سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

وکالت کا امتحان

(گذشتہ سے پیوستہ) بہرحال جوروایات ہمیں ملتی ہیں وہ بہت حدتک یہ راہنمائی کرتی ہیں کہ

الف: آپؑ نے یہ امتحان دینے کاارادہ فرمایاتھا۔

ب: آپؑ نے اس امتحان کے لیے تیاری بھی فرمائی۔

ج: لیکن آپؑ اس امتحان میں شامل ہی نہیں ہوئے۔

د: شایدآپؑ امتحان میں شامل ہوئے ہوں لیکن ایک طالب علم کی شرارت کی وجہ سے امتحان کالعدم قراردے دیا گیا۔اور نتیجہ منسو خ قراردے دیاگیا۔

ہ: اس منسوخی کی وجہ سے تمام شاملین امتحان فیل متصورہوئے۔یانتیجہ کالعدم رہا۔

و: اورجب یہی امتحان دوسری بار منعقدہواتواس میں بہرحال آپؑ نے شمولیت اختیارنہیں فرمائی۔

ضمناً یہ ذکربھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس امتحان میں جوشرارت ہوئی اور اس وجہ سے امتحان یااس کانتیجہ منسوخ ہوا۔ اس کی بھی کچھ مجمل سی کیفیت کامعلوم ہوتاہے کہ وہ طالبعلم جس کی شرارت تھی بعض روایات کی بنا پر اغلباً وہ رلیارام تھا۔وہی رلیارام جوسلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مقدمہ ڈاک کے حوالے سے معروف ہے۔اورشرارت یہ تھی کہ امتحان کے دوران یہ نقل لگاتاہواپکڑاگیا تھا اور جب تفتیش ہوئی تو ممتحن نے حضرت اقدسؑ سے پوچھاتوآپؑ نے حق وصداقت کے طورپر ساراواقعہ من وعن بیان فرمایا کہ رلیارام نے واقعی نقل لگائی تھی۔اور اس وجہ سے پاداش کے طور پر یہ امتحان بھی کالعدم قرار دیا گیا اوررلیارام کے کچھ عرصے کے لیے امتحان دینے پرپابندی لگادی گئی تھی۔سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر759میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے گوکہ اس روایت میں یہ معلوم ہوتاہے کہ راوی کونام کے بارے میں سہوہواہے اور وہ رلیارام کی بجائے نرائن سنگھ بتارہاہے۔یہ ایک تفصیلی روایت ہے جوکہ پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھراداس کی بیان کردہ ہے۔ یہ پنڈت صاحب دودوچک تحصیل شکرگڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔اور 1875ء میں نائب مدرس کے طورپرقادیان میں متعین تھے۔ یہ اپنی اس تفصیلی روایت میں ایک جگہ اسی واقعہ کاذکرکرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:’’ یہ حالات مرزاصاحب نے خوداپنی زبان سے سنائے تھے اوریہ بھی سنایاتھا کہ میں نے وکالت کے امتحان کی تیاری کی تھی اور بائیس امیدوار شامل امتحان ہوئے تھے۔نرائن سنگھ امیدوار جوکہ میراواقف تھا اس نے عین امتحان میں گڑبڑکی اور اس کاعلم ممتحن کوہوگیا۔ اوراس نے بائیس کے بائیس امیدوار فیل کردیئے …اسی نرائن سنگھ نے مرزاصاحب کاایک خط بندلفافہ میں جس میں دوکاغذ لکھے ہوئے تھے محکمہ ڈاک میں بھیج دیئے تھے کہ مرزاصاحب نے جرم کیاہے۔ چنانچہ سپرنٹنڈنٹ صاحب محکمہ ڈاکخانہ جات نے مقدمہ فوجداری مرزاصاحب پرچلاکر ضلع گورداسپور اسسٹنٹ صاحب کے پاس بھیج دیا…یہ واقعہ میری موجودگی کاہے۔ نرائن سنگھ نے یہ اس لئے کیاکہ جب امتحان وکالت میں ممتحن نے تمام لڑکوں کوفیل کردیا توتمام لڑکوں نے ممتحن سے کہا کہ یہ سب شرارت ناقل اورپوچھنے والے نرائن سنگھ کی ہے۔تمام لڑکوں کوکیوں فیل کیاگیاہے۔چنانچہ نرائن سنگھ کانام شرارت کنندہ درج کیاگیا۔ اس لئے نرائن سنگھ کو مرزاصاحب سے پرخاش تھی۔جس کی وجہ سے اس نے یہ مقدمہ مرزاصاحب کے خلاف دائر کروایاتھا۔ نرائن سنگھ اس وقت امرتسرمیں تھا۔‘‘ (سیرت المہدی،جلداول حصہ سوم،روایت نمبر759صفحہ689-690) یہ روایت ضمناً یہاں درج کی گئی ہے کہ ایک امرِزائد کی معلومات اس سے مل سکتی ہیں۔ البتہ یہ ساری روایت پڑھنے سے احساس ہوتاہے کہ پنڈت صاحب کی روایت میں ناموں کے بیان میں اور بعض واقعات کے بیان میں خلط ملط ہواہے۔ اور اتنے لمبے عرصہ بعد اس طرح کے واقعات کے بیان میں باتوں اورناموں کاخلاملا کوئی غیرمعمولی نہیں ہواکرتا۔1875ء میں جوشخص نائب مدرس تھا وہ 1935ء میں ان باتوں کوبیان کررہاہے کہ جوباتیں اس کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔لیکن یہ ساری روایت بہت سی تاریخی باتوں کی مزیدتائید کے لیے بہت اہم اور دلچسپ روایت ہے۔

