مرا وجود اندھیروں میں قید رکھا گیاجہالتوں میں مرا ذہن صید رکھا گیا مرا بدن کبھی نیلام کر دیا جاتامجھے فروخت سرِعام کر دیا جاتا سلوک مجھ سے تھا بہتر نصیبِ بزغالہتو میرے دام سے اونچا تھا نرخِ گوسالہ تھی چار سو مری ذلّت کی یہ گھٹا چھائیکہ جیسے وادیٔ بطحا سے اِک ہوا آئی جو مجھ پہ گرد تھی تذلیل کی اُڑا ڈالیوہ جس کا والی خدا تھا، بنا مرا والی اُٹھا کے خاک سے حوّا کی بیٹیوں کا وجودعطا کیا انہیں جنت کی وادیوں کا کشود مرے نقوشِ قدم کو بنا دیا فردوسمرے وجود سے پیدا ہوئے ولی اور غوث عطا کیا تھا جو انسانیت میں عالی مقامسوال یہ تھا کہ حاصل ہو کیسے اُس کو دوام ہزار سال میں مد و جزر ہزار آئےاور امتحان مری رہ میں بے شمار آئے پھر اِک نشان خدا کے کرم کا بھیجا گیااور اِک مسیحا مرے درد و غم کا بھیجا گیا تو گم شدہ مرا منصب بحال اُس نے کیامقام کو بھی مرے لازوال اُس نے کیا خدا کے نور کا مصباح تھما دیا مجھ کوستارہ اوجِ فلک کا بنا دیا مجھ کو مری فلاح کی خاطر بنائی اِک لجنہکہ ہم ہمیشہ رہیں سر تا پا اماءاللہ اب اک صدی نہیں، صدیاں نصیب ہیں مجھ کوترقیات کی گلیاں نصیب ہیں مجھ کو ٭…٭…٭