہلے ان کے مسائل کا جائزہ لیں، ان کے ساتھ مل کر بیٹھیں تو پتا لگے گا کہ ان کو دین کے بارہ میں کیا کیا اعتراضات ہیں، کیا reservations ہیں۔ یا بعضوں کو انتظامیہ سے یا اپنے بڑوں سے شکوے ہوتے ہیں۔یا آپس میں ہی ایک دوسرے سے شکوے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جماعت سے پیچھے ہٹ رہے ہوتے ہیں۔ ان سارے مسائل کا جائزہ لے کر پہلے ایک سوالنامہ (questionaire) بنالیں کہ کس طرح ان مسائل کو ایڈریس کرناہے اور کس طرح ان کا جواب دینا ہے اور کس طرح اس کے لیے مزید لائحہ عمل بناناہے۔ یہ ساری چیزیں دیکھ لیں۔

مبلغ نے عرض کیاکہ ان دونوں جماعتوں میں ایک تو ریفیوجیز ہیں جو نئے آئے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو تیس سال سے وہاں رہ رہے ہیں۔ دونوں کے آپس میں بہت سے اختلافات ہیں۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جو یہاں لمبے عرصہ سے رہ رہے ہیں وہ اپنے آپ کو تھوڑا superior سمجھتے ہوں گے۔ جو نئے آئے ہیں یہاں وہ immigrants، ریفیوجیز یا اسائیلم سیکرزہوں گے۔ آپ نے ان کے پاس بھی جانا ہے اور ان کو بھی سمجھانا ہے۔ ابھی کل ہی میں نے خطبہ میں یہی بتایاہے کہ ہم ایک ہیں اور ایک بن کررہنا پڑے گا۔ یہی باتیں میں نے بتائی ہیں اور یہی مسائل ہیں۔ ان کو یہی بتانا ہے کہ ہم چاہے مختلف باپوں سے ہیں لیکن ہمارا روحانی باپ ایک ہی ہے۔ میراخیال ہے کل میں جو باتیں خطبہ میں بتائی ہیں وہ آپ کو میدانِ عمل میں کافی کام آئیں گی۔

اس کے بعد ایک مبلغ نے عرض کیاکہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق امسال جنوری سے رسالہ ’دی مسلم سن رائز‘ کو سہ ماہی کی بجائے ’ماہانہ‘ کر دیاگیاہے۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس کے content بھی اچھے ہونے چاہئیں۔ کیونکہ جب یہ رسالہ شروع ہواتھا تو اس کا مقصد تبلیغ تھا۔ اس لیے اس کا content تبلیغ ہونا چاہیے تھا۔

مبلغ نے عرض کیاکہ اس کے content میں بھی بہتری پیداکی گئی ہے۔ اب یہ رسالہ نیشنل سیکرٹری تبلیغ کی وساطت سے تمام جماعتوں کے سیکرٹریان کو بھجوایاجاتاہے۔ اسی طرح تمام فیلڈ کے مشنریز کو بھی یہ رسالہ بھیجاجاتاہے۔ تاہم ابھی تک تبلیغ کے میدان میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

