خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 16؍دسمبر2022ء

’’ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ خداتعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ …اگر اعمالِ صالحہ کی قوت پیدا نہ ہواور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہوتو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’جو امن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتا خداتعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اورمصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں‘‘

یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ہمیں کبھی اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں سست نہیں ہونا چاہیے

’’دعا کے لیے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوءِ ظن نہ کر بیٹھےکہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘

’’خداتعالیٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا‘‘

’’ضروری ہے کہ جب خداتعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو‘‘

’’ہر ایک کام کے لئے زمانہ ہوتا ہے اور سعید اس کا انتظار کرتے ہیں۔ جو انتظار نہیں کرتا اور چشمِ زدن میں چاہتا ہے کہ اس کا نتیجہ نکل آوے وہ جلد باز ہوتا ہے اور بامراد نہیں ہوسکتا‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاداتِ عالیہ کی روشنی میں دعا کی حقیقت، اُس کے آداب، ہماری ذمہ داری، اس کی ضرورت اور اللہ تعالیٰ پر یقین کے بارے میں بصیرت افروز بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 16؍دسمبر2022ءبمطابق 16؍فتح 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

دعا سے متعلق بہت لوگ سوال کرتے ہیں۔

آج کل تو خاص طور پر خداتعالیٰ اور دعا کے متعلق سوال اٹھتے ہیں جبکہ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت دہریت کے حامی بھرپور حملہ خداتعالیٰ کی ذات پر اور مذہب پر کر رہے ہیں۔

مختلف ذریعوں سے انسان کو خدا اور مذہب سے دُور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شیطان انسان سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر اسے دین اور خداتعالیٰ سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے لوگوں پر بھی بعض جگہ اور بعض دفعہ یہ شیطانی خیالات اثر ڈال دیتے ہیں یا دنیاداروں اور مذہب کے خلاف چلنے والوں کی باتیں انہیں مذہب کے بارے میں اور خداتعالیٰ کے بارے میں عبادت کے بارے میں بے چینیاں پیدا کرنی شروع کر دیتی ہیں۔ شبہات دل میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو کم علم ہوتے ہیں۔ اگر کبھی کسی ابتلا سے گزرے یا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو کمزور ایمان والوں اور کم علم والوں کو فوراً یہ خیال آنے لگ جاتا ہے کہ یا تو مذہب غلط ہے جس پر ہم لوگ قائم ہیں اور اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا خداتعالیٰ کی ذات ایسی نہیں کہ رحم کرتے ہوئے دعائیں سنے اور ہمیں اس ابتلا اور امتحان سے نکالے یا خداتعا لیٰ نے نعوذ باللہ ہم پر ظلم کیا ہے جو ہم اس حالت سے گزر رہے ہیں۔ باوجود دعاؤں کے ہماری پریشانیاں دور نہیں ہو رہیں۔ غرض کہ اس قسم کے بہت سے سوال بعض ذہنوں میں اٹھتے ہیں خاص طور پر ان کے جن کی نظر صرف دنیاوی چیزوں پر رہتی ہے۔ بعض لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں یا اپنے حالات بتاتے ہوئے سوال پوچھ رہے ہوتے ہیں تو لگ رہا ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ ایمان نہیں جو ہونا چاہیے اور جس ماحول میں وہ رہ رہے ہیں اس میں رہتے ہوئے ذرا سا بھی ابتلا ان پر آئے تو منفی سوچیں پیدا ہو جاتی ہیں یا شکوک سر اُبھارنے لگ جاتے ہیں حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اپنی حالتوں پر غور کریں۔ دیکھیں کہ ہم کس حد تک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہم اپنی عبادتوں کو سنوار کر ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہم نے اپنی دعاؤں کے معیار کو اونچا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی ہماری کیا حالت ہے؟ بہرحال

آج میں دعا کے مضمون کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بیان کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اور ارشادات میں اس بارے میں بہت کچھ ہمیں نظر آتا ہے، لٹریچر میں موجود ہے۔ بہرحال

مَیں چند باتیں بیان کروں گا جن سے دعا کی حقیقت، اُس کے آداب، ہماری ذمہ داری، اس کی ضرورت اور اللہ تعالیٰ پر یقین کے بارے میں کچھ وضاحت ہوتی ہے بلکہ وضاحت یقینی طور پہ ہوتی ہے۔

اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ

ہمیں اچھے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھنی چاہیے تاکہ مشکلات میں بھی ہماری دعائیں سنی جائیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے۔

جو اَمن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتا خداتعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔

جب عذابِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذابِ الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے، صدقات دیتا ہے اور امرِ الٰہی کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے۔ یہی سعادت کے نشان ہیں۔‘‘ فرمایا ’’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 229-230 ایڈیشن 1984ء)