آپؑ کا انگریزی پڑھنا

“اس زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے۔(اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے ) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں استاد مقرر ہوئے۔مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔” (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓنے حیات احمد جلد اول کے صفحات 275تا288 یہ بحث اٹھائی ہے جس میں یہ ثابت کیاہے کہ حضرت اقدسؑ کو انگریزی نہیں آتی تھی۔خاکساریہاں صرف حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ؓکی رائے درج کرکےجوآپؓ نے میرحسن کی روایت پر دی ہےاس مضمون کوختم کرتاہے۔آپؓ لکھتے ہیں:’’خاکسارعرض کرتا ہے کہ اوّل مولوی میر حسن صاحب موصوف نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سیالکوٹ میں ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھی تھیں اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ انگریزی خواں تھے۔ ایک یادو کتابیں پڑھنے کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ آپ کو حروف شناسی ہو گئی تھی کیونکہ پہلے زمانہ میں جو انگریزی کی پہلی کتاب ہوتی تھی۔ اس میں صرف انگریزی کے حروف تہجی کی شناخت کروائی جاتی تھی۔اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر بعض چھوٹے چھوٹے آسان الفاظ کی شناخت کروائی جاتی تھی۔اور آج کل بھی انگریزی کی ابتدائی ایک دو کتابوں میں قریباً اسی قدر استعداد مدنظر رکھی جاتی ہے۔خاکسار کو یاد ہے کہ جب میں غالباً ساتویں جماعت میں تھا تو ایک دفعہ میں گھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور میرے پاس ایک انگریزی طرز کا قلمدان تھا جس میں تین قسم کی سیاہی رکھی جاسکتی ہے۔اس میں Red.Copying.Blue کے الفاظ لکھے ہو تے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ میں یہ قلم دان دیکھا تو اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ پڑھنے چاہے۔مگر مجھے یاد ہے کہ پہلا اور تیسرا تو آپ نے غور کے بعد پڑھ لیا مگر درمیان کے لفظ کے متعلق پڑھنے کی کوشش کی مگر نہیں پڑھ سکے۔چنانچہ پھر آپ نے مجھ سے وہ لفظ پوچھا اور اس کے معنے بھی دریافت فرمائے۔ غرض معلوم ہو تا ہے کہ چھوٹے مفرد اور آسان الفاظ آپ غور کرنے سے پڑھ سکتے تھے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو انگریزی حروف شنا سی ہوگئی بس اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)لیکن ان روایات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ گویاحضرت اقدسؑ انگریزی جانتے تھے کیونکہ حضرت اقدسؑ کی بعدکی زندگی میں ہم آپؑ کی ہی تحریرات سے یہ جانتے ہیں کہ آپؑ انگریزی نہیں جانتے تھے۔بلکہ آپؑ کو ہونے والے انگریزی الہامات سے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ کسی انگریزی جاننے والے سے پوچھ لیاکرتے تھے کہ اس کے معنی کیاہیں۔چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں ذکرفرمایاہے کہ انگریزی الفاظ وغیرہ کی سمجھ آپؑ کونہیں تھی سوائے اس کے کہ جوسن لیااس کواسی طرح اس کی صوتی آوازکے مطابق لکھ لیا۔

مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے ایک بار کچھ ایساہی سوال آپؑ سے کیاتھا۔ کیونکہ بعض جاہل اورتنگ نظرمولوی جوکہ انگریزی لکھنے پڑھنے کوبھی کفرسمجھتے تھے ان کایہ کہنا تھا کہ مرزاصاحب کوانگریزی زبان میں الہام ہوتاہے۔جبکہ انگریزی لکھنا،پڑھنا بولنا یہ سب کفرکی علامتیں ہیں۔ تواس پر بٹالوی صاحب نے آپؑ کے الہامات کادفاع کرتے ہوئے یہ بھی لکھاتھا کہ مرزاصاحب تو انگریزی زبان سے ناواقف اور امّیٔ محض ہیں۔ اس لیے آپؑ کواس زبان میں الہام ہونا آپ کی سچائی کی دلیل توہے ہی بلکہ ہستی باری تعالیٰ کی بھی دلیل ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :“دوسرا فائدہ و سرّ الہام انگریزی زبان کا یہ ہے کہ اس وقت مؤلف کے مخاطب اور اسلام کے منکر و مخالف (عیسائی آریہ و برہمو وغیرہ) اکثر انگریزی خوان ہیں۔ ان کا افہام یا افحام (ساکت کرنا) جیسا کہ الہامات انگریزی سے ممکن ہے عربی یا فارسی وغیرہ الہامات سے ممکن نہیں۔ عربی وغیرہ مشرقی زبانوں کے الہامات کو (وہ ان کے مضامین میں آنکھ بند کر کے) یقینا ًمؤلف کا ایجاد طبع سمجھتے۔ اب (جبکہ وہ انگریزی الہامات پڑھتے اور مؤلف کا انگریزی زبان سے محض اُمّی و اجنبی ہونا سنتے ہیں) وہ ان الہامات مؤلف کو تعجب کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بے اختیار ان کو خرق عادت و برخلاف عام قانون قدرت (جن کو وہ غلطی سے قدرت خداوندی کا پیمانہ سمجھ رہے تھے) ماننے لگے ہیں۔

ماہ صیام میں جبکہ میں سملہ پر تھا ایک بابو صاحب برہم سماج کے لکچرار و پریسٹ (جو میرے ہمسایہ تھے) مجھ سے قانون قدرت (جس کو لوگوں نے قانون سمجھ رکھا ہے اور درحقیقت وہ خدا کی قدر ت کا قانون نہیں ہے (دیکھو اشاعۃ السنۃ نمبر 8 جلد 4 میں مضمون ’’النیچر‘‘) کے تغیر و تبدل میں ہم کلام ہوئے۔ جب میں نے یہ ثابت کر دیا اور اُن سے تسلیم کرا لیا کہ خدا کی قدرت انہی حالات و واقعات میں (جو ہم دیکھ رہے ہیں) محصور و محدود نہیں ہے بلکہ وہ اِس سے فوق الفوق اور وراءالوراء وسعت رکھتی ہے اور ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ ان اسباب و موجودات سے وہ کام لے جو اس وقت تک ان سے نہیں لئے گئے یا ہم نے نہیں دیکھے تو وہ صاحب بولے کہ یہ امر ممکن تو ہے اور بہ نظر قدرت وسیع وغیرہ محدود خداوندی ہم اِس امکان کو مانتے ہیں پر ہم اِس کی فعلیت (وقوع) کو کیونکر مان لیں جب تک اس کا مشاہدہ نہ کر لیں۔ اس پر میں نے مؤلف براہین احمدیہ کے الہامات انگریزی زبان کو پیش کیا اور یہ کہا کہ ایک شخص کا انگریزی زبان سے امّی و اجنبی محض ہو کر ( جس کو ہم روز مرہ کے مشاہدے و تجربے سے بخوبی جانتے ہیں اور دوسرے کو ثابت و معلوم کرا سکتے ہیں) بلا تعلیم و تعلم اِس زبان میں ایسی باتیں بیان کرنا (جن کا بیان انسانی طاقت سے خارج ہو) تمہاری تجویز قانون قدرت کے مخالف نہیں تو کیا ہے؟ یہ سُن کر بابو صاحب موصوف نے سکوت کیا اور یہ فرمایا کہ ایسے شخص کو میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے یہ بھی سنا کہ انہوں نے ایک خط بھی متضمن اظہار اشتیاق ملاقات مؤلف براہین احمدیہ کے نام لکھا اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اگر وہ اپنے ارادے و وعدے کو پورا کریں گے اور مؤلف کے زا د بوم کے ساکنین ہندو مسلمانوں کی متواتر شہادت سے ان کا انگریزی زبان سے محض ناواقف ہونا ثابت کر لیں گے تو وہ اِس امر کا خرق عادت اور کرامت ہونا مان لیں گے۔ اور وہ جب الہامات یا مؤلف کی کسی اور پیشن گوئی کا خود تجربہ و مشاہدہ کر لیں گے تو قبول و اظہار اسلام سے بھی دریغ نہ کریں گے۔‘‘(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button