صرف بھیج دینے سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ اس کا content کیاہے۔ اس میں ایسے مضامین ہوں جولوگوں کے interest کے ہوں۔ لوگوں کے ذاتی تجربات ہوتے ہیں اور اسی طرح اَور عناوین ہوتے ہیں۔ آپ کو explore کرناہوگا۔ اب ریویوآ ف ریلیجنز کو دیکھ لیں کہ آج سے دس سال قبل یہ رسالہ 2 ہزار کی تعداد میں بھی نہیں چھپتا تھا۔ اب یہ آن لائن ہی لاکھوں لوگوں تک پہنچتاہے اور 30 ہزار کی تعداد میں چھپ بھی رہاہے۔ اور لوگ پڑھتے بھی ہیں۔ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی پڑھتے ہیں اور پڑھ کر اپنے تبصرے بھیجتے ہیں۔ بڑی بڑی پبلشنگ کمپنیوں کے ایڈیٹرز اور مالکوں نے یہ comments بھیجے ہیں کہ ہم یہ رسالہ پڑھ رہے ہیں، اور اس سے ہمیں اسلام کے بارہ میں بہت کچھ پتا لگ رہاہے۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مضامین دلچسپ ہیں یا نہیں۔ صرف خشک اور فلسفیانہ مضامین نہیں ہونے چاہئیں۔ ہر طبقہ کے مطابق اس میں مضامین آئیں۔ ایک عام آدمی کو تبلیغ کرنے کے لیے کس قسم کا مواد ہونا چاہیے، ایک درمیانہ آدمی کے لیے کس قسم کا مواد ہونا چاہیے اور ایک پڑھے لکھے کے لیے کیا مواد ہوناچاہیے۔ ایک مذہبی آدمی جو مذہبی بحث کرسکتاہے، اس کے لیے کیا مواد ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایاکہ میں نے بعض کتب میں اگر مشکل اردو یا مشکل الفاظ استعمال کیے ہوئے ہیں یا فلسفیانہ ہیں تو وہ اس وجہ سے ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ بحث تھی یا مقابلہ تھا ان کا خیال تھا کہ مجھے کچھ آتانہیں ہے، اس لیے یہ ان کو بتانے کے لیے تھیں اور ساتھ تبلیغ بھی ہورہی تھی۔ اور جو عام لوگ ہیں، افرادِ جماعت ہیں ان کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آسان اور عام فہم زبان میں بھی تحریر فرمایا۔ اس لیے ہمارے سامنے ہر طرح کا مواد ہونا چاہیے۔ قرآنِ کریم ہی دیکھ لیں، ایک جگہ تو بہت فلسفیانہ اور سائنس اور علمی باتیں آرہی ہیں اور دوسری جگہ عام احکامات آرہے ہیں۔ پس اسی نہج پر آپ نے اپنے رسالہ کو چلانے کی کوشش کرنی ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اگر یہ رسالہ مربیان کے پاس جاتاہے تو مشنری انچارج صاحب سے کہیں کہ اپنی رپورٹ میں یہ بھی شامل کرلیاکریں کہ کیا مربیان نے یہ رسالہ پڑھاہے اور اگر پڑھا ہے تو ان کے خیال میں کیا کمیاں ہیں یا کیا یہ رسالہ اتنا اچھانہیں ہے کہ کسی کو دیا جاسکے یا اس میں کیا بہتری پیداکی جاسکتی ہے۔ پھر مشنریز صرف اعتراض نہ کریں بلکہ اس میں contribute کریں۔ اپنے تجربات لکھیں، اپنے آرٹیکل لکھیں۔ ان کا علم بھی بڑھے گا اور اگر یہ عام فہم ذاتی تجربات ہیں تو اور لوگوں کا علم بھی بڑھے گا۔ جب تک فیڈ بیک نہیں آئے گا۔ اور فیڈ بیک کے لیے سب سے پہلی لائن تو مشنریز کی ہے، یہی آپ کو فیڈ بیک دیں گے، اس طرح ہونا چاہیے۔ پھر سیکرٹریان اشاعت، سیکرٹریان تبلیغ اورسیکرٹریان تربیت سے پوچھیں کہ ان کے نزدیک اس کو کس طرح بہتر کیاجاسکتاہے۔ وہاں لوگوں میں تبلیغ کے لیے کس قسم کا مواد چاہیے۔ اس لیے اپنی سوچ کے مطابق نہ لکھتے رہیں۔ آجکل کی سوچیں بدل گئی ہیں۔ نوجوانوں کی سوچ اَور ہے۔ جو immigrants آئے ہیں، ان کی سوچ اَور ہوگی اس لیے کچھ مواد ان کے مطابق دینا پڑے گا۔اور جو لوگ پڑھے لکھے ہیں یا اپنے آپ کو سکالرز سمجھتے ہیں ان کے لیے کوئی اور قسم کا مواد دینا پڑے گا۔ اس لیے فیڈ بیک کا انتظام ہونا چاہیے۔ کوئی بھی کام کرنا ہو، اگر اس کا فیڈ بیک نہیں ہے تو اس کا کوئی رزلٹ نکل ہی نہیں سکتا۔ صرف اسی خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم نے چھاپ دیاہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسی طرح اگر رسالہ آن لائن ہے تواس کا فیڈ بیک تو آپ کو ویسے ہی پتا لگ سکتاہے کہ کتنے لوگوں نے اس کو پڑھا، کتنے لوگوں نے اس کو کھولا، کتنے لوگوں نے سارا رسالہ دیکھا اور کتنے لوگوں نے صرف چند pages پڑھے۔ یہ ساری انفارمیشن آپ کو مل جائے گی۔ اسی سے آپ کو پتا لگ جائے گاکہ لوگوں کے کیا interest ہیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