پس ایک حقیقی مومن کا یہ کام ہے کہ اپنے اچھے حالات میں خداتعالیٰ کے حق کو اور اُس کی مخلوق کے حق کو کبھی نہ بھولے اور اگر وہ یہ حق ادا کر رہا ہے تو پھر مشکلات کے دَور سے خداتعالیٰ اسے خود نکالتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ پس

یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ہمیں کبھی اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں سست نہیں ہونا چاہیے۔

دنیاوی مصروفیات ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے سے محروم کرنے والی نہ ہوں۔

پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ

خداتعالیٰ سے مانگتے وقت کیا حالت ہونی چاہیے اور اس کے کیا آداب ہیں اور یہ آداب خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس طرح سکھائے ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں خداتعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ اسی لیے سورۂ فاتحہ میں خداتعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرو۔ الرَّحْمٰن ہے یعنی بلا مانگے اور سوال کیے دینے والا ہے۔ پھر الرَّحِيْم ہےیعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ ’’سچی محنت‘‘، یہ غور کرنے والا لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے۔ سچی محنت پر پھل عطا فرماتا ہے اور سچی محنت کے معیار وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک جہاد کرنا پڑتا ہے۔ پھر فرمایا۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْن۔ جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے، چاہے رکھے چاہے مارے۔ اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اِس دنیا کی بھی اُس کے ہاتھ میں ہے۔ صرف یہ نہیں کہ آخرت کی جزا سزا۔ اس دنیا میں بھی جو کام ہوتے ہیں ان کے فیصلے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ فرمایا کہ جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ ربّ ہے، رحمٰن ہے، رحیم ہے، اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے اور اسے حاضر جان کر پکارتا ہے۔ یہ باتیں تو غیب کی ہیں۔ پھر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حاضر ہے اور حاضر جان کر کیا پکارتا ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْن۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا ہم عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی اس کے لیے مدد مانگتے ہیں۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم۔ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے، اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تُو نے انعام کیا اور وہ وہی صراطِ مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھر غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ۔ نہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ۔ اور نہ ان کی جو دور جا پڑے ہیں، گمراہ ہو گئے ہیں۔ فرمایا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم سے کُل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے مثلاً ایک طبیب ہے جب کسی کا علاج کرتا ہے تو اُسے ایک صراطِ مستقیم ہاتھ نہ آوے، علاج نہیں کر سکتا۔اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراطِ مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آ جاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اس لیے دنیاوی کاموں میں بھی صراطِ مستقیم کی تلاش ہونی چاہیے اور وہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو۔

آپؑ جس مجلس میں بیٹھے یہ بیان فرما رہے تھے وہاں ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ

انبیاء کو اس دعا کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو عام آدمیوں کے لیے دعا ہے۔انبیاء کو اس دعا کی کیا ضرورت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کرتے تھے، وہ تو پیشتر سے ہی صراط مستقیم پر ہوتے ہیں؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ یہ دعا ترقیٔ مراتب اور درجات کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم توآخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 399-400 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ ہیں وہ آداب جن کو سامنے رکھ کر نماز پڑھی جائے، دعا کی جائے تو انسان ایک ایسی کیفیت میں سے گزرتا ہے جہاں اُسے خداتعالیٰ کا قرب اوراپنی حاجات بیان کرنے کا صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے۔

پھر

دعا اور اس کے آداب کے بارے میں مزید وضاحت

فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آدابِ دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے اُن طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیتِ دعا کے ہوتے ہیں۔ بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے۔ بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آدابِ دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں۔‘‘ جو اصلی معنی ہیں دعا کے اس طرح دعا نہیں ہوتی اس لیے قبول نہیں ہوتی ’’اس لئے وہ منکرینِ دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں‘‘ایسے لوگ۔ ’’اُن کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے۔

دعا کے لیے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوءِ ظن نہ کر بیٹھے‘‘بدظنی نہ کرے اللہ تعالیٰ پر ’’کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا۔

بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اس قدر دعا کی گئی کہ جب مقصد کا شگوفہ سر سبز ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ دعا کرنے والے تھک گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ ناکامی اور نامرادی ہو گیا ہے اور اس نامرادی نے یہاں تک برا اثر پہنچایا کہ دعا کی تاثیرات کا انکار شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ پھر خد اکا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ دہریت غالب آ جاتی ہے ’’اور کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا اور وہ دعاؤں کو قبول کرنے والا ہوتا تو اس قدر عرصہ دراز تک جو دعائیں کی گئی کیوں قبول نہ ہوئیں؟ مگر ایسا خیال کرنے والا اور ٹھوکر کھانے والا انسان اگر اپنے عدمِ استقلال اور تلوُّن کو سوچے تو اُسے معلوم ہو جائے کہ ساری نامرادیاں اس کی اپنی ہی جلدبازی اور شتاب کاری کا نتیجہ ہیں۔‘‘ آج یہاں، کل وہاں۔ مستقل مزاجی کوئی نہیں۔ جلد بازی طبیعت میں ہے تو وہ تو انسان کی اپنی غلطیاں ہیں۔ اگر مستقل مزاجی ہو، جلد بازی نہ ہو، ایمان مضبوط ہو تو کبھی یہ حالت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو یہ تو اُس جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ فرمایا ’’جن پر خدا کی قوتوں اور طاقتوں کے متعلق بدظنی اور نامراد کرنے والی مایوسی بڑھ گئی۔ پس کبھی تھکنا نہیں چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 415تا417 ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے

دنیاوی مثالوں کے ساتھ دعا کرنے والے کے صبر کی مثال

اس طرح دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ دیکھو! ’’دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے۔ اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کے نیچے دبا دیا۔ اُس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشوونما پا کر پھل لائے گا۔ باہر کی دنیا اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودا کی صورت اختیار کر رہا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے۔‘‘ بیج کی ایک خصوصیت ہے پہلے اس کی جڑیں نکلتی ہیں، جڑیں زمین میں پیوست ہو جاتی ہیں پھر باہر کونپلیں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ’’اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا دراصل اسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا مگر ظاہربین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اس کا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا۔ لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا۔‘‘ اب پودا نکل آیا، اَب پھل لگنے کا مرحلہ باقی ہے۔ نادان بچہ یہ سمجھے گا کہ اس کو تو پھل لگ نہیں سکتا یہ چھوٹا سا ہے۔ ’’وہ یہ چاہتا ہے کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے۔ وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غورو پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے۔ یہی حال دعا کا ہے اور بعینہٖ اسی طرح دعا نشوونما پاتی اور مثمر بثمرات ہوتی ہے۔ جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔‘‘ دُور اندیش لوگ جو ہیں، نتیجہ کو صبر سے دیکھنے والے لوگ جو ہیں وہ مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، دعاؤں میں لگے رہتے ہیں ’’اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 417 ایڈیشن 1984ء)

پھر

دعا کرنے والے کے صبر کے معیار

کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کر سکتے حالانکہ خد اتعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے۔

دیکھو! یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اس کے گھر بچہ پیدا ہو جاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اُس نے مقرر کر دیا ہے وہ ضروری ہے۔ پہلے نباتات کی نشوونما کی طرح کچھ پتہ ہی نہیں لگتا۔‘‘ پودے، بوٹے جس طرح نشوونما پاتے ہیں پہلے تو کچھ نہیں پتہ لگتا انسان کی یا کسی بھی جانور کی پیدائش کے وقت۔ اب انسان کی مثال ہے کہ ’’چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ پھر کچھ حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوری میعاد گذرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر بھی اب بارہ ہفتے کے بعد ہی سکین کر کے کچھ بتاتے ہیں۔ تو بچہ کا پیدا ہونا باوجودسب ماڈرن ٹیکنالوجی کے ڈاکٹروں کو صحیح پتہ لگتا ہے اور وہ بھی اسی وقت سکین کرتے ہیں جب بارہ ہفتے گزر جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں جب آپؑ بیان فرما رہے ہیں اُس وقت اتنی ٹیکنالوجی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ایک قانونِ قدرت کے بارے میں آپؑ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’بچہ کا پیدا ہونا ماں کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا ہے۔‘‘ پھر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ساتھ ہی، یہ نہیں ہے کہ آرام سے پیدا ہو گیا۔ ماں کا بھی نئے سرے سے پیدا ہونا ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ’’مرد شاید اُن تکالیف اور مصائب کا اندازہ نہ کر سکیں جو اس مدتِ حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھی ایک نئی زندگی ہوتی ہے۔ اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اس کو قبول کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جا کر وہ اس خوشی کو دیکھتی ہے۔ اسی طرح پر دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلوُّن اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے۔‘‘ جلد بازی نہ کرے، تکلیفوں کو برداشت کرے، دعا میں لگا رہے۔ ’’اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ آخر آنے والا زمانہ آجاتا ہے۔ دعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہنچ جاتا ہے جبکہ گویا مراد کا بچہ پید اہوتا ہے۔ دعا کو پہلے ضروری ہے کہ اس مقام اور حدتک پہنچایا جاوے۔ جہاں پہنچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔‘‘ دعا کو اس معیار تک لے جانا پہلے ضروری ہے۔ فرمایا کہ ’’جس طرح پر آتشی شیشے کے نیچے کپڑا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعاعیں اس شیشہ پر آکر جمع ہوتی ہیں اور ان کی حرارت اور حدّت اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلا دے۔ پھر یکایک وہ کپڑا جل اٹھتا ہے۔ اس طرح پر ضروری ہے کہ دعا اس مقام تک پہنچے جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہو جاوے کہ نامرادیوں کو جلادے اور مقصدِ مراد کو پورا کرنے والی ثابت ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 418 ایڈیشن 1984ء)