الفضل والے بھی ہر مہینے مجھے رپورٹ بھیجتے رہتے ہیں کہ کس قسم کا فیڈبیک ہے۔ کتنے لوگوں نے دیکھا، کتنوں نے پڑھا، کتنوں نے کون سے مضامین پسند کیے۔ ریویووالے بھی بھیجتے ہیں، الحکم والے بھی بھیجتے ہیں۔ آپ لوگ بھی اس طرح کرسکتے ہیں۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر ایک اور مبلغ نے عرض کیاکہ ان کی پوسٹنگ ہیرس برگ (Harrisburg) جماعت میں ہے۔ اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ا ٓپ تو اپنے ہی گاؤں میں ہیں۔لیکن یہ نہ سمجھیں کہ اب میں اپنے اماں ابا کے پاس ہی رہوں گا اور اپنے رشتہ داروں کے علاقہ میں ہی رہوں گا۔ آپ کی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے۔ اورباقی سارے مبلغین بھی یہ دماغ میں رکھیں کہ آپ ساروں کا تبادلہ افریقہ بھی ہوسکتاہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ امریکہ میں تقرری ہوگئی ہے تو اب امریکہ ہی امریکہ ہے۔ اب میں ایک pool بنانے لگاہوں جس میں دنیا کے مختلف مربیان کے دوسرے ممالک میں تبادلے ہواکریں گے۔ بہرحال امریکہ کا یہ خیال تو رکھنا پڑے گاکہ یہاں انگریزی بولنے والے زیادہ ہوں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج سے دریافت فرمایاکہ آپ کے خیال میں ان ٹرانسفر زسے آپ کو فائدہ ہوگا؟ اس پر مبلغ انچارج نے عرض کیاکہ دوسری جگہوں پر جانے سے تجربہ کے لحاظ سے فائدہ ہوتاہے۔

بعدازاں مختلف مشنریز نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک مبلغ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایاکہ آپ کی اردو کافی کمزور ہے۔ اس کو بہتر کریں۔

نیز حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ مربیان جو مجھے خط لکھتے ہیں وہ اردو میں لکھناہے، انگلش میں نہیں لکھنا۔ چاہے ذاتی خط ہی ہو۔

ایک مبلغ نے عرض کیا کہ بعض اوقات احمدی سوشل میڈیاپر ایسی چیزیں ڈالتے ہیں جو جماعتی روایات کے منافی ہوتی ہیں۔