پس ہر دعا کرنے والے کو اپنے جائزے سے خود ہی پتہ چل جائے گا

کہ اس نے یہ معیار حاصل کیا ہے کہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے بارے میں آپؑ فارسی مصرعہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں

’’پیدا است ندا را کہ بلند است جَنَابَت‘‘

کہ پکار سے ظاہر ہے کہ تیری بارگاہ بہت بلند ہے۔

فرمایا کہ ’’مدت دراز تک انسان کو دعاؤں میں لگے رہنا پڑتا ہے۔ آخر خداتعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے۔ مَیں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے اور گذشتہ راستبازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی امید ہوتی ہے۔‘‘ امید ہوتی ہے کہ دعاؤں کا مزید موقع مل رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائے گا ’’لیکن جس امر میں جلد جواب مل جاتا ہے۔‘‘ اگر جواب نہ میں ملا ہے تو پھر ’’وہ ہونے والا نہیں ہوتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’عام طور پر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ایک سائل جب کسی کے دروازہ پر مانگنے کے لئے جاتا ہے اور نہایت اضطراب اور عاجزی سے مانگتا ہے اور کچھ دیر تک جھڑکیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔‘‘ گھر والا اس کو ڈانٹتا ہے، جھڑکیاں دیتا ہے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا ’’اور سوال کئے ہی جاتا ہے تو آخر اس کو‘‘ یعنی گھر والے کو ’’بھی کچھ شرم آہی جاتی ہے۔ خواہ کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ سائل کو دے ہی دیتا ہے۔ تو کیا دعا کرنے والے کا ایک معمولی سائل جتنا بھی استقلال نہیں ہونا چاہئے؟

خداتعالیٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا۔

جیسے ایک حاملہ عورت چار پانچ ماہ کے بعد کہے کہ اب بچہ پیدا کیوں نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دوائی کھالے تو اس وقت کیا بچہ پیدا ہوگا۔‘‘ ضائع ہی ہو جائے گا بچہ۔ ’’یا ایک مایوسی بخش حالت میں وہ خود مبتلا ہو گی؟ اسی طرح جو شخص قبل ازوقت جلدی کرتا ہے وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے اور نہ نرا نقصان‘‘اٹھاتا ہے ’’بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچ جاتا ہے۔ بعض ایسی حالت میں دہریہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے گاؤں میں ایک نجار تھا۔‘‘ ترکھان تھا ’’اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مر گئی۔ اس نے کہا اگر خدا ہوتا تو مَیں نے اتنی دعائیں کی تھیں وہ قبول ہو جاتیں اور میری عورت نہ مرتی۔ اس طرح پر وہ دہریہ ہو گیا۔‘‘ فرمایا ’’لیکن سعید اگر اپنے صدق اور اخلاص سے کام لے تو اس کا ایمان بڑھتا اور سب کچھ ہو بھی جاتا ہے۔ زمین کی دولتیں خداتعالیٰ کے آگے کیا چیز ہیں۔ وہ ایک دَم میں سب کچھ کر سکتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’کیا دیکھا نہیں کہ اس نے اُس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنا دیا۔‘‘ عرب کے بدو کیا تھے، کیا لوگ تھے، دنیا پہ حکومت کی انہوں نے۔ ’’اور بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کا تابع فرمان بنا دیا اور غلاموں کو بادشاہ بنا دیا۔ انسان اگر تقویٰ اختیار کرے، خداتعالیٰ کا ہو جاوے تو دنیا میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جواں مرد ہو کر دکھائے۔ دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریاکاری و شرک کی نہ ہو۔ابراہیم علیہ السلام میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو اَبُوالمِلّت اور اَبُوالحُنَفاء قرار دیا اور خداتعالیٰ نے اس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں۔ یہی صدق اور اخلاص تھا۔

دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو۔ پھر کیا وہ اُسی وقت قبول ہو گئی؟ ابراہیم کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 419-420 ایڈیشن 1984ء)

پس جیساکہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ صرف تکلیف میں انسان دعائیں نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب کشائش دی ہو، آسائشیں دی ہوں تب بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔

اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ

دعا کی قبولیت کے لیےجسم اور روح کا آپس میں تعلق ہونا چاہیے اور کیسا تعلق ہونا چاہیے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ظاہری نماز اور روزہ اگر اُس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔‘‘ آئے نمازیں پڑھ لیں۔ روح نہیں پگھل رہی تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ’’جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اُن میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سُکھا دیتے ہیں۔‘‘ ہاتھ کھڑا کیا اور کئی کئی دن کھڑا ہی رکھا اور ہاتھ سوکھ جاتا ہے۔ ’’اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ تکالیف اُن کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔‘‘ کرتب تو دکھا سکتے ہیں ظاہری طور پر مشقتیں بھی کر لیتے ہیں۔ بڑے بڑے فاقے بھی کر لیتے ہیں، تکلیفیں بھی برداشت کر لیتے ہیں لیکن وہ روحانیت کے نمونے نہیں دکھا سکتے۔ ’’اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کاگوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خداتعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟‘‘دل میں بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لی، دعائیں کر لیں۔ رو لیے۔ اللہ تعالیٰ کے آگے فریاد کر لی جس طرح پہلے مذاہب میں تھا