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ بات یہ ہے کہ سارے احمدی برابر تو نہیں ہوتے۔ اگر کوئی کسی احمدی کی کمزوری لے کر اس کو سوشل میڈیاپر پوسٹ کردیتاہے کہ احمدی کہتے یہ ہیں، اور کرتے یہ ہیں۔ احمدی اچھے بھی ہوتے ہیں، برے بھی ہوتے ہیں۔ یہ کس نے کہا ہے کہ 100 فیصد احمدی تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ آپ کے 100 فیصد احمدی تو پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ پہلے تو وہ پڑھائیں۔ اگر بنیادی چیز نہیں ہے تو پھر اس بات پر گھبراجانا کہ لوگ بعض احمدیوں پر اعتراض کرتے ہیں ٹھیک ہے۔ ہاں اگر وہ احمدی آپ کے علاقہ میں رہنے والا ہے تو اس کے پاس جاکر اس کو سمجھائیں کہ دیکھو اس وجہ سے جماعت پر اعتراض ہواہے۔ تم اپنی اصلاح کرو۔ اگر وہ صحیح اعتراض ہے، ورنہ اگر وہ بولتے ہیں تو بولنے دیں۔ اگر کسی کوکوئی اور اعتراض نہیں ہوتاتووہ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ابھی کل ہی مجھے ایک فیملی ملنے آئی تھی ان کے دادا کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیغام پہنچاتھا۔ اور جس احمدی نے پیغام پہنچایا تھا اسی نے غصہ میں آکر ان کا سر پھاڑ دیاتھا۔ اس پر انہوں نے اپنے کسی مولوی کو لکھاکہ ایک احمدی نے میرے ساتھ ایسے کیاہے۔ اس پر اس مولوی نے ان کو اپنی گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں بھیج دیں۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے تو تم سے دلیل مانگی اور تم نے گالیاں بھیج دی ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہیں۔ اسی بات پر وہ احمدی ہوگئے۔ تو یہ جو سوشل میڈیا والے اعتراض کرتے ہیں اور لوگوں کی کمزوریاں تلاش کرکے اعتراض کرتے ہیں تو ہم نے کب کہاکہ سو فیصد احمدی تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اتنے اعلیٰ معیار پر قائم ہوتے تو مجھے خطبوں میں یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی کہ اپنی اصلاح کرو، اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے جو بار بار تلقین کی ہے کہ مومن بنو، مومن بنو، مومن بنو۔ وہ کس لیے ہے؟ اسی لیے کہ ایمان کی مضبوطی کے لیے ہر وقت یاددہانی ضروری ہے۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے، وہ کرواتے رہیں۔ باقی گھبرانے کی ضرورت کوئی نہیں کہ سوشل میڈیا پر آگیا توہمارے ہاتھ پیر پھول جائیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

دشمن کا تو کام ہے کہ اس نے حملہ کرناہے۔ آپ کا کام ہے کہ اس حملہ سے نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ اس کا مقابلہ کرناہے۔ ہر وقت defensive نہیں رہنا۔ اگر کوئی ایسی بات ہے جس سے مجموعی طور پر جماعت پر اثر پڑتاہے تو اس کا جواب دے دیں ورنہ تو معمول کی بات ہے لوگ بکواس کرتے رہتے ہیں۔ اس کا تو ہم جواب نہیں دے سکتے۔ گالیوں کا جواب تو ہم واقعی نہیں دے سکتے۔ ہم ان سے ہار مان گئے۔ لیکن اگر کوئی عقل کی بات ہے تو ضرور کرنی چاہیے۔ اس کا جواب دیں۔ آپ لوگ فیلڈ میں ہیں، آپ لوگوں کو تجربات ہوتے ہیں۔ اپنے علم کو بڑھائیں اور ایسے اعتراضات کے جوابات تلاش کریں۔ ہاں اگر کسی میں کوئی کمزوری ہے یا اگر کوئی کہتاہے کہ فلاں عہدیدار میں کمزوری ہے یا فلاں عہدیدار کے بچے کی شادی ہوئی اور وہاں ڈانس ہورہاتھا، یا فلاں شادی میں میوزک بج رہاتھا تو پہلے اس عہدیدار کو سمجھائیں اور پھر اس کی رپورٹ کریں۔ اس قسم کے واقعات کی جو رپورٹس مجھے آتی ہیں تو میں عام طور پر ایسے عہدیداران کو ہٹادیاکرتاہوں۔ اس کا مرکز کو علم تو ہونا چاہیے۔اس لیے امیر صاحب کو رپورٹ دیں، پھر امیرصاحب کے ذریعہ رپورٹ مرکز میں آجائے گی۔ تو اگر کسی میں یہ کمزوریاں، خامیاں ہیں اور کہنے کے باوجود اصلاح نہیں ہوتی اور اگر کوئی غلط کاموں میں ملوث ہے تو اگر اس میں کوئی عہدیدار شامل ہے تو جیسے باقیوں کو سزا ملتی ہے تو عہدیدار کو بھی سزا ملے گی۔ ابھی کینیڈا میں میں نے دو مربیان کو suspend کیاہے جو ایک ایسی مجلس میں تھے جہاں گانا وغیرہ ہورہاتھا اور وہ وہیں بیٹھے رہے اور وہاں سے اُٹھ کر نہیں گئے۔ تو مربیان میں سے بھی بعض ایسے ہوتے ہیں، باقیوں کی کیا باتیں کریں۔