مختلف نمازوں کی جو حالتیں ہیں قیام ہے، رکوع ہے، سجدہ ہے ا س کی کیا ضرورت ہے؟

فرمایا ’’اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے۔ اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں۔ اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔‘‘ جو اپنے جسموں سے تو کام لیتے ہیں روح سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ’’روح اور جسم کا باہم خداتعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آ ہی جائے گا اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہے اسے ہنسی آ ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے اسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے۔‘‘ جس قدر عاجزی ہوتی ہے، نیاز مندی ہوتی ہے وہ روح میں بھی پیدا ہوتی ہے ’’اگرچہ خدا نرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا۔‘‘ اگر صرف سجدہ کر دیا اور اس میں کوئی عاجزی نہیں، عجز نہیں، نیاز مندی نہیں، روح اس کا ساتھ نہیں دے رہی تو اللہ تعالیٰ اس سجدے کو قبول نہیں کرتا‘‘مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے اس لیے نماز میں آخری مقام سجدہ کا ہے۔ جب انسان نیازمندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہےتو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ فطری بات ہے وہ انتہائی عجز کی حالت دکھانا چاہتا ہے۔ جھک گئے، سجدہ میں چلے گئے۔ فرماتے ہیں ’’جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے۔ کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آ کر اس کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو جاتا ہے۔ جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور آنسو اور پژمردگی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ طبیعت بجھی بجھی سی رہنے لگتی ہے۔ اگر روح میں کوئی غم ہے، انسان کے دل کے اندر کوئی غم ہے تو جسم بھی تھکا تھکا لگتا ہے، بجھی بجھی طبیعت رہتی ہے، دوسروں کو بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس کی حالت کیا بن رہی ہے۔ کسی مجلس میں بیٹھنے کو دل نہیں کرتا۔ بیٹھے ہوں تو لوگ پوچھ رہے ہوتے ہیں کیا ہوا۔ فرمایا کہ ’’اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دورانِ خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کے لئے ایک انجن ہے۔‘‘ خون چلتا ہے دل کے ذریعہ سے لیکن ایک انجن کے طور پہ دل چل رہا ہے۔ ’’اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے۔‘‘ دل کا جو پمپ کرنا ہے اسی سے سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔

’’غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونو برابر چلتے ہیں۔‘‘ کبھی دل پھیلتا ہے پھر سکڑتا ہے، پھیلتا ہے سکڑتا ہے وہی جو جسمانی نظام کو چلاتا ہے خون کی گردش اس سے ہوتی ہے۔ کہتے ہیں جسمانی اور روحانی سلسلے بھی اسی طرح برابر چلتے ہیں۔ ’’روح میں جب عاجزی پیدا ہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہوجاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔ اس لئے

ضروری ہے کہ جب خداتعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو
چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو۔

اگرچہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے۔‘‘ یعنی یہ تو نفاق ہے ناں کہ دل نہیں چاہ رہا لیکن پھر بھی زبردستی عاجزی کا اظہار کرو لیکن کرنا ہے ’’مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے‘‘ عادت پڑ جاتی ہے اور پھر روح اور جسم دونوں ایک ساتھ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور فرمایا ’’اور واقعی روح میں وہ نیازمندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ420-422 ایڈیشن 1984ء) اور جب یہ حالت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے تو انسان کو نماز میں پھر لذّت بھی آنے لگتی ہے۔ صرف اپنے مطلب کے لئے وہ خداتعالیٰ کے حضور نہیں جاتا بلکہ پھر خداتعالیٰ سے تعلق اور محبت میں نمازوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔

پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں

’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نمازوں میں لذّت نہیں آتی مگر وہ نہیں جانتے کہ لذّت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذّت کا معیار بھی الگ ہے۔

ایسا ہوتاہے کہ ایک شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذّت ہی سمجھ لیتا ہے۔‘‘ ان دنوں میں جب آپؑ یہ بیان فرما رہے تھے ٹرانسوال میں آزادی کی لڑائی ہو رہی تھی۔ کہتے ہیں ’’دیکھو ٹرانسوال میں جو لوگ لڑتے ہیں۔‘‘ اس کی مثال دے رہے ہیں آپؑ۔ ’’باوجود یکہ اس میں جانیں جاتی ہیں اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذّت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔‘‘قوم کے لیے وہ قربانی کر رہے ہیں۔

’’ان کو قومی حمیت اور پاسداری موت کے منہ میں خوشی کے ساتھ لے جاتی ہے۔ ادھر قوم ان کی محنتوں اور جانفشانیوں کی قدر کر رہی ہے جبکہ اغراضِ قومی متحد ہیں۔‘‘ اغراض تو ایک ہی ہیں۔ ایک فریق قربانیاں کر رہا ہے اور دوسرے ان کو encourageکر رہے ہیں، اُن کی قدر کر رہے ہیں۔ ’’پھر اُن کی محنتوں کی قدر کیوں ہوتی ہے؟ ان کے دکھ اور تکالیف کی وجہ سے۔‘‘ کیونکہ وہ دکھ اٹھا رہے ہیں اس لیے ان کی قدر ہوتی ہے۔ ’’اُن کی محنت اور جانفشانی کے باعث‘‘ ان کی قدر ہوتی ہے جو آزادی حاصل کرنے کے لیے تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔

’’غرض ساری لذّت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(الم نشرح:7) اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح پر

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذّت نہیں آتی ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں۔‘‘

لذّت نہیں آتی تو پہلے دیکھیں، سوچیں کہ انہوں نے عبادت کے لیے کوئی تکلیف اٹھائی؟ ’’جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اٹھائے گا وہی تبدیل صورت کے بعد لذّت ہو جاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میری مراد ان دکھوں سے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے جا مشقتوں میں ڈالے اور مالا یطاق تکالیف اٹھانے کا دعویٰ کرے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ422 – 423 ایڈیشن 1984ء)بلکہ مراد یہ ہے کہ وقت پہ نمازوں کی طرف بھی ان کے جو پورے لوازمات ہیں اس کے ساتھ تیاری کر کے ادا کرنے کی کوشش کرے اور نیند کو بھی قربان کرے اور اپنے کاروباروں کو بھی قربان کرے اور وقت پہ نماز ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرے۔

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خود تو کسی قسم کی تکلیف اٹھاتے نہیں یا اٹھانا نہیں چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے دعا کروا کر ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان سے بعض دفعہ پوچھو تو یہ جواب ہوتا ہے کہ پانچ نمازیں بھی باقاعدگی سے نہیں پڑھتے۔ ایک دفعہ ایک بیٹے نے اپنے باپ کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کی غرض سے کہا اور یہ دعا کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کے دین کے لیے تھی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ سے تم دعا کرو۔ تم خود توجہ سے دعا کرو۔ باپ کی دعا جس طرح بیٹے کے لیے قبول ہوتی ہے اور بیٹے کی باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے۔ فرمایا اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں، آپؑ اُس شخص کو فرما رہے ہیں کہ اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہو گا۔(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ187-188 ایڈیشن 1984ء)خود دعا کرو گے تو پھر میری دعاؤں کا اثر ہوگا۔ نہیں تو کوئی نہیں ہو گی۔ پس دعائیں کروانے والے صرف دوسروں کی دعاؤں پر انحصار نہ کریں بلکہ خود بھی توجہ سے دعا کریں۔

عبادت میں لذّت کے حاصل کرنے کے طریق کے بارے میں

بیان فرماتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ جب انسان خداتعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خدا کی نظر میں مکروہ اور اس کے منشاء کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے۔‘‘ کیا تکالیف اٹھانی ہیں۔ پہلے آیا تھا ناں کہ تکلیف اٹھانی چاہیے۔ کس قسم کی تکلیفیں؟ جو مکروہ چیزیں ہیں، جو اللہ کی منشاء کے مخالف ہیں ان کو چھوڑو۔ ان کے چھوڑنے سے تکلیف بھی پہنچتی ہو تو چھوڑو۔ ’’تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہے یہاں تک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانۂ الوہیت پر بےاختیار ہو کر گر پڑتی ہے۔‘‘ اس طرح جب تکلیفیں اٹھاؤ گے، اللہ کی خاطر بعض چیزوں کو چھوڑو گے تو روح پر اس کا اثر ہو گا اور

جب روح پر اس کا اثر ہو گا تو نمازوں میں، سجدے میں، رکوع میں وہ روح اللہ تعالیٰ کے حضور گرے گی۔ ’’یہ طریق ہے عبادت میں لذّت حاصل کرنے کا۔‘‘