اس کے بعد ایک مبلغ نے سوال کیاکہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےتبلیغ کے حوالہ سے توجہ دلائی ہے۔ تبلیغ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی ہوسکتاہے لیکن اس میں کنفیوژن ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالہ سے کیا حدود ہیں؟

اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو سنجیدہ قسم کا سوشل میڈیا ہے، اور اگر آپ نے صرف تبلیغ کی حد تک جانا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ اسی طرح آپ اپنی کوئی ویب سائٹ بھی بناسکتے ہیں جس میں تبلیغ کرسکتے ہیں۔ اگر اس کا تعارف ہوجائے تو لوگ اس کو دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ اور بعض لوگ سوشل میڈیا پر جواب دیتے بھی ہیں۔ لیکن بعض اوقات personal اکاؤنٹس بناکر اس پر غلط جوابات دینا شروع کردیتے ہیں اس کو میں نے اس لیے منع کیا تھا اور پھر اس پر و ہ اپنی مرضی کی بحثیں شروع کردیتے ہیں۔ پھر مربیان کی آپس میں بحثیں شروع ہوجاتی ہیں کہ تم نے یہ غلط کہاہے، اس کا جواب یوں ہونا چاہیے۔ جب آپ لو گ آپس میں ہی بحثیں شروع کردیں گے تو سوشل میڈیا والوں پر کیااثر ڈالیں گے۔ وہ چیزیں غلط ہیں۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

organised effort کے ساتھ ایک پلان بنائیں، اس کی منظوری لیں۔ اس کے بعداس پر عمل کریں۔ یہ جو افراتفری کے کام ہوتے ہیں، ایک کا منہ ادھر جارہاہے، دوسرے کا اُدھر جارہاہے۔ پتا ہی نہیں کیا کرنا ہے اور پھر ہر ایک اپنی اپنی علمیت ظاہر کرنے لگ جاتاہے تو وہ چیز غلط ہے، میں نے اس سے روکا تھا۔ پانچ، چھ مہینے پہلے میں نے کینیڈا کی ایک ویب سائٹ بند کروائی تھی، وہ اسی لیے کروائی تھی۔ پس یہ چیزیں غلط ہیں۔ ویسے تو تبلیغ کے لیے ضرورنئے نئے رستے explore کرنے چاہئیں اور جو سوشل میڈیا ہے اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ ہم بھی کرتے ہیں۔ بعض ذیلی تنظیموں کو بھی یہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ اجازت مربیان کو بھی مل سکتی ہے لیکن اگر ان کا ایک organised سسٹم ہو۔

اس کے بعد مبلغین نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت حاصل کی۔

مبلغین کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ میٹنگ دو بجے تک جاری رہی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button