فرمایا ’’تم نے دیکھا ہو گا کہ بہت سے لوگ ہیں جواپنی عبادت میں لذّت کا یہ طریق سمجھتے ہیں کہ کچھ گیت گا لئے یا باجے بجا لئے اور یہی اس کی عبادت ہو گی۔‘‘ آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلے گئے تو سمجھتے ہیں یہی عبادت ہو گئی یا گیت سن لیے وہی عبادت ہو گئی۔ فرمایا ’’اس سے دھوکا مت کھاؤ۔ یہ باتیں نفس کی لذّت کا باعث ہوں تو ہوں مگر روح کے لئے ان میں لذّت کی کوئی چیز نہیں۔ ان سے روح میں فروتنی اور انکساری کے جوہر پیدا نہیں ہوتے اور عبادت کا اصل منشاء گم ہو جاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’طوائف کی محفلوں میں بھی ایک آدمی ایسا مزا حاصل کرتا ہے تو کیا وہ عبادت کی لذّت سمجھی جاتی ہے؟ یہ باریک بات ہے جس کو دوسری قومیں سمجھ ہی نہیں سکتی ہیں کیونکہ انہوں نے عبادت کی اصل غرض اور غائت کو سمجھا ہی نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ423-424 ایڈیشن 1984ء)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفا اور اپنے آپ کو تکالیف میں خداتعالیٰ کی خاطر ڈالنے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کی مثال

دیتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓى (النجم:38) ابراہیمؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خداتعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔ جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذّتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہرایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے وہ بت ہے اور اس قدر بت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں۔ پس جب تک خالص خداتعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اُس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓىکی آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خداتعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ دیکھو! ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیاری کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کر سکی۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خداتعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔

ہمارے ہاتھ میں جسم تو ہے روح نہیں ہے۔‘‘ فرمایا ’’ہمارے ہاتھ میں جسم تو ہے روح نہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا تعلق جسم سے ہے اور جسمانی امور کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے یہ کبھی خیال نہ کرنا چاہئے کہ جسم سے روح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جس قدر اعمال انسان سے ہوتے ہیں وہ اسی مرکب صورت سے ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی جسم اور روح دونوں کو ملانے سے۔ ’’الگ جسم یا اکیلی روح کوئی نیک یا بد عمل نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ جزا سزا میں بھی دونو کے متعلقات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ بعض لوگ اسی راز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا بہشت جسمانی ہے حالانکہ وہ اتنا نہیں جانتے جب اعمال کے صدور میں جسم ساتھ تھا تو جزا کے وقت الگ کیوں کیا جاوے؟ غرض یہ ہے کہ اسلام نے ان دونو طریقوں کو جو افراط اور تفریط کے ہیں چھوڑ کر اعتدال کی راہ بتائی ہے۔ یہ دونو خطرناک باتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ مجرد تعذیبِ جسم سے کچھ نہیں بنتا اور محض آرام طلبی سے بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ429-430 ایڈیشن 1984ء)مشکلات میں ڈالنے سے جسم کو بھی کچھ نہیں بنتا اور صرف آرام طلبی اگر کرو گے تو پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ روح اور جسم کو ملانا ضروری ہے۔

دعا کے زمانے میں بھی ابتلا آتے ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت موسیٰ کی قوم کی مثال دیتے ہوئے کہ کس طرح ان پر ابتلاآئے اور لمبے ہوئے۔ فرماتے ہیں کہ

’’ہر ایک کام کے لئے زمانہ ہوتا ہے اور سعید اس کا انتظار کرتے ہیں۔ جو انتظار نہیں کرتا اور چشمِ زدن میں چاہتا ہے کہ اس کا نتیجہ نکل آوے وہ جلد باز ہوتا ہے اور بامراد نہیں ہوسکتا۔

میرے نزدیک یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا ہے کہ

دعا کے زمانہ میں ابتلا کے طور پر اَور بھی ابتلا آ جاتے ہیں۔

جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آئے تو ان کو پہلے مصر میں فرعون نے یہ کام دیا ہوا تھا کہ وہ آدھا دن اینٹیں پاتھا کریں اور آدھا دن اپنا کام کیا کریں۔‘‘ آدھے دن کی ان کو چھٹی ہوتی تھی۔ آدھا دن فرعون کا کام کرنا تھا۔ ’’لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نجات دلانے کی کوشش کی تو پھر شریروں کی شرارت سے بنی اسرائیل کا کام بڑھا دیا گیا۔‘‘ سزا کے طور پر کیا ہوا ’’اور انہیں حکم ملاکہ آدھا دن تو تم اینٹیں پاتھاکرو اور آدھا دن گھاس لایا کرو۔‘‘ وہ فرعون کے کام ہی ہوں گے۔ اپنے لیے ان کے پاس کوئی وقت نہیں تھا۔ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب یہ حکم ملا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو سنایا تو وہ بڑے ناراض ہوئے‘‘ قوم ان کی ’’اور کہا کہ موسیٰ! خدا تم کو وہ دکھ دے جو ہم کو ملا ہے۔ اَور بھی انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بد دعائیں دیں مگر موسیٰ علیہ السلام نے ان کو یہی کہا کہ تم صبر کرو۔ تورات میں یہ سارا قصہ لکھا ہے کہ جوں جوں موسیٰ علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے وہ اَور بھی برافروختہ ہوتے تھے۔‘‘ اَور بھی غصہ میں آتے تھے۔ ’’آخر یہ ہوا کہ مصر سے بھاگ نکلنے کی تجویز کی گئی‘‘ وہاں سے ہجرت کرنے کی تجویز ہوئی ’’اور مصر والوں کے کپڑے اور برتن وغیرہ جو لئے تھے وہ ساتھ ہی لے آئے۔‘‘ جو کچھ انہیں ملا تھا وہ بھی ساتھ لے لیا۔ ’’جب حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو لے کر نکل آئے تو فرعون نے اپنے لشکر کو لے کر ان کا تعاقب کیا۔ بنی اسرائیل نے جب دیکھاکہ فرعونیوں کا لشکر ان کے قریب ہے تو وہ بڑے ہی مضطرب ہوئے۔ چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اس وقت وہ چلّائے اور کہا۔ اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ (الشعراء:62) اے موسیٰ! ہم تو پکڑے گئے ۔مگر موسیٰ علیہ السلام نے جو نبوت کی آنکھ سے انجام کو دیکھتے تھے۔انہیں یہی جواب دیا۔ كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ (الشعراء:63) ہر گز نہیں۔ میرا رب میرے ساتھ ہے۔

تورات میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا مصر میں ہمارے لئے قبریں نہ تھیں اور یہ اضطراب اس وجہ سے پیدا ہوا کہ پیچھے فرعون کا لشکر اور آگے دریائے نیل تھا۔‘‘ وہ کہہ رہے تھے اگر مصر میں ہم رہتے تو وہاں بھی تو مرنا تھا۔ وہاں بھی دفن ہو جاتے۔ یہ تو اب بڑی مشکل میں آ گئے کہ آگے دریا ہے اور پیچھے فوج ہے جو ہمیں ، ساروں کو قتل و غارت کرے گی۔ بڑے پریشان تھے۔ فرمایا کہ ’’وہ دیکھتے تھے کہ نہ پیچھے جا کر بچ سکتے ہیں اور نہ آگے جا کر۔ مگر اللہ تعالیٰ قادر مقتدر خدا ہے۔ دریائے نیل میں سے انہیں راستہ مل گیا اور سارے بنی اسرائیل آرام کے ساتھ پار ہو گئے مگر فرعونیوں کا لشکر غرق ہو گیا… یہ عظیم الشان معجزہ تھا جو ایسے وقت پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راہ پیدا کردی اور یہی متقی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر ضیق سے‘‘ ہر تنگی سے ’’اسے نجات اور راہ ملتی ہے۔ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا(الطلاق:3)۔ غرض

ایسا ہوتا ہے کہ دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔

ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سرّ یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔‘‘ گدازش پیدا ہونا، رقت پیدا ہونا اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہونا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرنا چاہتا ہے۔ ’’پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی۔ ‘‘فرمایا کہ ’’ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ433تا435 ایڈیشن 1984ء)

اگر اللہ تعالیٰ کے خلاف ایسی صورت پیدا ہو جائے تو پھر دہریت کی طرف قدم اٹھتے ہیں اور آج کل تمام تر توجہ مذہب اور خداتعالیٰ کے مخالفین کی جیساکہ میں نے کہا اس طرف ہے کہ یہ دلوں میں ڈالا جائے کہ خداتعالیٰ نے تمہیں کیا دیا۔ مذہب کا کیا فائدہ ہے۔ مذہب سست بناتا ہے۔ مذہب خیالی باتیں ذہنوں میں پیدا کرتا ہے۔ اور ایسے وقت میں

ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرے۔ وقتی اور ضرورت کے وقت تعلق نہ ہو اور عبادت نہ ہو صرف بلکہ سکون کے حالات میں، آسائش کے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو اور اپنی عبادتوں کی حفاظت ہو اور دعاؤں پر یقین ہو۔

پس یہی ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور یہی بیعت کا حق ادا کرنا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ خداتعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔‘‘ تہجد کے لیے اٹھنا تو بڑی بات ہے عام نمازوں کے لیے وضو کرنا بھی مشکل لگتا ہے۔ فرمایا ’’اگر اعمالِ صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو‘‘ نیکیوں میں بڑھنے کے لیے اگر تمہارے اندر جوش نہیں ہے ’’تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ439 ایڈیشن 1984ء)

پس بڑے فکر کے ساتھ ہمیں اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جب یہ حقیقی تعلق ہو گا تو دعاؤں کی قبولیت کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

ان دنوں میں خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کے لیے بہت دعا کریں۔

وہاں احمدیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح

الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں

وہاں بھی دوبارہ آج کل ان کو ابال آیا ہوا ہے۔ مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

اسی طرح دوسری جگہوں پہ بھی جہاں جہاں احمدیوں کو مشکلات ہیں

اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور ہر پریشانی سے بچائے اور دشمن کو خائب و خاسر کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button